مضمون تحریر کیا تھا جس میں ہم نے اپنے تئیں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ دین اسلام اور جمہوری اصولوں میں بہت حد تک مطابقت ہے اور دونوں کے درمیان بنیادی فرق قانون سازی کے طریقہٴ کار کا ہے۔ یعنی دونوں کے درمیان ٹکراؤ یہیں آکر پیدا ہوتا ہے کہ دین اسلام کے نظام میں قانون سازی کے لیے اللہ کی کتاب یعنی قرآن کریم کو بنیادی حیثیت حاصل ہوگی جبکہ مغربی جمہوریت میں صرف اور صرف اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر قانون سازی ہوگی چاہے عمومی طور پر وہ قانون یا فیصلہ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔
اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جہاں تعریف ہوئی وہیں بہت سی تنقید بھی سننے کو ملی، اعتراضات بھی ہوئے ، نتائج سے ڈرایا دھمکا کر اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے کے حکم نامے بھی جاری ہوئے۔ لہذا آئندہ قریباً دو سال ہم نے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ بالخصوص، اسلام کے سیاسی تصور، اسلامی نظام، جمہوریت اور سیکولر ازم کے معاملات کوسمجھنے کی کوشش میں صرف کیے۔ اللہ کے فضل سے اب جا کر یہ معمہ ہم پر کھلا ہے لہذا ایکبار پھر اس موضوع پر تفصیل سے رائے دینے کی جسارت کر رہے ہیں۔ انشاءاللہ آنے والے دنوں میں اس مضمون کا انگریزی ورژن بھی شائع ہوگا۔ ہمیشہ کی طرح اپنے قارئین سے یہی گزارش ہے کہ ہم دین کے طالبعلم ہیں لہذا اگر کسی کو ہماری رائے سے اختلاف ہو تو اسکی غلطی دلیل سے واضح کردیں۔
ہمارے دینی حلقوں میں اس حوالے سے سخت رائے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسلام اور جمہوریت کو ہمیشہ ایک دوسرے کے مدّمقابل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور جمہوری نظام اور سیکولر جمہوریت میں فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لہذ ہمیشہ ’’اسلام یا جمہوریت؟‘‘ کا لیبل یا عنوان استعمال ہوتا ہے جیسے ’’کالا یا سفید‘‘، ’’حق یا باطل‘‘، ’’سنی یا شیعہ‘‘، ’’یہ یا وہ‘‘ اور ’’الف یا بے‘‘ وغیرہ۔ یعنی عنوان یا اپروچ سے ہی یہ واضح کردیا جاتا ہے کہ کہ ان دونوں فلسفوں میں سے کوئی ایک ہی درست ہو سکتا ہے اور دونوں میں مماثلت، مطابقت یا ہم آہنگی کی گنجائش ممکن ہی نہیں لہذا جس نے جمہوریت کو چُنا اس نے اسلام کو چھوڑ دیا۔ ظاہر ہے کہ اس انداز سے پیش کی جانے والی ریسرچ یا فیصلے کو نیوٹرل نہیں مانا جاسکتا کیونکہ فیصلہ تو عنوان میں ہی کردیا جاتا ہے۔ ہم نے اسی مناسبت سے اپنے اس مضمون کا عنوان ’’اسلام اور جمہوریت‘‘ چنا ہے تاکہ ہم دین اسلام کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے جمہوری نظام پر ایک نیوٹرل بحث کرنے کی کوشش کریں اور وہ بھی اس انداز سے کہ یہ واضح کیا جاسکے کہ غلطی کہاں ہوتی ہے۔
دنیا میں حکومت تین طرح کی ہوتی ہے۔
ا۔ شخصی حکومت
اس طریقے کے حامی لوگوں کے مطابق حکومت کا حق کسی ایک فرد کو حاصل ہے۔ اب یہ شخص شہنشاہ جلال الدین اکبر بھی ہو سکتا ہے، ظہیر الدین بابر بھی اور موجودہ دور کا کوئی فوجی ڈکٹیٹر بھی۔ شخصی حکومت کا ایک اور انداز کسی’’مامور من اللہ‘‘ ہستی کے حوالے سے بھی اپنایا جاتا ہے یعنی کوئی ایسا شخص جو نبی تو نہ ہو لیکن اسکی تقرری خود اللہ تعالیٰ فرما دیں، جیسا کہ ہمارے ہاں مختلف گروہوں اور فرقوں کے ہاں امامت، ولایت اور معصومین کا تصور ملتا ہے۔ اسی طرح عیسائی مذہب میں پاپائیت بھی ایک طرح کی شخصی حکومت ہی ہے۔
اا۔ خاص طبقے کی حکومت
حکومت کا یہ انداز مسلمان ملکوں کی اکثریت میں بے حد مقبول رہا ہے بلکہ اب بھی ہے۔ اس قسم کی حکومت کے مطابق علماء دین کو ملک کے نظام میں فائنل اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اب چاہے وہ ریاست کے نظم و نسق کے معاملات کو سمجھتے ہوں یا نہیں لیکن بہرحال آخری فیصلہ اور ویٹو کی طاقت ہمیشہ انکے پاس ہوتی ہے کہ وہ جس فیصلے کو چاہیں خلاف اسلام کہ کر رد کردیں اور جسے چاہیں اسلامی کہ کر ملک بھر میں نافذ کردیں۔
کچھ ممالک مثلاً سعودی عرب میں ہمیں ان پہلے دو طریقوں کے درمیان ایک انڈرسٹینڈنگ سی نظر آتی ہے جہاں پر حکومت کے لیے بادشاہ سلامت (یا شاہی خاندان) اور علماء دین کے طبقے کے درمیان باہمی مفادات پر مبنی ایک معاہدہ ہوتا ہے جسکے نتیجے میں یہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق کو غیرمشروط تحفظ فراہم کرتےہیں۔ لہذا یہ دونوں طبقے مل کر فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ اسطرح انہیں ملک میں رائج عمومی قانون سے بالاتر حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔
ااا۔ جمہوری حکومت
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ عوام کی رائے اور مشاورت پر مبنی حکومت ہے اور انکے درمیان کسی قسم کی طبقاتی تفریق نہیں کی جاتی۔ تمام لوگ اپنی رائے دینگے اور انکی اکثریتی رائے سے حکومت قائم ہو جائےگی۔
آئیں اب حکومت کی ان اقسام کی روشنی میں سیکولرازم کا جائزہ لتے ہیں۔
سیکولرازم
حکومتوں کی مندرجہ بالا اقسام کے بعد اس بات کا تعین کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ سیکولرازم ان میں سےکس کیٹگری میں آتا ہے۔ سیکولر ازم درحقیقت ایک ری ایکشن ہے جو مغرب اور بالخصوص یورپ میں شخصی حکومتوں یا پھر مذہبی طبقاتی حکومتوں کے خلاف برپا ہونے والے انقلابات کی پیداوار ہے۔ مثلا عیسائیت میں موجود پاپائیت کے نظام اور چرچ نےصدیوں تک عوام الناس کا استیصال کیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس نظام سے بغاوت کے طور پر مذہب کو ریاست کے معاملات سے قطعی طور پر علیحدہ کرنے کی ٹھان لی اور آخرکار اس میں کامیاب ہوئے۔ یعنی سیکولرازم یورپی اور مغرببی رینائسانس کی پیداوار ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ بغاوت مذہب کے خلاف بالعموم لیکن اصل میں مذہبی طبقے کے خلاف تھی کیونکہ یہ طبقہ مذہب کو استعمال کرکے غلط تشریحات کے ذریعے عوام کے حقوق غصب کرتا تھا۔ لہذا بہت سے مغربی ممالک بشمول امریکہ میں لوگوں کی اکثریت آج بھی عیسائیت سے وابستہ ہیں لیکن وہ اپنے مذہب کو نظام حکومت میں کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔ اب بظاہر تو سیکولرازم میں بڑی اپیل نظر آتی ہے لیکن اسکے اپنے بڑے مسائل ہیں کیونکہ یہ آج خود ایک طبقاتی طرز حکومت کا علم بردار بن چکا ہے لہذا ایک طرف تو یہ آزادی رائے کا نمائندہ بنتا ہے تو دوسری طرح ہم دیکھتے ہیں کہ فرانس میں خواتین کے لیے اپنا چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی جاتی ہے یا سکولوں میں مسلمان اور یہودی بچوں کو حلال اور کوشر گوشت پر مبنی خوراک مہیا نہیں کی جاتی۔ اسی طرح ترکی پرنظر ڈالیں تو نقاب لینا تو دور کی بات خواتین کو سر پر سکارف پہننے تک کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یعنی وہی بات کہ سیکولرازم صرف ایک ری ایکشن ہے جو بظاہر مذہب کو حکومتی معاملات سے علیحدہ کرنے کی بات کرتا ہے لیکن پھر کسی ڈکٹیٹر کی طرح لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں مداخلت شروع کردیتا ہے۔ اسی لیے سیکولر ازم پر بار بار لادینیت کا الزام لگتا ہے۔
اسلام، جمہوریت اور سیکولرازم
مسلم دنیا میں خلافت کا بہت شورو غوغا رہا ہے لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں خلافت بہت جلد ملوکیت میں بدل گئی اور اسکے بعد سے عصر حاضر تک صورتحال بالعموم یہ رہی ہے کہ بادشاہتوں اور ڈکٹیٹرشپ کو خلافت کا نام دے کر چلایا گیا ہے۔ ہمارے اردو لٹریچر بھی ہمیں “ایک عادل بادشاہ” کی بہت سی سبق آموز کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں کیونکہ ہم نے ہمیشہ “بادشاہ” اور “خلیفہ” کو بطور ہم معنی الفاظ اپنے ہاں رائج کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب وقت بدل رہا ہے اور آج مشرق وسطیٰ کے ہر ملک میں ڈکٹیٹرشپ کے خلاف لوگوں نے جدوجہد شروع کر رکھی ہے اور مسلمان حکمرانوں کی مطلق العنانی، انکے ظلم اور مسلمان علماء کی نالائقی سے امریکہ بہادر خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہی امریکہ ہے جسے شام اور عراق میں بے گناہوں کی گردن زنی تو نظر آتی ہے لیکن سعودیہ میں بات بے بات لوگوں کی گردن زنی نظر نہیں آتی کیونکہ وہاں سے اسے تیل ملتا ہے۔ دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کی علم بردار امریکی حکومت کو اپنے سیاسی حلیف سعودی بادشاہ کا اپنی بیٹیوں کو بغیر کسی وجہ کے نظر بند کردینا نظر نہیں آتا۔ اس سے پہلے امریکہ اپنے فائدے کے لیے مصر، شام، عراق اور لیبیا کی ڈکٹیٹرشپ کو بھی سپورٹ کرتا رہا یہاں تک کہ ان ممالک میں ان حکمرانوں کے خلاف لوگوں نے آواز بلند کی۔
ہمارے علماء کی اکثریت اور بادشاہوں کو چونکہ جمہوری نظام کی وجہ سے اپنا اقتدار خطرے میں محسوس ہوتا ہے لہذا جب عوام الناس اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ جمہوری نظام کو مغربی نظام کا لیبل لگا کر رد کردیتےہیں۔ مسلمانوں کو ویسے بھی اپنی تمام تر کوتاہیوں کی ذمہداری مغرب پر ڈال دینے کی عادت ہے۔ لیکن اس الزام کو سیکولر جمہوریت کی حد تک تو مانا جا سکتا ہے البتہ جہاں تک جمہوری اصولوں کی بات ہے تو اسلامی طرز کوحکومت کو جمہوری کے علاوہ کوئی اور نام دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ قرآن واضح طور پر ہمیں ’’امرھم شوریٰ بینھم‘‘ کا حکم دیتا ہے یعنی مسلمانوں کا نظام باہمی مشاورت پر طےہوگا۔ اور ویسے بھی جب اللہ کے آخری پیغمبر محمد الرسول اللہ کے بعد وحی الٰہی کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے تو آج مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا فیصلہ اور کسطرح ممکن ہے؟ یعنی وحی کے بغیر کسی فرد یا گروہ کو یہ حق یا مینڈیٹ کیسے حاصل ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات پر باہم مشورے کے ذریعے فیصلے کریں؟ علماء دین کو یہ حق کون دیگا کہ وہ عوام کے نمائندے بن جائیں خاص طور پر جب انکی اکثریت ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنے کو تیار نہیں ہوتی؟ آخر سیاسی اقتدار کے اس فیصلے کو کہیں سے تو آنا ہوگا۔ کیا یہ فیصلہ بندوق کے زور پر ہوگا؟ یا پھر کیا آسمان سے کوئی پرندہ آکر کسی کے سر پر بیٹھے گا اور بولے گا کہ یہ مسلمانوں کا خلیفہ و حاکم ہے؟ یا پھر زمین میں ایک درخت اُگے گا جس کے پھل کو جب کاٹا جائے گا تو اندر سے ایک پرچی برآمد ہوگی جس پر ایک فرد یا تنظیم کا نام بطور خلیفہ یا خلافت لکھا ہوگا؟ اب چونکہ ان سب میں سے کچھ بھی ممکن نہیں ہے تو ہمارے علماء یا دینی حلقے عوام الناس کی رائے کو معیار بنانے کی بجائے اپنے اپنے گروہ بنا کر اپنی چھوٹی چھوٹی خلافتیں بنا لیتے ہیں جہاں اپنی مساجد، اپنا قانون اور اپنی سزا و جزا کا معاملہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ پھر کہیں اندھی تقلید سے لوگوں پر حکومت کی جاتی ہے، کوئی خود ساختہ جہاد کا نعرہ لگا کر لوگوں کو مسلح جدوجہدکی طرف لے جاتا ہےتو کہیں لوگوں کو دین کے نام پر جیسی تیسی تشریحات کی مدد سے سارے معاشرے سے کاٹ کر ایک بلبلے میں بند کر کے یہ کہا جاتاہے کہ ہمارے اس دائرے سے باہر ہر کوئی مشرک و کافر ہے اور پھر انہیں پابندیوں کے ڈراوے دے کر انکی سوچ اور انکی زندگیوں پر کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے۔ اور چونکہ ہمارے علما کی اکثریت حکمرانی کے منصب کو اپنا حق سمجھتی ہے لہذا کچھ اور علما پہلے علما کے خلاف اپنی جماعتیں قائم کرکے لوگوں کی نجات کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس سے صورتحال مزید سنگین ہوتی ہے کیونکہ سیاست علما کا کام ہے ہی نہیں۔
لہذا یہ بنیادی بات ذہن نشین کرلینا بہت اہم ہے کہ حق تقرر یا تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور محمد الرسول اللہ کی وفات کے بعد نبوت کا یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ لہذا اب یہ حق خدا تعالیٰ ہی کہ حکم کی روشنی میں مسلمانوں کو باہمی مشاورت کے ذریعے کسی فرد کی تقرری کرلینے کی صورت میں حاصل ہے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ اکثریت پر حکومت یا انکی نمائندگی کا جو بھی راستہ اپنایا جائے گا وہ آمریت ہو سکتی ہے، چور دروازہ ہو سکتا ہے، سلطانہ ڈاکو ہو سکتا ہے، بادشاہت ہو سکتی ہے لیکن یہ اقدام اسلامی بہرحال نہیں ہو سکتا۔
حقیقت میں دین اسلام مسلمانوں کے طرز حکومت کے لیے کوئی بھی خاص نظام وضع نہیں کرتا البتہ اللہ کی کتاب سےیہ حکم ضرور ملتا ہے کہ مسلمانوں کا نظام مشورے پر مبنی ہوگا اور یہی طریقہ صحابہ کرامؓ سے بھی ثابت ہے۔ لیکن کسی فرد یا گروہ کو یہ آج اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ وحی الہٰی کا سلسلہ ترک ہوجانے کے بعد یعنی اللہ کی براہ راست رضا کی غیر موجودگی میں اپنی مرضی، اپنی تشریحات یا اپنی رائے کو اکثریت پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے کسی بھی فرد یا گروہ کو بہرحال لوگوں کے پاس جانا ہوگا اور دلیل کے ساتھ اپنی رائے پیش کرنی ہوگی اور پھر اسے لوگوں کی رائے پر چھوڑنا ہوگا کہ وہ اسے مانیں یا رد کردیں۔ اور اسی طرح لوگوں کی اکثریت اگر غلط پر قائم ہونے پر مصر ہوگی تو صرف اور صرف محبت سے انہیں حق کی دعوت دی جائے گی۔ یہاں بھی کسی فرد یا گروہ کو یہ اجازت نہ ہوگی کہ وہ یہ تصور کرلے کہ وہ لوگوں کو اسلام کے دائرے رکھنے یا پھر نکال دینے کے مجاز ہیں۔ ایسا کوئی خدائی حکم نامہ آج کسی فرد کو حاصل نہیں ہے۔
اس مضمون کےدوسرے اور آخری حصے میں ہم پاکستانی معاشرے میں مختلف مذہبی جماعتوں اور گروہوں کی جانب سے جمہوری نظام کے خلاف اٹھائے جانے والے اعتراضات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔
جزاک اللہ
ایک تبصرہ شائع کریں