موجودہ امّت میں عقائد کی خرابی کے حوالے سے ایک اور مشہور و معروف عقیدہ مردہ انسانوں کو دعا و پکار میں وسیلہ بنانے کا ہے۔ دعا کے حوالے سے قرآن و حدیث سے بس اتنا ہی ثابت ہے کہ خود اللہ سے دعا کی جائے اور صرف اور صرف اسی کو مدد کے لئے پکارا جائے ۔ اسی طرح زندہ اور نیک و متقی انسانوں سے بھی اپنے حق میں دعا کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے کہ یہ طریقہ بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے اور جہاں تک اللہ کو واسطہ دینے کا معاملہ ہے تو یہاں بھی ہمیں یہی ملتا ہے کہ اللہ کو اسکے پاک ناموں اور اسکی ذاتی صفات کا واسطہ بھی دیا جا سکتا ہے اور اسی طرح اپنے اچھے کاموں کا واسطہ دینا بھی ٹھیک ہے۔ اس سلسلے میں ملاحظہ کیجئے قرآن کی ذیل کی آیات۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
اور جب تم سےمیرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے پھر چاہیئے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ سورة البقرہ، آیت ۱۸٦
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اگر الله تمہاری مدد کرے گا تو تم پر کوئی غالب نہ ہوسکے گا اور اگر اس نے مدد چھوڑ دی تو پھر ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے اور مومنین کو الله ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ سورة آل عمران ۱٦۰
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ
اور سب اچھے نام الله ہی کے لیے ہیں سو اسے انہی نامو ں سے پکارو، سورة الاعراف آیت ۱۸۰
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ۔ قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
کیا انہوں نے الله کےسوا اور حمایتی بنا رکھے ہیں کہہ دوکیا اگرچہ وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں۔ کہہ دو ہر طرح کی حمایت الله ہی کے اختیار میں ہے آسمانوں اور زمین میں اسی کی حکومت ہے پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ سورة الزمر آیات ٤۳ ۔ ٤٤
وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا
اور جب تم پر دریا میں کوئی مصیبت آتی ہے تو بھول جاتے ہو جنہیں الله کے سوا پکارتے تھےپھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ سورة بنی اسرائیل، آیت ٦۷
ہمارے ہاں فرقوں کی پھیلائی ہوئی اس بدعقیدگی جس کے مطابق مردہ انسانوں کو پکارا یا دعا میں وسیلہ بنایا جا سکتا ہے کے پیچھے جو فلسفہ کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ اللہ کے نبی اور ولی اللہ کے بہت نزدیک اور مقرب ہوتے ہیں لہذا انہیں یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک عام آدمی کے حق میں اللہ سے سفارش کریں اور اسکی دعا کو اللہ کے ہاں مقبول و منظور کروانے میں وسیلہ بنیں۔ زمانہ قدیم میں بت پرستوں کا اپنے خداؤں اور ان کے بتوں کے حوالے سے یہی عقیدہ تھا اور اسی طرح مشرکینِ مکہ بھی ہو بہو اسی عقیدے کے ماننے والے تھے اور قرآن ذیل کی آیات میں اس باطل عقیدے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور الله کے سوا اس چیز کی پرستش کرتے ہیں جونہ انہیں نقصان پہنچا سکے اورنہ انہیں نفع دے سکے اور کہتے ہیں الله کے ہاں یہ ہمارے سفارشی ہیں کہہ دو کیا تم الله کو بتلاتے ہو جو اسے آسمانوں اور زمین میں معلوم نہیں وہ پاک ہے اوران لوگو ں کے شرک سے بلند ہے۔ سورة یونس، آیت ۱۸
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
خبردار، خالص فرمانبرداری الله ہی کے لیے ہے جنہوں نے اس کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں الله سے قریب کر دیں بے شک الله ان کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتےتھے بے شک الله اسے ہدایت نہیں کرتا جو جھوٹا ناشکرگزار ہو۔ سورة الزمر، آیت ۳
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ۔ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ
اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو الله کےسوا اسےپکارتا ہے جو قیامت تک اس کے پکارنے کا جواب نہ دے سکے اور انہیں ان کے پکارنے کی خبر بھی نہ ہو۔ اور جب لوگ جمع کئےجائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔ سورة الاحقاف، آیات ۵۔٦
یہاں پر یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں توسّل یا مُردے کو وسیلہ بنانے کے عقیدے کی عام طور پر دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ جس میں براہِ راست انبیاء اور پیغمبران یا اولیاء اللہ کو پکارا جاتا ہےاور انکے نام کی صدائیں لگائی جاتی ہیں جیسے کہ یا رسول اللہ، یا علی مدد، یا غوث پاک، یا داتا ، دستگیر، غریب نواز، گنج بخش، حق باھو بے شک باھو کی پکاریں ہیں اور یہ سب ’’پکار کے شرک‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ وسیلے کی دوسری قسم میں مدد کی دعا میں مخاطب اللہ ہی کو کیا جاتا ہے لیکن یہاں دعا و پکار بلا واسطہ نہیں بالکل بالواسطہ ہوتی ہے یعنی عقیدہ یہ بنایا جاتا ہے کہ چونکہ اللہ کے دربار تک ایک عام گناہ گار بندے کی رسائی ممکن نہیں لہذا لازم ہے کہ وہ اپنی دعا میں کسی فوت شدہ نبی، ولی یا نیکوکار بزرگ کا وسیلہ پکڑے اور ان کے حق اور انکے واسطے سے اللہ سے دعا کی جائے کہ اللہ انکی بات نہیں ٹالتا۔ یعنی نا صرف اللہ پر یہ بہتان باندھا جاتا ہے کہ شاید (نعوذ باللہ) وہ دعاؤں کو براہِ راست سننے اور ان پر بغیر کسی کے دباؤ یا سفارش کے فیصلہ صادر کرنے کی طاقت و ہمت نہیں رکھتا اور یہ کہ کچھ مخلوقات خالقِ کائنات کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، بلکہ اللہ کی ذاتی صفات یعنی الحیّی القیوم اور السمیع العلیم یعنی ہمیشہ زندہ و قائم اور ہمیشہ سننے اور سب جاننے والے کو مردہ نیک انسانوں سے منسوب کر لیا جاتا ہے اور عقیدہ یہ بنا لیا جاتا ہے کہ اللہ کے یہ مقرّب بندے بالخصوص اپنی قبروں سے اور بالعموم دنیا کے کسی بھی کونے سے اپنے مریدوں کی پکاریں اور التجائیں سن لیتے ہیں اور پھر انہیں اللہ کے ہاں پہنچاتے ہیں اور ساتھ میں انکے حق میں سفارش بھی کرتے ہیں یعنی اگر بندے کی کسی دعا پر اللہ کا فیصلہ نفی میں ہو تو یہ اسے اپنے اثرورسوخ یا حق سفارش سے ہاں میں بدلوا دیتے ہیں۔
اور اسی بت پرستی اور شرک پر مبنی عقیدے کو آج زبردستی اسلامی بنا دیا گیا ہے، یعنی وہ قبیح عقائد و رسومات جن کے خلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابۂ کرامؓ نے زمانے پھر کی دشمنی مول لی اور جدو جہد کی، تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کیں اور جہاد کیا، آج انہی باطل عقائد اور رسومات کو زبردستی اسلام میں شامل کر لیا گیا ہے۔ ورنہ مشرکینِ مکہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے اور کس بات پر اختلاف تھا؟ یہی تو وہ نقطہ تھا جس پر مشرکینِ مکہ جھگڑتے تھے کیونکہ انکا ماننا یہ تھا کہ انکے وفات پا چکے نیک بزرگ اللہ کے ہاں انکے سفارشی ہیں لہذا وہ انکے بت بنا کر انہیں پوجتے، انکی پکاریں اور صدائیں لگاتے اور انہیں اپنی دعاؤں میں وسیلہ بناتے اور یہ سب وہ دینِ ابراھیمی کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرکے کرتے، اور یہی سب آج ہمارے ہاں اسلام کے لبادے میں کیا جاتا ہے۔ مشرکینِ مکہ کے یہ بت اور مجسمے خیالی ہستیوں کے نہیں تھے بلکہ وفات پا چکے انسانوں اور انبیاء و بزرگان کے تھے جیسے کہ کعبہ اللہ میں مشرکینِ مکہ کے دیگر وفات پا چکے بزرگان کے علاوہ ابراھیم علیہ سلام اور اسماعیل علیہ سلام کے بت بھی تھے جنہیں فتحِ مکہ کے وقت گرایا اور توڑا گیا۔ اور آج کی امّت یہی کام اپنے وفات پا چکے بزرگان اور اولیاء یا دیگر لوگوں کی قبروں کے ساتھ کرتی ہے یعنی مشرکینِ مکہ کے کھڑے بت کی جگہ آج پڑے بت یعنی قبر نے لے لی ہے۔
ناصرف یہ بلکہ اس باطل عقیدے کو حق ثابت کرنے کے لئے نئی نئی تاویلات اور توجیہات بھی گھڑ لی گئیں جیسے کے قرآن و حدیث میں جہاں کہیں عربی لفظ وسیلہ استعمال ہوا تو اسکا ترجمہ اردو لفظ وسیلہ کی مناسبت سے ذریعہ کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ دیکھو اللہ تو خود کہ رہا ہے کے اسکی طرف وسیلہ پکڑو اور کسی کے ذریعے سے دعا کرو۔ حالانکہ عربی لفظ وسیلہ کے درست معنی قُرب یا نزدیک ہونے کے ہیں اسی لئے جب ہم صحیح احادیث پر نظر ڈالیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ وسیلہ جسے مقامِ محمود بھی کہا جاتا ہے جنت کا وہ اعلیٰ مقام ہے جو اللہ کے عرش کے نزدیک ترین ہے اور یہی وہ مقام ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انکی آماجگاہ ہے یا انکے لئے مختص ہے اور اسی کا ذکر ہمیں صحیح مسلم اور بخاری کی مندرجہ ذیل احایث میں ملتا ہے۔
عبداللہ عمرو ابن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم اذان دینے والے کو اذان دیتے سنو تو وہی کلمات کہو جو وہ کہ رہا ہو۔ پھر مجھ پر دُرود پڑھوکیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود پڑھتاہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ طلب کرو کیونکہ یہ وسیلہ جنت کا وہ مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں صرف ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے امید ہے کہ میں وہ بندہ ہوں۔ سن لو، جس نے میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔ رواہ صحیح مسلم
جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اذان سن کر یہ کہا اے اللہ، اس پوری پکار کے رب اور ہمیشہ باقی رہنے والی صلوٰۃ کے مالک تُو عطا فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت اور معبوث فرما ان کو اس مقامِ محمود پر جس کا تو نے وعدہ کیا ہے تو ایسا کہنے والے پر میری شفاعت واجب ہو گئی۔ صحیح بخاری جلد اول صفحہ ۸۶
ثابت ہوا کہ اسی مقامِ وسیلہ یا مقامِ محمود کا ذکر ہمیں اذان کے بعد پڑھی جانے والی دعا میں بھی ملتا ہے جسے ہم بچپن سے پی ٹی وی پر باقاعدگی سے ہر اذان کے بعد سنتے آئے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں سمجھاتا کہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا میں وسیلہ بنانا نہیں بلکہ اسے پڑھ کر ہم اللہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس مقامِ محمود یا الوسیلہ یعنی جنت کا مقام ملنے کی دعا کرتے ہیں۔ اسی طرح بخاری و مسلم کی دیگر احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس شفاعت کی اجازت انہیں صرف قیامت کے دن ہی دی جائےگی۔ اسکے علاوہ ہمیں صحیح بخاری میں نبی صلی اللہ وسلم کی وفات اور انکے اللہ کے پاس رہنے کو ترجیح دینے کے حوالے سے ایک اور حدیث بھی ملتی ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات اور انکے ادا کئے ہوئے آخری کلمات کا ذکر کرتی ہے۔
عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘ یعنی ’’ اے اللہ رفیق اعلیٰ ‘‘ ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ ’’اللھم الرفيق الاعلیٰ‘‘۔ صحیح بخاری، کتاب الدعوات
امام بخاری کی لائی ہوئی یہ حدیث یہ ثابت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مدینہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے اعلیٰ مقام پر ہیں اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی قبر یا اس دنیا میں حاضر و ناظر رہ کر اپنے امتیوں کا سفارشی بننے اور انکا درود و سلام سننے کی بجائے اللہ کے پاس جنت میں رہنے کو ترجیح دی۔ اسی طرح بخاری میں اس حوالے سے ایک اور طویل اور جامع حدیث بھی ملتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں یہ مقام دکھایا گیا جہاں اپنی وفات کے بعد انہیں رہنا تھا۔ ہم اس حدیث کو اسکی طوالت کے باعث یہاں مکمل کاپی نہیں کر رہے بلکہ صرف اسکا آخری حصہ پیش کر رہے ہیں۔ قارئین مکمل حدیث کو ہمارے عذابِِ برزخ کے مضمون میں پڑھ سکتے ہیں۔
اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔صحیح بخاری ، کتاب الجنائز
چونکہ انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے ہمارے لئے اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں وہ مقام دکھا دیا گیا جہاں انہیں اپنی دفات کے بعد رہنا تھا۔
۔ لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب اپنی مدینہ کی قبر میں نہیں بلکہ مقامِ محمود پر زندہ ہیں اور یہ زندگی کسی اعتبار سےدنیاوی زندگی نہیں بلکہ برزخی زندگی ہے اور ہمارے تقریباًٍٍ تمام فرقوں کا انہیں انکی قبر میں زندہ اور دنیا میں حاضر و ناظر ماننا یا یہ کہنا کہ وہ لوگوں کے خوابوں میں آتے ہیں اور اشارے دیتے ہیں قطعی غلط اور خلافِ قرآن و حدیث عقائد ہیں۔
۔ تمام انسانی ارواح وفات کے بعداکٹھی یا ایک ہی جگہ پر یعنی عالمِ برزخ میں عذاب یا راحت کی منزلوں سے گزرتی ہیں۔
۔ نیک لوگ یا مومنین ، انبیاء اور شہداء بھی برزخ میں اکٹھے ہیں جہاں انہیں خاص جسم ملتے ہیں جیسے شہداء کو اڑنے والا جسم ملتا ہے۔
اس طرح ا ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انبیاءکرام بشمول نبی آخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم، شہداء اور دیگر مومنین سب اپنی وفات کے بعد برزخ میں ہیں اس دنیا میں موجود اپنی قبروں میں نہیں لہذا انہیں پکارنا یا ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہماری پکاروں سے باخبر ہیں اور ہمارے لئے دعاؤں میں وسیلہ بنتے ہیں اس سب کا کوئی جواز اسلام میں نہیں۔ اسلام میں صرف اور صرف ایک ہی مولیٰ، مالک، حاجت روا، مشکل کشا، داتا، دستگیر، گنج بخش، غریب نوازاور غوث الاعظم ہے جو اللہ تعالی کی ذات ہے اورکسی مخلوق کو یہ حق یا اختیار حاصل نہیں کہ وہ اللہ کی ذاتی صفات میں شریک ہو سکے لہذا ہر مصیبت کی گھڑی اور ہر طرح کی ضرورت کے وقت اس ایک مالکِ کائنات کو ہی پکارا جائے گا کسی اور کو نہیں کہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے اور ہم ہر نماز {صلوٰة} کے آغاز میں قرآن کی پہلی سورة کی تلاوت کر کے صرف اسی ایک مالک سے مدد مانگنے اور اسی کی عبادت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یعنی إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِين (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں)۔ اور یہ آیت ہم ہر روز اپنی ہر صلٰوة کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں لیکن شائد اس پر غور نہیں کرتے۔
اپنی دعاؤں میں مردہ انسانوں کو وسیلہ بنانا یا اللہ کے لئے بادشاہ اور وزیر کی مثالیں دینا ،کہ اللہ تک پہنچنے کے لئے یہ اولیاء وزیر کا کام کرتے ہیں، انتہائی غلط اور خلافِ شریعت عقائد ہیں کیونکہ دنیا میں بادشاہوں کو وزیروں اور مشیروں کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کیونکہ انکے پاس فیصلے کا اختیار تو ہوتا ہے لیکن درست فیصلہ کرنے کے لئے ہر ہر بات کے پس منظر سے مکمل واقفیت یا سب کچھ جاننے اور ہر چیز سے باخبر رہنے کی طاقت نہیں ہوتی اسی لئے بادشاہ کا اختیار زیادہ اور علم کم ہوتا ہے جبکہ وزیر کا اختیار کم لیکن علم زیادہ ہوتا ہے لہذا اللہ کے لئے ایسی مثالیں دینا قطعی غلط ہےکیونکہ اللہ کے ہاں نہ علم کی کمی ہے اور نہ ہی اختیار کی کہ وہ تو تمام علم اور تمام اختیار رکھتا ہے۔ اسی طرح کوئی مخلوق اللہ تعالی کے کئے فیصلوں پرکسی بھی طرح نظر انداز ہونے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اللہ اپنے انبیاء اور نیک بندوں کو شفاعت کی دعا کی اجازت دے گا لیکن یہ بھی صرف قیامت کے دن ہو گا کیونکہ اس سے پہلے تو تمام مردہ لوگ زندہ انسانوں کی پکاروں سے بے خبر ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِي۔ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِير
وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے ہر ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے یہی الله تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ ایک گھٹلی کے چھلکے کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہیں جواب نہیں دیتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے اور تمہیں خبر رکھنے والے کی طرح کوئی نہیں بتائے گا۔ سورة فاطر، آیات ۱۳ ۔ ۱٤
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ
اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور {اے نبی } آپ انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں۔ سورة فاطر، آیت ۲۲
حد تو یہ ہے کی قرآن کی اتنی واضح آیات کے جواب میں بھی مختلف توجیہات لائی جاتی ہیں کیونکہ مردے کا وسیلہ اور اس جیسے کئی شرکیہ عقائد کو ایجاد کرنے والے فرقے ہیں اور ان فرقوں کے مقلد اپنے علماء کی باتوں اور فتوؤں کا رد کرنے سے گھبراتے ہیں چاہے اس سب میں قرآن و حدیث کا انکار کیوں نہ ہو جائے۔ جیسے کے سورة فاطر کی ان آیات کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ ہم ،یعنی زندہ انسان ،قبروں میں مدفون مردوں کو نہیں سنا سکتے لیکن اللہ تو ہر شے پر قادر ہے وہ تو سنا سکتا ہے۔ سبحان اللہ! لیکن جب کہا جائے کہ بھئی یہاں بات اللہ کی قدرت یا اسکی طاقت کی نہیں کہ وہ تو واقعی ہر شے پر قادر ہے، وہ چاہے تو سوئی کی نوک سے ہاتھی گذر جائے لیکن کیا ایسا ہوتا بھی ہے؟ سو یہاں معاملہ اللہ کی قدرت و اختیار کا نہیں بلکہ اسکی سنت کا ہے، لہذا یہاں سوال یہ ہوگا کہ کیا اللہ ایسا کرتا ہے کہ نہیں؟ کیا کوئی ایک ایسی آیت بھی ہے جس میں اللہ فرماتا ہو کہ میں زندہ کی پکاریں مردوں کو سناتا ہوں یا یہ کہ وہ میرے حکم سے زندہ کو سن لیتے ہیں؟ جب یہ سوال پوچھا جائے تو پھر جواب تو نہیں ملتا ہاں بڑے بڑے فتوے ضرور سامنے لائے جاتے ہیں کہ یہ عقیدہ تو فلاں صاحبِِ علم ، شیخ الاسلام اور نامور صوفی عالم سے ثابت ہے اور تمہاری یہ مجال کہ تم نے انہیں غلط کہ دیا؟ لیکن اسلام میں قرآن و حدیث کے آگے کسی بھی نامور ہستی کی باتوں یا فتووں کی کوئی اہمیت نہیں۔ صاحبِِ علم یا دین کا سچا علم رکھنے والا عالمِ دین وہ نہیں جس کا نام بہت بڑا ہے بلکہ وہ ہے جسکی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہے اور اس سے ثابت ہوتی ہے۔
وسیلہ و توسّل کے حوالے سے آخری اہم بات یہ کہ یقینًا ہم کسی بھی زندہ انسان سے اپنے لئے دعا کروا سکتے ہیں جیسا کہ صحابۂ کرام کے عمل سے ثابت ہے کہ وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور اپنے حق میں دعا کی درخواست کرتے۔ اسی طرح صحابہ قحط سالی میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے لئے دعا کرنے کو کہتے۔ لیکن ایسے تمام واقعات جن کا ثبوت ہمیں صحیح احادیث سے ملتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں رونما ہوئے اور کسی صحابی نے انہیں انکی وفات کے بعد دعا میں یا انکی قبر پر جا کر انہیں وسیلہ نہیں بنایا بلکہ صحیح احادیث سےیہ علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدصحابہ ٔکرام انکے چچا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو اس وقت زندہ تھے ،کو بارش کی دعا کرنے کی درخواست کرتے ۔ لہذا صحابۂ کرام نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے بعد بھی حیات اور دنیا میں حاضر و ناظر مانتے تھے اور نہ ہی انہیں دعاؤں میں وسیلہ بناتے تھے ۔ یعنی قرآن و حدیث کے علاوہ صحابۂ کرام کے اجماع سے بھی زندہ انسان سے دعا کروانے کا طریقہ ہی ثابت ہے۔ ملاحظہ کیجئے اس حوالے سے بخاری کی یہ حدیث۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ جب کبھی عمر بن خطاب ؓ کے زمانہ میں قحط پڑتا وہ عباس بن عبدالمطلب ؓ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اور کہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطا کرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں ، ۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما ۔ راوی نے بیان کیا چنانچہ خوب بارش ہوئی ۔ صحیح بخاری، کتاب استسقاء
آخر میں ایک بار پھر اللہ سے ایک ہی دعا ہے کہ وہ ہمیں سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، سلفی و اہلحدیث وغیرہ کے پھیلائے ہوئے اس فرقہ پرستی کے شر سے بچائے اور اپنی اپنی اناؤں کو ایک طرف رکھ کر قرآن و صحیح حدیث کی روشنی میں اللہ کا دین سمجھنے اور اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
السلام علیکم۔
ایک تبصرہ شائع کریں