السلام علیکم دادا جان۔ احمر ہمدان کھانے کی میز پر آیا جہاں پہلے سے ہی سلطان ہمدان اس کا انتظار کررہے تھے۔
وعلیکم سلام۔ کیا لڑکے ہماری سکھائی ہوئی تمیز بھول چکے ہو تم؟۔ سلطان ہمدان نے احمر ہمدان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں دادا جان۔ احمر ہمدان شرمندہ ہوتے ہوئے آگے بڑھا اور سلطان ہمدان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیا۔
کیا حال ہے آپکا؟؟؟ احمر نے محبت بھری نظروں سے سلطان ہمدان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
میں بلکل ٹھیک اب تم اگئے ہو نہ اب تو ایک نئ تازگی کا احساس ہورہا ہے۔ سلطان ہمدان نے احمر کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا۔
جاؤ بیٹھو باقی باتیں کھانے کے بعد کرے گے۔ سلطان صاحب نے احمر کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا۔
احمر خاموشی سے اٹھا اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جا کر بیٹھ گیا۔
پیش کرے۔ سلطان صاحب نے ہاتھ کا اشارہ ملازموں کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
سب ان کے ایک اشارے پر دوڑتے آئے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کا بہت دبدبا ہے۔ اور سب ان کے ایک اشارے پر چلتے ہیں۔
برخودار اب کب تک ارادہ ہے اس طرح تنہا زندگی گزارنے کا۔ سلطان صاحب نے کھانا کھاتے ہوئے بغیر احمر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
احمر جو خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا۔ اس کا نوالہ ہاتھ میں ہی رک گیا۔ اور وہ حیرانگی سے سلطان صاحب کو دیکھنے لگا۔
میں کوئی ایسی بات نہیں کی کہ تم ہاتھ روک لوں کھانا کھاؤ اور جواب بھی دو۔ سلطان صاحب ابھی بھی بغیر احمر کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہے تھے جس کے چہرے سے ناگواری ظاہر ہورہی تھی۔
جب تک سانس ہے میری تب تک۔ احمر نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
ہممم مطلب جس طرح میں نے اکیلے پن میں زندگی گزاری ویسے ہی گزارنا چاہتے ہو۔ سلطان صاحب نے کھانا کھانا روک دیا اور سوالیہ نظروں سے احمر کو دیکھنے لگے۔
دادا جان بھوک بہت لگی اتنے عرصے بعد ایسا کھانا کھا رہا پھر کبھی بات کرے گے اس پر۔ احمر نے اپنی جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
ہممممممم کھانا کھاؤ اور میرے کمرے میں آؤ اس بار بات کا کوئی فیصلہ آج کر ہی لیتے۔ سلطان صاحب نے احمر کی بات سنی اور دوبارہ کھانے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
جی بہتر دادا جان۔ احمر نے آہستگی سے کہا اور کھانا کھانے لگ گیا۔
کچھ ہی دیر میں کھانے سے فارغ ہو کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا اور اسی تصویر کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ اور سوچنے لگا کہ کیسے دادا جان کو سمجھایا جائے۔
بہت خوشی ہورہی نہ تمہیں میری بے بسی دیکھ کر لیکن میں بھی انہیں کا پوتا ہو۔ ایمورشنل بلیک میل نہیں ہونگا۔ سن لو تم بھی۔ احمر دیوانہ وار تصویر کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے سگار کی ڈبیہ نکالی اور پھر سگار جلا کر پھونکنے لگا۔
چھوٹے صاحب آپکو بڑے صاحب بلا رہے ہیں۔ ملازم نے دروازہ کھلا دیکھا تو احمر ہمدان کی طرف دیکھ کر بولا۔
ہممممممم اچھا ۔ احمر نے ایک لمبا کش لیا اور سگار بجھا کر سیدھا سلطان صاحب کے کمرے کا رخ لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمر ہمدان کچھ دیر کیلئے دروازے کے باہر رکا اور پھر حوصلہ کرکے دروازے پر دستک دی۔
آجاؤ۔ احمر ہمدان نے ایک بھاری اور رعب دار آواز سنی تو دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔
سلطان ہمدان اپنے بیٹے کی تصویر کے سامنے کھڑے نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
معلوم تمہیں احمر میں کتنا اکیلا ہوگیا تھا جب تمہارے باپ اور ماں کا انتقال ہوا تھا۔ میرا سہارا تھا وہ۔ پھر تم آئے امید اور مضبوط ہوئی کہ میرا نام لینے والا کوئی ہوگا جو میرا نام زندہ رکھے گا۔ خود کو سنبھالا صرف تمہارے لیے۔ سلطان ہمدان صرف احمر کے سامنے ہی کمزور پڑتے تھے انکی آواز بھی مدھم ہوگئی تھی۔
جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کا غم ابھی تک تازہ ہے اور ان کو مسلسل تکلیف دے رہا ہے۔
سلطان صاحب مڑے اور احمر کی طرف دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا۔ سلطان ہمدان کو دیکھ کر فورا انکی طرف بڑھا اور انکا ہاتھ تھاما۔
احمر نے انکی حالت کو سمجھاتے ہوئے انہیں کرسی پر بٹھا دیا اور خود ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
دونوں ہاتھوں کو آپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اپنے ہونٹ ان پر رکھ دیے۔
میں تمہیں بستا ہوا دیکھنا چاہتا ہو چاہے اس کو میرا حکم سمجھو یا میری آخری خوائش۔ سلطان صاحب نے نے احمر کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
دادا جان بس بھی پلیز۔ احمر ہمدان جو کسی کے سامنے جھکتا نہیں تھا اپنے دادا کی بات سن کر تڑپا اٹھا تھا۔
مجھے دیکھو سب غم دفن کیے دل میں جی رہا ہو۔ ماضی کو بھول کر آگے بڑھو میرے بیٹا ورنہ زندگی بہت مشکل ہوجائے گی تمہارے۔ میں بھی بڑھا صرف تمہارے لیے اب تمہاری باری۔ سلطان صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھے اور اپنے بیڈ کی طرف رخ کیا۔
جبکہ احمر ہمدان وہی بیٹھا اپنی سوچ میں گم کچھ سوچ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی پریشے ساجد صاحب کو لے کر باغ کی طرف بڑھ گئی۔
پتہ نہ بابا کتنی ضروری ہے ورزش آپ کے لیے ماما بتا رہی تھی آپ چھوڑ چکے تھے۔ میرے جانے کے بعد اب میں آگئی ہوں نہ تو اب روز میرے ساتھ آپ نے ورزش کرنے آنا ہے اچھا۔ پریشے نے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔
ہاں ٹھیک ہے پری۔ پہلے میں اکیلا تھا نہ اب تو تم آگئی ہو مل کر واک کرے گے۔ ساجد صاحب نے پریشے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
چلے اب تیز تیز میں ایک راونڈ لگا کر آتی۔ چلے شاباش۔ پریشے نے کہا اور اور ہینڈ فری لگا کر تیزی سے جاگنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمر ہمدان کل رات سے پریشان تھا جس کی وجہ سے وہ پوری رات سکون سے نہ سو سکا۔
احمر نے اپنا جاگنگ ڈریس پہنا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
چھوٹے صاحب کچھ چاہیے آپکو؟؟ ملازم نے دیکھا تو بھاگتا ہوا احمر ہمدان کے پاس آ کر بولا۔
دادا جان اٹھ گئے ہیں کیا؟ احمر نے ملازم کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
جی وہ اٹھ گئے ہیں اور لاؤن میں ہی بیٹھے ہیں۔ ملازم نے جواب دیا۔
اچھا ڈرائیود سے کہوں میری گاڑی نکالے اور فریش جوس کی بوتل بھی گاڑی میں رکھ دوں۔ احمر نے کہا اور سیدھا لاؤن کا رخ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم دادا جان۔ احمر ہمدان نے سلطان صاحب کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور آگے بڑھتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیا۔
وعلیکم سلام صبح بخیر۔ کہاں چلے جناب۔ سلطان صاحب نے احمر ہمدان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
دادا جان میں ہی نہیں آپ بھی۔ چلے باہر ذرا فریش ہو کر آتے گھر بیٹھ بیٹھ کر تھک جاتے ہونگے۔ احمر ہمدان نے سلطان صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں تم جاؤ میں یہی ٹھیک۔ سلطان صاحب نے احمر ہمدان کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔
نہیں آپ بھی چل رہے میرے ساتھ اٹھے۔ احمر ہمدان نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کھڑا ہوگیا۔
چلو جی چلو پوتے کی خوائش سر آنکھوں پر۔ سلطان صاحب اٹھے اور دونوں گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔
کچھ ہی دیر میں دونوں باغ میں پہنچ گئے۔
احمر ہمدان نے گاڑی پارک کی اور سلطان صاحب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے انہیں اندر لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا آپ تھک گئے ہو کیا۔ پریشے نے ساجد صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں کافی ٹائم بعد کی نا جاگنگ اسلیے۔ ساجد صاحب نے پھولتی ہوئی سانس سے بڑی مشکل سے کہا۔
اچھا یہ لے پانی آپ یہاں بیٹھ جاؤ ذرا ریلیکس کرو میں دو اور چکر لگا کر آتی۔ پریشے نے کہا اور پھر سے جاگنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادا جان آپ بیٹھے یہاں میں ذرا جاگنگ کر کے آیا ٹھیک ہے۔ احمر ہمدان نے سلطان صاحب کو بٹھاتے ہوئے کہا اور خود جاگنگ کرنا شروع کردی ۔
احمر کو جاگنگ کرتے ہوئے باہر سے ویڈیو کال آئی۔ تو وہ جاگنگ کے دوران رک گیا۔ اور ویڈیو کال پر بات کرنے لگ گیا۔
ابھی وہ بات کرہی رہا تھا۔ کہ اچانک کوئی اس کے پیچھے سے ٹکڑایا۔
احمر کو بھی زور کا جھٹکا لگا تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی لڑکی نیچے گری ہوئی تھی اور وہ نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی کہ کہیں اسے چوٹ تو نہیں لگی۔
احمر نے دیکھا تو فورا کال بند کی اور اپنا ہاتھ بڑھایا۔
جیسے ہی پریشے نے احمر کی طرف دیکھا تو فورا بولی۔
آپ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ احمر بھی پریشے کو دیکھ کر چونک گیا تھا اور فورا اپنا ہاتھ پیچھے کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساجد صاحب اپنی سانس کو نارمل کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ تبھی کسی نے انکی کمر پر ہلکے ہاتھ سے تھپکی دینا شروع کی۔
جب ساجد صاحب نارمل ہوئے تو کسی نے انہیں پانی کی بوتل پکڑائی۔
ساجد صاحب نے پانی پیا اور پھر مڑ کر دیکھا۔
اب بہتر محسوس کررہے ہیں آپ کہ نہیں۔ سلطان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
جی بہت بہت شکریہ۔ ساجد صاحب نے مسکرا کر جواب دیا۔
سلطان صاحب بھی ساجد صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔
ساجد صاحب نے جب سلطان صاحب کو دیکھا تو انہیں ایسا لگا کہ جیسے وہ انہیں جانتے ہو۔
سلطان صاحب بھی اسی کشمکش میں مبتلا تھے
پھر اچانک ساجد صاحب کو یاد آیا اور بولے کیا آپ ہمدان انڈسٹری کے مالک ہے!!!
جی جی اور آپ خانز انڈسٹری کے مالک ہے نہ۔ سلطان صاحب نے یاد کرنے کے انداز میں کہا۔
ہاں ہاں ہم اس بار آپس میں ڈیل کر رہے ہیں اور ملے بھی تھے ہم ایک میٹنگ میں۔ ساجد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بلکل بجا فرمایا۔ سلطان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
آپ یہاں؟؟؟؟ ساجد صاحب نے سلطان صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
جی میرا پوتا آیا ہے کافی عرصے بعد لندن سے تو اس نے ضد کی اور میں منع نہ کر سکا۔ سلطان صاحب نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
واہ ایک جیسی حالت میری بیٹی بھی باہر سے آئی ہے اور وہ بھی ضد کرکے مجھے یہاں لے آئی۔ ساجد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یہ تو بہت اچھا ہوا چلے مجھے بھی کوئی ساتھی مل گیا۔ سلطان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اور سنائے کیا حال ہے آپکا؟؟؟ ساجد صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
اسطرح دونوں کے درمیان گفتگو کا آغاز ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم یہاں کیا کررہی ہو؟؟؟؟ احمر ہمدان نے آنکھ کی آئی برو اچکا کر کہا۔
کیوں جی اپکا باغ ہے یہ۔ پریشے نے خود کو اٹھایا اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے سامنے کھڑی ہو کر بولی۔
ایسا نہیں کہا میں؟ احمر ہمدان پریشے کے تیور دیکھ کر بولا۔
کہہ بھی نہیں سکتے اور پیچھے ہو آپکو پتہ نہیں یہ ویڈیو کال کرنے کی جگہ نہیں۔ پریشے نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
تو تم اندھی تھی میرا چہرہ اس طرف تھا تم تو دیکھ سکتی تھی نہ احمر ہمدان نے اکڑتے ہوئے کہا۔
اوئے مسٹر لیمٹ ہاں۔ پریشے نے انگلی دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں تو کیا ہاں پتہ نہیں تمہیں گھر والے کیسے برداشت کرتے ہیں؟؟ احمر ہمدان نے طنزیہ مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا۔
ہاں میں بھی اپکے بارے میں یہی رائے رکھتی ہوں۔ کھڑوس مکھی چوس۔ پریشے نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے کہا۔
کیا کہا مجھے ؟؟؟احمر ہمدان نے غصے میں کہا۔
کیوں اب سنائی بھی کم دیتا ہے؟ پریشے نے طنزیہ مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا۔
تمممممم۔۔۔۔۔ احمر ہمدان اتنا ہی کہہ سکا کہ پریشے نے کانوں میں ہینڈ فری لگائی اور اگنور کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
بد تمیز ہہہہہہہہہہ۔ احمر ہمدان نے کہا اور وہ بھی اپنے راستے کی طرف بڑھ گیا۔
ایک تبصرہ شائع کریں