بڑا مبارک ہوتا ہے وہ دن، جب کوئی نیا خانساماں گھر میں آئے اوراس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلا جائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بار آتے ہیں اور تلخی کام و دہن کی آزمائش کر کے گزر جاتے ہیں، اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعر، صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے:
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بد ذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے۔ لیکن ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں کہ پیشہ ور خانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سوبرس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کر سکے۔ ایک دن ہم نے اپنے دوست مرزا عبد الودود بیگ سے شکایتاً کہا کہ اب وہ خانساماں جو ستر قسم کے پلاؤ پکا سکتے تھے، من حیث الجماعت رفتہ رفتہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ جواب میں انھوں نے بالکل الٹی بات کہی۔
کہنے لگے "خانساماں وانساماں غائب نہیں ہو رہے، بلکہ غائب ہو رہا ہے، وہ ستر قسم کے پلاؤ کھانے والا طبقہ جو بٹلر اور خانساماں رکھتا تھا اور اڑد کی دال بھی ڈنر جیکٹ پہن کر کھاتا تھا۔ اب اس وضعدار طبقے کے افراد باورچی نوکر رکھنے کے بجائے نکاح ثانی کر لیتے ہیں۔ اس لیے کہ گیا گزرا باورچی بھی روٹی کپڑا اور تنخواہ مانگتا ہے۔ جبکہ منکوحہ فقط روٹی کپڑے پرہی راضی ہو جاتی ہے۔ بلکہ اکثر و بیشتر کھانے اور پکانے کے برتن بھی ساتھ لاتی ہے۔”
مرزا اکثر کہتے ہیں کہ خود کام کرنا بہت آسان ہے مگر دوسروں سے کام لینا نہایت دشوار۔ بالکل اسی طرح جیسے خود مرنے کے لیے کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن دوسروں کو مرنے پر آمادہ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ معمولی سپاہی اور جرنیل میں یہی فرق ہے۔ اب اسے ہماری سخت گیری کہیے یا نا اہلی یا کچھ اور کوئی خانساماں ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ٹکتا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہنڈیا اگر شبراتی نے چڑھائی تو بگھار رمضانی نے دیا اور دال بلاقی خاں نے بانٹی۔ ممکن ہے مذکور الصدر حضرات اپنی صفائی میں یہ کہیں کہ:
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں!
لہٰذا ہم تفصیلات سے احتراز کریں گے۔ حالانکہ دل ضرور چاہتا ہے کہ ذرا تفصیل کے ساتھ من جملہ دیگر مشکلات کے اس سراسیمگی کو بیان کریں جو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ہم سے از روئے حساب یہ دریافت کرنے کو کہا جائے کہ اگر نوکر کی ۱۳ دن کی تنخواہ ۳۰روپے اور کھانا ہے تو ۹ گھنٹے کی تنخواہ بغیر کھانے کے کیا ہو گی؟ ایسے نازک مواقع پر ہم نے سوال کو آسان کرنے کی نیت سے اکثر یہ معقول تجویز پیش کی کہ اس کو پہلے کھانا کھلا دیا جائے۔ لیکن اول تو وہ اس پرکسی طرح رضا مند نہیں ہوتا۔ دوم کھانا تیار ہونے میں ابھی پورا سوا گھنٹہ باقی ہے اوراس سے آپ کو اصولاً اتفاق ہو گا کہ ۹ گھنٹے کی اجرت کاحساب سوا دس گھنٹے کے مقابلے میں پھر بھی آسان ہے۔
ہم داد کے خواہاں ہیں نہ انصاف کے طالب۔ کچھ تو اس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جن سے خستگی کو داد پانے کی توقع ہے وہ ہم سے زیادہ خستہ تیغ ستم نکلیں۔ اور کچھ اس ڈرسے کہ:
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
مقصد سر دست ان خانساماؤں کا تعارف کرانا ہے جن کی دامے درمے خدمت کرنے کا شرف ہمیں حاصل ہو چکا ہے۔ اگر ہمارے لہجے میں کہیں تلخی کی جھلک آئے تو اسی تلخی کام و دہن پر محمول کرتے ہوئے، خانساماؤں کو معاف فرمائیں۔
خانساماں سے عہد وفا استوار کرنے اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنانے کا ڈھنگ کوئی مرزا عبد الودود بیگ سے سیکھے۔ یوں تو ان کی صورت ہی ایسی ہے کہ ہرکس و ناکس کا بے اختیار نصیحت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن ایک دن ہم نے دیکھا کہ ان کا دیرینہ باورچی بھی ان سے ابے تبے کر کے باتیں کر رہا ہے۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی، کیوں کہ شرفا میں انداز گفتگو محض مخلص دوستوں کی ساتھ روا ہے۔ جہلا سے ہمیشہ سنجیدہ گفتگو کی جاتی ہے۔ ہم نے مرزا کی توجہ اس امر کی طرف دلائی تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے جان بوجھ کر اس کو اتنا منہ زور اور بدتمیز کر دیا ہے کہ اب میرے گھر کے سوا اس کی کہیں اور گزر نہیں ہو سکتی۔
کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے "عوضی مالک” پیش کرنا پڑے گا۔
کافی رد و کد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کاسوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے "صاحب! ان کی بات چھوڑئیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں! ” ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔
ہم نے گھبرا کر پوچھا "پھر کیا کرو گے؟ ”
"یہ تو آپ بتائیے۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔”
جب سب باتیں حسب منشاء ضرورت (ضرورت ہماری، منشا ان کی) طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا سلف لانے کے لیے فی الحال کوئی علیٰحدہ نوکر نہیں ہے۔ اس لیے کچھ دن تمھیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کر لو۔
فرمایا "جناب! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔ ”
"پھر بھی؟ ”
کہنے لگے "پچھتر روپے ماہوار ہو گی۔ لیکن اگر سودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہو گی! ”
ان کے بعد ایک ڈھنگ کاخانساماں آیا مگر بے حد دماغ دار معلوم ہوتا تھا۔ ہم نے اس کا پانی اتارنے کی غرض سے پوچھا "مغلئی اور انگریزی کھانے آتے ہیں؟ ”
"ہرقسم کا کھانا پکا سکتا ہوں۔ حضور کا کس علاقے سے تعلق تھا؟ ”
ہم نے صحیح صحیح بتا دیا۔ جھوم ہی تو گئے۔ کہنے لگے "میں بھی ایک سال ادھر کاٹ چکا ہوں۔ وہاں کے باجرے کی کھچڑی کی تو دور دور دھوم ہے۔”
مزید جرح کی ہم میں تاب نہ تھی۔ لہٰذا انھوں نے اپنے آپ کو ہمارے ہاں ملازم رکھ لیا۔ دوسرے دن پڈنگ بناتے ہوئے انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ میں نے بارہ سال انگریزوں کی جوتیاں سیدھی کی ہیں، اس لیے بیٹھ کر چولہا نہیں جھونکوں گا۔ مجبوراً کھڑے ہو کر پکانے کا چولہا بنوایا۔
ان کے بعد جو خانساماں آیا، اس نے کہا کہ میں چپاتیاں بیٹھ کر پکاؤں گا۔ مگر برادے کی انگیٹھی پر۔ چنانچہ لوہے کی انگیٹھی بنوائی۔ تیسرے کے لیے چکنی مٹی کا چولھا بنوانا پڑا۔ چوتھے کے مطالبے پر مٹی کے تیل سے جلنے والا چولھا خریدا۔ اور پانچواں خانساماں اتنے سارے چولھے دیکھ کر ہی بھاگ گیا۔
اس ظالم کا نام یاد نہیں آ رہا۔ البتہ صورت اور خد و خال اب تک یاد ہیں۔ ابتدائے ملازمت سے ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتا، بلکہ پابندی سے ملباری ہوٹل میں اکڑوں بیٹھ کر دو پیسے کی چٹ پٹی دال اور ایک آنے کی تنوری روٹی کھاتا ہے۔ آخر ایک دن ہم سے نہ رہا گیا اور ہم نے ذرا سختی سے ٹوکا کہ "گھر کا کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ ”
تنک کر بولا "صاحب! ہاتھ بیچا ہے، زبان نہیں بیچی! ”
ان نے نہایت مختصر مگر غیر مبہم الفاظ میں یہ واضح کر دیا کہ اگر اسے اپنے ہاتھ کا پکا کھانا کھانے پر مجبور کیا گیا تو وہ فوراً استعفیٰ دے دے گا۔ اس کے رویے سے ہمیں بھی شبہ ہونے لگا کہ وہ واقعی خراب کھانا پکاتا ہے۔ نیز ہم اس منطقی نتیجے پر پہنچے کہ دوزخ میں گنہگار عورتوں کو ان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے۔ اسی طرح ریڈیو والوں کو فرشتے آتشیں گرز مار مار ان ہی کے نشر کیے ہوئے پروگراموں کے ریکارڈ سنائیں گے۔
ہم کھانے کے شوقین ہیں، خوشامد کے بھوکے نہیں (گو کہ اس سے انکار نہیں کہ اپنی تعریف سن کر ہم کو اپنا بنیان تنگ معلوم ہونے لگتا ہے)۔ ہم نے کبھی یہ توقع نہیں کی کہ باورچی کھانا پکانے کے بجائے ہمارے گن گاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے اپنے مرحوم اور سابق آقاؤں کا کلمہ پڑھتا رہے۔ جب کہ اس توصیف کا اصل مقصد ہمیں جلانا اور خوبیوں کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہیں۔ اکثر اوقات بے تحاشا جی چاہتا ہے کہ کاش ہم بھی مرحوم ہوتے تاکہ ہمارا ذکر بھی اتنے ہی پیار سے ہوتا۔ بعض نہایت قابل خانساماؤں کو محض اس دور اندیشی کی بنا پر علیٰحدہ کرنا پڑا کہ آئندہ وہ کسی اور کا نمک کھا کر ہمارے حق میں پروپیگنڈہ کرتے رہیں۔ جو شخص بھی آتا ہے یہی دعوی کرتا ہے کہ اس کے سابق آقا نے اسے سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا تھا (یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہو گا کہ اصولی طور پر ہم خود بھی ہمیشہ دوسروں پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن ریزگاری ضرور گن لیتے ہیں)۔ ایک خانساماں نے ہمیں مطلع کیا کہ اس کا پچھلا "صاب” اس قدر شریف آدمی تھا کہ ٹھیک سے گالی تک نہیں دے سکتا تھا۔
ہم نے جل کر کہا "پھر تم نے نوکری کیوں چھوڑی؟ ”
تڑپ کر بولے "کون کہتا ہے کہ خدا بخش نے نوکری چھوڑی؟ قصہ در اصل یہ ہے کہ میری پانچ مہینے کی تنخواہ چڑھ گئی تھی۔ اور اب آپ سے کیا پردہ؟ سچ تو یہ کہ ان کے گھر کا خرچ بھی میں ردی اخبار اور بیئر کی خالی بوتلیں بیچ کر چلا رہا تھا۔ انھوں نے کبھی حساب نہیں مانگا۔ پھر انھوں نے ایک دن میری صورت دیکھ کر کہا کہ خدا بخش! تم بہت تھک گئے ہو۔ دو دن کی چھٹی کرو اور اپنی صحت بناؤ۔ دو دن بعد جب میں صحت بنا کر لوٹا تو گھر خالی پایا۔ پڑوسیوں نے بتایا کہ تمھارا صاب تو پرسوں ہی سارا سامان باندھ کر کہیں اور چلا گیا۔ "یہ قصہ سنانے کے بعد اس نمک حلال نے ہم سے پیشگی تنخواہ مانگی تاکہ اپنے سابق آقا کے مکان کا کرایہ ادا کر سکے۔
گزشتہ سال ہمارے حال پر رحم کھا کر ایک کرم فرما نے ایک تجربہ کار خانساماں بھیجا۔ جو ہر علاقے کے کھانے پکانا جانتا تھا۔ ہم نے "بھئی اور تو سب ٹھیک ہے مگر تم سات مہینے میں دس ملازمتیں چھوڑ چکے ہو۔ یہ کیا بات ہے؟ ”
کہنے لگے "صاب! آج کل وفا دار مالک کہاں ملتا ہے؟ ”
اس ستم ایجاد کی بدولت بر صغیر کے ہر خطے بلکہ ہر تحصیل کے کھانے کی خوبیاں اس ہیچمداں پنبہ دہاں کے دسترخوان پرسمٹ کر آ گئیں۔ مثلاً دوپہر کے کھانے پر دیکھا کہ شوربے میں مسلم کیری ہچکولے لے رہی ہے اورسالن اس قدر ترش ہے کہ آنکھیں بند ہو جائیں اور اگر بند ہوں تو پٹ سے کھل جائیں۔ پوچھا تو انھوں نے آگاہی بخشی کہ دکن میں رؤسا کھٹا سالن کھاتے ہیں۔ اور ہم یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ اللہ جانے بقیہ لوگ کیا کھاتے ہوں گے۔
اسی دن شام کو ہم نے گھبرا کر پوچھا کہ دال میں پرانے جوتوں کی بو کیوں آ رہی ہے؟
جواب میں انھوں نے ایک دھواں دھار تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ مارواڑی سیٹھوں کے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا راز ہینگ میں مضمر ہے۔
اور دوسرے دن جب ہم نے دریافت کیا کہ بندہ خدا یہ چپاتی ہے یادسترخوان؟
تو ہنس کر بولے کہ وطن مالوف میں روٹی کے حدود اربعہ یہی ہوتے ہیں۔
آخر کئی فاقوں کے بعد ایک دن ہم نے بہ نظر حوصلہ افزائی کہا:
"آج تم نے چاولوں کا اچار بہت اچھا بنایا ہے۔”
دہکتے ہوئے توے سے بیڑی سلگاتے ہوئے بولے "بندہ پروری ہے! کاٹھیاواڑی پلاؤ میں قورمے کے مسالے پڑتے ہیں! ”
"خوب! مگر یہ قورمے کا مزہ تو نہیں! ”
"وہاں قورمے میں اچار کا مسالہ ڈالتے ہیں! ”
پھر ایک دن شام کے کھانے پر مرزا نے ناک سکیڑ کر کہا "میاں! کیا کھیر میں کھٹملوں کا بگھار دیا ہے؟ ”
سفید دیوار پر کوئلے سے سودے کا حساب لکھتے ہوئے حقارت سے بولے "آپ کو معلوم نہیں؟ شاہان اودھ لگی ہوئی فیرنی کھاتے تھے؟ ”
"مگر تم نے دیکھا کیا انجام ہوا اودھ کی سلطنت کا؟ ”
مختصر یہ کہ ڈیڑھ مہینے تک وہ صبح و شام ہمارے نا پخت ذوق و ذائقہ کو سنوارتا اور مشروبات و ماکولات سے وسیع المشربی کا درس دیتا رہا۔ آخر آخر میں مرزا کو شبہ ہو چلا تھا کہ وہ غیر ملکی ایجنٹ ہے جو سالن کے ذریعے صوبائی غلط فہمیاں پھیلا رہا ہے۔
اگر آپ کو کوئی کھانا مرغوب ہے جو چھڑائے نہیں چھوٹتا تو تازہ داردان بساط مطبخ اس مشکل کو فوراً آسان کر دیں گے۔ اشیائے خوردنی اور انسان معدے کے ساتھ بھرپور تجربے کرنے کی جو آزادی باورچیوں کو حاصل ہے وہ نت نئی کیمیاوی ایجادات کی ضامن ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں بھنڈی بہت پسند ہے لیکن دس گھنٹے قبل یہ منکشف ہوا کہ اس نبات تازہ کو ایک خاص درجہ حرارت پر پانی کی مقر رہ مقدار میں (جس کا علم صرف ہمارے خانساماں کو ہے) میٹھی آنچ پر پکایا جائے تو اس مرکب سے دفتروں میں لفافے اور بد لگام افسروں کے منہ ہمیشہ کے لیے بند کیے جا سکتے ہیں۔
انہی حضرت نے گزشتہ جمعرات کو سارا گھر سر پر اٹھا رکھا تھا۔ ہم نے بچی کو بھیجا کہ اس سے کہو کہ مہمان بیٹھے ہیں۔ اس وقت سل کھوٹنے کی ضرورت نہیں۔ اس نے کہلا بھیجا کہ ہم ان ہی مہمانوں کی تواضع کے لیے سل پر کبابوں کا قیمہ پیس رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے کباب منہ میں رکھا تو محسوس ہوا گویا چٹ پٹا ریگ مال کھا رہے ہیں اور ہمیں رہ رہ کر میر صاحب پر رشک آنے لگا کہ وہ مصنوعی بتیسی لگائے بے خبر بیٹھے کھا رہے تھے اور ہماری طرح کرکرا محسوس کر کے لال پیلے نہیں ہوئے۔ صبح تک سب کو پیچش ہو گئی۔ صرف ہمیں نہیں ہوئی۔ اور ہمیں اس لیے نہیں ہوئی ہم پہلے ہی اس میں مبتلا تھے۔
یہ بات نہیں کہ خدا نخواستہ ہم بیماری اور موت سے ڈرتے ہیں۔ ہم تو پرانی چال کے آدمی ہیں۔ اس لیے نئی زندگی سے زیادہ خوف کھاتے ہیں۔ موت بر حق ہے اور ایک نہ ایک دن ضرور آئے گی۔ بات صرف اتنی ہے کہ بلانے کے لیے ہم اپنی نیک کمائی میں سے پچاس ساٹھ روپے ماہوار خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں کسی مرض ناشناس حکیم کے ہاتھوں مرنے پربھی چنداں اعتراض نہ ہو گا۔ لیکن ہم کسی صورت خانساماں کو بالاقساط روح قبض کرنے کا اختیار نہیں دینے چاہتے کہ یہ صرف حکیم ڈاکٹروں کا حق ہے۔
بیماری کا ذکر چل نکلا تو اس قوی ہیکل خانساماں کا قصہ بھی سن لیجئے جس کو ہم سب آغا کہا کرتے تھے (آغا اس لیے کہا کرتے تھے کہ وہ سچ مچ آغا تھے)۔ ان کا خیال آتے ہی معدے میں مہتابیاں سی جل اٹھتی ہیں۔ تا دم وداع ان کے کھانا پکانے، اور کھلانے کا انداز وہی رہا جو ملازمت سے پہلے ہینگ بیچنے کا ہوتا تھا۔ یعنی ڈرا دھمکا کر اس کی خوبیاں منوا لیتے تھے۔ بالعموم صبح ناشتے کے بعد سو کر اٹھتے تھے۔ کچھ دن ہم نے صبح تڑکے جگانے کی کوشش کی لیکن جب انھوں نے نیند کی آڑ میں ہاتھا پائی کرنے کی کوشش کی تو ہم نے بھی ان کی اصلاح کا خیال ترک کر دیا۔ اس سے قطع نظر، وہ کافی تابعدار تھے۔ تابعدار سے ہماری مراد یہ ہے کہ کبھی وہ پوچھتے کہ ’چائے لاؤں؟ ، اور ہم تکلفاً کہتے کہ ’جی چاہے تولے آؤ ورنہ نہیں۔‘ تو کبھی واقعی لے آتے اور کبھی نہیں بھی لاتے تھے۔ جس دن سے انھوں نے باورچی خانہ سنبھالا گھر میں حکیم ڈاکٹروں کی ریل پیل ہونے لگی۔ یوں بھی ان کا پکایا ہوا کھانا دیکھ کر سر (اپنا) پیٹنے کو جی چاہتا تھا۔ "اپنا” اس لیے کہ حالانکہ ہم سب ہی ان کے کھانوں سے عاجز تھے، لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کو کیوں کر پرامن طریق سے رخصت کیا جائے۔ ان کو نوکر رکھنا ایسے ہی ثابت ہوا جیسے کہ شیر ببر پر سوار ہو تو جائے لیکن اترنے کی ہمت نہ رکھتا ہو۔
ایک دن ہم اسی ادھیڑ بن میں لیٹے ہوئے گرم پانی کی بوتل سے پیٹ سینک رہے تھے اور دوا پی پی کر ان کو کوس رہے تھے کہ سر جھکائے آئے اور خلاف معمول ہاتھ جوڑ کر بولے "خو! صاب! تم روز روز بیمار اوتا اے۔ اس سے امارہ قبیلہ میں بڑا رسوائی، خو، خانہ خراب اوتا اے "(صاحب! تم بار بار بیمار ہوتے ہو۔ اس سے ہمارے قبیلے میں ہماری رسوائی ہوتی ہے اور ہمارا خانہ خراب ہوتا ہے) اس کے بعد انھوں نے کہا سنا معاف کرایا، اور بغیر تنخواہ لیے چل دیئے۔
ایسی ہی ایک اور دعوت کا ذکر ہے جس میں چند احباب اور افسران بالا دست مدعو تھے۔ نئے خانساماں نے جو قورمہ پکایا، اس میں شوربے کا یہ عالم تھا کہ ناک پکڑ کے غوطے لگائیں تو شاید کوئی بوٹی ہاتھ آ جائے۔ اکا دکا کہیں نظر آ بھی جاتی تو کچھ اس طرح کہ:
صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں
اور بسا غنیمت تھا کیوں کہ مہمان کے منہ میں پہنچنے کے بعد، غالب کے الفاظ میں، یہ کیفیت تھی کہ:
کھینچتا ہے جس قدر اتنی ہی کھنچتی جائے ہے!
دوران ضیافت احباب نے بکمال سنجیدگی مشورہ دیا کہ "ریفریجریٹر خرید لو۔ روز روز کی جھک جھک سے نجات مل جائے گی۔ بس ایک دن لذیذ کھانا پکوا لو۔ اور ہفتے بھر ٹھاٹ سے کھاؤ اور کھلاؤ۔”
قسطوں پر ریفریجریٹر خریدنے کے بعد ہمیں واقعی بڑا فرق محسوس ہوا۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ پہلے جو بد مزہ کھانا صرف ایک ہی وقت کھاتے تھے، اب اسے ہفتے بھر کھانا پڑتا ہے۔
ہم نے اس عذاب مسلسل کی شکایت کی تو وہی احباب تلقین فرمانے لگے کہ
"جب خرچ کیا ہے صبر بھی کر، اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے۔”
کل پھر مرزا سے اپنی گوناگوں مشکلات کا ذکر کیا تو کہنے لگے:
"یہ الجھنیں آپ نے اپنے چٹور پن سے خواہ مخواہ پیدا کر رکھی ہیں۔ ورنہ سادہ غذا اور اعلیٰ خیالات سے یہ مسئلہ کبھی کا خود بخود حل ہو گیا ہوتا۔ یہی آئین قدرت ہے اور یہی آزاد تہذیب کی اساس بھی! آپ نے مولوی اسماعیل میرٹھی کا وہ پاکیزہ شعر نہیں پڑھا؟
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
عرض کیا "مجھے کسی کے آزاد رہنے پر، خواہ وہ شاعر ہی کیوں نہ ہو، کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اس شعر پر مجھے عرصہ سے یہ اعتراض ہے کہ اس میں آزادی سے زیادہ خشک روٹی کی تعریف کی گئی ہے۔ ممکن ہے عمدہ غذا اعلیٰ تہذیب کو جنم نہ دے سکے، لیکن اعلیٰ تہذیب کبھی خراب غذا برداشت نہیں کر سکتی”
فرمایا "برداشت کی ایک ہی رہی! خراب کھانا کھا کر بد مزہ نہ ہونا، یہی شرافت کی دلیل ہے۔”
گزارش کی "مردانگی تو یہ کہ آدمی عرصہ تک عمدہ غذا کھائے اور شرافت کے جامے سے باہر نہ ہو! ”
مشتعل ہو گئے "بجا! لیکن یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آدمی اٹھتے بیٹھتے کھانے کا ذکر کرتا رہے۔ برا نہ مانئے گا۔ آپ کے بعض مضامین کسی بگڑے ہوئے شاہی رکابدار کی خاندانی بیاض معلوم ہوتے ہیں۔ جبھی تو کم پڑھی لکھی عورتیں بڑے شوق سے پڑھتی ہیں۔”
ہم نے ٹوکا "آپ بھول رہے ہیں کہ فرانس میں کھانا کھانے اور پکانے کا شمار فنون لطیفہ میں ہوتا ہے۔”
وہ بگڑ گئے "مگر آپ نے اس جنون لطیفہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ اگر آپ واقعی اپنی بے قصور قوم کی اصلاح کے درپے ہیں تو کوئی کام کی بات کیجئے اور ترقی کی راہیں سجھائیے۔”
مزہ لینے کی خاطر چھیڑا "ایک دفعہ قوم کو اچھا پہننے اور کھانے کا چسکا لگ تو ترقی کی راہیں خود بخود سوجھ جائیں گی۔ گاندھی جی کا قول ہے کہ جس دیس میں لاکھوں آدمیوں کو دو وقت کا کھانا نصیب نہ ہوتا ہو، وہاں بھگوان کی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ ان داتا کے سوا کسی اور روپ میں سامنے آ سکے۔ بھوکے کے لیے بھوجن ہی بھگوان کا اوتار ہے اور۰۰۰۰۰۰”
قطع کلامی کی معافی مانگے بغیر بولے "مگر وہ تو بکری کا دودھ اور کھجور کھاتے تھے۔ اور آپ فن غذا شناسی کو فلسفہ خدا شناسی سمجھ بیٹھے ہیں۔ خود آپ کے محبوب یونانی فلسفی جو بھرپور زندگی کے قائل تھے، دماغ سے محسوس کرتے اور دل سے سوچتے تھے۔ مگر آپ تو معدے سے سوچتے ہیں۔ اور دیکھا جائے تو آپ آج بھی وہی مشورہ دے رہے ہیں جو ملکہ میری انطونیت نے دیا تھا۔ ایک درباری نے جب اس کے گوش گزار کیا کہ روٹی نہ ملنے کے سبب ہزاروں انسان پیرس کی گلیوں میں دم توڑ رہے ہیں تواس نے حیرت سے پوچھا کہ یہ احمق کیک کیوں نہیں کھاتے؟”
ایک تبصرہ شائع کریں