پندرہ شعبا ن کی آمد آمد ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس تہوار کو خوب مذہبی جوش خروش سے منانے کے لئےکی جانے والی تیاریوں میں اضافہ ہوتا چلا جائےگا۔ آج امت میں موجود تقریباً تمام سنی اور شیعہ فرقے اسے ایک برکتوں اور رحمتوں والی رات سمجھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی سال بھر کے تمام فیصلے اسی رات فرماتا ہے لہذا اس رات کو خاص طور پر عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے چراغاںو آتش بازی ہوتے ہیں اور اگلے دن روزہ رکھا جاتا ہے، علی الصبح وفات پا چکے عزیز و اقارب کی قبروں پر جا کر پھول چڑھائے جاتے ہیں، پھر شام میں نئے نئے پکوان اور خاص طور پر حلوہ پکا کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ الغرض جیسے جیسے امت مسلمہ میں دین کو خود سمجھنے کا رحجان کم ہوتا گیا ویسے ویسے اس رات اور اس سے منسوب غلط عقائد اور رسومات کی مقبولیت بڑھتی گئی۔
اگر ہم قران پر نظر ڈالیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس میں صرف ایک ہی رحمتوں اور برکتوں والی رات کا ذکر ہے یعنی لیلتہ القدر یا شبِِ قدر جسکے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ فرقہ واریت ہی کو اسلام سمجھا جاتا ہے اور خود دین کو سمجھ کر عمل کرنے کی بجائے فرقوں اور انکے مولویوں کی اندھی تقلید کی جاتی ہے سو اسکا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سورة الدخان کی وہ آیات جن میں شب قدر کا ذکر ہے انہیں زبردستی شبِِ برأت سے منسوب کر دیا جاتا ہے اور پھر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس رات کی فضیلت کا ذکر تو خود اللہ تعالٰی نے قرآن میں کیا ہے۔ آئیے قرآن میں سورة الدخان اور سورة القدر دونوں کی یہ آیات ایک ساتھ دیکھتے ہیں تاکہ علم ہو کہ ان میں کس رات کا ذکر کیا گیا ہے۔
حم وَالْكِتَابِ الْمُبِين إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ
روشن کتاب کی قسم ہے۔ ہم نے اسے مبارک رات میں نازل کیا ہے بے شک ہمیں ڈرانا مقصود تھا۔ سارے کام جو حکمت پر مبنی ہیں اسی رات تصفیہ پاتے ہیں۔ سورة الدخان آیات ۱۔۳
سورة الدخان کی آیات سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اس رات کا ذکر ہو رہا ہے جس میں اللہ نے کتاب المبین یعنی قرآنِ حکیم نازل فرمایا اور قرآن میں ہی سورة القدر کی ذیل کی آیات اس بات کی وضاحت کر دیتی ہیں۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔ سورة القدر، آیت ۱
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ سورة القدر آیت ٤
اسطرح یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کو القدر کی رات نازل کیا گیا۔ یعنی اس رات میں قرآن کو لوح المحفوظ سے سب سے نچلے آسمان پر منتقل کیا گیا جہاں سے یہ کتاب وقفے وقفے سے وحی کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھیجا جاتا رہا۔ لہذا شب قدر ہی وہ رات ہے جس میں فرشتے ہر کام کے متعلق فیصلے لئے اترتے ہیں۔ اور اللہ کی حکمت و مہربانی دیکھئے کہ وہ ہمیں اپنی آخری کتاب یعنی قرآن کریم کے نزول کا مہینہ تک بتا دیتا ہے۔ ملاحضہ کیجئے سورة البقرہ کی یہ آیات۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پالے تو اس کے روزے رکھے اور جو کوئی بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر ے اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا اور تاکہ تم گنتی پوری کر لو اور تاکہ تم الله کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔ سورة البقرہ، آیت ۱۸۵
ان تمام آیات سے ایک ہی بات کی بار بار تصدیق ہوتی ہے کہ قرآن کو رمضان کے مہینے میں شبِِ قدر کی رات کو اتارا گیا، یہی ایک برکتوں اور فضیلتوں والی رات ہے اور اسکے علاوہ قرآن میں شبِِ برأت یا کسی اور رات کی فضیلت کا ذکر نہیں ملتا۔ اب چونکہ شبِِ برأت بذات خود ایک ایجاد کردہ رات ہے تو اسکے حوالے سے ہمیں کہاں کی اینٹ اور کہاں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مصداق عجیب و غریب رسومات کا ایک گھن چکر دکھائی دیتا ہے جنہیں قرآن و حدیث میں ادھر ادھر سے زبردستی نکال کر اس رات سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ کہیں کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کو قبرستان جا کر قبر والوں کے حق میں دعا فرمائی اور ثبوت کے طور پر بخاری و مسلم کی حدیث پیش کی جاتی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرے سے اچانک رات کو اٹھ کر جنت البقیع تشریف لے گئے اور عائشہ رضی اللہ عنہ انکے پیچھے پیچھے قبرستان تگ گئیں اور انہیں وہاں مدفون شہدا کے لئے دعا مغفرت کرتے دیکھا۔ اس واقعے سے متعلق جتنی روایات ہمیں بخاری و مسلم میں ملتی ہیں ان میں شبِِ برأت یا شعبان کےمہینے یا کسی بھی تاریخ یا مہینے کا کوئی ذکر نہیں بس صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا کیونکہ جبریل امین وحی لے کر آئے جس میں قبرستان جاکر دعا کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن شب برأت کے شوقین فرقے اس واقعے کی ایک روایت سنن ترمذی سے لاکر شب برأت کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ اس میں نصف شعبان کا ذکر ہے حالانکہ یہ ایسی روایت ہے جس پر ناصرف محدثین نے جرح کی ہے بلکہ خود امام ترمذی نے یہ حدیث لا کر اس پر تبصرہ کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہمیں کسی اور صحیح روایت میں ایسا کوئی ذکر بھی نہیں ملتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کسی خاص دن یا رات قبرستان جا کر دعا فرماتے۔ احادیث صحیحہ سے تو بس اتنا ثابت ہے کے وفات شدگان نے اگر دینِ حق پر جان دی تو انکے لئے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح قبرستان جانے سے متعلق بھی یہی ملتا ہے کہ یہ اجازت اس لئے دی گئی تاکہ مسلمان کو اپنی آخرت یاد رہے اور دنیا سے بے رغبتی کا احساس ہو اور اس اسکے لئے بھی کوئی خاص دن یا رات مختص نہیں کئے گئے۔ اور یہاں حال یہ ہے کہ ایک پورا کا پورا تہوار ایجاد کر لیا گیا ہے۔
لہذا ناصرف دیو مالائی داستانوں پر مبنی شب برأت نامی یہ تہوار ایجاد کیا گیا بلکہ اس سے متعلق عبادت کے نئے نئے طریقے بھی گھڑ لئے گئے ہیں جنہیں بدعات کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا جیسے ساری رات صلوٰة التسبیح نامی نماز پڑھنا جسکی انفرادی حیثیت تومشکوک ہے ہی کہ اسکے حوالے سے موجود روایات کی سند پر اعتراضات ہیں لیکن اسے باجماعت پڑھنے کی تو سرے سے کوئی روایت موجود ہی نہیں۔ اسی طرح صبح میں قبرستان جا کر قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھانا، عطر و کیوڑے کی بارش کرنا، اگربتیاں جلانا اور رات میں آتش بازی کرنا یا محافلِ نعت و قوالی منعقد کرنا وغیرہ۔ اسی طرح اس تہوار پر حلوہ پکانے کی مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ اس روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے لہذا انہوں نے حلوہ کھایا تھا (جی ہاں انہیں حلوے ہی تو ملتے تھے اس دور میں!) حالانکہ غزوہ احد جسکے دوران یہ واقعہ ہوا شعبان میں نہیں شوال کے مہینے میں وقوع پذیر ہوا۔ بعض لوگ اس حلوے کو اویس قرنی کے نام سے منسوب کرتے ہیں جو غیر اللہ کے نام کی نیاز تو ہے ہی لیکن اس قصے کا مختصراً ذکر ضروری ہے۔ اویس قرنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی محبت تھی کہ جب ان تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت ٹوٹنے کی خبر پہنچی تو انہوں نے فرط غم سے نڈھال ہو کر اپنے تمام دانت توڑ لئے! اندازہ کیجئےیعنی کیا وہ تمام جانثار صحابیؓ کو جو اس واقعے کی وقت نبی ﷺ کے پاس موجود تھے ان میں سے کسی کو اپنا لازوال عشق و محبت اس انداز میں دکھانے کا خیال نہ آیا کہ وہ بھی اپنے دانت توڑ لیتے؟ اور پھر اپنے اچھے بھلے دانت توڑ لینا کیا اپنے ساتھ زیادتی اور اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کفر نہیں؟سو کسطرح ایک بدعت ایک آکاس بیل کی طرز پر پھیل کر معاشرے کو اپنے شکنجے میں کس لیتی ہے اسکی شبِِ برأت کے اس تہوار سے اچھی مثال ملنا شاید ممکن نہیں۔
اس بدعتی تہوار پر روزہ رکھنے کے حق میں جو حدیث توجیح کے طور پرپیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امت کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کے روز اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اس حدیث کا شبِِ برأت سے کیا تعلق؟ حدیث میں دو دنوں کا ذکر ہے اور وہ بھی ہر ہفتے اور یہاں بات سال کے ایک خاص دن کی ہے جس کا کوئی ثبوت احادیثِ مبارکہ میں نہیں ملتا۔ ہم یہ حدیث ذیل میں کاپی کر رہے ہیں۔
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا پیر اور جمعرات کے دِنوں میں اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اُس اِیمان والے کی مغفرت کر دیتا ہے جِس نے اللہ کے ساتھ کِسی کو شریک نہ کیا ہو ، سوائے اُنکے جو آپس میں بغض رکھتے ہوں تو کہا جاتا ہے اِنکو مہلت دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں۔ صحیح مسلم ، کتاب البرو الصلۂ
ان تمام دلائل کی روشنی میں ہم مندرجہ ذیل نکات اخذ کر سکتے ہیں۔
۔ قرآن میں ایک ہی برکتوں والی رات کا ذکر ہے جو شبِِ قدر ہے جس میں فرشتے احکامات اور فیصلے لے کر اترتے ہیں۔ یہ ماہِ رمضان کی رات ہے کہ اسی مہینے میں قرآن اترا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس رات کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو یعنی جو بھی عبادت یعنی نوافل وغیرہ پڑھے جائیں وہ رمضان کے آخری عشرے کی راتوں کو پڑھے جائیں اور شبِِ قدر کو تلاش کیا جائے۔
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات جنت البقیع میں جا کر دعا کی لیکن ہمیں اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا کہ یہ سال کا کونسا دن یا مہینہ تھا کیونکہ احادیث صحیحہ میں اس حوالے سے کچھ نہیں ملتا اور نہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ ٔکرام کو کرنے کا حکم دیا یا اس حوالے سے کسی خاص تاریخ کا ذکر کیا۔
۔ شبِِ برأت کی یہ بدعت بعد میں آنے والے علماء نے ایجاد کی جنکے نام اور القابات اتنے بڑے ہیں کہ کوئی فرقہ انکی غلط تعلیمات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کر پاتا۔ جیسا کہ عبدالقادر جیلانی صاحب ہیں جو بریلوی اور دیوبند فرقوں کے غوث الاعظم تو ہیں ہی ساتھ میں اہلحدیث و سلفی فرقہ بھی انہیں امام اور شیخ مانتا ہے اور جنہوں نے اس بدعت کو چار چاند لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ باقاعدہ اس رات کی عبادت کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ اس طرح سے ایسی تمام بدعات کو اسلامی جامہ پہنا دیا گیا اور آج لوگ ان طاغوتوں کا رد کرنے کی بجائے فرقہ پرستی یا دینی علم کی کمی کی وجہ سے علی الاعلان انکا حصہ بنتے ہیں۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ اللہ تعالی ہمیں شب برأت اور اس جیسی تمام بدعات سے دور رہنے کی اور اپنے دین کو سمجھ کر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جب بات خود سمجھ میں آجائے تو اپنے گھروالوں، عزیزو اقارب ، پڑوسیوں اور دوست و احباب سب کو جس حد تک ممکن ہو سکے ایسی تمام بدعات سے دور رہنے کی تلقین کی جائے یا انکی حقیقت ان پر آشکار کی جائے۔ طاغوت کے انکار کا تقاضا تو یہ ہے کہ جب کوئی آپکے دروازے پر شبِِ برأت کے حلوے کی پلیٹ لے کے آئے تو اسے لپک کر قبول کرنے کی بجائے انہیں نرمی اور محبت سے سمجھائیں کہ اسلام میں اس سب کی کوئی حیثیت نہیں اور اگر وہ نہ مانیں تو انکی پلیٹ شکریے کے ساتھ واپس کر دیں اور واضح کر دیں کی آپ ایسے نام نہاد تہواروں اور رسومات کا حصہ نہیں بنتے تاکہ آئندہ وہ آپکے لئے حلوہ لانے کی زحمت کریں ہی نہ۔ یاد رکھیں کہ مسلمان کا کام صرف اپنے لئے ثواب یا جنت کمانا نہیں بلکہ دوسروں کو برائی سے روکنا بھی مسلمان کا فرض ہے تاکہ اللہ کے خالص دین کو ایسی تمام خرافات سے پاک کر کے تمام انسانیت تک پہنچایا جائے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کا سامان پیدا ہو سکے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا۔
اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ سورة التحریم ٦
فی امان اللہ۔
ایک تبصرہ شائع کریں