چلبلی سی میں رابعہ بخاری ✍️ حصہ سوئم

افففففففف تھک گئی آج تو میں اب گھر چلنا لاہیے۔ پریشے تھکن کی وجہ سے نیچے جھکتے ہوئے بولی۔ اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ساجد صاحب کی طرف بڑھنے لگی۔
بابا چلو چلے بہت تھک گئی میں اب پھر کل آئے گے۔ پریشے نے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے کہا۔
ہاں بیٹا ٹھیک ہے لیکن پہلے ان سے ملوں یہ ہے مسٹر سلطان ہمدان صاحب جن کے ساتھ ہم اپنا الگ پراجیکٹ کررہے ہیں۔ اور سلطان صاحب یہ ہے میری بیٹی پریشے لیکن میرے لیے میری پری ہے یہ۔ لیٹل اینجل۔ ساجد صاحب نے پریشے کو آپنے ساتھ لگایا اور ان کا آپس میں تعارف کروایا۔
السلام علیکم انکل کیسے ہیں آپ؟ پریشے سلطان صاحب کی طرف بڑھج اور پیار کیلئے سر آگے جھکایا۔
وعلیکم سلام۔ میں بلکل ٹھیک آپ سناؤ ؟؟ سلطان صاحب نے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا۔
مل کر بہت خوشی ہوئی آپ سے سلطان انکل۔ پریشے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بہت پیاری بچی ہے آپکی بلکل ٹھیک کہا پری ہے یہ۔ سلطان صاحب نے پریشے کے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔
انکل آپ بھی بلکل راجیش کھنہ جیسی پرسنیلیٹی رکھتےہیں۔ پریشے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ساجد صاحب اور سلطان صاحب نے سنا تو دونوں نے زور دار قہقہ مارا۔
اچھا اب کب ملے گی یہ پری جس کی وجہ سے آج میں بہت ہنسا۔ سلطان صاحب نے پریشے کے گالوں کو کھنچتے ہوئے کہا۔
انشاء اللہ کل۔ آپ آئے گے نہ انکل؟؟؟ پریشے نے بچوں کی طرح پوچھتے ہوئے کہا۔
ہاں بیٹا ضرور اب تو روز آؤ گا۔ سلطان صاحب نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
تو پھر ٹھیک آپ بھی کل سے جاگنگ ڈریس پہن کر آنا ہلکی ہلکی واک مل کر کرے گے اور ڈھیر ساری باتیں بھی۔ پریشے نے دونوں ہاتھوں کو ملاتے ہوئے کہا۔
جی ضرور بیٹا۔ سلطان صاحب نے مسکراتے ہوئے آگے کہا۔
اچھا پھر چلتے ہیں ہم امید ہے اچھا وقت گزرا ہمارا ساتھ اور اب تو ملاقاتیں تو ہوتی رہے گی۔ ساجد صاحب نے سلطان صاحب سے مصاحفہ کرتے ہوئے کہا۔
ہاں بہت اچھا گزرا اور میں کل بھی ضرور آؤ گا۔ سلطان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اچھا انکل کل ملتے پھر فی ایمان اللہ۔ پریشے نے کہا اور ساجد صاحب کے ساتھ کار پارکنگ کی طرف بڑھ گئی۔
سلطان صاحب پریشے کی طرف دیکھتے رہے جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔
بہت ہی پیاری بچی ہیں کچھ ہی لمحے میں مجھے مسکرانا سیکھا گئی۔ کاش احمر بھی اس سے مل لیتا۔۔۔ ابھی سلطان صاحب یہ سوچتے ہوئے مسکرا ہی رہے تھے کہ احمر ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔
کیا ہوا دادا جان بہت خوش لگ رہے آپ تو۔ احمر ہمدان نے سلطان صاحب کو مسکراتے دیکھا تو وجہ پوچھی۔
بس بیٹا ایک پری تھی معصوم سی وہ چلبلی سی حرکتیں کر رہی تھی اسے دیکھ کر ابھی تک مسکرا رہا ہو۔ سلطان صاحب نے احمر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
واہ ہمیں بھی اس پری سے ملوا دیتے تاکہ ہم بھی اس سے وہ طریقہ پوچھ لیتے جس سے آپ ہر وقت خوش رہتے۔ احمر ہمدان نے پانی بوتل پکڑتے ہوئے کہا 
کاش۔۔۔۔۔۔ سلطان صاحب نے کہا اور پھر چل پڑے۔
احمر نے سلطان صاحب کو گاڑی میں بٹھایا اور گھر کا رخ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا میں جارہی فریش ہونے آپ بھی ہو کر آؤ اور پھر مل کر ناشتہ کرتے ٹھیک ہے۔ پریشے نے ساجد صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ 
ہاں ٹھیک ہے جلدی آنا۔ ساجد صاحب نے کہا اور پھر دونوں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
تھک گئی آج۔ پریشے نے جوگرز اتارتے ہوئے کہا اور بیڈ پر گرتے ہوئے انداز سے لیٹ گئی۔
آنکھیں بند کی تو پھر سے احمر ہمدان نظر کے سامنے آیا۔
پریشے فورا اٹھ کر بیٹھ گئی۔
یہ کھڑوس مکھی چوس نکچڑا میری آنکھوں میں بھی پہنچ گیا سمجھتا کیا ہے یہ خود کو۔ اب ملے تو صیحح ایسا مزہ چکھاؤ گی یاد رکھے گا۔ پریشے نے شیطانی انداز سے کہا اور اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔
کچھ ہی دیر بعد شمائلہ بیگم نے پریشے کو ناشتے کے لیے آواز دی تو فورا بھاگتی ہوئی نیچے آگئی۔
السلام علیکم سب کو امید ہے ٹھیک ٹھاک ہونگے سب۔ پریشے نے ڈائیلاگ بازی کرتے ہوئے کہا اور کرسی پر براجمان ہوگئی۔
وعلیکم سلام۔ ٹھیک سے ناشتہ کرنا اپنی لندن کی عادتیں وہی چھوڑ کر آنی تھی۔ شمائلہ بیگم نے پری کو ناشتہ دیتے ہوئے کہا۔
ہاں ماما انکو اپنے جیسا بنا آئی ہو۔ پری نے شرارتی انداز سے کہا۔
اچھا بیٹا آگے کیا پلین ہے اب؟ ساجد صاحب نے سنجیدگی سے پری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
دوست پہلے سنجیدگی غائب کرو پھر بتاؤ گی۔ پریشے نے ساجد صاحب کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا کیا لڑکی ہے یہ قسمیں سیریس نہیں ہونے دیتی۔ ساجد صاحب نے قہقہ مارتے ہوئے کہا۔
اچھا سوچ رہی ہو دو تین دن گھوموں ذرا دیکھو کیا چینجمنٹ آئی ہے اس شہر میں اس کے بعد اپکے ساتھ آفس۔ پریشے نے نوالہ منہں میں ڈالتے ہوئے کہا۔
ہاں چلو ٹھیک لیکن دو تین دن بس اس سے زیادہ نہیں۔ ساجد صاحب نے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔
میں تو کہتی ہو اسے گھر بٹھائے گھر داری سیکھاؤ اسے میں آگلے گھر جا کر کیا کرے گی یہ؟؟۔ ناک ہی کٹوائے گی سسرال میں ہماری۔ شمائلہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔
پری نے سنا تو منہ بناتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 
کدھر چلی ناشتہ تو کرو پورا۔ ساجد صاحب نے پری کو روکتے ہوئے کہا۔
کرلیا ناشتہ بابا، ماما تو بس مجھے بھیجنا چاہتی۔ پریشے کی آنکھوں میں آنسوں اگئے۔
رولا دیا نہ میری بیٹی کو تم نے بیگم۔ ساجد صاحب اٹھے اور پری کو گلے لگا لیا۔
اچھا نہ اب نہیں کہتی بس رونا نہیں چپ اور آرام سے ناشتہ کروں شمائلہ بیگم نے پریشے کی گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔
پری دوبارہ بیٹھ گئی اور ناشتہ کرنے لگ گئی۔
اچھا میرا تو ہوگیا ناشتہ اب میں جاتا ہو اچھا شمائلہ بیگم پری شام کو ملتے دھیان رکھنا۔ ساجد صاحب دونوں کو گلے لگے اور باہر کی طرف چل پڑے۔
اچھا ماما میں جارہی روم میں. کچھ دیر میں جاؤ گی باہر آپ بھی چلنا میرے ساتھ۔ پریشے نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
شمائلہ بیگم ملازم کے ساتھ مل کر برتن سمیٹھنے لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمر اور سلطان صاحب دونوں گھر پہنچ کر اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے تاکہ فریش ہو سکے۔
احمر فریش ہو کر شیشے کے سامنے کھڑا خود کا معائنہ کررہا تھا جب اسے اچانک پریشے کا عکس شیشے میں نظر آیا۔
یہ کیا؟؟؟؟؟ احمر نے عکس دیکھا تو فورا اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کہیں وہ یہاں تو نہیں. آگئی۔ 
لیکن جب پیچھے کسی کو نہ پایا تو اپنی سر پر خود ہی ہلکی سی تھپکی دی اور بولا۔
پتہ نہیں کیا ہوگیا مجھے وہ یہاں کیسے آ سکتی۔ چڑیل کہیں کی۔ احمر ہمدان نے شیشے کی طرف دیکھ کر برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
وآپس اس تصویر کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
کیسا لگ رہا ہو میں بتاؤ۔ لگ رہا نہ ڈیشنگ۔ احمر ہمدان یہ کہتے ہوئے مسکرآ رہا تھا۔ وآپس پیچھے کی طرف ہوا اور ناشتہ کرنے کیلئے نیچے کی طرف بڑھ گیا۔
احمر ڈائینگ ٹیبل پر گیا تو سلطان ہمدان ابھی تک نہیں آئے تھے۔
احمر نے کرسی کھنچی اور بیٹھ کر انکا انتظار کرنے لگ گیا۔
کچھ ہی دیر میں سلطان صاحب بھی ٹیبل پر اگئے اور پھر دونوں نے ناشتہ کرنا شروع کردیا۔
اچھا اب کیا ارادہ ہے تمہارا برخودار۔؟؟؟ سلطان صاحب نے احمر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں دادا جان بس اپکے ساتھ آفس۔ احمر نے ناشتہ کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہا۔
اور شادی کے بارے میں کیا سوچا؟؟؟ سلطان صاحب اب اپنی اصل بات پر اگئے تھے۔
جو آپ بہتر سمجھے۔ احمر نے اوپر دیکھے بناء کہا۔
ہممممممم بہت خوب۔ اب میرے ساتھ جاؤ گے آفس کیا؟ سلطان صاحب نے پھر سے سوال کیا۔
نہیں دادا جان آپ چلے میں اپکے پیچھے پیچھے آجاؤ گا کچھ امپورٹینٹ کال کرنی ہے آپ لیٹ ہو جائے گے۔ احمر ہمدان نے سلطان صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ہممم ٹھیک۔ جاؤ ڈرائیود سے کہوں گاڑی نکالے۔ سلطان صاحب نے ایک ملازم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ. فورا کھڑے پاؤں باہر کی طرف نکل گیا۔
چلو پھر ہوتی ہے ملاقات آفس میں۔ سلطان صاحب نے کہا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
جی دادا جان۔ احمر نے کہا اور وہ بھی ان کے ساتھ باہر کو آگیا۔
سلطان صاحب کے جانے کے بعد احمر نے لندن میں کچھ کالز کی اور پھر وہ بھی آفس کیلئے نکل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما میں کچھ سامان لینے جارہی ہوں پاس مارکیٹ میں اپنے کچھ منگوانا تو بتائیں۔ پریشے نے لاؤن میں آتے ہوئے کہا۔
نہیں مجھے کچھ میں منگوانا۔ شمائلہ بیگم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
اچھا کب تک آؤ گی؟؟؟ شمائلہ بیگم نے پیچھے سے آواز دی۔
ماما دوگھنٹے تک۔ پریشے نے جواب دیا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
ابھی راستے میں ہی تھی کہ کوئی گاڑی اچانک اس کی گاڑی کے سامنے آگئی جس کی وجہ سے دونوں گاڑیوں کی آپس میں ٹکر ہوگئی۔
پریشے کو زور کا جھٹکا لگا لیکن خوشقسمتی سے وہ محفوظ رہی۔
ڈر کی وجہ سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ہمت کرکے وہ باہر نکلی تو دیکھا اس کی گاڑی کا فرنٹ بونٹ بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔
پریشے ابھی اپنی گاڑی کو دیکھ ہی رہی تھی کہ کوئی پیچھے سے بولا۔
آپکو گاڑی چلانے نہیں آتی کیا ؟؟؟؟ دیکھ نہیں سکتی تھی۔ 
پریشے نے غصے سے پیچھے منہ کیا تو اس کے بال پیچھے کھڑے شخص کے منہ پر جا لگے۔
پریشے نے اپنے بال صیحح کیے تو دیکھا کہ یہ وہی شخص تھا جسکی وجہ سے اس کی فلائیٹ خراب ہوئی اور صبح بھی اس کی وجہ سے گری۔
دونوں نے ایکدوسرے کو دیکھا تو اکھٹے بولے۔
تم؟؟؟؟؟ 
میرا پیچھا کر رہے نہ آپ؟؟ پریشے نے قدرے غصے سے کہا۔
آواز نیچے میں عادی نہیں ان چیزوں کا۔ احمر نے بھی اسی انداز سے کہا۔
میرا نقصان کردیا آپ نے بھرے اس نقصان کو اب۔ پریشے انگلی دیکھاتے ہوئے احمر کی طرف بڑھی۔
اور جو میرا نقصان ہوا وہ۔ احمر نے اس کی انگلی پکڑتے ہوئے کہا۔
اس کے ذمہ دار آپ خود ہے۔ پریشے اپنی انگلی چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
ہر چیز کا میں ہی ذمہ دار بن جاتا کیوں؟؟؟ احمر نے انگلی کو دباتے ہوئے کہا۔
آپکو شرم نہیں آتی ایک لڑکی کو تنگ کرتے ہوئے چھوڑے میری انگلی ابھی۔ پریشے نے وارن کرتے ہوئے کہا۔
نہیں تو کیا؟؟؟؟ میرا نقصان بڑھو اور جاؤ۔ احمر نے شرط رکھتے ہوئے کہا۔
جی نہیں........ پریشے چلا کر بولی۔
پھر یہ انگلی میرے ہاتھ میں ہی ٹوٹے گی۔ احمر ہمدان نے طنزیہ مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا۔
پریشے نے سنا تو اپنی ہیل احمر کے بوٹ پر ماری۔
احمر ہمدان تکلیف کی وجہ سے چلا اٹھا اور درد کی شدت کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے پریشے کی انگلی چھوٹ گئی۔
پریشے اپنی انگلی کو دبانے لگ گئی۔
احمر کو اب غصہ آ رہا تھا۔ اس نے پریشے کو بازوؤں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔
سمجھتی کیا ہو تم خود کو ہاں؟؟؟؟ احمر غصے سے بولا۔
جو بھی سمجھو آپکو کوئی حق نہیں مجھ سے ایسے بات کریں۔ پریشے نے کہا اور احمر کو دھکا دیا۔
میری گاڑی ٹھیک کروائے ابھی۔ اب کی بار پریشے بھی غصے سے بولی۔
احمر پاؤں پٹختا ہوا گاڑی کی طرف بڑھا اپنا فون اٹھایا اور کار ریپئرنگ کرنے والے کو بلایا۔
پریشے نے دیکھا تو اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی اور انتظار کرنے لگی۔
جنگلی بلی ٬ چڑیل۔ احمر ہمدان منہ میں پریشے کو دیکھ کر بڑبڑایا۔
کھڑوس مکھی چوس اکڑو بندر کہیں کا ہہہہہہہہ پریشے بھی اسکی طرف دیکھ کر آہستگی سے بولی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget