اسلام میں غیب کا عقیدہ

یہ  مختصر مضمون بلاگ پر پوچھے جانے والے ایک بہت اچھے سوال کے جواب کے طور پر لکھا گیا۔ چونکہ یہ سوال بہت اہم نوعیت کا تھا تو ہم نے سوچا کہ اسکے جواب کو ایک باقاعدہ بلاگ پوسٹ یا مضمون کے طور پر شائع کیا جائے تاکہ دیگر قارئین بھی اسے پڑھیں اوراپنی رائے دیں۔

بہت سے لوگ، خاص طور پر وہ جن کا تعلق بریلوی فرقے سے ہے، کا یہ ماننا ہے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ ساتھ رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی عالم الغیب تھے۔ میرایہ ماننا ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لیکن میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ میں کسطرح اس حقیقت کو بمع ثبوت ایسے لوگوں کے سامنے پیش کروں؟ آپکے جواب کا انتظار رہے گا۔

علم الغیب
اسلام میں غیب کے عقیدے کا ذکر ہمیں  سورة البقرہ کی شروع کی آیات میں ملتا ہے یعنی  کہا جا سکتا ہے کہ یہ قران کا ابتدائی پیغام ہے۔  اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:۔
ذَ‌ٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِي۔ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
یہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے ۔ جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ صلوٰۃ ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ سورة البقرہ، آیات ۲۔۳
اس طرح ان آیات میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ غیب کے حوالے سے درست عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا اہم حصہ ہےلہذا  ضروری ہے کہ اس حوالے سے ہمارا عقیدہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہو۔  اور جب قرآن پر نظر ڈالی جائے تو علم ہوتا ہے کہ غیب کا  تمام تر علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ  ہی کے پاس ہے۔

وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِي
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے وہ سب جانتا ہے اور کوئی پا  نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتاہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں۔ سورة الانعام، آیت ۵۹
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا
وہ غیب جاننے والا {عالم الغیب} ہے اپنے غائب کی باتوں پر کسی کو واقف نہیں کرتا۔ سورة جن، آیت ۲٦
قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
کہ دو  {اے نبی}  الله کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا اور انہیں اس کی بھی کچھ  خبر نہیں کہ کب {قبروں سے } اٹھائے جائیں گے۔ سورة النمل، آیت ٦۵
اسی طرح اللہ تعالٰی ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ  جب چاہے  اس غیب کی کچھ خبریں اپنے انبیاء اور پیغمبروں کو بھی  دیتا ہے تاکہ وہ اسے لوگوں تک پہنچائیں یعنی اپنی اپنی اُمتّوں کو ان سے آگاہ اور خبردار کریں  اورتوحید کے پیغام کو استقامت ملے۔

يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
جس دن الله سب پیغمبروں کو جمع کرے گا پھر کہے گا تمہیں کیا جواب دیا گیا تھا وہ کہیں گے ہمیں کچھ خبر نہیں تُو ہی غیب کا جاننے والا ہے۔ سورة المائدہ، آیت ۱۰۹
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَ
کہہ دو  (اے نبی) میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس الله کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔ سورة الانعام، آیت ۵۰
مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
الله مسلمانوں کو اس حالت پر رکھنا نہیں چاہتا جس پر اب تم ہو جب تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے اورالله کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے لیکن الله اپنے رسولوں میں جسے چاہے چُن لیتا ہے سو تم الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔ سورة آل عمران، آیت ۱۷۹

اسطرح قران کی یہ آیات ہمیں غیب کے بارے میں مکمل علم مہیا کرتی ہیں اور ساتھ ہی ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے اپنے انبیاء بشمول اپنے  آخری پیغمبر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ غیب کی خبروں یا واقعات کا ذکر  تو کیا لیکن تمام غیب عطا کر کے عالم الغیب کبھی نہیں بنایا۔

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں حاضر و ناظر  ہیں؟

اسی طرح  قران اس حوالے سے  ہمارے ہاں فرقوں کے پھیلائے ہوئے ایک اور شرکیہ عقیدے کی تردید بھی کرتا ہے جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی پہلی تخلیق ہیں اور یہ کہ وہ   اپنی پیدائش سے پہلے اور وفات کے بعد بھی ہر وقت اور دنیا میں ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں، بشیر و نذیر ہیں ، دنیا کے معاملات دیکھتے ہیں اور پھر اس حوالے سے  اپنے خاص بندوں کے خوابوں میں تشریف لاتے ہیں اور مشورے وغیرہ بھی دیتے ہیں کہ یوں کرو  اور یوں نہ کرو۔  ہمارے ہاں  ایسے دعوے ہر دور میں موجود رہے ہیں اسی لئے تصوّف یا صوفیت کی کتابوں میں ایسے کئی قصّے مل جاتے  ہیں اور اسی طرح موجودہ دور میں طاہر القادری صاحب بھی   یو ٹیوب پر موجود اپنی بہت سے   ویڈیو تقریروں میں خوابوں کے دوران  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے حوالے سے ایسے بہت سے قصّے سناتے ہیں۔

آئیے دیکھیں کہ قرآن میں ہمیں  اس حوالے سے کیا ملتا ہے۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ
اور تمہارے گرد و نواح کے بعضے گنوار منافق ہیں اور بعض مدینہ والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں۔ سورة التوبہ، آیت ۱۰۱
ذَ‌ٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
اے نبی یہ غیب کی خبریں جو ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں اور تُو ان کے پاس نہیں تھا جب کہ انہوں نے اپنا ارادہ پکا کر لیا اور وہ تدبیریں کر رہے تھے۔ سورة یوسف، آیت ۱۰۲
ذَ‌ٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم بذریعہ وحی تمہیں اطلاع دیتے ہیں اورتُو ان کے پاس نہیں تھا جب اپنا قلم ڈالنے لگے تھے کہ مریم کی کون پرورش کرے اور تو ان کے پاس نہیں تھا جب کہ وہ جھگڑتے تھے۔ سورة آل عمران، آیت ٤٤
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام غیب عطا کر دیا گیا تھا ؟

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں۔ سورة الاعراف، آیت ۱۸۸
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ
اورہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے تھے بعض ان میں سے وہ ہیں جن کا حال ہم نے آپ پر بیان کر دیا اور بعض وہ  ہیں کہ ہم نے آپ پر انکا حال بیان نہیں کیا۔ سورة غافر(المومن)، آیت ۷۸
ہمارے ہاں بہت سے فرقوں کا یہ ماننا ہے کہ نا صرف  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  عالم الغیب تھے بلکہ  انکے  اور صحابۂ کرام و  تابعین کے صدیوں بعد آنے والے تقریبا تمام  صوفیاء کو بھی یہ کمال حاصل تھا کہ جب چاہتے اپنے مُریدوں کو  غیب کے خبریں دیتے یا انکے دل کے احوال جان لیتے اور    مختلف قسم کی کرامات بھی دکھلاتے۔ صوفیت اور تصوّف کی کتب ایسی بے شمار کشف و کرامات سے بھرپور دیو مالائی داستانوں سے بھری پڑی ہیں۔  انشاء اللہ ہمیں کسی وقت موقع ملا  تو ان میں سے کچھ قصّے ضرور یہاں بلاگ پر بیان کریں گے۔ فی الوقت اس حوالے سے قارئین  بلاگ کے ای بک سیکشن میں ایک  زبر دست کتاب، اسلام یا مسلک پرستی  کو ڈاؤن لوڈ کر کے اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں  جس میں ایسے بہت سے  قصّے کہانیوں کا ذکر بمعہ حوالہ جات  مو جود ہے۔

لہذا کسی بھی فرد یا فرقے کا یہ دعوی کرنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں یا یہ کہ وہ دنیا میں ہر جگہ  حاضر و ناظر ہیں اور انہیں غیب کا تمام علم عطا کر دیا گیا یہ سب در حقیقت اللہ تعالٰی کی ذاتی صفات اور خصوصیات کو  اللہ کے بندوں سے ملا دینے کے مترادف ہے کیونکہ خالق اور مخلوق کا فرق ہر حال میں باقی رہنا چاہئے ۔  صرف اللہ ہی السّمیع   العلیم اور الحییّ  القیّوم  یعنی ہمیشہ سننے اور سب جاننے والا اور  ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے ، یہ تمام اللہ کی ذاتی صفات ہیں اور کسی انسان یا مخلوق کو ان میں شراکت کا نہ تو  خود سے اختیار حاصل ہے اور نہ ہی کبھی کسی کو یہ اختیار عطا کیا گیا۔ لہذا اللہ کی کسی ذاتی صفت کو کسی مخلوق سے جوڑ لینا شرک ہوگا۔

اس طرح سے وہ تمام فرقے یا انکے نام نہاد علماء جو ایسے مشرکانہ عقائد گھڑتے اور انکی تعلیم دیتے ہیں یہ سب اللہ کی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز کر جانے کی وجہ سے  طاغوت  کے زمرے میں آتے ہیں جن کا رد ّکرنا ہر حال ضروری ہے۔ سو قرآن و صحیح حدیث کے مطابق  اللہ ہی عالم الغیب ہے اور اللہ  نے یقیننا ًغیب کی کچھ خبریں اپنی انبیاء کو بتائیں لیکن کبھی بھی کسی نبی و پیغمبر بشمول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب یعنی تمام غیب جاننے والا  بنا کر اپنے برابر مقام عطا نہیں کیا۔  لیکن  آج امّت میں موجود کئی فرقوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام حد سے بڑھا کر اللہ کو چوبڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کی تعلیم دی جاتی ہے اور  پھر مدد کے لئے  بھی انہیں ہی  پکارا جاتا ہے  یعنی   اسلام کی بتائی ہوئی حدود سےتجاوز کر کے شرک و کفر کی گمراہی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع  کر دیا جاتا ہے۔

آخر میں  اپنے پڑھنے والوں سے  ہمیشہ کی طرح   وہی گزارش کہ ہمیں بطور اسلام کے داعی ایسے تمام معاملات میں صبرو تحمل  کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے اور نہ ہی لوگوں  یا فرقوں کا مزاق یا ٹھٹھہ اڑانا مناسب طریقہ ہے بلکہ ایسے تمام معاملات میں محبت اور رواداری کے ساتھ  اور باقاعدہ  قران و حدیث کے ثبوت کی مدد سے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرنے چاہیئے  لیکن اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو انہیں انکے حال پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ  ایک مسلمان کا کام حق کو  ثبوت کے ساتھ سامنے لانا ہے ، اسے کسی پر مسلّط کرنا یا تھوپنا نہیں۔

ہم اپنے اس مضمون کا اختتام صحیح  بخاری کی ایک  حدیث سے کریں گے جو ہمیں بتاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے   عالم الغیب ہونے کا یہ  دعویٰ اور عقیدہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے ۔ ذیل کی صحیح حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہ نے بہت  خوبصورتی سے اس   جھوٹے الزام کا جواب قرآن کی آیت کی روشنی میں دیا  ہے جسے  امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں محفوظ کیا ہے۔قرآن و حدیث کا بیان کیا گیا یہ عقیدہ  آج  ہر مسلمان کا  بھی ہونا چاہیئے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، جو شخص تم میں یوں کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کو دیکھا ہے بس اس نے جھوٹ بولا اور فرمایا  جو شخص تم میں یوں کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  غیب جانتے تھے تو وہ جھوٹا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔ صحیح بخاری، کتاب التوحید
اسی حوالے سے  قارئین سے گذارش ہے  کہ  وقت نکال کر قران و حدیث کی روشنی میں ایک مسلمان کا صحیح عقیدہ  جاننے کے لئے ہمارے بلاگ کے مضمون اللہ کی نظر میں مسلم کون ہے   کا مطالعہ ضرور کریں۔

السلام علیکم

لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget