جماعت اور اطاعت


دین اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء کے بعد مطلق اور غیر مشروط اطاعت کی بیعت لینا صرف ارباب اختیار کے لیے ثابت ہے جنہیں ہم دینی اصطلاح میں اولیٰ الامر بھی کہتے ہیں۔ یعنی حکمران کی اطاعت و بیعت کے لیے سیاسی امارت بنیادی شرط ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں ہر دوسرا گروہ یا جماعت ایک ایسے بیعت کے نظام کے تحت چلتا ہے جہاں لوگوں سے دین کے نام پر غیرمشروط اطاعت کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ اس باقاعدہ بیعت یا پھر اس سے ملتے جلتے اطاعت کے نظام کی بنیادی شرط یعنی سیاسی اقتدار کو نظر انداز کرکے یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست یا اسلامی انقلاب کی جدوجہد کرنے یا پھر محض دین کی اشاعت کے لیے بھی غیر مشروط اطاعت پر مبنی نظام نافذ العمل ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ گروہوں کے ہاں باقاعدہ بیعت کا کلچر ہے تو دیگر گروہوں کے ہاں باقاعدہ بیعت تو نہیں لیکن دیگر قوانین کی مدد سے امیر تنظیم کی غیر مشروط اطاعت کا ایک نظام رائج کیا جاتا ہے جس کے تحت لوگوں کو کنٹرول کیا جائے۔
اسکے برعکس آپ مسلمانوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لیجئے تو علم ہوتا ہے کہ محمدؐ الرسول اللہ نے پیغمبر ہونے کے باوجود اُم القریٰ مکہ کے دور میں کسی فرد سے بیعت لی اور نہ ہی کسی اسلامی انقلاب کی جدوجہد کے لیے بیعت یا غیر مشروط اطاعت کے نام پر کسی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ البتہ جب دس سال کی مسلسل دعو ت کے بعد بھی اہل مکہ کے ارباب اقتدار نے توحید کی دعو ت کو مسترد کر دیا اور دوسری جانب مدینہ میں اوس اور خزرج کے قبیلوں کےاکابرین نےدین کی دعوت پرلبیک کہتےہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باقاعدہ حکمران کی حیثیت سےمدینہ آنےکی دعوت دی تو پھر ہجرت ہو جانےکے بعد پہلی بار بیعت جسے بیعت عقبہ کہا جاتا ہے، اسکا مطالبہ کیا گیا۔ یعنی ہجرت بھی ا للہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی اسے کرنے اور کروانے والا اللہ کا ر سولؐ تھا جسے علاقے کے اکابرین اور عوام الناس کی اکثر یت نے بحیثیت ایک امیر مدینے میں آنے کی د عوت دی اور اسطرح سے قبائلی دور کے طریقے کے مطابق ایک باقاعدہ ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اسی سلسلے پر چلتے ہو ئے نبیؐ کے بعد خلفاء راشدین نے بھی اسی سیاسی حیثیت یعنی ارباب ا قتدار اور اولیٰ الامر کی حیثیت میں لوگوں سے بیعت لی ۔ لہذا یہ بات مسلمه حقیقت ہے کہ ریاست اور سیاسی اقتدار کی موجودگی حکمران کی بیعت یا غیر مشروط اطاعت کے لیے بنیادی شرائط ہیں۔
بغیر سیاسی امارت کے جابجا قائم کیے جانے والے بیعت نما سسٹم نے مسلمانوں کو صرف مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسے تمام گروہ اور جماعتیں ایک اسٹیٹ ود ان اسٹیٹ کی پالیس کے تحت کام کرتے ہیں جہاں ریاست جیسے قوانین کا نفاذ ہوتا ہے۔ یعنی یہ سب اپنےاپنے دائرے بناتے ہیں اور ایسا ہر دائرہ سچے دین یا پھر فرقہٴ ناجیہ کے نام پر قائم کیا جاتا ہے جہاں لوگوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ صرف ہم مومنین ہیں اور ہمارے دائرے سے باہر ہر شخص غیر مسلم ہے، لہذا ہمیں ان غیر مسلمین اور مشرکین کو دین کی دعوت دے کر اپنے دائرے میں لانا ہے لیکن اگر وہ ہماری بات سے اختلاف کریں تو انہیں کافر و مشرک لیبل کرکے ان سے مکمل قطع تعلق کرتے ہوئے ابدی جہنم انکے کھاتے میں لکھ دینی ہے۔ ظاہر ہے کے اپنے اپنے دائروں کے اندر یہ دین کی اپنی اپنی تشریحات کرتے ہیں جن پر چلنا ہر تنظیمی ممبر کے لیے لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی روش پر چلتے ہوئے یہ اپنی اپنی مساجد اور مدرسے بھی قائم کر لیتے ہیں اور کہا جاتا ہے چونکہ صرف ہم ہی مسلمان اور مومن ہیں لہذا با جماعت نماز کی ادائیگی صرف ہمارے امام کے پیچھے ہی قبول ہوگی، کسی اور مسجد میں یعنی کسی اور گروہ کے امام کے پیچھے آپکی نماز قبول نہ ہوگی کیونکہ وہ مسلم نہیں۔ اس حوالے سے یہ بنیادی بات قطعی نظرانداز کردی جاتی ہے کہ چاہے کوئی بھی فرقہ ہو اور چاہے وہ کتنا ہی خلاف قرآن و توحید عقیدہ کیوں نہ رکھتا ہو وہ نماز صرف اور صرف اللہ کے لیے ادا کرتا ہے یعنی آپ قبر پرستی میں مبتلا بدعقیدہ لوگوں کی مسجد میں بھی چلے جائیں تو وہاں نماز اللہ کے نام کی ہی ادا کی جاتی ہے لہذا اصول یہی اپنایا جائے گا کہ کسی خلاف شریعت عبادت یا بدعت کا حصہ نہ بنیں لیکن باجماعت نماز کی ادائیگی کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ ہے ہی نہیں۔ اسی طرح ایک اور اصول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مشرک کی نماز قبول نہیں ہوتی لہذا مشرک امام کے پیچھے مقتدی کی نماز بھی قبول نہ ہوگی۔ یہاں بھی یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ اس تاویل کی کوئی دینی سند نہیں ہے کہ کس کی نماز یا عبادت اللہ قبول کرتا ہے اور کسی نہیں کرتا۔ مثلا اگر کسی مسجد میں امام وضو کے بغیر نماز پڑھا دے تو ظاہر ہے اسکی نماز تو نہ ہوگی لیکن کیا تمام مقتدیوں کی نماز بھی ضائع ہو جائے گی؟
اسی طرح انکے ہاں صرف اپنا دینی لٹریچر پڑھنے کی اجازت ہوتی ہے یعنی اپنی تفسیریں اور تشریحات پڑھائی جاتی ہیں اور باہر سے آنے والی ہر دلیل کا جواب صرف اپنی تشریحات کی روشنی میں دیا جاتا ہے کیونکہ کسی اور کی ریسرچ کو پڑھنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ جہاں کہیں انکی تشریحات دین کے عمومی اصولوں سے میل نہ کھاتی ہوں وہاں لوگوں پر زور زبردستی اور کنٹرول کی پالیسی اپنائی جاتی ہے کہ بھئی اگر آپ نے ہمارافیصلہ نہ مانا تو آپ ہم میں سے نہیں لہذا کافر و مشرک یا پھر مرتد ہونگے۔ ایسے تمام گروہوں میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، ذاتی ریسرچ کو غلط خیال کیا جاتا ہے اور ڈسکشن کا ماحول سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ لہذا تاثر یہ قائم کیا جاتا ہے کہ ریسرچ اور دینی فیصلے دین پر ریسرچ کرنا عام آدمی کا کام نہیں اسے صرف تنظیمی فیصلوں کی بغیر چوں چراں کیے اطاعت و فرمابرداری کرنا ہے۔
احادیث مبارکہ میں ہمیں جس ’’الجماعتہ‘‘ کا ذکر ملتا ہے اس سے مراد ایک سیاسی نظم یا ’’اسٹیٹ‘‘ ہے۔ یعنی جب مسلمانوں کی ایک قوم یا ملت اپنی سرزمین میں خودمختار ہو اور اسکا کوئی شہری اکثریت کی مرضی سے قانونی طور پر حکمران ہو تو اس عمل سے جو ریاست یا نظم وجود میں آئے گا وہ الجماعتہ کہلائے گا اور اس حکمران کو امیر مملکت کہا جائے گا۔ اس حوالے سے کسی مزید اعتراض کی وضاحت اسطرح ہوتی ہے کہ بعض روایات میں نبی صلى الله عليہ وسلم نے الجماعتہ کی جگہ ’’السلطان‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا یعنی الجماعتہ اور السلطان ایک دوسرے کے مترادف کی حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں۔
جیسا کہ بخاری کی یہ روایت جو ہمارے ہاں قریباً تمام حلقوں میں امارت و اطاعت کے حوالے سے بڑے زور و شور سے شیئر کی جاتی ہے
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من کرہ من أمیرہ شیئا، فلیصبر علیہ، فانہ لیس احد من الناس یخرج من السلطان شبراً، فمات علیہ إلاما ت میتۃ جاھلیۃ۔ بخاری،کتاب الفتن مسلم، کتاب الاماره الفتن مسلم، کتاب الاماره
آ پؐ نے فرمایا جسے اپنے امیر (حکمران) کی کوئی بات ناگوار گزرے، اسےچاہیے کہ وہ صبر کرے،کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا اور اسی حالت میں مر گیا،اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔

چنانچہ اس لفظ کا اطلاق کسی ایسی جماعت پر ہی کیا جا سکتا ہے جسکے پاس سیاسی اقتدار ہو اور یہ اقتدار اس نے زور زبردستی یا چور دروازے سے حاصل نہ کیا ہو بلکہ اس خطے کی اکثریت کا اعتماد اس جماعت کو حاصل ہو اور مروجہ قوانین کےذریعے اس نے اپنے آپ کو حکمران کی حیثیت میں منوایا ہو۔ صحابہ کرامؓ کے عمل سے بھی یہی ثابت ہے کہ انکے ہاں بھی یہ تعبیر اسی طرح رائج تھی۔ مثال کے طور پر ابوبکر صدیقؓ نے جب خلافت کی ذمہ داری قبول کر لی تو اسوقت علیؓ نے کچھ عرصے بعد انکے ہاتھ پران کے ہاتھ پر بیعت کی تو تو ظہر کی نماز کے بعد ابوبکرؓ نے ان کی بیعت کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ آج علی’’الجماعتہ‘‘ میں شامل ہو گئے ہیں۔ تاریخ الاسلام،الذہبی 3/ 14، باب خلافت ابی بکر الصدیق۔

اسی طرح جب حسن بن علیؓ نے اپنے والد کی وفات کے بعد امیر معاویہؓ سے صلح کا معاہدہ کرلیا اور اسکے نتیجے میں ساری ملت اسلامیہ انکی خلافت کے نیچے جمع ہو گئی تو صحابہؓ نےاس نسبت سے اس سال کا نام ’’عام الجماعتہ‘‘ رکھ دیا تھا، یعنی وہ سال جس میں مسلمان ایک نظم اجتماعی کے تحت جمع ہوگئے۔اس سے علم ہوتا ہے کے صحابہ کرامؓ بھی حکومت اور ریاست کے ساتھ ساتھ اُمت کی وحدت کو بھی الجماعتہ کے معنی میں لیتے تھے۔ یہی بات سمع و طاعت کے بیعت کے حوالے سے بخاری و مسلم کی اس روایت میں ملتی ہے۔
عن عبادۃ بن الصامت فقال: دعانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. فکان فیھا اخذ علینا: ان بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطناومکرھنا وعسرنا ویسرنا واثرۃ علینا وأن لاننازع الامر اھلہ إلا أن تروا کفرًا بواحاً عندکم من اللّٰہ فیہ برھان۔ صحیح بخاری، کتاب الفتن۔ صحیح مسلم، کتاب الاماره۔
عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا تاکہ ہم ہر حالت کے لیے سمع و طاعت کی بیعت کریں کہ کہ نرمی و جبر، تنگی و رماخی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیے جانےکے باوجود بھی حکمران کی اطاعت سے نہیں نکلے، اور نہ ان سے جھگڑا کریں گے۔فرمایا کہ صرف (اس صورت میں تم حکمران کی اطاعت سے نکل سکتے ہو) کہ تم کوئی صریح کفر اس کی طرف سے دیکھو، جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کی واضح حجت ہو۔
یہ روایت قرآن مجید کے حکم أَطِیْعُوا اللٰهَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْکی شرح میں بیان کی گئی ہےاوراس حکم کے مطابق بھی حکمران کی اطاعت ہم پر واجب ہے، اور بالکل اسی پیرائے میں حکمران کی اطاعت کے حوالے سے ذیل کا حکم بھی دیا گیا۔
عن انس بن مالك رضی اللٰه عنه قال: قال رسول اللٰ ه صلی اللٰه علیه وسلم اسمعوا واطیعوا وان استعمل علیکم عبد حبشی کان ا رسه زبیبة۔ صحیح بخاری، کتاب الاحکام۔
انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سمع و طاعت پر قائم رہو،خواہ تم پر ایک حبشی غلام، جس کا سر منقے کی طرح چھوٹا سا ہو، حکمران بنا دیا جائے۔
اب ہمارے ہاں یہ واقعہ پیش آیا کہ مولانا مودودی صاحب نے مسلمانوں کی تاریخ کے برخلاف اپنی تعلیمات کے ذریعے یہ تاثر قائم کردیا کہ اگر مسلمانوں کی ریاست یا باقاعدہ حکومت موجود نہ ہو تو سمع و طاعت کی یہ بیعت کسی حکومت کو اسلامی بنانے یا پھر کسی غیر اسلامی حکومت کے زیر اثر رہتے ہوئے نظام کو بدلنے کی جدوجہد کرنے والے کسی جتھے، گروہ یا جماعت کے لیڈر یا امیر کے ہاتھ پر کی جائے گی۔ یہ دینی تشریح انکے شاگردوں اور معاصرین کے ذریعے صرف برصغیر ہی نہیں پوری دنیا میں بہت مقبول ہوئی جسکا ذکر ہم نے مختصرا اپنے مضمون تعبیر کی غلطی میں کیا ہے جہاں اس حوالے سے دو کتب شیئر کی گئی ہیں۔ اب بنیادی مسئلہ یہ ہے اس حکم، تشریح یا فیصلے کی نص قرآن و سنت میں موجود نہیں لہذا بغیر سیاسی امارت کے کوئی فرد ایک تنظیم میں صدارت ٹائپ عہدے کے لیے تو منتخب ہو سکتا ہے لیکن اسے امیرالمومنین کے عہدے پر فائز کرکے اسکے ہر ایک حکم، رائے یا فیصلے کو اسکے پیروکاروں یا پھر تمام امت مسلمہ کے لیے ’’السلطان‘‘ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اسکی اطاعت کو وہ معنی دیے جا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے انبیاء کا معاملہ یقیننا مختلف ہے کیونکہ انہیں اپنے ہر فیصلے کے لیے وحی الہٰی کے ذریعے اللہ کی اجازت اور نصرت حاصل ہوتی ہے لیکن ایک غیر نبی یہ دعویٰ بھلا کیسے کر سکتا ہے کہ جو جماعت اس نے بنائی ہے وہی درحقیقت الجماعۃ ہے جس سے جُڑ کر رہنا دنیا کے ہر مسلمان کے لیے لازم ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ محض اندازے ہی ہیں جیسا کہ آج ہر گروہ کو یہ لگتا ہے کے درحقیقت وہی الجماعۃ ہے۔ اب اگر یہ تاویل پیش کی جائے کہ یہ سنت نبویؐ کو زندہ کرنے جیسا ہے تو یہ کہنا ایسا ہی ہوگا جیسے ملک میں رمضان کے چاند کا اعلان حکومت وقت کے نامزدگین کی بجائے کوئی اور گروہ یا بہت سے گروہ کرنے لگیں یا پھر چوری اور قتل کے مقدمے پولیس اور عدالتوں کی بجائے چھوٹے چھوٹے جرگے نمٹانے لگیں۔ یا پھر کوئی شخص ایک گروہ بنا کراپنے شہر کے زانیوں اور چوروں کو سزا دینے کی ذمہ داری سنبھال لے۔ لہذا یہ بات طے ہے کہ آج کے دور میں مروجہ قوانین کے تحت حاصل کیے گئے سیاسی اقتدار کے بغیر کوئی تنظیم یا گروہ نصیحت و تنبیہ سے آگے نکل کر غیر مشروط اطاعت کی بیعت کی بنیاد پر لوگوں پر مقدمے قائم کرنےکا کام اور سزا و پابندی وغیرہ کی روش اختیار نہیں کرسکتا۔
درحقیقت دین اسلام کے سیاسی نظام کی موجودہ دور میں اس غلط تشریح نے ہی سارے معاملے کو گڑ بڑ کیا ہے اور اس پر کمال یہ کیا گیا کہ ان میں سے بہت سے گروہ اپنی اپنی مرضی سے ’’مسلمان‘‘ کی تعریف کو محدود کرتے کرتے اس مائکرو لیول پر لے گئے کہ انکے اپنے دائرے سے باہر ہر کوئی غیرمسلم، مشرک یا مرتد ہوگیا۔ بات کچھ آگے بڑھی تو خود ساختہ فرقہ ناجیہ کی اس غلط تاویل نے کچھ گروہوں کے ہاں سخت مزاجی کی ایسی روش پیدا کی کہ اپنے دائرے سے باہر لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا ہی بند کردیا گیا کہ فلاں رشتہ دار مشرک ہے اس سے قطع تعلقی کرلو، انکے ہاں شادی بیاہ پر یہاں تک کہ موت پر تعزیت کے لیے بھی نہ جاؤ وغیرہ۔ کچھ گروہوں کے ہاں تو معاملہ اس حد تک شدید ہے کہ یہ شادی بیاہ بھی صرف اپنی تنظیم کے اندر ہی کرتے ہیں اور اگر کہیں انکے اپنے درمیان پھوٹ پڑ جائے اور دو گروہ بن جائیں تو یہ ایک دوسرے کو مرتد ڈیکلئر کرکے جہاں آپسی شادیاں ہوئی ہوں وہاں طلاقیں تک کروا دیتے ہیں۔ مسئلہ جب اس سوشل بائیکاٹ سے بھی آگے بڑھا تو اس نے ایک باقاعدہ متشدد شکل اختیار کرلی اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ اسی اُمت میں طالبان، بوکو حرام، اور آئی ایس آئی ایس (دولت اسلامیہ عراق و شام) جیسے گروہ پیدا ہوئے جنہوں نے پہلے غیر مشروط بیعت کی طرز پر اپنا لیڈر منتخب کرکے اسے تمام امت کا خلیفہ بنا ڈالا اور پھر اپنے دائرے کے اندر لوگوں کو مسلمان اور باقی ساری دنیا کو کافر، مشرک اور مرتد قرار دے کر یہ گروہ خود ہی لوگوں اور حکومتوں کے خلاف اسلام کے نفاذ کے نام پر کاروائیاں کرنے، یکطرفہ فیصلے اور سزائیں دینے میں لگ گئے۔ مساجد پر خودکش حملے اسی لیے ہوتے ہیں کہ ان گروہوں کے نزدیک نہ یہ مساجد مسلمانوں کی ہیں اور نہ ہی ان میں نمازا ادا کرنے والے لوگ مسلمان ہیں۔
اس سب سے نجات کا یہی طریقہ ہے کہ مسلمان ممالک اپنے معاشروں میں تعلیم پر خصوصی توجہ دیں اور جمہوری اقدار کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں تاکہ لوگوں میں اختلاف رائے سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔ صدیوں تک خلافت کے نام پر ملوکیت کے ذریعے امت کا جسطرح استیصال کیا گیا ہے اسکے نتیجے میں اکثریت کی ذہنیت غلامانہ ہو چکی ہے جسکا ذکر ہم نے جمہوریت کے موضوع پر اپنے مضمون میں کیا، اور جو اس سے راہ فرار اختیار کرکے بھاگے و مذہب سے ہی بھگوڑے ہو گئے۔ لیکن حقیقت میں دین اسلام اور بالخصوص اللہ کی کتاب سے جڑ کر اور اسے خود پڑھ اور سمجھ کر ہی اس غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اسی طرح مساجد اور مدارس کے نظام کو بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ انکا انتظام فرقوں، گروہوں اور جتھوں سے واپس لے کر حکومتوں کو دیا جائے تاکہ ان مدارس میں صرف اپنے اپنے فرقے کے مواد کی بجائے عمومی دینی اور دنیاوی تعلیم دی جائے۔ ہمارے علماء کی اکثریت سوائے اپنے عالمانہ حلیے کے حقیقت میں عالم اسی لیے نہیں ہے کیونکہ انہیں مذہب کے نام پر صرف اپنے فرقے کا نصاب رٹایا جاتا ہے اسکے علاوہ دین و دنیا کی کوئی ہوش نہیں ہوتی۔ لہذا باقاعدہ دینی عالم بننے کے لیے ان مدرسوں کی بجائے کالجوں یا یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لانا چاہیئے تاکہ دیگر شعبہ جات کی طرح دینی عالم بننے کی تعلیم میں داخلے کے لیے بھی انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنا بنیادی شرط بن جائے۔ یعنی جسطرح ایک طالبعلم انٹرمیڈیٹ تک سکول اور کالج میں تمام مذہبی اور دنیاوی مضامین کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور اسکے بعد ایک نسبتا سمجھداری کی عمر میں خود یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے ڈاکٹر بننا ہے انجینئر یا پھر آرٹس کی تعلیم حاصل کرنی ہے بالکل اسی طرح یہ فیصلہ کرنا اسکا کام ہے کہ اسے دین کا عالم بننا ہے لہذا انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اس شعبے میں باقاعدہ سپیشلائزیشن کی طرف جا سکتا ہے۔ ابتدائی سالوں میں دین کی تعلیم بھی اسے اسی طرح عمومی انداز میں دی جائے گی جسطرح دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جسطرح پانچ سات سال کے بچوں کو دینی مدرسوں میں بھیج دیا جاتا ہے یہ غلط ہے کیونکہ بچے نے بڑے ہو کر کیا بننا ہے اسکا فیصلہ اسکے والدین اسکے بچپن میں ہیں کردیتے ہیں چاہے اسکا رحجان اسطرف ہو یا نہ ہو۔ دوسرا مسئلہ برین واشنگ کا ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں بچے کو جو بتا دیا جائے وہ اسے ہی دین سمجھتا ہے لہذا بریلوی مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے والا ہر فرد بریلوی ہی ہوتا ہے اور بالکل یہی حال دیگر فرقوں یا مکاتب فکر کا ہے کہ انکے مدرسے درحقیقت انکے روبوٹ تیار کرنے کی فیکٹریاں ہیں اور پھر ان روبوٹس کا استحصال کہیں پر مذہبی پیری مریدی تو کہیں سیاسی ورکرز کے طور پر کیا جاتا ہے۔
اسکی وجہ سے ہے کہ کسی بھی گروہ کے ہاں فرقہ واریت اور پسند و ناپسند سے ماورا دین کی عمومی تعلیم دینے یا وسیع اور نیوٹرل تحقیق پڑھنے اور پڑھانے کا رواج موجود نہیں بلکہ سب کے سب صرف اپنا مواد پڑھاتے اور رٹاتے ہیں اور اپنے علاوہ ہر دوسرے کو غلط گردانتے ہیں لہذا اختلاف رائے سننے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنی بات دلیل سے ثابت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ تو سمجھا دیا جاتا ہے کہ ہمارا مقصد آخرت کی کامیابی ہے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دنیا میں کیا کرنا ہے اسکے لیے کوئی پلان نہیں دیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص بچپن یا نوجوانی میں کسی مدرسے یا گروہ سے وابستہ ہوا ہو جہاں ہر معاملے میں دلیل کی بجائے جذبات مقدم ہوں ایسے ماحول میں زندگی کے سالہا سال گزارنے کے بعد وہ اپنے خیالات اور ماحول سے اتنا مانوس ہو جاتا ہے کہ اس سے باہر صداقت کا تصور بھی اسکے لیے ممکن نہیں رہتا۔ اسکی جماعت یا تنظیم اسکے لیے تحریک سے زیادہ روایت کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے جس پر ایمان رکھنے کے لیے اسے کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی، لہذا ڈسکشن کے ماحول میں لاجواب ہو جانے کے بعد بھی وہ اپنا راستہ نہیں بدلتا کیونکہ بہت سی باتوں کو دل میں غلط جاننے کے باوجود بھی وہ ہمدردی کے جذبے سے اسی نظم کے ساتھ جڑے رہنے کو ترجیح دیتا ہے جہاں پر اس نے سالہا سال بسر کیے ہوتے ہیں اور جس سے وابستہ رہنے کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ بار بار یا مسلسل جھوٹ بھی بولا جائے تو وہ بھی سچ لگنے لگتا ہے کیونکہ انسان ایک ہی جیسے ماحول میں اپنی ہی جیسی سوچ رکھنے والے لوگوں کے درمیان رہنے کا عادی ہو جاتا ہے جہاں ہر کوئی اسکی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور اسکی کی غلط سے غلط بات کو بھی درستگی کی سند ملتی ہے کیونکہ باہر کی کسی نئی سوچ کے اندر آنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔
مسلمانوں میں یہ رحجان زیادہ پرانا نہیں ہے کیونکہ ہمارے پرانے علماء کے ساتھ ایسا معاملہ کبھی نہیں تھا۔ اختلاف رائے انکے ہاں بھی موجود رہا لیکن اسکی بنیاد پر ایک دوسرے پر کفر و ارتداد کے فتوے نہیں لگائے جاتے تھے کیونکہ عمومی ماحول علمی اور تحقیق پر مبنی تھا اور لوگ مختلف معاملات میں مختلف آراء پر عمل کرتے۔ لیکن جیسے جیسے ہمارے ہاں دین کے ماخذین بدلے ویسے ویسے تنگ نظری، بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کو دوام حاصل ہوا، تقلید اور لفظ پرستی عام ہوئی اور تحقیق کا میدان تنگ ہوتا چلا گیا ۔ لہذا اب اگر سوچ بدلنی تو اسکے لیے درست جانب کچھ عملی قدم اٹھانے ہونگے تاکہ لوگ دین کو تنگ نظری کی بجائے کھل کر پڑھیں اور پھر مختلف معاملات میں اپنی رائے قائم کریں اور اپنی ریسرچ پیش کریں کیونکہ اختلاف رائے ہی آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک ریسرچ کا ماحول پیدا نہیں کیا جائے گا ہم تب تک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے نہیں ہو سکتے ورنہ مسلمان ممالک میں نہ افرادی قوت کی کمی ہے نہ ذرائع اور قدرتی وسائل کی۔ ہمیں صرف ان سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم حاصل کرنے اور آپس کے دینی مسائل پر اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہوئے گفتگو کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے۔
والسلام۔
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget