"غامدی صاحب کے قدیم خط میں غلطی کی دریافت"


عربی زبان میں کسی جملے میں صفت اور موصوف لائے جائیں تو وہ دو طرح آسکتے ہیں:
اول،جس کی صفت بیان کی جارہی ہے اُسے ذکر کیا جائے،اِس کے بعد اُس کی صفت لے آئی جائے۔
مثلا: رجلٌ صالحٌ میں رجلٌ موصوف ہے صالحٌ صفت ہے 
طالبٌ مجتھدٌ میں طالبٌ موصوف اور مجتھدٌ صفت ہے 
یعنی، نیک آدمی اور محنتی طالب علم۔

دوم،صفت اور موصوف کو بیان کرنے کا دوسرا طریقہ اضافت کا ہے۔
1)یعنی موصوف کی اضافت صفت کی جانب کر دی جائے۔جیسے کہا جاتا ہے :مسجد ُالجامع یا ،صلاةُ الأولى
یہاں بظاہر مسجد مضاف اور الجامع مضاف الیہ ہے،لیکن حقیقت میں یہ موصوف اور صفت ہیں۔یعنی جامع مسجد،اور پہلی نماز۔

2)اِسی طرح صفت کی اضافت موصوف کی طرف بھی کی جا سکتی ہے۔ جیسے کہا جائے:جَرْدُ قَطيفةٍ، مغرّبة خبر، 
سَحقُ عِمامةٍ
یہاں سحق صفت اور عمامہ موصوف ہے جو آپس میں مضاف مضاف الیہ ہیں،
یعنی ،بوسیدہ عمامہ،اِسی طرح سحق درھمِ ِِبھی کہا جاتا ہے۔اصل میں یہ بھی موصوف صفت ہیں، درھم سحق تھا ،یعنی کھوٹا سکا۔
صفت اور موصوف کی باہمی اضافت کا یہ اسلوب عربی زبان میں فصیح ہے۔اِس لیے کہ اِس اسلوب کو خودقرآن مجید میں کئی جگہوں پر استعمال کیا گیا ہے۔مثلا متعدد مقامات پر ارشاد ہوا ہے:
{وَلَدَارُ الْآخِرَةِ}،
{حَقُّ الْيَقِينِ} ، 
{حَبَّ الْحَصِيدِ} ، 
{حَبْلِ الْوَرِيدِ}
{دین الحق}
{وعد الحق}
یہاں بھی بالکل وہی ہوا ہے کہ حق کی اضافت یقین کی جانب کردی گئی ہے ،دراصل دونوں موصوف اور صفت ہیں۔
قرآن مجید اور کلام عرب دونوں میں صفت اور موصوف کے استعمال کا یہ اسلوب بہت معروف ہے۔
اسی لیے عربی ادب یا نحو کی کوئی بھی کتاب اٹھالی جائے تو ہر جگہ "اضافۃ الموصوف الی الصفۃ" یا الصفۃ الی الموصوف" کی بحث باسانی مل جاتی ہے۔
گزشتہ کل بعض اصحاب علم نے غامدی صاحب کے ایک پچیس سال پرانے عربی خط کی ایک عبارت کو ہدف تنقید بنایا اور اُسے عربی گرامر اور اسلوب کے خلاف قرار دیا۔
ہماری نظر میں یہ اعتراض عربی زبان کے علم سے عدم واقفیت کی بنا پر ہے۔غامدی صاحب کا یہ جملہ نہ عربی زبان کے قواعد کے خلاف ہے اور نہ یہ بات زبان کے معروف اسلوب سے ہٹی ہوئی ہے۔
غامدی صاحب کی عبارت کے الفاظ یہ تھے:''و لیس لی بکم قدیمُ تعارفٍ ولا سالفُ لقاءِِ"" (یعنی، مجھے آپ سے، پہلے کوئی تعارف تھا، نہ کوئی گزشتہ ملاقات رہی) 
اِس پریہ اعتراض کیا گیا کہ قدیمُ تعارفٍ اور سالفُ لقاءٍ غلط ہے اور عربی گرامر کی روشنی میں سے ایسے نہیں کہا جا سکتا۔ 
اِس پر عرض یہ ہے کہ یہاں بھی عربی زبان کے معروف اسلوب کے تحت صفت کی اضافت موصوف کی جانب کردی گئی ہے، جیسے ،قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کی گئی ہے اور جو کہ کلام عرب میں معروف ہے ۔اصل میں یہ موصوف اور صفت ہیں ،یعنی" تعارف قدیم" اور" لقاء سالف"۔لیکن جب عربی کے معروف و معلوم اسلوب کے تحت صفت کی اضافت موصوف کی جانب کی گئی تو قدیمُ تعارفٍ ولا سالفُ لقاءِِ ہو گیا۔ اس پورے جملے کی گرامیٹیکل تالیف کچھ یوں ہے:

لیس (فعل ناقص) ،لی (خبر مقدم)، بکم(جار مجرور متعلق بالاسم الموخر)، قدیمُ(لیس کا اسم موخر،صفت ،مضاف)،
تعارفٍ (مضاف الیہ ،اصلا، موصوف)،اسی پر عطف سالفُ (اسم موخر،صفت،مضاف) ، لقاءِِ( مضاف الیہ،اصلاموصوف)
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget