سیٹ بیلٹ باندھ لیجئے ـ
پچھلے ۱۲ سال میں پہلی بار سہ ماہی میں ایکسپورٹس نے امپورٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کہ 3.6 فیصد بڑھی ہے جبکہ امپورٹس 0.6 فیصد رہی ھے ، ایف بی آر کی جانب سے فائلر انکم ٹیکس ریکوری پچھلے سال ۲۰۱۷ کے اسی عرصے کے مقابلے میں ۵۵ فیصد بڑھی ہے ۱۰۰ بلین کی زمین تجاوزات ختم کر کے واپس حاصل کی گئ ہے ، ساری دنیا میں ڈیزل پیٹرول کی نسبت سستا ہوتا ھے کیونکہ یہ انڈسٹری کی جان ہے ، کسانوں کے لئے پہلی ضرورت ہے جو ٹریکٹرز اور دیگر زرعی مشینوں کے علاوہ ٹیوب ویلز کے لئے استعمال ہوتا ھے مگر پاکستان میں یہ پیٹرول سے مہنگا تھا جس کی وجہ سے انڈسٹڑی کی پروڈکشن قیمت بازار میں دیگر ممالک کے مقابلے میں بڑھ جاتی تھی اور ہمارا تاجر مار کھا جاتا تھا ،، اب پیٹرول ۵ روپے سستا ھو گا تو ڈیزل ۱۳ روپے سستا ھو گا ، پاکستان کے بعد چار پانچ ممالک افغانستان ، بولیویا ،نکاراگوا اور ایک افریقی ملک میں ہی ڈیزل پیٹرول کی نسبت مہنگا رکھا گیا تھا ـ
امپورٹیڈ چیزوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے تا کہ وہ ملک میں پیدا کی جانے والی اشیاء کے مقابلے میں مہنگی ہوں اور لوگ اپنے ملک کی چیز کو ترجیح دیں جو کہ سستی ہو گی ،، باہر کی چیزوں کو روک کر یا ان پر ٹیکس ٹھوک کر ان کو مہنگا کر کے اپنے ملک کی انڈسٹری کو ترجیح دی گئ ہے اور یہی پالیسی انڈیا میں اختیار کی گئ ہے جس کی وجہ سے انڈیا کی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہے ، پاؤڈر دودھ کو ہی لے لیجئے پابندی لگتے ہی اوبرائے والے پاکستانی تاجر ملک ذیشان ذکی نےجو کہ کیمیکل انجینئر ہیں انہوں نے صرف ایک ماہ میں پاؤڈر دودھ بنانا شروع کر دیا ہے اور اب وہ بچوں کے دودھ کو بھی ایک ماہ کے اندر مارکیٹ میں لا رہے ہیں ، یونٹ لگا دیا گیا ہے اور پروڈکشن ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے ،
پاکستان سب کچھ خود بنا سکتا ھے مگر جب فارن کی امپورٹیڈ چیزیں ٹکے بھاؤ مل رہی ھوں تو پاکستانی تاجر کیوں وہی چیز پیدا کرنے گا جو اس کو مہنگی پڑے گی وہ بھی مجبور کر دیا گیا تھا کہ خود پیدا کرنے کی بجائے وہی امپورٹیڈ چیزیں فروخت کرے ، اس طرح ہماری انڈسٹری تباہ ہو گئ تھی اور لوگ بےروزگار ہو گئے تھے ـ
سارے اقدامات ہنگامی انداز میں لئے جا رہے ہیں جن کو مشکل فیصلے کہا جاتا ھے جو عوامی رد عمل پیدا کرتے ہیں اور سیاستدان غیر مقبول ہونے کے ڈر سے ایسے اقدامات نہیں لیتے مگر یہ ایسا دیوانہ ہے کہ جب اس کے سامنے ان قدامات کی لسٹ رکھی گئ اور یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے نتیجے میں وقتی طور پر مہنگائی بھی پیدا ھو گی اور ضمنی الیکشنز میں نقصان بھی ہو سکتا ھے تو اس نے صرف ایک سوال جملہ کہا کہ ان اقدامات سے اگر ملک کو فائدہ ھوتا ھے تو ہم دو چار سیٹوں کی قربانی بھی دے سکتے ہیں اور وہ قیمت دی گئ ، وہ سب اقدامات لئے جا رہے ہیں جن پر عوام شور کر رہے ہیں کہ مر گئے ہیں مہنگائی ھو گئ ہے وغیرہ وغیرہ ،، مگر یہ مہنگائی ان شاء اللہ مستقل سستپہائی میں تبدیل ھو جائے گی ـ
پنڈی سے چکوال اور بھون تک ریلوے کو دوبارہ چلایا جا رھا ھے ، یہ وہ ٹریک ہے جو صرف 75 پیسے فی کلو بیچ دیا گیا تھا ، ریلوے لائن کا لوہا انتہائی مہنگی قسم کا خاص لوہا ہوتا ھے مگر بارہ آنے کلو کے ریٹ پر بیچ دیا گیا تھا ، جب لائن اکھاڑنے والے پہنچے تو عوام الناس نے مزاحمت کی کہ یہ ہمارے باپ دادا کے زمانے کی یادیں ہیں ہم اس کو نہیں اکھاڑنے دیں گے ، چکوال کے ایک آدمی کو وکٹوریا کراس ملا تو اس سے کہا گیا کہ وہ مانگے اسے کیا چاہئے ؟ ،، اس نے اپنے شہر میں ریلوے اسٹیشن مانگا ،، انگریز تک یہ ڈیمانڈ پہنچائی گئ تو اس نے کہا کہ یہ ڈیمانڈ منظور کرنا مجبوری ہے اس لئے ریلوے لائن ڈالی جائے ،، پھر بھون کے ایک شخص نے بھی بہادری کے انعام کے صلے میں بھون اسٹیشن مانگ لیا اور اس لائن کو بھون تک extend کیا گیا ،، ان لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد پر علاقائی مفاد کو ترجیح دے کر نسلوں کی خدمت کی مگر ہم نے اس کو بارہ آنے کلو بیچ دیا تھا ،، وہ ٹریک بحال کر کے دوبارہ ریل چلائی جائے گی ،، الغرض تبدیلی کا ایک سلسلہ ہے جو ہر میدان میں نظر آ رہا ھے کہ ہر قیمت پر اس ملک کو بیساکھیوں کی بجائے اپنے قدموں پر کھڑا کیا جائے ـ
ایک تبصرہ شائع کریں