اللہ نُور نہیں ہے بلکہ نُور تو اللہ کی ایک مخلوق ہے۔ قران بھی اللہ کو ایک ناقابل بیان حقیقت یا ایک ہستی جسکا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں کے طور پر بیان کرتا ہے اور انسانی زبان میں اسکے لئے ایک مناسب مثال تلاش کرنا ممکن نہیں۔ اسی لئے اللہ قران میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میرے لئے مثالیں نا گھڑو‘‘۔ النحل ۱٦۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ فرشتے نُور یا روشنی سے بنائے گئے ہیں لہذا خالق اور مخلوق ایک نہیں ہو سکتے ہیں۔
اگر اللہ نُور نہیں ہے تو پھر قران میں بار بار جس ہدایت کی روشنی و نُور کا ذکر ہےآخر وہ کیا ہے؟ آئیں اس بات سمجھنے کے لئے پہلے قران میں بیان کئے گئے کچھ ثبوتوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ
سب تعریف الله ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اور روشنی بنایا۔ سورة الانعام، آیت ا
إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور نور ہے۔ سورة المائدہ، آیت ٤٤
وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُور
اور ہم نے اسے [عیسی کو] انجیل دی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سورة المائدہ آیت ٤٦
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ
الله ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ سورة البقرہ آیت ۲۵۷
مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ
اور ہم نے قرآن کو ایسا نور بنایا ہے کہ ہم اس کے ذریعہ سے ہم اپنے بندوں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔ سورة الشوری آیت ۵۲
لہذا نُور کا لفظ قران میں ہدایت، علم یا ایمان کے زمرے میں استعمال ہوا ہے جیسے کفر کے اندھیرے میں ہدایت کا نُور۔ اسی طرح اس لفظ کو اللہ کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کی مثال دینے کے لئے بھی استعمال کیا گیا یعنی اللہ ہی دنیا میں موجود تمام ہدایت کی روشنی و نُور کا منبع و سرچشمہ ہے۔ قران میں سورة النور آیت ۳۵ میں اسی ہدایت کی روشنی کی مثال دی گئی۔
اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
الله آسمانوں اور زمین کا نُور ہے اس کے نُور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو چراغ شیشے کی قندیل میں ہے قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو روشنی ہے الله جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے اور الله کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے اور الله ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ سورة النور آیت ۳۵
اب اگر اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا جائے کہ اللہ ہی نُور کا بنا ہے تو یہ بالکل غلط ہوگا کیونکہ ناصرف یہ پہلے بیان کی گئی آیتوں کا انکار ہوگا بلکہ اللہ توخود اس آیت میں فرما رہا ہے کہ ’’اس کے نُور کی مثال ایسی ہے‘‘ یعنی اللہ بذات خود انسانی زبان میں اپنی ہستی کے حوالے سے مثال دے رہا ہے تاکہ بات کی وضاحت ہو جائے۔
اس حوالے سے مسئلہ تبھی پیدا ہوتا ہے جب لوگ قران کو خود پڑھنے کی بجائے اپنے اپنے فرقے کی اندھی تقلید میں اپنے مولویوں اور پیروں کی توجیہات فتوؤں اور تفسیروں پر انحصار کرنے لگتے ہیں اورپھر سورة النور کی اس آیت میں لفظ نور سے حقیقی معنوں میں اللہ کو نور کا بنا مان کر دعوے کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنی کچھ مخلوقات یعنی محمدﷺ یا علیؓ یا دیگر اولیا کواپنے نورسے بنایا۔
اس حوالے سے سبائیوں کی کارستانیاں قابل ذکر ہیں کہ انہوں نے اس نُورمن نُوراللہ کے جُھوٹے عقیدے پر چلتے ہوئے اس نُور کو پہلے اللہ و محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر بذریعہ علیؓ اپنے اماموں میں منتقل کردیا اور پھر انکے حوالے سے دیومالائی کہانیاں ایجاد کی گئیں اور خدائی کے دعوے کیےگئے۔ اسی طرح یہ لوگ اپنے غُلو میں حد سے آگے بڑھ گئے اور علیؓ اورانکی آل اولاد کا مقام بڑھا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اوپرلے گئے انہیں تقریباً خدا ہی بنا ڈالا۔ اس سارے جُھوٹے فسانے کا منبع دراصل ایرانی بُت پرستی کا عقیدہ ہے جس کا ذکر ہمیں کیرن آرمسٹرانگ کی مشہور زمانہ کتاب ’’اے ہسٹری آف گاڈ‘‘ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں ملتا ہے
شیعہ نےعلی اور دیگر اماموں کی خدائی کے حوالے سے ایسےعقائد جو درحقیقت عیسائیت کے قریب تھے کو بتدریج بڑھایا۔ شیعہ کا رحجان بہت حد تک قدیم ایرانی عقائد کی طرح ایک اللہ کی ذات سے وجود میں آنے والے ایک خاص خاندان یا نسل کی طرف تھا اور اس طرح اس خدائی طاقت کے فلسفے کونسل در نسل منتقل کیا گیا۔
آئیے اب اس بحث کو مزید دلچسپ بنانےاور آپکی معلومات میں اضافے کے لئے ہم یہاں عیسائیت کا نائیسین عقیدہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ عقیدہ سنہ ۳۲۵ء میں شہنشاہ کانسٹنٹین کے دور میں مرتب کیا گیا اورآج اسے عیسائیت کا متفقہ علیہ عقیدہ مانا جاتا ہے۔ اس عقیدے کو یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کے قارئین خود دیکھیں کہ آج اسلام میں زبردستی شامل کر دیے گئے اس نور من نور اللہ والے خود ساختہ عقیدے کی بنیاد دراصل عیسائیت سے لی گئی ہے۔
ہم ایک خدا میں یقین رکھتے ہیں
جو قادر مطلق باپ ہے
تمام چیزوں کا خالق ہے، ظاہر اور باطن
اور ایک خدا، عیسی مسیح میں
جو خدا کا بیٹا ہے
خدا کا جنا ہوا اکلوتا
یعنی باپ کے جوہر سے
خداوند سے خدا
نور سے نور
عین خدا سے عین خدا
جنا ہو، بنایا ہوا نہیں
باپ ہی کے جوہر سے
اور جس کے ذریعے آسمانوں اور زمین میں تمام چیزوں کو وجود ملا
وہ چیزیں جو آسمانوں میں ہیں
اور وہ جو زمین میں ہیں
جو بمارے لئے اور ہمارے نجات کے لئے بشکل انسانی اترا
تکلیف سہی
پھر تیسرے دن اٹھا
اور آسمانوں میں اٹھا لیا گیا
اور وہ واپیس آئے گا
زندہ اور مردہ کا فیصلہ کرنے
اور ہم روح القدس پر یقین رکھتے ہیں
اور آئیےاب دیکھیں ایک ایسی جُھوٹی حدیث جسے صوفی ازم یا تصوف اوراس سے جُڑے تمام فرقےاس نور من نور اللہ کے عقیدے کے ثبوت کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ ایک پیرو مرشد سے دوسرے تک ایک خفیہ طاقت کی منتقلی کا ڈھکوسلا برقرار رکھا جائے۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میںنے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان مجھے بتا دیجیے کہ سب سے پہلے اللہ عزوجل نے کیا چیز بنائی۔ آپﷺ نے فرمایا اے جابر بے شک بالیقین اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ وہ نور قدرت الٰہی سے جہاں خدا نے چاہا دورہ کرتا رہا اس وقت لوح و قلم جنت دوذخ فرشتے آسمان زمین سورج چاند جن آدمی کچھ نہ تھا پھر جب اللہ تعالٰی نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا اس نور کے چار حصے فرمائے پہلے سے قلم ، دوسرے سے لوح ، تیسرے سے عرش ، پھر چوتھے کے چار حصے کیے پہلے سے فرشتگان حامل عرش دوسرے سے کرسی تیسرے سے ملائکہ پھر چوتھے کے چارحصے فرمائے پہلے سے آسمان دوسرے سے زمین تیسرے سے بہشت و دوذخ بنائے پھر چوتھے کے چار حصے کئے۔ مصنف عبدالرزاق
اس جُھوٹی روایت کے مطابق اللہ کی پہلی تخلیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نُور تھا جو اللہ نے اپنے نُور سے پیدا فرمایا اور پھر اس نور سے کائنات کی ہر چیز بنائی۔ اب ذرا دوبارہ سے اوپر جا کرعیسائیت کے عقیدے کو پڑھیں اور دیکھیں کہ دونوں عقائد میں کتنی مماثلت ہے۔ آج اسی جُھوٹےعقیدے کا کیا دھرا ہے کہ تقریباً ہر فرقہ یہ دعوٰی کرتا ہے کہ آدم علیہ سلام پہلی مخلوق نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی پہلی تخلیق اور پہلے پیغمبر تھے۔ نا صرف یہ بلکہ اسطرح سے خالق اور مخلوق کے فرق کو ہی سرے سے ہی ختم کر دیا گیا یعنی کائنات کی ہر چیز سورج، چاند، ستارے، چرند پرند، انسان سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نُور سے بنے ہیں اور نبی کا نُور اللہ کے نُور سے بنا۔ بھلا بتائیے کہ اللہ تعالٰی کی ذات پر اس سے بڑا بہتان کوئی اور ہو سکتا ہے؟ اور یہ سب صرف اور صرف ان صوفیوں نے اپنے طلسماتی کارناموں یعنی کشف و کرامات کو سچ ثابت کرنے کے لئے کیا اور پھر وحدت الوجود اور حلول کے جھوٹے عقیدپر مبنی اللہ کے دین کے برابر ایک نیا طریقت کا دین ایجاد کیا گیا۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ اللہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور نا ہی یہ کوشش ہمیں کرنی چاہیئے۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک انسان اور بشر تھے اور انکی خصوصیت یہ تھی کہ اللہ نے انہیں اپنےآخری نبی و پیغمبر کے طور پر چُن لیا تاکہ دین کے پیغام کو پایہٗ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ انہوں نےایک بہترین زندگی گذاری اور پھر انکی وفات بھی بشریت کے تقاضوں کے مطابق ہوئی اور اب انکی روح اپنی قبرمیں یا دنیا میں گشت نہیں کرتی بلکہ جنت کے سب سے بلند و بالا مقام پر ہے۔
والسلام۔
ایک تبصرہ شائع کریں