ظاہر ہے بھلا اس بات سے کس مسلمان کو اعتراض ہو سکتا ہے؟ ایک مسلمان کے لیے معاملے میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ تمام تر اختیار اور فیصلوں کا قطعی حق صرف اللہ کی ذات کا ہے۔ لیکن جب اس بات کو ہم آج کے دور کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو صورتحال یہ ہے کہ محمد الرسول اللہ کی وفات کے بعد نبوت ختم ہوگئی یعنی ہمیں دین مکمل کر کے دے دیا گیا ہے اب ہمیں اس دین کی روشنی میں اپنے دنیاوی معاملات کے فیصلے کرنے ہیں اور یہ فیصلے کرنے والے تمام لوگ غیر نبی ہونگے یعنی کسی کو اپنی بات یا فیصلے کے حق میں ؐوحی کی دلیل حاصل نہ ہوگی۔ لہذا آج ہمارے دنیاوی حالات کے فیصلے ہماری لیڈرشپ کو کرنے ہونگے مثلا یہ کہ تعلیم کے شعبے میں کیا اصلاحات ضروری ہیں، بجلی کا بحران کیسے حل ہوگا، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے وغیرہ یہ تمام فیصلے عوام کے لیے انکے لیڈر انجام دینگے اور اس لیڈرشپ کو چننے کے صرف دو ہی طریقے ہیں، یا تو تلوار اور بندوق کے زور پر کوئی فرد یا بادشاہ عوام کے سر پر آ بیٹھے اور یا پھر عوام اپنے فیصلوں کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرلیں۔ یعنی اب جبکہ خدا کسی کا تقرر نہیں کر رہا تو پھر ظاہر ہے یہ تقرری لوگوں کی رائے پر ہی مبنی ہوگی۔ مسلمانوں کو بحیثیت قوم اور اُمت یہ بات اب تک سمجھ نہیں آئی یا یوں کہیے کہ اب جا کر سمجھ آنا شروع ہوئی ہے، اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم پر خلافت راشدہ کے بعد سے صدیوں تک ملوکیت یعنی بادشاہت نافذ رہی ہے لیکن ہمیں ہمیشہ یہ سمجھایا جاتا تھا کہ یہ خلافت ہے۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ بقول اقبال ہم ’’کشتہٴ سلطانی و ملائی و پیری‘‘ کا شکار رہے یعنی صدیوں تک مسلمان مذہب میں مقلّد و مرید بنے رہےاور سیاست میں محکوم بنا کر رکھے گئے۔ آج بھی آپ اپنے اردگرد مسلمان اقوام کی حالت دیکھ لیجئے، ہمارے ہاں سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں طالبان کی قائم ہونے والی تین قابل ذکر حکومتیں بادشاہیت، پاپائیت اور مُلّائیت پر ہی مبنی ہیں کیونکہ یہی سب ہماری نفسیات میں شامل ہو چکا ہے۔ تو جس قوم کا یہ حال ہو ظاہر ہے اسے فوری طور پر جمہوریت کو سمجھنے یا اپنانے میں دشواری ہوگی اور اس میں وقت لگے گا۔ برس ہا برس تک چونکہ مسلمانوں کو علم اور شعور سے دور رکھا گیا لہذا ہمارے ہاں آزادانہ تحقیق کی فضا ہی کبھی نہیں بن پائی اور آج دنیا میں اسکے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ آج ہمیں یہ بنیادی بات بہر حال سمجھنا ہوگی کہ اگر آپ لوگوں کو آزادانہ ریسرچ کا حق دینگے تو اس میں اختلاف بھی ہوگا لیکن یہ اختلاف اگر دلیل سے پیش کیا جائے تو یہی ہمارے لیے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرے گا۔ مغرب نے اس راز کو سمجھ لیا انہوں نے اپنے لوگوں کی سوچ پر پابندی لگانے کی بجائے معاشرے اور بالخصوص اداروں اور یونیورسٹیوں میں آزادانہ ریسرچ کا حق اور ساز و سامان میسر کیا لہذا وہ کہاں سےکہاں پہنچ گئے، اور ہم دنیا کے بہترین دین کے دعویدار ہوتے ہوئے بھی اور دنیا کے بہترین قدرتی ذخائر کے مالک ہونے کے باوجود انکے محکوم بن گئے۔ یہ اس لیے کہ ہم نے بطور حکمران لوگوں کو ذہنی طور پر پسماندہ رکھا، انہیں سوچنے اور سمجھنے یا آزادنہ تحقیق اور اختلاف رائے کا حق نہیں دیا۔ لیکن اب جب دنیا میں معاملہ الٹ گیا ہے تو ہمارے علماء جنہوں نے صدیوں تک عوام اور دیگر دنیا پر اقتدار اور حاکمیت انجوائے کیے انہیں وہ دور واپس لانے کا طریقہ سمجھ نہیں آتا۔ لہذا انکی اکثریت مودودی صاحب کی طرح دین اسلام کو ایک سامراجی مذہب سمجھ کر دنیا پر چڑھ دوڑنے اور دیگر اقوام کو تلوار کے زور پر اپنا محکوم بنانے کے خواب دیکھتے اور لوگوں کی اسکی ترغیب دیتے ہیں جسکے نتیجے میں دین اسلام آج پوری دنیا کے سامنے رسوا ہو رہا ہے۔
عوام کی حاکمیت ۔ سورة الانعام کی آیت 116
جمہوریت پر قرآن کی روشنی میں ایک اور اعتراض سورة الانعام کی آیت 116 کی روشنی میں کیا جاتا ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ، ’’اور اگر تم ان لوگو ں کا کہا مانو گے جو دنیا میں ہیں تو تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے وہ تو اپنے خیال پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں‘‘۔ قرآن کی یہ آیت درحقیقت حق و باطل کے فیصلے سے متعلق ہے۔ یعنی اگر حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہوگا تو یقیننا اکثریت کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مثلا ساری دنیا بھی مل کر اگر یہ کہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے تو بھی اسے ماننا ایک مسلمان کے لیے لازم نہ ہوگا۔ لہذا اگر آپ ایک سچ بات کو لے کر کھڑے ہیں تو چاہے ساری دنیا آپکےخلاف ہو جائےاسکی کوئی اہمیت نہیں ہوگی صحیح اور درست کا فیصلہ صرف دلیل کی بنیاد پر ہوگا اکثریت کے فیصلے پر نہیں۔ سورة الانعام کی یہ آیت درحقیقت اس حق و باطل کی نشاندہی کرتی ہے اور مسلمانوں کو بتاتی ہے کہ یہ سچائی کی دعوت ہے چاہے ساری دنیا اسکا انکار کیوں نہ کر دے۔ اس آیت کا درست سیاق و سباق جاننے کے لیے آیت نمبر 113 سے لے کر 116 تک ایک ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ جبکہ جمہوریت میں حق و باطل کے نہیں بلکہ نزاع کے فیصلے ہوتے ہیں یعنی یہ کہ لوگوں کا نظام کیسے چلے گا، لوگوں کے حقوق انہیں کیسے میسر ہونگے اور اس حوالے سے اگر اختلاف ہو جائے تو اسکا فیصلہ پر امن طریقے سے صرف اور صرف اکثریت کی رائے کی بنیاد پر ہوگا۔ اسی سے ایک متعلقہ اعتراض کثیر الجماعتی نظام پر بھی کیا جاتا ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو صرف دو گرہوں یا جماعتوں یعنی مسلمان اور کافر میں تقسیم کیا ہے جبکہ جمہوریت میں مختلف جماعتیں ہوتی ہیں لیکن یہاں بھی وہی بات ہوگی کہ یہ حق و باطل کا فیصلہ نہیں بلکہ ملکی انتظام کو چلانے اور نزاع کے فیصلوں کا معاملہ ہے۔ اور اگر ان فیصلوں کو لوگوں کی اکثریت پر نہ چھوڑا جائے تو پھر صرف بندوق و تلوار کا آپشن ہی باقی رہ جاتا ہے۔ لہذا سورة الانعام کی یہ آیت سورة الشوریٰ کی آیت ۳۸ یعنی امرھم شوریٰ بینھم سے بالکل مختلف بات بیان کر رہی ہے اور قرآن کو آیات کو سیاق و سباق سے باہر کردینے کا یہی نقصان ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ حدیث کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ ہم ایک مخصوص حالات میں کی گئی بات کو دین کا عمومی حکم بنا دیتے ہیں۔ مثلا روایتوں میں ذکر ملتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا رات کو چراغ بچھا کر سویا کرو ، تو اب کیا ہم اسے دین کا حکم مان لیں اور کہیں کہ اگر رات کو بتی بجھا کر نہ سویا جائے تو یہ گناہ ہو جائے گا؟ ظاہر ہے کہ یہ حکم ایک خاص دور سے متعلق تھا جب لوگوں خیموں میں رہتے تھے اور جہاں چراغ سے آگ لگنے کا خطرہ ہوتا تھا لہذا حکم دیا گیا کے سونے سے پہلے انہیں بجھا دیا کرو، لیکن آج جب ہمارے پاس بجلی کے بلب موجود ہیں تو اس ہدایت کے معنی بالکل ویسے نہیں لیے جائینگے۔
مملکت پاکستان اور یہود و نصاریٰ کا نظام
اسی طرح برصغیر پاک و ہند کے تناظر میں ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو لا الہٰ الاللہ کے نام پر حاصل کیا گیا یعنی اللہ نے ہمیں یہ مملکت اس لیے عطا فرمائی کیونکہ اسے حاصل کرتے وقت ہم نے اپنے رب سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اسکی بنیاد لا الہٰ الاللہ محمد الرسول اللہ کے کلمے پر ہوگی لہذا ایک ایسے ملک کی خواہش کی گئی جس میں صرف ایک اللہ کو مالک ، رازق، داتا اور مُشکل کشا مانا جائے گا اور تمام قولی ، فعلی اور جسمانی عبادات کا مستحق صرف ایک اللہ کی ذات اقدس کو بنایا جائے گا۔ لیکن ملک بنتے ہی اس وعدے کو فراموش کردیا گیا اور نہ صرف عقیدے اور عبادت میں ایک مالک حقیقی کی ذات سے دور ہوئے بلکہ ملک چلانے کے لیے یہود و نصاریٰ کے مرتب کردہ جمہوری نظام کو چن لیا۔ اس اعتراض کا پہلا حصہ یقینناً درست ہے کہ ایک اللہ کی عبادت بہرحال لازمی شرط ہے لیکن یہاں بھی مُسلّمات کو طے کر لینے کے بعد ان تک پہنچنے کے طریقہٴ کار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یعنی کیا اس ملک کا قیام اکثریت کی رائے کی بنیاد پر عمل میں نہیں آیا؟ کیا لوگوں کی اکثریت نے اپنا جمہوری حق استعمال نہیں کیا کہ اسلام کے نام لیواؤں کا اپنا علیحدہ ایک ملک ہونا چاہئے؟ کیا قائد اعظم ایک جتھا منظم کرکے اور تلواریں سونت کر پارلیمان پر قابض ہوگئے جسکے نتیجے میں یہ ملک حاصل ہو گیا؟ ہمارے مذہبی حلقوں کی جمہوریت دشمنی کا یہ عالم ہے کہ وہ جمہوری سوچ اور پراسس کے تحت وجود میں آنے والے ایک ملک کے نظام میں جمہوری اصولوں کو جگہ دینے کے روادار نہیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ آپ لوگوں کی عمومی تربیت میں وقت لگاتے تاکہ وہ ایک اللہ کی عبادت کرنے کے اپنے وعدے کو یاد رکھتے لیکن بھلا اس کا جمہوریت کے نظام سے کیا تعلق ہے؟ لہذا اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ملک کا نظام اسلامی طرز کا ہوتو اسکے لیے لوگوں کی تربیت کیجئے اور انہیں دین کے قریب آنے کی دعوت دیجئے، جیسے جیسے عوام الناس کی اکثریت دین کو سمجھ کر اسے اپنی مرضی سے اپنی زندگیوں میں جگہ دے گی ویسے ویسے معاشرے کے عمومی خدّوخال اور اسکا نظام اسلامی ہوتا چلا جائےگا۔ لیکن یہاں بھی دینی حلقوں کی کوشش یہ رہی کہ کسی طرح سے ملک کی باگ دوڑ انہیں دے دی جائے، وہ اسکے لیے لوگوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل کرنے کو تیار نہ تھے۔ اب اگر طرز حکومت بدلنے کا یہ طریقہ اپنایا جائے گا کہ چند لوگ اسلام کے علمبردار اور خدائی فوجدار بن کر کس چور دروازے یا غیر قانونی طریقے سے اختیار حاصل کرلیں اور پھر اپنی مرضی اور منشا کو اسلام کہ کر لوگوں پر مسلط کریں تو اسکے نتیجے میں لوگ بغات کریں گے اور دین سے مکمل طور پر متنفر ہو جائیں گے کیونکہ ان پر دین زبردستی ٹھونسا جائے گا۔ یہی کام طالبان نے افغانستان میں کرنے کی کوشش کی اور ہمارے ہاں تحریک طالبان نے بھی یہی انداز اپنایا اور نتیجہ کیا نکلا؟ لوگوں کی اکثریت سیکولر ازم کی جانب مائل ہوئی بالکل ویسے جیسے ہم نے اس مضمون کے پہلے حصے میں مغربی اقوام کے حوالے سے لکھا کہ وہاں سیکولرازم مذہبی حلقوں کی جانب سے عوام کے استحصال کے نتیجے میں وجود میں آیا یعنی یہ بذات خود مذہب کے نہیں بلکہ مذہبی طبقے کی حکومت کے خلاف بغاوت تھی اور یہی کام آج ہمارے ہاں ہورہا ہے۔
خلفاء کی تقرری
جمہوری نظام کے خلاف سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ نبیؐ کی وفات کے بعد خلفاء کرامؓ کی نامزدگی میں جمہوریت کا کوئی عمل دخل نہ تھا لہذا یہ نظام کسی طور اسلامی نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ایک بنیادی بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ نبیؐ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی وفات کے بعد پیدا ہونے والے کسی ممکنہ خدشے کا سدّباب کردیا اور اس حوالے سے ’’الائمۃ من قریش‘‘ (ترجمہ: میرے بعد امامت قریش کو منتقل ہو جائے گی) کا حکم ارشاد فرما دیا۔ اس ارشاد سے مراد کسی ایک خاندان یا نسل کی حکومت قائم کرنا نہیں تھا بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اہل قریش کو عرب میں نبیؐ کی پیدائش سے بھی پہلے سے سیاسی اقتدار حاصل تھا۔ کسی بھی قبائلی نظام میں ایک خاندان یا قبیلے کو لوگوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا انتہائی اہمیت کا باعث سمجھا جاتا ہے اور اہل قریش اس اعتبار سے ہمیشہ سے بہتر تصور کیے جاتے تھےاور نبیؐ کی بعثت کے بعد انکی بے بہا خدمات نے انہیں عربوں میں ایک امتیازی حیثیت عطا کی لیکن چونکہ اس حوالے سے بعد ازاں انصار کی خدمات بھی بڑی نمایاں تھیں لہذا اس بات کا قوّی امکان تھا کہ نبیؐ کی وفات کے بعد مسلمان لیڈرشپ کے حوالے سے انتشارکا شکار ہو جاتے۔ سو ’’الائمۃ من قریش‘‘ کے اس فیصلے کی ذریعے نبیؐ نے خود ہی اس خطرے کا امکان ختم کردیا۔ پھر اللہ کے نبیﷺ کے اس حکم کی روشنی میں عمربن خطابؓ نے جب ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کا اعلان فرمایا تو کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ البتہ عمرؓ بن خطاب نے اپنے اس اقدام کو بعد ازاں خود ہی واضح کردیا تاکہ کوئی قرآن مجید کے حکم امرھم شوریٰ بینھم کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش نہ کرے۔ امام بخاریؒ نےعمرؓ کی اس وضاحت کو اپنی صحیح میں یوں رقم کیا ہے۔
تم میں سے کوئی شخص اِس بات سے دھوکا نہ کھائے کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ہوئی اور لوگوں نے اُسے قبول کر لیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اُن کی بیعت اِسی طرح ہوئی، لیکن اللہ نے اہل ایمان کو اُس کے کسی برے نتیجے سے محفوظ رکھا اور یاد رکھو، تمھارے اندر اب کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ ابوبکر کی طرح جس کے سامنے گردنیں جھک جائیں۔ لہٰذا جس شخص نے اہل ایمان کی رائے کے بغیر کسی کی بیعت کی، اُس کی اور اُس سے بیعت لینے والے، دونوں کی بیعت نہ کی جائے۔ اِس لیے کہ اپنے اِس اقدام سے وہ گویا اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے۔
اسی طرح ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے وقت بھی عرب میں قریش کی نمایاں حیثیت برقرار تھی اور انصار یا کسی اور قبیلے نے انکے مقابلے میں اکثریت کا اعتماد حاصل نہ کیا تھا لہذا ابو بکرؓ نے خود ہی عمرؓ کا نام تجویز کردیا جس پر کسی نے اعتراض نہ کیا، لیکن یہ نامزدگی بھی لوگوں سے مشورہ کیے بغیر نہ ہوئی جیسا کہ ابن سعد کی اس روایت سے واضح ہے۔
ابوبکر صدیقؓ پر بیماری نے غلبہ پا لیا اور اُن کی وفات کا وقت قریب آگیا تو اُنھوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور اُن سے کہا: مجھے عمر بن الخطاب کے بارے میں بتاؤ، عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آپ مجھ سے ایک ایسے معاملے کے بارے میں رائے چاہتے ہیں جسے آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ابوبکر نے فرمایا: اگرچہ (یہ درست ہے، لیکن تم اپنی رائے دو۔) اِس پر عبدالرحمن بن عوف نے کہا: خدا کی قسم، وہ اُس رائے سے بھی بڑھ کر ہیں جو آپ اُن کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پھر اُنھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو طلب کیا اور اُن سے کہا: مجھے عمر کے بارے میں بتاؤ۔ حضرت عثمان نے جواب دیا: ہم سے زیادہ آپ اُنھیں جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اِس کے باوجود، اے ابوعبداللہ، (میں آپ کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔) اِس پر حضرت عثمان نے کہا: بے شک، میں تو یہ جانتا ہوں کہ اُن کا باطن اُن کے ظاہر سے بہتر ہے اور اُن جیسا ہمارے اندر کوئی دوسرا نہیں ہے۔
اُنھوں نے اِن دونوں حضرات کے ساتھ ابو الاعور سعید بن زید ،اسید بن الحضیر اوراِن کے علاوہ مہاجرین و انصار کے دوسرے لیڈروں سے بھی مشورہ کیا تو اسید نے کہا: بے شک، میں آپ کے بعد اُنھیں سب سے بہتر سمجھتا ہوں۔ وہ خوشی کے موقع پر خوش اور ناراضی کے موقع پر ناراض ہوتے ہیں ۔ اُن کا پوشیدہ اُن کے ظاہر سے بہتر ہے۔اِس خلافت کا بوجھ اُن سے بڑھ کر کوئی نہیں اٹھا سکتا۔
لہذا عمرؓ کا انتخاب بھی قبائلی دور کے طریقے پر مہاجرین اور انصار کے لیڈرآن کے مشورے سے کیا گیا ، یعنی یہ ابوبکرؓ کا مطلق العنان فیصلہ نہ تھا بلکہ عمرؓ کو اکثریت کی رائے کا اعتماد حاصل تھا۔
اسی طرح جب عمرؓ قاتلانہ حملے کے نتیجے میں زخمی ہوئے تو اسوقت بھی اکثریت کا اعتماد اہل قریش کو ہی حاصل تھا لہذا عمرؓ نے یہ معاملہ چھ بڑے لیڈران کے سپرد کر دیا اور فرمایا ’’میں نے تمھارے لیے امامت عامہ کے مسئلہ پر غور کیا ہے اور اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خلافت کے معاملے میں لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں، الاّ یہ کہ وہ تم میں ہو ۔ پس اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ تمھارے اندر ہی محصور ہے۔ لہٰذا اب یہ معاملہ تم چھ اصحاب عبد الرحمن، عثمان، علی، زبیر، طلحہ اور سعد کے سپرد ہے ۔ (الطبقات الکبریٰ ۳/ ۳۴۴ )۔ بخاری اور ابن سعد، دونوں کی روایت ہے کہ یہ چھ لوگ جب جمع ہوئے تو عبدالرحمن بن عوفؓ نے اُن میں سے تین کو تین کے حق میں دستبردار ہونے کا مشورہ دیا۔ اس پر سب متفق ہوئے اور دستبرداری کے نتیجے میں تین لوگ بچے یعنی عثمان، علی اور خود عبدالرحمٰن بن عوف۔ پھر اُنھوں نے علی و عثمان سے کہا کہ وہ اِس معاملے کا فیصلہ اُن کے سپرد کر دیں لہذا پھر عبدالرحمٰن بذات خود خلافت کے حق سے دستبردار ہوگئے جسکے بعد عثمانؓ کے ہاتھ پر انہوں نے اور دیگر تمام نے بیعت کرلی۔ یعنی عمرؓ نے قبائلی طریقہ کے مطابق عوام الناس میں اچھی شہرت رکھنے والے چھ لوگوں کے نام دے دیے اور ان چھ نے اپنے درمیان میں سے ایک کا انتخاب کرلیا لہذا انتخاب بہرحال ہوا جس پر عوام الناس نے اعتراض نہ کیا۔
علیؓ کے انتخاب کے بارے میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی انتخاب کے طریقہ کے کسی بنیادی اصول کے خلاف نہ تھا بلکہ دیگر مسائل پر مبنی تھا۔ لہذا خلافت راشدہ کے حوالے سے یہ بات طے ہے کہ اقتدار کی منتقلی نبیؐ کے فرمان اور قرآن کے عمومی حکم کے تحت اکثریتی رائے اور بڑے لیڈروں کے باہمی مشورے سے ہوئی، فرق صرف یہ تھا کہ عمرؓ کے حوالے سے ابوبکرؓ نے خود باہم مشاورت سے فیصلہ فرما دیا جبکہ عمرؓ نے جب اپنے دور میں لوگوں کی رائے کو مختلف پایا تو چھ لوگوں کے نام دے دیے جو عوام کا اعتماد رکھتے تھے۔
اسی طرح یہ کہنا بھی مناسب نہیں کہ نبیﷺ نے عوام الناس سے کبھی ووٹنگ نہیں کروائی خود ہی فیصلہ فرمایا، ظاہر ہے کہ جب لوگوں کے درمیان اللہ کا پیغمبر موجود ہوگا اور وحی الہٰی کا سلسلہ جاری و ساری ہوگا تو مشورہ کرنے کی ضرورت بھی نہ ہوگی، لیکن خلفاء راشدین کے طرز عمل سے واضح ہے کہ وہ بادشاہت کے قائل نہ تھے جہاں بادشاہ سلامت کے منہ سے جس وقت جو بات نکلتی اسے قانون کی حیثیت مل جاتی ۔ اوپر کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ خلفاء مشاورت کے قائل بھی تھے اور ضرورت پڑنے پر انہوں نے دیگر سرکردہ لوگوں کے مشورے سے کام کیا اور یہ لوگ شوریٰ کے ممبران نہیں بلکہ دیگر قبائل کے لیڈران تھے۔ یہ طرز عمل قبائلی زندگی میں عام ہے کہ جس شخص کے کردار یا قائدانہ صلاحیتوں پر لوگوں کو اعتماد ہو اور وہ معاشرے میں اچھی شہرت کا حامل ہو اسے باہمی مشورے سے کسی عہدے کے لیے چن لیا جاتا تھا۔ لیکن وہی بات کہ آج ہمارے دینی حلقوں کی جانب سے اس معاملے میں جس بنیادی بات کو قطعی طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ نبیﷺ اور صحابہ کا دور قبائلی تھا جبکہ آج دنیا قبائلی دور سے نکل کر ریاستی نظام یعنی نیشنل سٹیٹس کے دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں قبائلی طرز کے قوانین کا نفاذ ممکن ہی نہیں ہے۔ لہذا آج بھی لوگوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے صرف اسکا طریقہٴ کار بدل چکا ہے۔
ووٹنگ صرف موجودہ دور میں لوگوں کی اکثریت کی رائے جاننے کا طریقہ ہے کیونکہ دین اسلام اصول مہیا کرتا ہے اور طریقہٴ کار لوگ اپنے دور کے مطابق خود بنا لیتے ہیں۔ حال کو ماضی میں گھسیٹ لے جانا دین کا مطالبہ کبھی نہیں رہا ورنہ ہم سب آج بھی خیموں میں رہتے، مشکیزوں سے پانی پیتے اور صرف گھوڑوں اور اونٹوں پر ہی سفر کرتے۔۔
ووٹنگ ۔ عورت و مرد کی برابری
ایک اور مضحکہ خیز اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جمہوریت میں عورت و مرد کا ایک ایک ووٹ ہوتا ہے یعنی یکساں گواہی جبکہ دین اسلام میں عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ’’پوری عورت اور آدھی گواہی‘‘ نامی یہ رائے ہی قرآن کی آیت کی غلط تشریح پر مبنی ہےکیونکہ اس میں معاہدوں کی لکھت پڑت سے متعلق ایک خاص الخاص معاملے کو زبردستی دین کا ایک عمومی حکم بنا کر پہلے عورت ذات پر ناقص العقل ہونے کا الزام دھرا جاتا ہے اور پھر اسکی گواہی اور شہادت کے معاملے میں رائے سے لے کر اسکی پوری ذات کو ہی مرد کے مقابلے میں آدھا کردیا جاتا ہے حالانکہ ایسا کوئی حکم قرآن میں موجود نہیں ہے۔ اگر واقعی دین اسلام میں عورت مرد کے مقابلے میں آدھی حیثیت رکھتی ہے تو پھر دونوں کے لیے قیامت کے دن ایک ہی طرح کی جوابدہی اور جزا و سزا کا معاملہ کیوں رکھا گیا ہے؟ اللہ کی کتاب تو کہیں پر یہ نہیں کہتی کہ عورت سے ہر معاملے میں آدھا حساب کتاب لیا جائے گا کیونکہ اسکی عقل، گواہی اور ذمہ داری ہر چیز مرد کے مقابلے میں آدھی ہے۔ اسی طرح یہ گواہی والی بات منطقی اصولوں کے بھی خلاف ہے، مثال کے طور پر اگر کسی جگہ ایکسیڈنٹ ہو جائے یا کسی کو قتل کردیا جائے اور موقعٴ واردات پر صرف ایک عورت ہی واقعے کی گواہ ہو تو کیا عدالت اسکی شہادت کو صرف عورت ذات ہونے کی بنیاد پر رد کردے گی اور مجرم بری ہو جائے گا؟ لہذا یہ بے سرو پا قوانین ہمارے ہاں دینی حلقوں کی جانب سے عورت و مرد کو برابری کے حقوق نہ دینے کی ضد سے شروع ہوتے ہیں کیونکہ ان قوانین کو وضع کرنے والوں کی اکثریت مردوں کی ہے۔ عورت کی شہادت و گواہی سے متعلق انگریزی زبان میں ہمارا تفصیلی مضمون موجود ہے جس میں اس سارے معاملے پر بحث کی گئی ہے کہ اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ لہذا حکومت کے حوالے سے عوام کی مشاورت یا اکثریتی رائے کے معاملے میں بھی ہمارے دینی حلقے عوام کو قبائلی دور کے طریقوں کی طرف واپس لے جانے پر مصر نظر آتے ہیں حالانکہ دنیا اس سب سے بہت آگے آ چکی ہے۔ معاشرے بدل چکے ہیں آج دنیا کے بہت سے معاشروں میں خواتین کو تحفظ کے حوالے سے وہ مسائل درپیش نہیں جو پرانے دور کے قبائلی معاشروں میں ہوتے تھے۔ مثلا آج اکیلی خواتین بھی ہزاروں میل کا سفر بذریعہ ہوائی جہاز بہت کم وقت میں اور انتہائی آسانی کے ساتھ طے کرسکتی ہیں لہذا ان پر محرم کے ساتھ سفر کرنے کا حکم نافذ عمل نہ ہوگا کیونکہ اس حکم کی بنیادی وجوہات ہی آج موجود نہیں کہ دنیا نے ان مسائل کے حل کے حوالے سے بہت ترقی کرلی ہے۔ بالکل یہی اصول دیگر معاملات میں بھی اپنایا جائے گا کیونکہ آج خواتین زندگی کے ہر شعبے میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور جن معاشروں میں انہیں مردوں کے مقابلے میں یکساں حقوق اور مواقع ملتے ہیں وہاں وہ دین و دنیا ہر شعبے میں ویسی ہی کارکردگی دکھاتی ہیں۔
صالح اور فاسق کا فرق
ایک اور اعتراض کے مطابق جمہوریت میں ایک نیک آدمی اور ایک بدکار کا ووٹ برابر ہوتا ہے لہذا دو شریف لوگ اگر ایک باکردار امیدوار کو ووٹ دیں اور تین بدمعاش کسی بدکردار کو ووٹ دیں تو اسکے نتیجے میں وہ بدکردار امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچ جائےگا۔ یہاں بھی یہ مفروضہ قائم کرلیا جاتا ہے کہ شاید کسی گناہگار یا خطا کار سے اسکی رائے کا حق بھی چھین لیا جانا چاہیئے حالانکہ دین اسلام اس حوالے سے یہ بتاتا ہے کہ کسی پر جرم ثابت ہو تو اسے اسکی فوری سزا دو اور پھر معاشرے میں واپس چھوڑ دو۔ ورنہ کیا تمام مجرمین کو ملک بدر کردیا جائے ، سمندر میں پھینک دیا جائے یا پھر ان سے انکی شہریت اور ووٹ کا حق چھین لیا جائے؟ اگر کوئی چوری کرے تو اسکا ہاتھ کاٹ کر ساتھ میں اسے کالے پانی کی سزا دے دی جائے گی؟ اسی طرح اگر کسی ملک میں قانون کا نظام درست نہیں یا پھر لوگوں کی اکثریت نے بے راہ روی کو اپنا شعار بنا لیا ہے، کرپشن اور رشوت عروج پر ہیں جسکے نتیجے میں غلط لوگ پارلمینٹ میں آ جاتے ہیں تو اس میں جمہوریت کا کیا قصور ہے؟ ظاہر ہے آپکو نظام کا تسلسل برقرار رکھنا ہوگا اور ساتھ ساتھ لوگوں کو سمجھانا ہوگا، انکی غلط اور صحیح کی تمیز درست کرنا ہوگی تاکہ وہ بہتر لوگوں کو اپنے نمائندوں کی حیثیت سے آگے بھیجیں جسکے نتیجے میں ملکی نظام میں بہتری آئے۔ یعنی پھر وہی بات کہ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ فلاں صالح ہے لہذا اسے ہی حکمران ہونا چاہیئے اگر فیصلہ بندوق کی بجائے لوگ کریں گے تو پھر لوگوں کو ہی اپنا معیار بہتر کرنا ہوگا، کوئی آسمان سے ٹپکے گا اور نہ ہی سسٹم سے ہٹ کر کوئی اوپر آسکتا ہے کیونکہ اسے لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہوگی ۔ یہ کام تو بہت سے جرنیلوں نے پاکستان میں کیا ہے لیکن سب کو ہم آج بطور ڈکٹیٹر ہی جانتے ہیں کیونکہ کسی غیر نبی کو عوام کے مینڈیٹ کے بغیر انکا نمائندہ یا حاکم بننے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ لہذا ہمیں جمہوریت کو ہی یہ حق دینا ہوگا کہ وہ بہتر سے بہتر لوگوں کو سامنے لائے، اس میں وقت ہمیشہ لگتا ہے لیکن جیسے جیسے عوام کا شعور بہتر ہو ویسے ویسے انکے نمائندے بھی بہتر ہوتے ہیں۔ مغرب نے بھی راتوں رات اپنا نظام نہیں بدلا انہیں صدیاں لگی ہیں اس مقام تک آتے آتے۔ بالکل اسی طرح ایک ایسی جمہوریت میں جہاں لوگوں نے اسلام یا قرآن کو قانون سازی میں بنیادی حیثیت دے دی ہوگی وہاں اس قانون پر عمل درآمد کے لیے مسلمان ہونا نہیں بلکہ اس کام کا اہل ہونا اہم ہوگا۔ مثلا کسی ملک میں ایک ایماندار اور بہترین تعلیم و تجربہ رکھنے والا فنانس کا شخص اگر ہندو ہوگا تو اسے صرف اسکے مذہب کی وجہ سے پیچھے نہیں کردیا جائےگا بلکہ فنانس کی منسٹری اسے سونپی جائے گی کیونکہ یہ فیصلہ اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر کرنا ہوگا۔ ہاں یہ ہے کہ قانون سازی میں قرآن کے اصول کی روشنی میں سود سے پاک نظام بنایا جائے گا لیکن اس نظام پر عمل درآمد کے لیے مسلمان ہونا شرط نہ ہوگی ۔ دنیا کے جس ادارے، ملک یا گروہ میں صرف مذہب کے نام پر میرٹ کی دھجیاں اڑائی جائیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اور صورتحال یہی ہوتی ہے کہ بڑی بڑی داڑھیوں والے، فصاحت سے عربی بولنے والے اور اپنے حلیے سے مسلمان لگنے والے تکنیکی عہدوں پر براجمان تو ہو جاتے ہیں لیکن وہ اس شعبے اور اس سے متعلقہ کام کی ابجد سے واقف نہیں ہوتے اور نتیجتاَ عوام الناس، ادارے یا پھر ملک کا بھرکس نکال دیتے ہیں۔
حکومت اور منصب کی خواہش
ایک اور اعتراض کے مطابق جمہوریت میں تمام لیڈر یا پارٹیاں اقتدار کی خواہش رکھتے ہیں جبکہ حکومت یا منصب کی خواہش رکھنا اسلام میں منع کیا گیا ہے۔ یہ اعتراض درحقیقت اُن احادیث کی غلط تاویل کا نتیجہ ہے جن میں منصب کا حریص ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ لہذا منصب کا حریص ہونا ایک بات ہے اور کسی عہدے یا منصب کے لیے اپنے آپکو نیک نیتی سے پیش کرنا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ آج آپ فوج یا بیوروکریسی یا پھر کسی اور عہدے کے لیے باقاعدہ اپلائی کرتے ہیں یعنی اپنے آپکو پیش کرتے ہیں، درخواست دیتے ہیں، انٹرویو اور امتحان کے مراحل سے گزرتے ہیں اور ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہوگا۔ لہذا ان احادیث میں صرف ایک اخلاقی نصیحت کی گئی تھی جسے یہیں تک رہنے دینا چاہیئے۔
پارلیمانی نظام بمقابلہ صدارتی نظام
اس حوالے سے بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ شاید صدارتی نظام اسلامی تعلیمات کو بہتر انداز میں پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن یہ بات کہ اسلام نے کوئی نظام دیا ہے جس سے موجودہ دور کا صدارتی نظام زیادہ قریب ہے تو ایسا نہیں ہے کیونکہ اسلام نے کوئی نظام سرے سے دیا ہی نہیں ہے، صرف اصول دیا ہے اور ہم اس اصول کی روشنی میں اپنے وقت، اپنے دور اور اپنے حالات کے مطابق نظام بنائیں گے۔ یہاں بھی یہ ممکن ہے کہ ایک اسلامی ملک کا نظام دوسرے سے مختلف ہو کیونکہ ہر ملک کے حالات دوسرے سے فرق ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ نظام سے متعلق جو تجاویز آپ ملائشیا کے حوالے سے دیں وہ شاید سعودی عرب میں فٹ نہ ہو پائیں لہذا وہاں ایک مختلف نظام یا انداز اپنایا جائے گا۔ مغربی جمہوریت میں بھی بالکل ایسا ہی ہے مثلا انگلستان یا سپین میں بادشاہت بھی موجود ہے لیکن نظام جمہوری اصولوں پر مبنی ہے اور اسی طرح کچھ اور ممالک میں خالصتا جمہوری نظام ہے جبکہ فرانس سیکولر جمہوریت پر کھڑا ہے۔ لہذا مسلمانوں کے ہاں بھی وقت اور حالات کے مطابق طریقہ کار یا رائے بدلی جاسکتی ہے لیکن قرآن کا اصول امرھم شوریٰ بینھم ہی برتر رہے گا۔ اسی کی روشنی میں ہی نظام مرتب ہوگا اور فیصلے ہونگے۔
مغرب کا نظام
یہاں بھی بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ انسانی علم, ترقی, تعلیم یا شعور وغیرہ کو مشرق یا مغرب میں نہیں بانٹا جا سکتا یہ بنی نوع انسان کی ترقی یا انسانیت کا سفر ہے۔ جیسے ایک زمانے میں مسلمان میڈیکل سائنس کی تعلیم میں سار ی دنیا سے آگے تھے جبکہ اہل مغرب اس وقت ٹونے ٹوٹکوں کے دور میں رہتے تھے۔ انہوں نے ہم سے یہ تعلیم لی اور اس پر مزید تحقیق کرکے کہاں سے کہاں نکل گئے۔ اسی طرح دنیا کو حساب کتاب یعنی الجبرا اور ٹرگنومیٹری سکھانے والے بھی مسلمان تھے۔ لیکن آج اگر حالات بدل چکے ہیں اور صورتحال بالکل برعکس ہوچکی ہے تو بہرحال اسے بھی بطور انسانی ترقی ہی دیکھا جائے گا نہ کہ اسے مذہب، معاشرت یا جغرافیائی حدود میں باندھ لیا جائے۔ ویسے بھی ہم آج دنیا کی ہر چیز مغرب سے لیتے ہیں، جس کمپیوٹر پر آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں یہ بھی مغرب کی ایجاد ہے، لہذا آپ کو مغربی جمہوریت میں جو بات پسند نہیں وہ نہ لیں لیکن اصول تو بہرحال لینا ہوگا کہ قرآن بھی یہی اصول دیتا ہے۔ البتہ اس اصول کو بنیاد بنا کر اس پر جیسی عمارت چاہیں کھڑی کر لیں جو آپکی مذہبی اور معاشرتی ضروریات کو پورا کرتی ہو لیکن اسے سرے سے ہی رد کرنے کا کوئی اصولی یا مذہبی جواز ہمارے پاس نہیں ہے۔
مسلمانوں کا نظام صرف ’’خلافت‘‘ ہے
یہ خلافت کیا چیز ہے؟ کیا دین اسلام میں کسی اصول یا نظام کے طور پر اسکا درس دیا گیا ہے؟ عرض یہ ہے کہ یہ کوئی نظام نہیں ہے، خلافت سے مراد ’’جانشین‘‘ ہے لہذا یہ لفظ ابو بکر صدیقؓ کے لیے بطور ٖخلیفتہ الرسول استعمال ہوا کیونکہ نبیؐ کی وفات کے بعد انہیں مسلمانوں کی امارت ملی ۔ انکے بعد جب عمر بن خطابؓ کی امارت قائم ہوئی تو انہوں نے خلیفتہ الخلیفتہ الرسول یعنی رسول کے جانشین کا جانشین کی بجائے اسے بدل کر امیر المومنین کی اصطلاح رائج کردی ۔ یعنی یہ الفاظ کبھی بھی کوئی دینی حکم یا نظام نہیں تھے بس اُس دور کے معاشرے میں اصطلاحات کے طور پر رائج ہوئے، لہذا ایک قبائلی دور میں قرآن کے حکم امرھم شوریٰ بینھم کا اطلاق کر کے مسلمانوں کی مشاورت سے جو حکومت قائم ہوئی اس میں یہ لفظ عام ہوگیا۔ البتہ بعد ازاں یعنی خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد بلاوجہ ان اصطلاحات کو مقدس بنا دیا گیا اور پھر مسلمانوں کے سروں پر مسلّط بادشاہوں اور انکی قائم کردہ ملوکیت کو خلافت کا لبادہ اوڑھا کر اسلامی کرلیا گیا۔ لہذا آج کے دور میں آج کے تمدن کے مطابق اگر صدر مملکت یا وزیر اعظم کی اصطلاحات رائج ہو گئی ہیں تو انکے استعال میں دین کو کوئی اعتراض نہ ہوگا البتہ ان عہدوں پر فائز لوگوں پر دین یہ شرط عائد ضرور کرے گا کہ وہ قرآن کے اصول کی روشنی میں فیصلے کریں جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اےایمان والو اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں‘‘ (النساء ۵۹)۔ اسی طرح سورة النور آیت ۵۵ میں بھی بتایا جاتا ہے ’’اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی‘‘۔ یقیننا تمام فیصلے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتے ہیں اور اہل اقتدار کی فرمانبرداری لازمی طور پر کی جائے گی لیکن اب نبوت و رسالت کے خاتمے کے بعد اللہ تعالٰی کی براہ راست تائید کسی کو حاصل نہیں کیونکہ اسکا تعین صرف وحی الٰہی کے ذریعے ہوتا تھا۔ اب ہمیں اس حوالے سے مشاورت کے تحت فیصلے کرنے کا ایک اصول دے دیا گیا ہے جسکے تحت ہی کسی کو اقتدار سونپا جائے گا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ہمیں ایسے کسی فیصلے سے اختلاف ہو جیسا کہ خلفاء کی تعیناتی کے دور میں بھی سو فیصد تائید نہ ہوتی تھی بلکہ چند لوگوں کو اعتراض ہوتا لیکن اکثریتی فیصلہ بہرحال نافذ العمل ہوگا۔ سو ہمیں بھی آج اپنے اختلاف رائے کے اظہار کے لیے مروجہ قوانین اور طریقہ کار اپنانے ہونگے۔
آخر میں ہماری یہ گذارش یاد رکھیں کہ وہ تمام لوگ یا گروہ جو جمہوریت پر تنقید کرتے ہیں ان کے پاس ملک کا نظام چلانے یا ملک میں اسلامی نظام لانے کے لیے کوئی قابل عمل طریقہ کار یا پلان نہیں ہوتا۔ آپ ان سے پوچھ کر دیکھ لیں تو وہ تنقید پر مبنی ایک تقریر کرنے سے زیادہ اور کچھ پیش نہیں کر پائیں گے اور بہت تیر چلے گا تو چند اصلاحات پیش کردی جائیں گی مثلا یہ کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو ختم کردیا جائے، پارلیمنٹ کو ختم کر دیا جائے، لوگوں کو براہ راست اپنی رائے دینے کا حق نہ دیا جائے لیکن ان تجاویز کے بعد کوئی پلان نہیں ہوتا کہ یہ سب کرنے کے بعد پھر کیا کریں یا یہ سب کرنے کا حق اور مینڈیٹ کسے اور کن بنیادوں پر حاصل ہوگا؟ یا اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ کی اصلاحات پر بحث کی گنجائش ہے تو جواب ندارد۔ کہیں پر ملکی حالات کے پیش نظر ایک فوجی طرز کے خونی انقلاب کی باتیں کی جاتی ہیں تو کہیں علماء کو اقتدار سونپ دینے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ایسا کچھ کرنے کا حق و اختیار کہاں سے آئے گا؟ کیا اللہ تعالیٰ خود کسی فرد، ادارے یا گروہ کے حق میں فیصلہ صادر کریں گے؟ لہذا نبوت و رسالت کے ادوار گزر جانے کے بعد اب صرف اور صرف اکثریت کی تائید پر فیصلہ ہوگا، کسی ادارے، گروہ یا طبقے کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ بزور شمشیر حکومت پر قبضہ کرلیں اور اپنی مرضی کی اصلاحات جاری کر دیں یا اپنے تئیں لوگوں کو انکا حق دلانے لگیں۔ دنیا اس سلطانہ ڈاکو یا رابن ہُڈ کے دور سے کب کی آگے بڑھ چکی ہے لہذا ہمیں بھی دنیا میں رائج طور طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے ہی کام کرنا ہوگا۔
ہمارے علماء کے جمہوریت پر اعتراض کرنے کی چند بڑی بنیادی وجوہات ہیں۔ انہیں ایک خطرہ تو یہ کہ جمہوری نظام کے نتیجے میں لوگوں پر انکا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ حال ہی میں سعودیہ کے مفتی اعظم کو اور کچھ کرنے کو نہ ملا تو انہوں نے ٹوئٹر کے خلاف فتویٰ صادر فرما دیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء اقتدار کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پھر اس بنیاد پر وہ دین کے شرعی احکامات سے کہیں آگے نکل کر فرد اور ریاست کے تعلق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افراد یا شہریوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کا بہت شوق رکھتے ہیں مثلا عوام الناس کو ایک خاص طرح کا لباس پہننے یا مردوں کی ایک خاص مقدار میں داڑھی رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے حق رائے دہی کی آزادی نہیں دی جاتی، خواتین کے بنیادی حقوق غصب کیے جاتے ہیں کیونکہ آزادی کو مادر پدر آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے علماء نے جو کچھ مغربی جمہوریت میں ہوتے دیکھا اسے جمہوریت کا مسئلہ بنا لیا یعنی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں خدا کی بجائے انسان مرکزی حیثیت اختیار کرگیا ہے یعنی انسان کی مرضی، اسکی خواہشات اور پسند و ناپسند اللہ کے قوانین اور اسکے دین کے مطالبات سے بلند ہوگئے۔ حالانکہ مغرب میں بھی یہ سب علماء کی مداخلت اور مطلق العنان کنٹرول کے خلاف ایک ری ایکشن کے طور پر شروع ہوا۔ اگر ہم عیسائیت کو دیکھیں تو وہاں کئی صدیوں پہلے سے یعنی سینٹ پال کے دور میں ہی شریعت کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا اور اسکے نتیجے پاپائیت مرکزی حیثیت اختیار کر گئی لہذا جب مغرب میں لوگوں کی آزادی کا ولولہ بلند ہوا تو یہ بنیادی طور پر پاپائیت اور چرچ کے ظلم کے خلاف تھا جو لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں بے جا مداخلت کو اپنا حق سمجھتا تھا لیکن یہ سب بذات خود مذہب کے خلاف نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مغرب میں آج بھی عیسائیت بطور مذہب بڑے پیمانے پر موجود ہے بلکہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب آج بھی عیسائیت ہے۔ امریکی صدارت کے لیے امیدوار کا عیسائی ہونا شرط ہے۔ لہذا آج مسلمان ممالک میں بھی بالکل یہی عالم ہے کہ لوگ مذہب سے وابستہ تو رہنا چاہتے ہیں لیکن مذہبی علماء کی بے جا مداخلت سے تنگ ہیں۔
اس مضمون کے ذریعے ہم صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بطور ایک اصول مسلمانوں کا نظام لوگوں کی مشاورت اور اکثریتی فیصلے پر ہی مبنی ہو سکتا ہے کہ قرآن کا یہی حکم ہے۔ اس حوالے سے ہمیں مغربی جمہوریت کو بعینہ اپنانے کی قطعی ضرورت نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ پہیے کو دوبارہ سے ایجاد کرنے کی بھی کوئی تُک نہیں ہے۔ انسانیت اگر ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے آج یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کی مشاورت اور انکی رائے لینے کا ایک میکنزم یا طریقہ کار وجود میں آچکا ہے تو اسے سرے سے رد کردینے کا کوئی جواز ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ لہذا آپ مغربی جمہوریت میں جیسی چاہیں اصلاحا ت کرلیں اور ایک بہتر نظام تشکیل دیں۔ قرآن کی اس میں بنیادی حیثیت قرار دیں تاکہ قانون سازی اسلامی اصولوں پر مبنی ہو لیکن عوام الناس سے انکی آزادیٴ رائے چھین لینا یا دنیا کو واپس قبائلی نظام کی جانب لے جانا مذہب کا مقصود بہرحال نہیں ہے۔ لہذا آج اگر مسلمانوں کی حکومت طبقاتی نہیں ہوگی، بادشاہت نہیں ہوگی، آمریت پر مبنی نہیں ہوگی تو پھر ظاہر ہے کہ جہوری ہوگی ۔
ہم نے اپنے تئیں اسلام اور جمہوریت کے اس موضوع پر تمام اعتراضات کا احاطہ کیا ہے لیکن اسکے علاوہ بھی اگر ہمارے قارئین کے ذہنوں میٰں کوئی سوال یا اعتراض ہو تو اسے بذریعہ کامنٹ ہمیں لکھ بھیجیں تاکہ اس پر بات کی جائے۔
جزاک اللہ
ایک تبصرہ شائع کریں