نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ ہر سال بڑے مذہبی جوش خروش سےتقریبا تمام مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان اور ہندوستان میں منائی جاتی ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ یہ تہوار عوام و خواص میں خاصی مقبولیت کا حامل بن چکا ہے لہذا اب سکولوں میں اس دن عام تعطیل کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور یا پھر سکول کے بچوں کو یھ تہوار منانے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ ہم بھی اپنے سکول کے دور میں اس موقع پر ہونے والے نعتیہ مقابلوں میں بڑے زور و شور سے حصہ لیتے، یہ نعتیں عموما ایسی شاعری پر مشتمل ہوتیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا اور اکثر انہیں مخاطب بھی کیا جاتا ۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے سوچ کا محور صرف جنت میں ملنے والی آسائشیں ہوتیں جو اس تہوارکو منانے والے کے لئے دنیا میں ہی گارنٹی کر دی جاتی تھیں کہ ہمارے بڑے بزرگ یا استاد سبھی یہ کہتے تھے۔ اسوقت یہ احساس یا دینی شعور نا تھا کہ اس تہوار کی ضرورت، اسکا پس منظر یا اسکی شرعی حیثیت جاننے کی کوشش کرتے لہذا کبھی یہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نا ہوئی کہ درحقیقت اس تہوار کے حوالے سے ہم ایک اسے عمل کا حصہ بن رہے ہیں جسے بڑی شد و مد سے اسلام میں منع کیا گیا ہے یعنی دین میں کوئی نئی بات یا عقیدہ وعمل ایجاد کرنا۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں عوام و خواص دین کی سمجھ بوجھ اور ذاتی تحقیق سے دور ہوئے اس خودساختہ تہوار اور اسکی رنگ رلیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آج ۱۲ ربی الاول کے دن تمام شہروں اور قصبوں میں ایک جشن کا سماں ہوتا ہے، گلی محلوں اور دکانوں کو بڑے اہتمام سے سجاایا جاتا ہے، نئے نئے پکوان پکتے ہیں اور بچوں کو نئے کپڑے دلائے جاتے ہیں، لوگ حلوہ یا پلاؤ اپنےعزیزو اقارب دوست احباب یا غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں اور محلے کے مولوی کی تو موج ہوتی ہی ہے۔ پھر میڈیا نے بھی اس نئی عید کی مقبولیت کو عام کرنے اور اسے ایک دینی تہوار کی شکل دینے میں بڑا کردار ادا کیا کہ انکا تو کام ہی ہر مقبول یا قابل فروخت چیز کوعام کرنا ہےغلط یا صحیح کی فکر میں پڑنا نہیں۔ اور اب ملک بھر میں حال یہ ہے کہ اس تیسری ایجاد کردہ عید نے اللہ کی دو اصلی عیدوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دین میں ثواب یا اور زیادہ ثواب کی نیت سے کوئی بھی نیا عقیدہ یا عبادت کا طریقہ و تہوار ایجاد کرنے کو اسلام میں بدعت کہا گیا ہے۔ اللہ تعالی سورة مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے پھر جو کوئی بھوک سے بیتاب ہو جائے لیکن گناہ پر مائل نہ ہو تو الله معاف کرنے والا مہربان ہے۔ سورة المائدہ ۳
پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنےآخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے پیغام یعنی دین اسلام کو بہترین انداز میں مکمل کردیا اور اسی لئے ایک بہترین انداز میں تکمیل شدہ دین میں ایجاد کی جانے والی ہر نئی باتوں کو بدعت کہا گیا۔ اس حوالے سے ہمیں بہت سی صحیح احادیث مل جاتی ہیں جن میں بدعات سے دور رہنے کا حکم دیا گیا اور بتایا گیا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
جابربن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور بےشک بہترین کلام اللہ تعالى کی کتاب ہے اورسب سے عمدہ طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اورسب سے بدترین کام وہ ہیں جن کودین میں ایجاد کیا جائے اوردین میں ہرنوایجادچیزبدعت ہے ۔صحیح مسلم
حضرت انس بن مالک رضی اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ حوض کوثر پر اتریں گے یہاں تک کہ میں ان کو پہچان لوں گا وہ میرے سامنے سے کھینچ کر مجھ سے دور لے جائے جائیں گے تو میں کہونگا کہ اے اللہ یہ میری امت کے لوگ ہیں تب اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا ایجاد کر لیا۔ صحیح بخاری
سو معلوم ہوا کہ نا صرف ہر بدعت گمراہی ہے بلکہ یہ بھی کہ بدعتی کو قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بھی محروم کر دیا جائے گا یعنی یہ ایک ناقابل معافی گناہ ہے چاہے اسے کرنے والا اپنے آپکو اسلام کا کتنا ہی بڑا پیروکار کیوں نا سمجھتا ہو۔
عید میلاد بھی ایسی ہی ایک بدعت ہے جسے ایک دینی تہوار اور باعث ثواب عمل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ میلاد منانے والوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ان میلاد محفلوں میں تشریف لاتی ہے، نعوذ باللہ۔ اسی طرح کی بہت سی خرافات اس تہوار اور اس جیسی دیگر بدعات سے وابستہ کردی جاتی ہیں جیسا کہ اس تہوار پر پکایا جانے والا کھانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ قران میں سورة البقرہ آیت ۱۷۳، سورة المائدہ آیت ۳، سورة الانعام آیت ۱۴۵ اور سورة النحل آیت ۱۱۵ میں اللہ فرماتا ہے کہ تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت حرام کیا ہے اوروہ چیز بھی جو الله کے سوا کسی اور کے نام سے منسوب کی گئی ہو ۔ اسی لئے میلاد کا پکوان کھانا بھی ایک مسلم کے لئے حرام ہوگا۔
اس حوالے سے مناسب ہوگا اگر میلاد منانے کے حق میں کچھ توجیہات بھی پیش کی جاتی ہیں انکا ذکر بھی یہاں کردیا جائے۔
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر پیر کے دن روزہ نہیں رکھتے تھے کے اس دن انکی پیدائش ہوئی؟
کیا قران کی تلاوت یا حمد و نعت پڑھنا اسلام میں منع ہیں؟
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا تذکرہ یا اس موضوع پر تقریریں کرنا اور سننا اسلام میں منع ہے؟
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پیش کرنا اسلام میں منع ہے؟
کیا غرباء میں مفت کھانا تقسیم کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں؟
یقیننآ اسلام ایسے تمام کاموں کی اجازت اسلام دیتا ہےلیکن اس تہوار جس پر یہ سب کیا جاتا ہے اسکی اجازت اسلام میں نہیں۔ یہ تہوار نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے اور اسی طرح اگر اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو علم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام جو صفحہ ہستی پر قران و حدیث کے بہترین ماننے والے تھے ان میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کو کسی خاص انداز یا کسی دینی تہوار یا عید کے طور پر نہیں منایا۔ بلکہ ہمیں پتہ یہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےقریبا ٤۰۰ سال بعد یعنی گیارہویں صدی ہجری میں مصر میں فاطمی دور کے شیعہ خلفاء نے جشن ولادت نامی اس بدعتی تہوار کو ایجاد کیا جسے بعد میں اسلام میں تیسری خود ساختہ عید کا درجہ مل گیا۔
اور ویسے بھی دینی نقطۂ نظرسے انبیاء اور خداؤں کی سالگرہ منانا تو ہمیشہ سے ہی ایک غیراسلامی عمل رہا ہے، تبھی تو عیسائی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے اور انکی زندگی کے دوران کرسمس مناتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے صحابہ کو کرسمس یا اسی حوالے سے اپنی پیدائش کا دن منانے کا حکم نہیں دیا۔ حالانکہ اسی دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ۱۰ محرم یعنی عاشورہ کےدن (جس دن اللہ نے موسیٰ علیہ سلام کی قوم یعنی بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی اور یہودی اس دن کو بطور تہوار منایا کرتےتھے) مسلمانوں کو بطور شکرانہ روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ لیکن ایسا کوئی حکم ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ہی نہیں ملتا بلکہ سب سے زیادہ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایک قابل اعتبار روایت یا شہادت موجود نہیں ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کی تصدیق ہو سکے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ سالگرہ کا دن منانے کا تصور اسلام میں سرے سے موجود ہی نہیں۔
اب چونکہ ہم اپنے آپکو مسلمان کہتے ہیں ہمیں ایسی تمام بدعات سے اپنے آپکو الگ رکھنا چاہیئے تاکہ ہم اسلام پر ویسے ہی عمل کریں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور انکے صحابہ ہے عمل سے ثابت ہے۔ ہمیں ہر ایسے دینی تہوار یا تقریب کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے بلکہ دیگر لوگوں یعنی اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب میں بھی اس بات کا شعور پیدا کرنے کی کوشش کرنے چاہیئے۔ یاد رکھیں کہ بدعات اگر حد سے بڑھ جائیں تو شرکیہ عقائد و اعمال بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں لہذا ایک مسلم ان سے جتنا دور رہے اتنا ہی اچھا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی قران میں ارشاد فرماتا ہے
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرً
اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے دوزح میں ڈال دینگے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ سورة النسا ۱۱۵
لہذا ہمارے تمام تردینی دعوؤں کے باوجود یہ بات ہمیں مدنظر رکھنی چاہیئے کہ ایسے کسی بھی بدعتی عمل کا حصہ بننے کا مطلب درحقیقت اس بات کا اقرار کرلینا ہے کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اتنے اہم اسلامی تہوار کا ذکر کرنا بھول گئے یا شاید صحابہ کرام کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت میں کمی رہ گئی جو انہوں نے ایسا کوئی کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی یا انکی وفات کے بعد نہیں کیا اور اب امت کے وہ لوگ جو صدیوں بعد آئے وہ اس کارخیر کو انجام دے کر نا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اصلی حق ادا کر رہے ہیں بلکہ اسلام کی تکمیل بھی انہی کے ذریعے ہو رہی ہے۔ سو ایسے عمل کا حصہ بننا اللہ کے دین کا مزاق اڑانے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور وہ دین جسکے بارے میں اللہ نے خود فرما دیا کے میں نے اسکی تکمیل بہترین انداز میں کردی ہے۔ یعنی ایک ایسا دین جسے اللہ نے پرفیکٹ یا بے نقص بنا دیا کیا ہم اسے اور بہتر کرنے کا دعوی کر سکتے ہیں؟
السلام علیکم۔
ایک تبصرہ شائع کریں