پھر آپ ذراغور کریں کہ کاپی رائٹس کیا مالی حقوق ہیں؟ تو ان کی نوعیت سے واضح ہوتا ہے یہ مالی نہیں بلکہ ایسے ملکیتی حقوق ہیں کہ جن کا مقصد مال کمانے سے زیادہ علم کی نشر واشاعت کو روکنا ہے۔ آپ ذرا پیٹنٹس (patents) کے قوانین کو دیکھ لیں کہ کیا ہیں؟ پیٹنٹس (patents) کے قوانین کے مطابق اگر کسی شخص نے کچھ ایجاد کیا ہے تو اس ایجاد کا استعمال، اس کی تیاری، اس کی فروخت یہاں تک کہ اس میں بہتری لانے کے لیے اس میں تبدیلی بھی منع ہے، کم از کم بیس سال کے عرصے تک کے لیے۔ تو آپ اس کے مالی حقوق کے تحفظ کے نام پر علم کی نشر واشاعت پر قدغنیں لگا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کی ایک جماعت جو کاپی رائٹس کی قائل ہے، وہ بھی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر کسی شخص کا مقصد علم کی نشر واشاعت ہو اور تجارت نہ ہو تو وہ کسی مصنف کی اجازت کے بغیر بھی اس کی کتاب کی کاپی کر سکتا ہے یا کسی کو دے سکتا ہے۔ شیخ محمد بن صالح العثیمین، شیخ صالح المنجد وغیرہ سے ایسے ہی فتاوی منقول ہیں۔
پیٹنٹس (patents) کے قوانین کے مطابق اگر کسی فارماسوٹیکل کمپنی کے ریسرچر نے کسی بیماری کی کوئی دواء ایجاد کر لی ہے تو اب اس کمپنی ہی کے پاس اس دواء کے ملکیتی حقوق ہیں۔ پس فارماسوٹیکل کمپنی اس کو مہنگے داموں فروخت کریں اور اب وہی کمپنی وہ دواء تیار کر سکتی ہے اور اس کی من چاہی قیمت لے سکتی ہے۔ اب وہ دواء غرباء کی پہنچ سے دور رہے گی، لاکھوں کی اموات ہوں گی لیکن کاپی رائٹس کا قانون زندہ باد۔ بھئی دواء اگر آپ نے بنائی ہے تو بیماریاں بھی تو آپ نے ہی پیدا کی ہیں ناں تو کوئی احسان تو نہیں کیا آپ نے۔ پہلے آپ نے ترقی کے نام پر انڈسٹری لگائی، ہماری آب وہوا، فضاء، پانی اور کھانوں کو زہریلے کیمیکلز سے آلودہ کیا کہ جسے نت نئی بیماریاں پیدا ہوئیں۔ اب ان کا علاج دریافت کر لیا تو اس علاج پر آپ کی اجارہ داری قائم ہے، کمال ہے۔ اور تو اور کوئی ریسرچر اگر یہ چاہے کہ وہ اس دواء پر ہوئی ہوئی ریسرچ پر ریسرچ کر لے تو اس کی بھی اجازت لینی پڑے گی یعنی اب آپ کسی کے بنائے ہوئے فارمولاز پر مزید ریسرچ بھی نہیں کر سکتے کہ اس کی اصلاح کر لیں یا اس سے بہتر فارمولا لے آئیں۔
یہی حال سافٹ ویئر کی انڈسٹری کا بھی ہے کہ آپ کسی سافٹ ویئر میں اس مقصد سے تبدیلی بھی نہیں کر سکتے کہ اس کا پہلے سے اپ ڈیٹڈ یا بہتر ورژن لے آئیں کہ یہ حق صرف اسی حاصل ہے کہ جس نے وہ سافٹ ویئر پہلی مرتبہ بنایا تھا کہ وہی اس میں تبدیلی اور بہتری لا سکتا ہے اوراگر اسے کوئی تبدیلی یا بہتری نہیں سوجھتی تو وہ سافٹ ویئر پڑا رہے، ہمیں اس سے کیا غرض کہ اب اس سرمایہ دارانہ نظام میں اصل مقصد حیات (purpose of life)، سرمایے اور مال میں اضافہ ہے نہ کہ علم وفکر کی نشر واشاعت۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اسی بات کو بنیاد بنا کر کہ کاپی رائٹس کے قوانین سے علم کی نشر واشاعت رک جاتی ہے اور ایجادات کا پہیہ سست پڑ جاتا ہے، کاپی لیفٹ (copy left) کی تحریک چلائی گئی۔
کاپی لیفٹ کی تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ اپنا سافٹ ویئر ڈیزائن کرنے کے بدلے کوئی رقم یا اجرت وصول نہ کریں۔ آپ ضرور کریں کہ یہ آپ کا حق ہے کہ آپ نے محنت کی ہے لیکن اس تحریک اصل مقصد یہ تھا کہ آپ اپنی تصنیف، ایجاد اور اختراع پر اجرت لینے کے ساتھ ایسے حقوق کا دعوی نہ کریں کہ جس سے علم کی نشر واشاعت کو نقصان پہنچے۔ لہذا فری سافٹ ویئر فاؤنڈیشن نے جی این یو (GNU) کے نام سے ایک آپریٹنگ سسٹم بھی بنایا کہ جس کے کوئی کاپی رائٹس نہیں تھے اور بعد میں لینکس (LINUX) کے کاپی رائٹ فری ورژن میں اس کے کمپونینٹس کو استعمال بھی کیا گیا۔
تو علم تو اصل میں وکی پیڈیا کی طرح انسانوں کی ایک مشترک میراث تھی اور ہے لیکن کچھ لوگوں نے اسے ذاتی میراث بنا لیا ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ علم کسی کی ذاتی میراث نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے، یہ مقدمہ ہی غلط ہے۔ آپ اپنی محنت اور خدمت کی اجرت لے سکتے ہیں لیکن اپنی ایجاد اور تصنیف کے پیچھے موجود علم کی وراثت نہیں۔ مطلب آپ کہتے ہیں کہ سائنس اور سائنسی ایجادات میں نیوٹن اور اس جیسے سینکڑوں سائنسدانوں کا تو کوئی ملکیتی حصہ نہیں ہے جو سائنس کے ابا جی تھے لیکن آج کل کے چھوکروں کو تمام ملکیتی حقوق حاصل ہیں کہ جنہوں نے سائنس کی عمارت کی چھت کا صرف پلستر سیدھا کیا ہے۔ اور یہی حال علوم اسلامیہ کا بھی ہے کہ ان اسلامی علوم کی چودہ صدیوں میں کھڑی ہونے والی عمارت کی تعمیر میں آج کے محققین کا کتنا حصہ ہے کہ وہ اس عمارت کی چھت کے پلستر پر ملکیتی حقوق کا دعوی کر رہے ہیں۔
تو بات یہ بھی ہے کہ میں نے بازار سے ایک کتاب خریدی ہے، اس کی قیمت ادا کی ہے۔ اب یہ کتاب میری ملکیت ہے، میں اس کا جو مرضی کروں۔ میں اسے کسی کو آگے بیچ دوں، میں اس کو پھاڑ دوں، میں اس کو کسی دوست کو تحفے میں دے دوں، میں اسے لائبریری میں رکھوا دوں۔ اب میں اس خریدی ہوئی کتاب کو اگر پبلک لائبریری میں رکھوا دیتا ہوں تو مصنف کو مالی نقصان ہو گا یا نہیں؟ تو نقصان ضرور ہو گا کہ لائبریری میں وہ کتاب ہزاروں لوگوں کی رسائی میں ہو گی تو وہ کتاب نہیں خریدیں گے۔ تو اب کتاب کو لائبریری میں رکھوانے پر بھی پابندی کا قانون بنوا لینا چاہیے کیا؟ تو اس قسم کی دلیلیں کاپی رائٹس کے حق میں دی جاتی ہیں۔
اچھا یہ بتلائیں کہ جب آپ نے کتاب بیچی ہے تو کس چیز کی قیمت وصول کی ہے؟ گتے، کاغذ اور روشنائی اور کتابت کی یا کتاب میں موجود مواد کی۔ اگر پہلی چیز کی قیمت وصول کی ہے تو ذرا بغیر مواد کے خالی صفحات کی کتاب فروخت کر کے دیکھیں؟ اور اگر دوسری چیز کی قیمت وصول کی ہے تو بغیر گتے، کاغذ، روشنائی اور کتابت کے ذرا علم کا سودا کر کے دیکھیں۔ تو در اصل آپ نے دونوں چیزوں کی قیمت وصول کی ہے۔ بھئی آپ نے مجھے وہ کاغذ، گتا اور روشنائی بھی بیچی ہے اور اس کتاب میں موجود مواد بھی بیچ دیا۔ آپ اپنا علم بیچ چکے، اب یہ آپ کا نہیں رہا، اب یہ میرا علم ہے۔ اب آپ کی پچ (pitch) پر بات ہو رہی ہے۔ [جاری ہے]
ایک تبصرہ شائع کریں