کھوتیالوجی

1982 میں فریضہ حج ادا کرنے چلے تو والدہ ماجدہ جی نے شفقتِ مادری کے ہاتھوں مجبور ھو کر میٹھے آٹے کی ٹکیاں تھیلا بھر بنا دیں ، جنہیں میٹھی ٹکیاں پنجاب والے کہتے ھیں ،ھم پہاڑیئے ان کو میٹھی گوگیاں کہتے ھیں ،، غالباً امی جی نے بھی نام ھی سنا تھا میٹھی ٹکیوں کا ، کبھی بنانے کا تجربہ انہیں نہیں ھوا تھا ، اولاد کی محبت میں غالباً پہلا تجربہ تھا کہ گھی بہت کم اور گرم مصالحہ یعنی کہ زیرہ زیادہ تھا- یہ ٹکیوں کی باٹا قسم تھی ،، اس زمانے میں راستے میں ھوٹل بہت کم اور دور دور واقع تھے ، آج کل تو قدم قدم ریسٹ رومز اور پیٹرول پمپ بن گئے ھیں ،،،،،،،،،،،،،،،، بس نے جب کوئی دو سو کلومیٹر سفر کر لیا تو ھم نے پہلی ٹسیٹ گوگی استعمال کی جو گوگی کی بجائے گُگلی ثابت ھوئی گوگی منہ کے اندر چلی تو جاتی تھی مگر اس کے بعد آگے چلتی نہیں تھی ۔
بلکہ اسی جگہ پھنس جاتی تھی ،، ھم نے ایک گوگی کو دو تین گلاس پانی کے ساتھ کھانے کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ ٹکیاں کھانے کی بجائے اکرامِ مسلم کرنے کے قابل ھیں ، چنانچہ ھم نے ایک ایک ٹکی چودہ پندرہ سواریوں میں تقسیم کر دی ، جس کے بعد بس میں بات چیت کی آوازیں بند ھو گئیں ،، غالباً لوگوں کے منہ تھک گئے تھے ان ٹکیوں کو آگے پیچھے کرنے کی جدوجہد میں ،،،،،،،،،،، مزید 100 کلومیٹر کے بعد ھم نے پھر ایک ایک ٹکی پیش کرنے کی کوشش کی مگر جس کے آگے ٹِکی پیش کرتے ، وہ منہ سے کچھ بولنے کی بجائے ہمیں گھور کر منہ دوسری طرف کر لینا زیادہ پسند کرتا، صرف گوجرانوالے دوست نے ھاتھ باندھ کر معافی مانگی ،، بس بھائی بس، توبہ تیری گوھگی کولوں ،، گوگی کو چونکہ انہوں نے جھٹکے سے ادا کیا تھا اس لئے ھم نے بھی وہ جھٹکا تحریر میں منتقل کیا ھے ،،۔
اس زمانے میں امارات سے بس پہلے قطر بارڈر میں داخل ھوتی تھی جہاں اِن آؤٹ ھو کر پھر سعودیہ میں داخل ھوتے تھے،، قطر ایمیگریشن پہ لائن لگی ھوئی تھی ،، حج سیزن تھا تو مسافروں کی طویل لائنیں لگی ھوئی تھیں ھماری لائن کے بائیں جانب خالی میدان میں ایک گدھی بیٹھی ھوئی تھی ، اسے دیکھتے ھی ھمارے تخلیقی ذھن نے ایک آئیڈیا پکڑ لیا ، میں نے ساتھ والے سے کہا کہ میری جگہ محفوظ رکھنا اور بس میں سے 10 بارہ ٹِکیاں کندورے کی دونوں سائڈ والی جیبوں میں ڈال کر لے آیا ،،،،،، لائن میں لگ کر میں نے کھوتی کو انٹرنیشنل زبان میں پچکارا ،، پہلی بچکاری پہ گدھی نے کچھ یوں بیزارگی سے مڑ کر دیکھا جیسے زبانِ حال سے کہہ رھی ھو کہ " تمہیں اٹھکیلیاں سُوجھی ھیں ،ھم بیزار بیٹھے ھیں " مگر دوسری پچکاری کو اس نے سنجیدگی سے لیا اور اٹھ کر کھڑی ھو گئ ،، تیسری پچکاری پہ نہ صرف ھمیں Locate کیا بلکہ سیدھی ھمارے پاس آ گئ جس پر بہت سارے دوستوں نے ناقابلِ اشاعت ریمارکس بھی دیئے ، ھم نے میٹھی گوگی نکال کر سلامی کے طور پر پیش کی جسے اس نے نہایت بردباری سے وصول کیا ، بلکہ گوگی سے پہلے ھمارے ھاتھ کو چومنے کے انداز میں سونگھ کر پھر میٹھی ٹکی کو دونوں ھونٹوں سے وصول کیا ،،،،،، اب گدھی ھماری لائن کے ساتھ ساتھ Move کر رھی تھی ، اور اس کے پیچھے اضافی لائن بھی بننا شروع ھو گئ تھی ،،،،،، شرطے نے جب اپنی پڑوسن کو یوں لائن میں لگے دیکھا تو پریشان ھو گیا وہ کیبن میں سے نکل کر باھر آیا گدھی کو ڈانٹ کر اس کی جگہ پہنچایا ،، اور اس کے پیچھے کھڑے لوگوں کو دوسری لائنوں میں بھیج کر واپس کیبن میں چلا گیا ،،،،،،، مگر جب اس نے کیبن میں اپنی کرسی پر بیٹھ کر باھر کی طرف نگاۃ دوڑائی تو گدھی پھر لائن کے ساتھ کھڑی میٹھی گوگی کھا رھی تھی ،،،،،،
 شرطہ پھر باھر آیا اور گدھی کو بھگا کر میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ مجھے دو جو تم اس گدھی کو کھلا رھے ھو ؟ میں نے اسے کہا کہ یار وہ تو یتیم ھے ،مسکین ھے ،بھوکی ھے اس کا حق کھا کر تم کیا کرو گے ؟ اس کو غصہ آ گیا کہنے لگا میں کھانے کے لئے نہیں مانگ رھا ،، میں حیوانات کی خوراک نہیں کھاتا اسے ڈسٹ بن میں پھینکوں گا ،، میں نے کہا کہ یہ تو انسانوں کی خوراک ھے سارے حاجی کھاتے آئے ھیں پوچھ لو ان سے ،، میں نے پہلی دفعہ اپنی بس کے حاجیوں کو باقاعدہ شرماتے دیکھا ،، کھوتی بھی آخر ایمیگریشن والوں کی پڑوسی تھی ،، سنا ھے کہ وکیلوں کے چوھے میں آدھے وکیل ھوتے ھیں ،، وہ کیبن کے پیچھے سے جا کر دوسری جانب سے گھوم کر دو صفوں کے درمیان گھس کر پھر میرے دائیں جانب آن لگی ،،،، میں جو اسے بائیں طرف دیکھ رھا تھا ، اچانک نرم نرم سی کسی چیز کے دائیں طرف لگنے سے چونک گیا ، دیکھا تو وہ نظروں ھی نظروں میں اپنا حق مانگ رھی تھی ،،،، اب سب مسافروں کا موضوع گدھی ھی تھی سب اپنے اپنے بچپن کے واقعات بیان کر رھے تھے جن کی ھیروئین کوئی نہ کوئی گدھی ھی تھی ،، ایک بنگالی کہنے لگے کہ میرے کو بچپن میں بابا نے گدھی کا بچہ بولا ،، امی بھی پیار سے کھوتی کا پتر کہتیں تو میں نے سچ مچ گدھی کو اپنی ماں سمجھنا شروع کر دیا ،، کئ دفعہ ھمیں گدھی کی کھُرلی میں سے سوتے ھوئے اٹھا کر لایا گیا ، ایک دفعہ ڈھاکہ میں ھمارے گھر مہمان آئے تو انہوں نے سب سے ملنے کے بعد ھم کو پیار کیا اور پوچھا یہ کس کا پُتر ھے ،، کسی کے جواب دینے سے پہلے ھم نے خود جھٹ سے بول دیا " گدھی کا " اس دن ھمارا باپ نے ھم کو قسم کھا کر بتایا کہ ھم گدھی کا بچہ نہیں بلکہ امی کا بچہ ھے اور ھم سے وعدہ کیا کہ اب وہ ھم کو کبھی گدھی کا بچہ نہیں بولیں گے،، ھم بہت شرارت کرتا تھا ،، ھمارا باپ کا غصے سے بُرا حال ھوتا ،اس کا چہرہ سُرخ ھو جاتا ، منہ بند ھوتا ،، مگر ھم کو اس کا چہرہ سے پتہ چلتا کہ اس کا ایک ایک انگ چیخ چیخ کر کہہ رھا ھے " کھوتی کا پُتر " مگر وہ اپنے وعدے کا پابندی کیا ،،منہ سے پھر کبھی گدھی کا بچہ نہیں بولا ،، آج ھم کو اپنا باپ کا بہت یاد آیا ،،ھم اس کا حج بدل کرنے جا رھا ھے ،،، وہ انتظار جو لائن میں لگ کر عذاب بن جاتا ھے ، لوگوں کی خوش گپیوں کی وجہ سے پک نک بن گیا مگر اصل حادثہ تب ھوا جب ھم ایمیگریشن سے فارغ ھو کر بس میں بیٹھے اور گدھی بس تک ھمارے پیچھے آئی ،، جونہی ھماری بس چلی تو ملک گلزار ایڈوکیٹ جو چؤا سیدن شاہ سے تعلق رکھتے تھے اچانک بولے ،،،،،،، حافظ صاحب یہ " کھوتیالوجی " کا پیریڈ آپ نے کیسے لگا لیا تھا ،، ان کے اس فی البدیہہ جملےپر بس کِشتِ زعفران بن گئ -
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget