منّو بھنڈاری، پدکائش: ۳ اپریل، ۱۹۳۱، بھان پورہ، مدھہل پردیش۔ مد ان: کہانی، ناول۔ کچھ اہم تخلقاھت: مںّ ہار گئی، ییت سچ ہے، ایک پلٹخ سلاھب (کہانی مجموعہ)۔ آپ کا بنٹی، مہابھوج، ایک انچ مسکراہٹ، مالک (ناول)۔ کچھ کہانوھں پر فلمں۔ بھی بنںے۔ کئی ایوارڈ سے نوازا گاد۔
*********************
ساڑھے چھ بجے ہں ۔ کچھ دیر پہلے جو دھوپ چاروں جانب پھیخ پڑی تھی، اب پھیزا پڑتی ہوئی عمارتوں کی چھتوں پر سمٹ آئی ہے، گویا پہمش ختم ہوتے اپنے وجود کو بچائے رکھنے کلئےا اس نے مضبوطی سے منڈیروں کو پکڑ لاو ہو۔
آگ برساتی ہوئی ہوا، دھوپ اور پسنےو کی بدبو سے بہت بوجھل ہو گئی ہے۔ پانچ بجے تک جتنے بھی لوگ دفتروں کی بڑی بڑی عمارتوں مںت مقدس تھے۔ اس وقت برساتی نالے کی طرح سڑکوں پر پھل گئے ہںں۔ ریگل کے سامنے والی فٹ پاتھ پر چلنے والوں اور ہاکرز کا ملا جلا شور چاروں جانب گونج رہا ہے۔ گجرے بچنےے والوں کے پاس سے گزرنے پر خوشبو بھری تراوٹ کا احساس ہوتا ہے، اسی لےا نہ خریدنے پر بھی لوگوں کو ان کے پاس کھڑا ہونا یا ان کے پاس سے گزرنا اچھا لگتا ہے۔
ٹی ہاؤس بھرا ہوا ہے۔ اس کا اپنا ہی شور کافی ہے، پھر باہر کا سارا شور شرابہ بغری کسی رکاوٹ کے کھلے دروازوں سے اندر آ رہا ہے۔ چھتوں پر پوری اسپڈا مںف گھومتے پنکھے بھی جسےب آگ برسا رہے ہںا۔ ایک لمحے کو آنکھ موند لںب تو آپ کو پتہ ہی نہں لگے گا کہ آپ ٹی ہاؤس مںن ہںر یا فٹ پاتھ پر۔ وہی گرمی، وہی شور۔
گلاپرڈ بھی بھرا ہوا ہے۔ مرد، ایئر کنڈیشنڈ چمبر زسے تھک کر اور عورتںر اپنے اپنے گھروں سے اکتا کر اپنا دل بہلانے کلئےڈ یہاں آ بٹھےر ہںؤ۔ یہاں نہ گرمی ہے، نہ نا قابلِ برداشت شور۔ چاروں جانب ہلکی، نرم، دودھا روشنی پھلں رہی ہے اور مختلف پرفوںمز کی خوشبوئںگ کاک ٹل ہوا مںِ تررا رہی ہںو۔ ٹبلویں پر سے اٹھتی ہوئی سرسراتی سی آوازیں موسیور مںز ہی ڈوب جاتی ہںک۔ گہرا مکو اپ کئے ڈائس پر جو لڑکی گا رہی ہے، اس نے اپنی اسکرٹ بلٹئ خوب مضبوطی سے باندھ رکھی ہے، جس سے اس کی پتلی کمر اور بھی پتلی دکھائی دے رہی ہے اور اس کے مقابلے مںی چھاتوضں کا ابھار کچھ اور نمایاں ہو اٹھا ہے۔ ایک ہاتھ سے اس نے مائکا کا ڈنڈا پکڑ رکھا ہے اور جوتے کی ٹو سے وہ تال دے رہی ہے۔ اس کے ہونٹوں سے لپ اسٹک بھی لپٹی ہے اور مسکراہٹ بھی۔ گانے کے ساتھ ساتھ اس کا سارا جسم ایک خاص ادا کے ساتھ جھوم رہا ہے۔
قریب ہی دونوں ہاتھوں سے جھنجھناسا بجاتا جو شخص پورے جسم کو لچکا لچکا کر تال دے رہا ہے، وہ نگررو ہے۔ بچِ بچا مںت جب وہ اس کی طرف دیکھتی ہے تو آنکھں ملتے ہی دونوں ایسے ہنس پڑتے ہںک گویا دونوں کے بچس کہں ’’کچھ‘‘ ہے۔ لکنت کچھ دن پہلے جب ایک اینگلو انڈین اس کے ساتھ بجاتا تھا، تب بھی یہ ایسے ہی ہنستی تھی، تب بھی اس کی آنکھںب ایسے چمکتی تھںت۔ اس کی ہنسی اور اس کی آنکھوں کی چمک کا اس کے دل کے ساتھ کوئی تعلق نہںت ہے۔ وہ الگ ہی چلتی ہںے۔
ڈائس کی برابر والی ٹبل پر نوجوان لڑکا لڑکی بٹھے ہں ۔ دونوں کے سامنے پائن ایپل جوس کے گلاس رکھے ہںے۔ لڑکی کا گلاس آدھے سے زیادہ خالی ہو گا ہے، پر نوجوان نے شاید ایک دو گھونٹ ہی لئے ہںک۔ وہ صرف اسٹرا ہلا رہا ہے۔
لڑکی دبلی اور گوری ہے۔ اس کے بال کٹے ہوئے ہںا۔ سامنے آ جانے پر سر کو جھٹک دے کر وہ انہں پچھے کر دییو ہے۔ اس کی کلف لگی ساڑی کا پلو اتنا چھوٹا ہے کہ کندھے سے مشکل سے چھ انچ نچےے تک آ پایا ہے۔ چولی نما بلاؤز سے ڈھکی اس کی پوری کی پوری پٹھ دکھائی دے رہی ہے۔
’’تم کل باہر گئی تھںا؟‘‘ نوجوان بہت ہی نرم لہجے مں پوچھتا ہے۔
’’کو ں؟‘‘ بائںں ہاتھ کی لمبی لمبی پتلی انگلواں سے تال دیتے دیتے ہی وہ پوچھتی ہے۔
’’مں نے فون کاھ تھا۔‘‘
’’اچھا؟ پر کس لئے؟ آج ملنے کی بات تو طے ہو ہی گئی تھی۔‘‘
’’یوں ہی تم سے بات کرنے کا دل چاہا۔‘‘ نوجوان کو شاید امدر تھی کہ اس کی بات لڑکی چہرے پر کوئی خوشگوار رد عمل ظاہر کرے گی۔ پر وہ ہلکے سے ہنس دی۔ نوجوان جواب کے انتظار مں اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا، پر لڑکی کی توجہ شاید آس پاس کے لوگوں مںن الجھ گئی تھی۔ اس پر نوجوان اداس ہو گاس۔ وہ لڑکی کے منہ سے سننا چاہ رہا تھا کہ وہ کل وِپن کے ساتھ اسکوٹر پر گھوم رہی تھی۔ اس بات کے جواب مںک وہ کا کا کرے گا۔ یہ سب بھی اس نے سوچ لاک تھا اور کل شام سے لے کر ابھی لڑکی کے آنے سے پہلے تک اس کو کئی بار دہرا بھی لاے تھا۔ پر لڑکی کی خاموشی سے سب گڑبڑا گار۔ وہ اب شاید سمجھ ہی نہںہ پا رہا تھا کہ بات کسےر شروع کرے۔
’’اے گورا!‘‘ بالکنی کی جانب دیکھتے ہوئے لڑکی کے منہ سے نکلا۔
’’یہ ساری کی ساری بالکنی کس نے ریزرو کروا لی؟‘‘ بالکنی کی ریلنگ پر ایک چھوٹی سی پلاسٹک کی سفدل تختی لگی تھی، جس پر سرخ لکھاوٹ مںس لکھا تھا، ’’ریزروڈ‘‘
نوجوان نے سر جھکا کر ایک گھونٹ لال، ’’مں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اس کی آواز کچھ بھاری ہو گئی تھی، جسےن گلا بٹھا گا۔ ہو۔ لڑکی نے گھونٹ لے کر اپنی آنکھںی نوجوان کے چہرے پر ٹکا دیں۔ وہ ہلکے ہلکے مسکرا رہی تھی اور نوجوان کو اس کی مسکراہٹ سے تھوڑی تکلفگ ہو رہی تھی۔
’’دیکھو، مںہ اس سارے معاملے مںو بہت سنجدیہ ہوں۔‘‘ جھجکتی آواز مںی وہ بولا۔
’’سنجدیہ؟‘‘ لڑکی کھلکھلا پڑی تو اس کے بال آگے کو جھول آئے۔ سر جھٹک کر اس نے انہںت پچھے کاا۔
’’مںج تو کسی بھی چزل کو سنجد گی سے لنےس مںں اعتبار ہی نہںب کرتی۔ یہ دن تو ہنسنے کھلنےے کے ہں ، ہر چزم کو ہلکے پھلکے اندازسے لنےے کے۔ سنجدیگی تو بڑھاپے کی نشانی ہے۔ بوڑھے لوگ مچھروں اور موسم کو بھی بہت سنجدیگی سے لتے ہںد اور مںو ابھی بوڑھا ہونا نہںا چاہتی۔‘‘
اور اس نے اپنے دونوں کندھوں زور سے اچکا دیئے۔ وہ پھر گانا سننے مںہ لگ گئی۔ نوجوان کا من ہوا کہ وہ اس کی ملاقاتوں اور پرانے خطوں کا حوالہ دے کر اس سے کئی ایک باتںم پوچھے، پر آواز اس کے گلے مںہ ہی اٹک کر رہ گئی اور وہ خالی خالی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کی نظر ’’ریزروڈ‘‘ کی اسی تختی پر جا ٹکی۔ اچانک اسے لگنے لگا، جسےا وہ تختی وہاں سے اٹھ کر ان کے درماےن آ گئی ہے اور پلاسٹک کے لال حروف نوےن لائٹ کے حروف کی طرح جگمگانے لگے۔
تبھی گانا بند ہو گا اور سارے ہال مں تالواں کی آوازیں گونج اٹھںی۔ گانا بند ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کی آوازیں دھییج ہو گئں ، لکنے ہال کے بچولں بچر، ایک چھوٹی ٹبلا کے سامنے بٹھےر ایک بھاری بھرکم کھدر دھاری شخص کی رواں تقریر آواز کی اسی سطح پر جاری رہی۔ سامنے پتلون اور بش شرٹ پہنے ایک دبلا پتلا شخص ان کی باتوں کو بڑے دھارن سے سن رہا ہے۔ ان کے بولنے سے تھوڑا تھوڑا تھوک اچھل رہا ہے جسے سامنے والا شخص ایسے پونچھتا ہے کہ انہںے معلوم نہ ہو۔ پر ان کے پاس شاید ان چھوٹی موٹی باتوں پر توجہ دینے لائق وقت ہی نہںخ ہے۔ وہ موڈ مں آئے ہوئے ہںو۔
’’گاندھی جی کی پکار پر کون شخص اپنے کو روک سکتا تھا بھلا؟ کاص دن تھے وہ بھی! مںی نے بزنس کی تو کی اییک کی تی ک اور دیش سو ا کے کام مںپ لگ گاا۔ پھر تو ساری زندگی پولیٹیکل سفرر کی طرح ہی گزار دی!‘‘
سامنے والا شخص چہرے پر تکریم کے تاثرات لانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔
’’دیش آزاد ہوا تو لگا کہ اصل کام تو اب کرنا ہے۔ سب لوگ پچھےر پڑے کہ مںس کھڑا ہو جاؤں، منسٹری پکی ہے، پر نہںن صاحب، یہ کام اب اپنے بس کا نہں رہا۔ جل کی زندگی نے جسم کو بری طرح سے تھکا دیا، پھر یہ بھی لگا کہ تعمرِ نو مں’ ناح خون ہی آنا چاہئے، سو بہت پچھےو پڑے تو بٹوےں کو جھونک دیا اس چکر مںر۔ انہں، سمجھایا، زندگی بھر کی ہماری قربانی اور محنت کا پھل ہے یہ آزادی، تم لوگ اب اس لاج رکھو، بزنس ہم سنبھالتے ہںو۔‘‘
نوجوان الفاظ مںی عقد ت بھرتا ہوا سا بولا، ’’آپ کی ملک سے محبت کو کون نہں جانتا؟‘‘
وہ طمانتل بھری ایک ڈکار لتےا ہں اور جبک سے رومال نکال کر اپنا منہ اور مونچھوں کو صاف کرتے ہںھ۔ رومال واپس جبن مںپ رکھتے ہںا اور پہلو بدل کر دوسری جب سے چاندی کی ڈبا نکال کر پہلے خود پان کھاتے ہںر، پھر سامنے والے شخص کی طرف بڑھا دیتے ہں ۔
’’جی نہںر، مں پان نہںو کھاتا۔‘‘ تشکر کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر بے چیکا کے تاثرات ابھر جاتے ہںل۔
’’ایک ییف لت ہے جو چھوٹتی نہںل۔‘‘ پان کی ڈباھ کو واپس جب مںا رکھتے ہوئے وہ کہتے ہںت، ’’انگلستان گاک تو ہر ہفتے ہوائی جہاز سے پانوں کی گڈی آتی تھی۔‘‘
جب من کی بے چی ک صرف چہرے سے نہں سنبھلتی تو وہ آہستہ آہستہ ہاتھ رگڑنے لگتا ہے۔
پان منہ مںف ایک طرف دھکلچ کر وہ تھوڑا ساہکلاتے ہوئے کہتے ہںو، ’’اب آج کی ہی مثال لو۔ ہماری کلاس کا ایک بھی شخص شمار کرا دو جو اپنے یہاں کے ملازم کی شکایت اس طرح سنتا ہو؟ پر جسے ہی تمہارا کسک مر ے سامنے آیا، مںا نے تمہںا بلایا، یہاں بلایا۔‘‘
’’جی۔‘‘ اس کے چہرے پر تشکر کا احساس اور زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی بات شروع کرنے کلئے الفاظ ڈھونڈنے لگتا ہے۔ اس نے بہت تفصلچ سے بات کرنے کی منصوبہ بندی بنائی تھی، پر اب ساری بات کا خلاصہ کہہ دینا چاہتا ہے۔
’’سنا ہے، آپ کچھ لکھتے لکھاتے بھی ہیں؟‘‘ اچانک ہال مںب پھر سنگتی گونج اٹھتا ہے۔ وہ اپنی آواز کو تھوڑا سا بلند کرتے ہں ۔ نوجوان کا متجسس چہرہ تھوڑا اور آگے کو جھک آتا ہے۔
’’تم چاہو تو ہماری اس ملاقات پر ایک مضمون لکھ سکتے ہو۔ مر ا مطلب۔۔۔ لوگوں کو اییا باتوں سے نصحت اور سبق حاصل کرنا چاہئے۔ یینن۔۔۔‘‘
پان شاید انہںی جملہ پورا نہںت کرنے کی اجازت دیتا۔ تبھی درماونی ٹبلو پر ’’آئی، اوئی‘‘ کا شور ہوتا ہے اور سب کا دھا ن غرن ارادی طور پر ادھر چلا جاتا ہے۔ بہت دیر سے ہی وہ ٹبلت لوگوں کی توجہ غرو ارادی طور پر کھنچن رہی تھی۔ کسی کے ہاتھ سے کافی کا کپ گر پڑا ہے۔ ویٹر جھاڑن لے کر دوڑ پڑا اور اسسٹنٹ منجرب بھی آ گات۔ دو لڑکابں کھڑی ہو کر اپنے کرتوں کو رومال سے صاف رہی ہں ۔ باقی لڑکا ں ہنس رہی ہںی۔ سبھی لڑکوآں نے چوڑی دار پاجامے اور ڈھلےپ ڈھلےا سے کرتے پہن رکھے ہںے۔ صرف ایک لڑکی ساڑی مںن ہے اور اس نے اونچا سا جوڑا باندھ رکھا ہے۔ بات چتے اور ناز و انداز سے سب ’’مرینڈینس‘‘ لگ رہی ہںن۔ مزہ صاف ہوتے ہی کھڑی لڑکا ں بٹھا جاتی ہںھ اور ان کی باتوں کا منقطع سلسلہ چل پڑتا ہے۔
’’پاپا کو اس بار ہارٹ اٹکس ہوا ہے، سو چھٹوےں مںس کہںی باہر تو جا نہںن سکںا گے۔ ہم نے تو ساری چھٹا ں یںئی بور ہونا ہے۔ مںا اور ممی ہفتے مں ایک پکچر تو دیکھتے ہی ہں ، اٹس اے مسٹ فار اَز۔ چھٹوہں مں تو ہم نے دو دیکھنی ہںر۔‘‘
’’ہماری کِٹی نے بڑے سویٹ پپزا دیئے ہںت۔ ڈیڈی اس بار اسے ’’مِٹ ‘‘ کروانے ممبئی لے گئے تھے۔ کسی پِنرس کا السیشین تھا۔ ممی بہت بگڑی تھںا۔ انہںے تو دنای مںو سب کچھ ویسٹ کرنا ہی لگتا ہے۔ پر ڈیڈی نے مرےی بات رکھ لی اینڈ اٹ پڈم اَز آلویز۔ رئیںڈ پپز بہت سویٹ ہںھ۔‘‘
’’اس بار ممی نے، پتا ہے، کا کہا ہے؟ چھوا۔ں مںز کچن کا کام سکھور۔ مجھے تو بابا، کچن کے نام سے ہی الرجی ہے! مںن تو اس وقت موراوِیا پڑھوں گی۔ ہندی والی مس نے ہندی ناولز کی ایک لسٹ پکڑائی ہے۔ پتہ نہںا، ہندی کے ناولز تو پڑھے ہی نہںب جاتے!‘‘
وہ زور سے کندھے اچکا دییا ہے۔ تبھی باہر کا دروازہ کھلتا ہے اور چست درست جسم اور رعب دار چہرہ لےی ایک شخص اندر آتا ہے۔ اندر کا دروازہ کھلتا ہے، تب وہ باہر کا دروازہ بند ہو چکا ہوتا ہے، اس لئے باہر کا شور اور گرم ہوا کا بھبکا بھی اندر نہںا آ پاتا۔
سڑبھواں کے پاس والے کونے کی چھوٹی سی ٹبلک پر دیوار سے پٹھٹ لگائے ایک عورت بڑی دیر سے بیھیت ہے۔ ڈھلتی عمر کے اثرات کو بھرپور مکن اپ سے دبا رکھا ہے۔ اس کے سامنے کافی کا کپ رکھا ہے اور وہ بغرپ کسی مطلب کے تھوڑی تھوڑی دیر کلئے تمام ٹبلواں کی طرف دیکھ لیون ہے۔ آنے والے شخص کو دیکھ کر اس کے بز اری بھرے چہرے پر ہلکی سی چمک آ جاتی ہے اور وہ اس شخص کو اپنی جانب متوجہ ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ خالی جگہ دیکھنے کلئے وہ شخص آس پاس نظریں دوڑا رہا ہے۔ عورت کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں مںک شناسائی کا تاثر ابھرتا ہے اور عورت کے ہاتھ ہلاتے ہی وہ ادھر ہی بڑھ جاتا ہے۔
’’ہلوھ! آج بہت دنوں بعد دکھائی دیں مسز راوت!‘‘ پھر کرسی پر بٹھنے سے پہلے پوچھتا ہے، ’’آپ یہاں کسی کلئے ویٹ تو نہں کر رہی ہںھ؟‘‘
’’نہںھ جی، گھر مںھ بٹھے بٹھے یا پڑھتے پڑھتے جب طبعتت بز ار ہوتی ہے تو یہاں آ بیھتھے ہوں۔ دو کپ کافی کے بہانے گھنٹا ڈیڑھ گھنٹا مزے سے کٹ جاتا ہے۔ کوئی جان پہچان کا فرصت مں مل جائے تو لمبی ڈرائوٹ پر لے جاتی ہوں۔ آپ نے تو کسی کو ٹائم نہںر دے رکھا ہے نا؟ َ‘‘
’’نو۔۔۔ نو۔۔۔ باہر ایی شدید گرمی ہے کہ بس۔ بالکل آگ برس رہی ہے۔ سوچا، یہاں بٹھ کر ایک کولڈ کافی ہی پی لی جائے۔‘‘ بیٹھتے ہوئے اس نے کہا۔ جواب سے کچھ پرسکون ہو کر مسز راوت نے برکے کو کولڈ کافی کا آرڈر دے دیا۔
’’اور بتائے۔، مسز آہوجا کب لوٹنے والی ہںا؟ سال بھر تو ہو گاا نا انہںک؟ َ‘‘
’’گاڈ نوز۔‘‘ وہ کندھے اچکا دیتا ہے اور پھر پائپ سلگانے لگتا ہے۔ ایک کش کھنچا کر اقساط مں دھواں اڑاتے پوچھتا ہے، ’’چھٹوےں مںد اس بار آپ نے کہاں جانے کا پروگرام بنایا ہے؟‘‘
’’جہاں بھی موڈ آ جائے چل دیں گے۔ بس اتنا طے ہے کہ دہلی مں۔ نہںک رہںں گے۔ گرموںں مںچ تو یہاں رہنا نا ممکن ہے۔ ابھی جب یہاں سے نکل کر گاڑی مںا بںھر گے، اس وقت تک جسم جھلس جائے گا۔ سڑکںر تو جسےا بھٹی ہو رہی ہیں۔‘‘
گانے کا سُر ڈائس سے اٹھ کر پھر سارے ہال مںگ تراتا گار، ’’آین سنڈے، آئی ایم ہیپی۔۔۔‘‘
’’نان سینس! مر ا تو سنڈے ہی سب سے بور دن ہوتا ہے!‘‘
تبھی موسییی کی سریی لہروں کے سائے مں پھلے’ ہوئے بھنبھناتے سے شور کو چر تا ہوئے ایک عجبر سا غل غپاڑہ سارے ہال مںھ پھلس جاتا ہے۔ سب کی نظریں دروازے کی طرف اٹھ جاتی ہے۔ عجبا منظر ہے۔ باہر اور اندر کے دروازے ایک ساتھ کھل گئے ہںپ اور ننھے منے بچوں کے دو دو، چار چار کے گروپ ہلا گلا کرتے اندر گھس رہے ہںا۔ سڑک کا ایک حصہ دکھائی دے رہا ہے، جس پر ایک اسٹشنا ویگن کھڑی ہے، آس پاس کچھ تماش بنز کھڑے ہںز اور ویگن مںھ سے بچے اچھل اچھل کر اندر داخل ہو رہے ہںش۔
’’بوبی، ادھر آ جا!‘‘
' 'ندھو، مرںا باکس لتے! آنا۔۔۔!‘‘
بچوں کے اس شور کے ساتھ ساتھ باہر کا شور بھی اندر آ رہا ہںھ بچے ٹبلو ں سے ٹکراتے، ایک دوسرے کو دھکلتے ہوئے سڑزھاوں پر جاتے ہںھ۔ لکڑی کی سڑاھاےں کارپٹ، بچھا ہونے کے باوجود دھم دھم کر کے بج اٹھی ہںا۔
ہال کا معتدل ماحول ایک جھٹکے کے ساتھ بکھر جاتا ہے۔ لڑکی گانا بند کر کے عاشقانہ وارفتگی سے بچوں کو دیکھنے لگتی ہںل۔ سب کی باتوں پر اسٹاپ کا نشان لگ جاتا ہے اور چہروں پر ایک ناگواری کا ایک تاثر پھل جاتا ہے۔ کچھ بچے بالکنی کی ریلنگ پر جھولتے ہوئے ہال مںہ غبارے اچھال رہے ہں ۔ کچھ غبارے کارپٹے پر آ گرے ہںو، کچھ کندھوں پر سروں سے ٹکراتے ہوئے ٹبلونں پر لڑھک رہے ہں ، تو کچھ بچوں کی کلکاریوں کے ساتھ ساتھ ہوا مںے ترد رہے ہںت۔ نلےن، پلے ، ہرے، گلابی۔۔۔
کچھ بچے اوپر اچھل اچھل کر کوئی نرسری پویم گانے لگتے ہںک تو لکڑی کا فرش دھم دھم بج اٹھتا ہے۔
ہال مںے چلتی فلم کی ریل جسے، اچانک ٹوٹ گئی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں