۔
جس طرح ٹین ایج میں ایسے کئی لمحات آتے ہیں جب ہمیں لگتا ہے کہ یہ دنیا ہمارے گرد بنائی گئی ہے۔ اربوں کھربوں سال نرگس اپنی بے نوری پر ہمارے جیسے دیدہ ور کے لیے روتی رہی ہے، اور بس ہم آ گئے ہیں تو دنیا میں سب ٹھیک ہونے جا رہا ہے۔ ہم ٹھیک کریں گے بھئی، اور کیا ۔ ۔
بالکل اسی طرح انسان جیسے ہی چالیس پچاس کے پیٹے میں پڑتا ہے، کبھی نہ کبھی ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب اپنی ہستی بیکار لگتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم یونہی بس دنیا میں آئے تھے، اور "بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں" کی تصویر بنے جا رہے ہیں۔
شائد کچھ خوش باش ہستیوں پر یہ وقت نہ آتا ہو، مگر دست عطا نے جس جس کو سوچنے کی ہمت (یا سزا) دی ہے، وہ لازمی اس سے دوچار ہوتا ہے۔ صرف شعراء میں ہی نابغوں پر غور کیجیے تو جون ایلیا یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ میں ضائع ہوا، مجھے ضائع ہی ہونا تھا ۔ عام آدمی کی نظر سے دیکھیے تو جون ایلیا اپنے عہد کے شعرا میں نمایاں ترین ہیں۔
ناصر کاظمی اپنے انداز میں کہتے نظر آتے ہیں ؎ کس کس بات کو رووں ناصر ۔ ۔ اپنا لہنا ہی اتنا تھا ۔ ۔ ۔
اور صدیوں سے زندہ غالب افسوس کرتے نظر آتے ہیں کہ ؎ ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔
میرے خیال میں خؤد سے ملاقات کا یہ لمحہ، جب ہمیں اپنی ہستی کے بے قدروقیمت ہونے کا احساس ہوتا ہے، بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اس لمحے انسان اپنی خاکستر سے پھر سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنی حیثیت کو دوبارہ سے جانتا ہے۔ اپنے مقام کا تعین دنیا کے حساب سے نہیں دنیا بنانے والے کے پلان کے حساب سے کرتا ہے۔
یاد رکھیے ! جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم بس ضائع ہو گئے، تب ہماری ایک زندگی مکمل ہو چکی ہوتی ہے۔ جب ہمیں لگتا ہے ہم اس دنیا میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب ہم زندگی کا مقصد جاننے کے قریب تر ہو جاتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں