احتساب کی رام لِیلا ـ

ہمارے گھر کے بالمقابل انکل علی رضا مرحوم کا چوبارہ تھا ، صحن ایک ہی تھا چوبارے کے نیچے ھم لوگ کھیل رھے تھے جبکہ میرا چھوٹا بھائی جو شاید سال بھر کا ھو گا بیٹھا ھوا تھا ،، مرزا صاحب کے بیٹے نے جو کہ مجھ سے چار پانچ سال چھوٹا تھا برآمدے کے ستون کے ساتھ لگے بھڑوں کے چھتے کو غلیل سے پتھر مارا ، چھتہ ٹوٹ کر سیدھا میرے بھائی پر گرا اور بھڑیں کچھ اس طرح اس کو لپٹ گئیں کہ سر اور منہ پہ صرف بھڑیں ہی نظر آتی تھیں چہرہ نظر نہیں آرھا تھا ، ھم خود بھڑوں کے ڈر سے دور سے ھی چیخ رھے تھے کہ امی جان دوڑتی ھوئی آئیں اور بھڑوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ پکڑ کر پھینکنے لگیں ، ان کے ہاتھ اندر باھر سے بھڑوں نے چھلنی کی طرح کر دیئے مگر انہوں نے بچے کو بھڑوں سے پاک کر کے ھی چھوڑا ، خود ان کے ہاتھ پھول کر کپہ بن گئے جبکہ بھائی کے ماتھے اور چہرے اور سر پر سوجن کا یہ عالم تھا کہ چہرہ فٹ بال نظر آتا تھا اور بعد میں بعض زخموں میں پیپ پڑ گئ اور چیچک کی طرح کے گڑھے پڑ گئے ،،،

مرزا صاحب سے شکایت کی گئ تو انہوں نے کہا کہ آپ فکر مت کریں بچے کو اپنے کیئے کی سزا "بروبر" ملے گی اور آئندہ اس کا باپ بھی ایسی شرارت نہیں کرے گا ـ تھوڑی دیر کے بعد چوبارے کے اوپر والے کمرے سے دَبل دبل اور دھما دھما کی آوازوں کے پسِ منظر میں ارشد مرزا کی چیخیں اور دہائیاں ، ہائے ابا جی ، اب نہیں کرونگا ،، ہائے مر گیا ،، ہائے دادی جی ،، امی دوڑتی ھوئی اوپر گئیں تا کہ بچے کو چھڑائیں کیونکہ بہرحال وہ ایک ماں تھیں ،، مرزا صاحب پلاننگ کے جوش میں دروزے کو اندر سے کنڈی لگانا بھول گئے تھے ،، امی نے جونہی دروازے کو دھکا دیا دروازہ چوپٹ کھل گیا ، دیکھا تو مرزا علی رضا مرحوم رضائیوں ، تلائیوں کو دبا دب کُوٹ رھے تھے جبکہ ارشد مرزا پاس کھڑا بسنتی کی طرح دلدوز چیخیں مار رھا تھا ،،،

یہی کچھ نیب شریف فیملی کے ساتھ کر رہی ہے ـ آشیانہ اسکیم میں شہباز شریف پر الزام لگایا گیا کہ اس نے ایک کمپنی پر دباؤ ڈال کر اس کا کنٹریکٹ منسوخ کیا ، جو کہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہے ، یہ ممکن نہیں کہ شہباز اور ان کے سیکرٹری کو یہ یاد نہ ہو کہ اس کمپنی کا کنٹریکٹ کیسے منسوخ ھوا تھا ،، مگر انہوں نے ریمانڈ کی مدت گزار دی اور اپنی بیگناہی میں کچھ پیش نہ کیا ، جب عوام بھی خوش ہو لی اور فلم کی طرح ان کے پیسے پورے ہو گئے تو اب اچانک ایک قانونی دستاویز سامنے آ گئ جس میں خود اس کمپنی نے درخواست کر کے معاہدے سے دستبرداری اختیار کی تھی جس کے عوض اس نے جرمانہ بھی ادا کر دیا تھا ـ اس دستاویز کے سامنے آتے ہی نیب کا کیس ختم ہو گیا اور وہ جو شکیل بھائی خوشخبری دے گئے تھے کہ نومبر کے آخر میں ریفرینس دائر ھو کر شہباز شریف کا معاملہ نمٹ جائے گا وہ موسم کی پیشگوئی سے زیادہ کچھ بھی نہ رہا ،، نیب نے مزید ریمانڈ کی درخواست دی تو عدالت نے پوچھا کہ اب کیا جواز ہے ؟ کہا گیا کہ نیب یہ نہیں کہتی ھے شہباز نے کرپشن کی ہے ،بس چند تحائف ہیں ھو حمزہ شہباز کو باپ کی طرف سے دیئے گئے ہیں ان کی وضاحت درکار ہے ، ریمانڈ چھ دن کا دیا گیا اور یہ چھ دن شہباز چریف پمز میں گزاریں گے اور فلم کا دی اینڈ ھو جائے گا ـ

جب آپ پولیس کو پیسے دے دیتے ہیں یا عرفِ عام میں مک مکا کر لیتے ہیں تو وہ آپ کو بری نہیں کر دیتے کیونکہ ان کا بری کرنا غیر محفوظ ھوتا ھے اس لئے کہ انکوائریاں بدلتی رہتی ہیں کوئی دوسرا انکوائری میں آپ کو گنہگار ثابت کر دے گا یوں پیسے ضائع ھو جائیں گے نئے تفتیشی کو پھر سے خریدنا پڑے گا ،لہذا محفوظ طریقہ یہ ہے کہ رشوت لینے والا آپ کو گنہگار قرار دے کر چالان کر دیتا ھے مگر ثبوت کے لئے ضمنیاں ایسی بےسروپا لکھتا ھے کہ ملزم عدالت کی طرف سے بیگناہ ہو جاتا ھے ، یا سزا ہلکی ملتی ہے اور کہہ دیا جاتا ھے کہ سیشن آپ کو ہلکی پھلکی سزا دے گا مگر اگلی عدالت آپ کو ضمانت دے دے گی اور ہائی کورٹ آپ کو بری کر دے گی ،، بالکل یہی گیم چل رہی ہے ، شریف فیملی کی اسکیننگ کر کے میل کچیل صاف کر دی گئ ہے اب وہ بالکل معصوم ہو کر اپنا کام کریں گے ،، کبھی اپنی حد سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے اور راوی چین ہی چین لکھے گا
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget