دوست فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے میرا؟ کب سے کر رہی ہوں. پریشے نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
دوست بزی تھا میں میٹنگ میں پتہ نہ کتنا کام ہوتا۔ ساجد صاحب نے جواب دیا۔
پتہ نہ میں کتنا مس کرتی دوست آپکو۔ پریشے نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
اچھا نہ میری پیاری دوست یہ بتاؤ دھاوا کب بول رہی ہو پاکستان۔ ساجد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔
ارے ہاں دوست یہی تو بتانا تھا۔ آج رات کی فلائیٹ ہے۔ پریشے نے خوشی سے کہا۔
واہ اور بتاؤ اب میں بابا بن جاؤ کیا۔؟ ساجد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں کیوں نہیں بابا۔ پتہ میں بڑا مس کرتی تھی۔ بس یہ گانے کا شوق نہ ہوتا تو میں آپکو کبھی وہاں اکیلا نہ چھوڑ کر آتی۔ پریشے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میری پری وآپس آرہی اس سے بڑی اور کیا خوشی ہونے میرا بچہ۔ بس جلدی جلدی آجا تیری اماں نے مجھے بہت پرہیز کروا رکھا۔ ساجد صاحب نے مایوسی سے کہا۔
ہاں تو ٹھیک کر رہی نہ وہ بابا۔ ورنہ آپ کہاں باز آتے۔ پریشے نے جواب دیا۔
کیا؟؟؟؟؟ دوست تم نے پارٹی بدل لی کیا؟؟؟؟ ساجد صاحب نے مایوسی سے کہا۔
نہیں دوست جان چلی جائے میں بس آپکی دوست۔ پریشے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بس کرو دوست کتنے ڈائیلاگ کرتی نہ تم۔ ساجد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اچھا دوست مجھے پیکنگ کرنی۔ اب ملتے ائیرپورٹ پر اور ہاں دوست ماما کو نہ بتانا کہ میں آرہی ہوں۔ میں خود سرپرائز دونگی۔ پریشے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں چلو ٹھیک ہے دھیان سے میرا بچہ میں انتظار کررہا۔ ساجد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اچھا لوو یو پاپا۔ پریشے نے فون پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
لوو یو ٹو میرا بچہ۔ ساجد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا اور کال بند کردی۔
(ساجد صاحب ایک جانےمانے بزنس مین تھے۔ جن کی بس ایک بیٹی جو بیٹی کم اور انکے تمام رشتوں کا مکسچر زیادہ تھی۔ کیونکہ ساجد خان بھی خود اکلوتے تھے۔ بچپن سے ان کو رشتوں کی کمی کا سامنا تھا۔ اپنی بیٹی کو اس احساس سے بچانے کیلئے ساجد صاحب نے شروع سے ہی اپنے ہی روپ میں پریشے کو ہر رشتہ دیا۔ اسی طرح پریشے بھی انہیں ہر طرح کی خوشی دیتی اور اپنی ہر چھوٹی سی چھوٹی بات ان کو بتاتی۔)
____________________
بس کچھ دیر میں ہی میں گھر ہونگی۔ ہائے کتنا مزہ آئے گا نہ۔ پریشے خود سے باتیں کرتے ہوئی اپنی سیٹ پر جا بیٹھی۔
افففففففف سکون مل گیا۔ بس اب جلدی پہنچ جاؤ میں۔ میری بیلٹ کہاں ہے؟ مل نہیں رہی۔ پریشے اپنی پلین سیٹ سے اٹھی اور سیٹ چیک کرنے لگی۔ اتنے میں اسے کسی نے پیچھے سے آواز دی۔
ایکسکیوز می۔؟؟؟؟
پریشے نے ان سنی کی اور ابھی بھی اپنی سیٹ پر دھیان دیے بیلٹ ڈھونڈ رہی تھی۔
میں آپ سے بات کر رہا ہو میم؟؟؟ کسی نے پریشے کے کندھے پر ہلکی سی تھپکی دی۔
پریشے اچانک چونکی اور پیچھے منہ کر کے دیکھا۔
پریشے نے بے دھیانی سے کہا۔.Any problem???
احمر ہمدان نے اکڑتے ہوئے کہا۔.Yes I have. Here is my seat what are u doing here mam???
پریشے نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔. No its my seat.
. Check your ticket mam and get a side plzz I want to sit on my seat.
احمر ہمدان نے پریشے کو سائیڈ پر کرتے ہوئے کہا اور اپنی سیٹ پر براجمان ہو گئے۔
اوئے یہ کیا بدتمیزی ہے؟ پریشے نے غصے میں کہا۔
آرام سے بیٹھ جائے میم اور اپنی ٹکٹ میں سیٹ نمبر دیکھے۔ احمر ہمدان نے بغیر دیکھے اپنا سامان رکھتے ہوئے کہا۔
ہہہہہہہہہ۔ پریشے نے احمر ہمدان کی طرف دیکھ کر کہا اور اپنی ٹکٹ پر سیٹ نمبر دیکھنے لگی۔
تو میم اگر دیکھ لی ہو تو بیٹھ جائے بس نہیں یہ کہ کھڑی ہو کر جائے گی۔ احمر ہمدان نے طنز کرتے ہوئے کہا۔
پریشے نے سنا تو آگ بگولہ سی ہوگئی۔
دیکھے مسٹر تمیز سے ٹھیک ہے میری غلطی تھی اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ فضول بولے۔ پریشے نے کہا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
اب چپ بولنا مت شور نہیں پسند مجھے۔ احمر ہمدان نے کہا اور طنزیہ مسکراہٹ دی۔
آپ۔۔۔۔۔۔ پریشے بس اتنا سا کہہ سکی اور منہ پھولا کر بیٹھ گئی۔
کھروس نہ ہو تو بس اب جلدی سے فلائیٹ لینڈ ہو جائے۔ پتہ نہیں یہ وقت کب ختم ہو۔ دکھنے میں تو ہے بہت پیارا لیکن ہے کیا اندر سے موگینبو۔ ہٹلر پتہ نہیں بے چاری اس کی بیوی کا کیا حال ہونا۔ پریشے نے احمر ہمدان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ نہیں ہے اب چلی گئی ہے۔ احمر ہمدان نے آنکھیں موندھ کر کہا۔
کیا؟؟؟؟؟؟ میں تو کچھ بولی بھی نہیں۔ پریشے نے حیرانگی سے احمر ہمدان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اس کو کیسے پتہ چلا کہ میں اس کے بارے میں سوچا۔ پریشے منہ کھولے احمر ہمدان کو دیکھ رہی تھی جو ابھی بھی آنکھیں موندھ کر پر سکون انداز میں سیٹ کی پشت پر براجمان تھا۔
تم ایسے ہی دیکھو گی تو مجھے پتہ لگ جائے گا کہ کیا سوچ رہی ہوں۔ احمر ہمدان نے ایک بار پھر پریشے سے کہا۔ لیکن اس بار وہ بھی پریشے کو دیکھ رہا تھا۔
پریشے نے احمر ہمدان کی طرف دیکھا اور نروس ہوتے ہوئے دوسری طرف منہ کرلیا۔
ہائے لگتا یہ نجومی ہے کیسے جان رہا میں کیا سوچ رہی۔ پریشے نے دل ہی دل میں کہا۔
میں نجومی نہیں ہوں۔ احمر ہمدان کی آواز سن کر اب کی بار پریشے نے احمر ہمدان کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا۔ اور تہہ کیا کہ وہ اب کچھ نہیں سوچے گی۔
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی پریشے نے خاموشی توڑی۔۔۔
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایم سوری۔ پریشے نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
اٹس اوکے۔ احمر ہمدان ابھی بھی اسی انداز میں بیٹھا تھا۔
آپ بھی کہے سوری۔ یہ کیا بات ہوئی؟ ۔ پریشے نے مکمل توجہ احمر ہمدان کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
اچھا میں بھی سوری اب چپ پلیز۔۔۔۔ احمر ہمدان نے اکتاہٹ بھرے لہجے سے کہا۔
کھڑوس۔ پریشے نے آہستگی سے کہا۔
لیکن احمر ہمدان سن چکا تھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
پورا سفر احمر ہمدان اپنی ہی سوچ میں گم رہا جبکہ پریشے بہت مشکل سے چپ بیٹھی ہوئی تھی۔
پریشے سے جب ضبط نہ ہوا تو بولی۔
آپ بچپن سے ہی ایسے ہیں کیا؟ پریشے نے حیرانگی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
کیوں اپکو مسئلہ کوئی۔ احمر ہمدان نے اکتاہٹ بھرے لہجے سے کہا۔
نہیں وہ نہ میں چپ نہیں رہ سکتی اور میں بہت بور ہورہی ہو اس لیے پوچھا۔ برا لگا تو سوری۔ پریشے نے مایوسی سے کہا۔
کچھ دیر تو احمر ہمدان چپ رہا پھر بولا۔
نہیں بچپن سے نہیں ہو۔ احمر ہمدان نے پریشے کی مایوسی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا۔۔۔۔ پریشے کا موڈ آف ہوگیا تھا۔
کچھ ہی دیر میں لیڈنگ ہوگئی۔
پریشے اپنی سیٹ سے اٹھی اور بولی۔
اچھا تو نہیں لیکن ٹھیک سفر رہا ۔ نائس ٹو میٹ یو سر۔ ایم پریشے۔
سیم ٹو یو۔ ایم احمر ہمدان۔ احمر نے فخریہ نام لیا۔
چلے ٹھیک پھر اللہ حافظ۔ پریشے نے کہا اور باہر کو چلی گئی۔
عجیب ہی لڑکی تھی سمجھ سے باہر ۔ احمر ہمدان نے پریشے کے جانے کے بعد کہا اور باہر کو ہوگیا
۔پریشے شاڑٹ فراک اور پٹھانی شلوار میں ایک گڑیا کی مانند لگ رہی تھی۔ چہرے پر چمک آنکھیں شرارت سے بھری اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ایک چلبلی لڑکی کی نشاندھی کررہی تھی۔
پریشے باہر آئی اور ساجد صاحب کا انتظار کرنے لگی۔ اتنے میں احمر ہمدان بھی اس کے پاس آ کر کھڑا ہوگیا۔
پریشے نے دیکھا تو بولی۔
آپ یہاں بھی۔
کیوں میں ائیرپورٹ سے باہر نہیں آ سکتا کیا۔ احمر ہمدان نے پریشے کو جواب دیا۔
نہیں ایسا بھی نہیں یہ پاکستان ہے جدھر مرضی پھرو۔ پریشے نے منہ بنا کر جواب دیا۔
اتنے میں احمر ہمدان کے سامنے ایک بلیک ہونڈا گاڑی آ کر رکی اور وہ بنا کچھ کہے اس میں بیٹھ گیا اور گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
پریشے بس اس کو دیکھتی رہ گئی۔
نیلا پینٹ کوٹ، وائیٹ شرٹ ہلکی سی شیو چہرے پر گہری سنجیدگی اور آنکھوں میں خالی پن سنیجیدگی کو ظاہر کر رہی تھی۔
کھڑوس انسان نک چڑھا۔ہہہہہہہ پریشے ابھی یہ بول رہی تھی کہ ساجد صاحب نے اسے پیچھے سے آواز دی۔
پری۔۔۔۔۔۔ ساجد صاحب نے آواز دی تو پریشے بچوں کی طرح بھاگتی ہوئی ساجد صاحب کی طرف گئی اور گلے لگ گئی۔
بابا بہت مس کیا اپکو۔ پریشے کی آنکھوں میں. آنسوں اگئے۔
میں نے بھی پری کو بہت مس کیا ۔ ساجد صاحب نے کہا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
چلو دوست چلتے گھر ماما کو سرپرائز بھی تو دینا نہ۔ پریشے نے کہا اور اپنا بیگ پکڑ لیا۔
ہاں چلو چلے دوست آج مزے مزے کے کھانے کھائے گے ٹھیک ہے نہ۔ ساجد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں دوست پارٹی میری طرف سے آپکو صیحح ہے نہ چلو اب چلتے۔ پریشے ساجد صاحب نے ساتھ لگے گاڑی کی طرف بڑھ گئی اور گھر کی طرف رخ لیا
______________
بابا ماما کو بتایا تو نہیں نہ کہ میں آرہی ہو سچ سچ بتا دے۔ پریشے نے کنفرم کرتے ہوئے پوچھا۔
ہاں نہیں بتایا انکو نہیں پتہ کہ میں تمہیں لینے گیا تھا۔ ساجد صاحب نے پریشے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا چلے اب آپکی بیوی کو سرپرائز دیا جائے۔ پریشے نے کہا اور گاڑی سے اتر گئی۔
ساجد صاحب بھی پریشے کے ساتھ اندر ایک شانداد بنگلے کی طرف بڑھے تو اندر مزے دار کھانے کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔
ارے واہ اتنے عرصے بعد مزے دار چٹ پٹے کھانوں کی مہک آ رہی پورے گھر سے۔ پری ورنہ تمہاری ماما نے پرہیزی کھانے کھلا کھلا کر ذائقہ ہی خراب کردیا تھا منہ کا۔ ساجد صاحب نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
بابا اب آ گئی نہ میں بس کوئی ٹینشن نہیں۔ پریشے ساجد صاحب کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے بولی۔
بابا لگتا ماما کیچن میں ہے آئے وہاں چلتے۔ پریشے نے کیچن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور دونوں کیچن طرف بڑھ گئے۔
شمائلہ بیگم جو کہ اپنی ہی دھن میں مست کھانا بنا رہی تھی پریشے نے ملازمہ کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔
جب وہ باہر چلے گئی تو پریشے کیچن میں داخل ہوئی اور شمائلہ بیگم کی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے۔
شمائلہ بیگم کو معلوم نہ تھا کہ ان کے پیچھے کون ہے کیونکہ انہیں اندازہ بھی نہ تھا کہ پریشے پاکستان آ چکی ہیں۔
مانو یہ کیا حرکت ہے بیگم صاحبہ کے ساتھ ایسی حرکت کرتے ہیں پیچھے ہو مجھے کچھ نہیں دکھ دہا۔ شمائلہ بیگم سمجھ رہی تھی کہ شاید ان کی پرانی ملازمہ مانو جس کو پریشے نے باہر بھیجا تھا وہ ایسا کررہی ہے۔
لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ یہ وہ نہیں ہے۔
پری۔۔۔۔۔۔۔ شمائلہ بیگم نے محسوس کرتے ہوا بے دھیانی سے نام لیا تو پریشے پیچھے سے ہی شمائلہ بیگم کے گلے لگ گئی۔
ارے آپکو کیسے پتہ کہ میں تھی۔ پریشے نے شمائلہ بیگم کی گال پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
شمائلہ بیگم کو یقین نہ آیا کہ یہ پریشے ہی ہیں. جو دو سال سے لندن میں گانا گانے کا ہنر سیکھ رہی ہیں۔
آگئی میری پری۔ کیسی ہے میری بیٹی۔ شمائلہ بیگم نے پریشے کا ہاتھ پکڑا اور اپنے سامنے کرتے ہوئے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
میں تو بلکل ٹھیک ٹھاک لیکن آپ کمزور لگ رہی ہو کیوں جی۔ پریشے نے شمائلہ بیگم کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
پری تمہاری ماما میرے ساتھ وہی پرہیزی کھانا جو کھاتی ہے۔ ساجد صاحب نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
آپ تو چپ رہے آتے ساتھ میری بیٹی سے میری شکایتیں کرنا شروع کردی ۔ شمائلہ بیگم نے ساجد صاحب کی طرف گھورتے ہوئے کہا۔
اچھا یہ بتائیں مزے مزے کا کھانا کیوں بنایا کیا آپکو پتہ تھا کہ میں آنے والی ہو۔ پریشے نے شمائلہ بیگم کی گردن کے گرد اپنی بانہوں کا ہار بناتے ہوئے کہا۔
بہت یاد آرہی تھی مجھے اپنی پری کی تو اس لیے بنانے لگ گئی۔ شمائلہ بیگم نے ہانڈی میں چمچ ہلاتے ہوئے کہا۔
اچھا بتائیں اور کتنا ٹائم بہت بھوک لگی مجھے ماما۔ پریشے نے مزے مزے کے کھانے دیکھتے ہوئے کہا۔
بس ہوگیا جاؤ باہر میں لے کر آتی ہوں پھر مل کر کھاتے ہیں۔ شمائلہ بیگم نے پریشے کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
اچھا ٹھیک ہے چلو دوست آؤ باہر چلتے بہت ساری باتیں کرنی مجھے آپ سے۔ پریشے نے ساجد صاحب کی بازو میں بازو ڈالی اور انہیں باہر لے گئی۔
کچھ ہی دیر میں شمائلہ بیگم نے ملازمہ کے ہمراہ ٹیبل کھانے سے سجا دیا۔
واہ رے اتنے عرصے بعد پاکستانی کھانے کی خوشبو۔ پریشے نے بچوں کی طرح خوشبو سونگھتے ہوئے کہا۔
ہاں نہ تو انتظار کس بات کا آجاؤ دوست دھاوا بولتے۔ ساجد صاحب نے کہا اور جیسے ہی کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے لگے پریشے نے ہاتھ روک کیا۔
دوست روکو۔ پریشے نے ساجد صاحب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
کیوں کیا ہوا؟؟؟؟ ساجد صاحب نے حیرانگی سے پریشے کی طرف دیکھا۔
بابا آپکو پتہ نہ اپکے علاوہ ہمارا کوئی اپنا نہیں۔ آپ ہی تو ہم دونوں کی مکمل دنیا ہو تو پلیز نہ بس آج ہی کل سے مکمل ڈائیٹ کرے گے پرومیس کریں۔ یہ کہتے ہوئے پریشے کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔
پکا پرومیس آج بھی بس میری پری کے آنے پر اور سنو دوست رونا نہیں ورنہ میں بھی رو دونگا۔ ساجد صاحب نے پریشے کی سنجیدگی کو کم کرتے ہوئے گالوں پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔
چلے ٹھیک پھر آئے دھاوا بولتے کھانے پر بہت مزے کا۔ پریشے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں ہاں بیگم کس کی ہے۔ ساجد صاحب نے شمائلہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو دونوں کی محبت دیکھ کر ان دونوں کی لمبی زندگی اور خوشیوں کی دعائیں مانگتی رہی تھی۔
ماما بہت مزے کا شکریہ۔ پریشے نے ہاتھ کے سارے سے شمائلہ بیگم کی طرف دیکھ کر بوسہ دیا۔
موسٹ ویلکم۔ پری۔ شمائلہ بیگم نے تعریف سن کر کہا۔
کھانا کھانے سے فارغ ہو کر پریشے نے اپنا سارا سامان کھول لیا تاکہ شمائلہ بیگم اور ساجد صاحب کو ان کے تحفے دے سکے۔
دونوں تحفے دیکھ کر بہت خوش ہوئے لیکن سب سے زیادہ خوش وہ پریشے کے وآپس آنے پر تھے کیونکہ پریشے ہی ان کے گھر کی اکلوتی رونق تھی۔ اور دو سال تک دونوں نے خاموش زندگی گزاری تھی لیکن اب پھر سے ان کی زندگی رنگوں سے بھر گئی تھی۔
پریشے نے تحفے دیے اور دونوں کو شب خیر کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
آج بہت مستی کی تھک گئی افففففففف۔ پریشے نے بیڈ پر گرتے ہوئے کہا۔
ابھی آنکھیں بند ہی کی کہ اسے احمر ہمدان کی شکل نظر ائی۔ پریشے نے فورا آنکھیں کھول لی۔
افففففففف یہ کھڑوس مکھی چوس مجھے اچانک یاد کیسے آیا اللہ پورا سفر میرا خراب کردیا اس نے پتہ نہیں. اب کہاں اپنی کھڑوسیات جھاڑ رہا ہوگا۔ بس اللہ جی ایسا بندہ مجھے کبھی نہ ملے۔ پتہ نہیں کیسے لوگ گزرا کرتے ایسے لوگوں ساتھ میں تو کبھی نہ رہوں۔ پریشے نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا اور پھر سے سونے کی کوشش کی۔ کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں اتر چکی تھی اور وہاں بھی اپنی مستی جاری رکھی ہوئی تھی
__________________
احمر ہمدان کی گاڑی تیز رفتاری کی وجہ سے کچھ ہی دیر میں ایک عالیشان بنگلے کے سامنے آ کر رکی۔
تین چار ملازم بھاگتے ہوئے تیزی سے اس کی گاڑی کی طرف بڑھے۔
ایک نے دروازہ کھولا۔ تو احمر ہمدان تیزی سے باہر نکالا اپنا کوٹ ایک ملازم کو پکڑایا اور تیزی سے اندر کی طرف بڑھ گیا۔ باقی ملازم اسکا سامان اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے تھے
ایسا کرو سارا سامان اور میرا کوٹ میرے کمرے میں جا کر رکھو۔ احمر ہمدان نے دو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تو وہ دونوں تیزی سے سامان لے کر کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
میرے آنے کی اطلاع دے دی تھی دادا جان کو کہ نہیں۔ احمر ہمدان نے اپنا مہنگا ترین فون کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک ملازم سے پوچھا۔
جی چھوٹے صاحب دے دی تھی اور وہ آپکا ہی انتظار کررہے ہیں۔ ملازم نے سر جھکا کر جواب دیا۔
اچھا ان سے کہوں کہ میں بس فریش ہو کر آیا اور کھانا بھی ان کے ساتھ ہی کھاؤں گا۔ احمر ہمدان نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
ملازم انکا پیغام لیے سلطان ہمدان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
___________________
ہاں آگیا ہے وہ۔ سلطان ہمدان نے اپنی رعب دار آواز میں ملازم کے داخل ہونے پر پوچھا۔
جی جناب ابھی آئے ہیں۔ ملازم نے جواب دیا۔
تو کیا وہ ہم سے ملنے نہیں آئے گا۔ سلطان ہمدان اپنی کرسی پر براجمان ہوئے باہر کا نظارا دیکھتے ہوئے بولے۔
جناب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ فریش ہو کر آتے ہیں آپ سے ملنے اور آج کا کھانا بھی وہ آپ کے ساتھ کھائے گے۔ ملازم نے جواب دیا۔
بہتر ۔ باورچی سے کہوں آج سارا کھانا احمر کی پسند کا بنائے بہت عرصے بعد ہمارا پوتا پاکستان وآپس آیا ہے۔ روایتی کھانوں کا ذائقہ بھول چکا ہوگا۔ تو لذیذ روایتی کھانے بنائے۔ اب جاؤ۔ سلطان ہمدان نے اپنے رعب دار لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا۔
جی جناب ۔ ملازم نے کہا اور کمرے سے چلا گیا۔
سلطان ہمدان ابھی بھی اپنا رخ باہر کی طرف کیے بیٹھے تھے۔
( سلطان ہمدان،. ہمدان ہاؤس کے سربراہ جن کا کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔ انکا بیٹا اور بہو پلین کریش ہونے پر ان سے ہمیشہ ہمیشہ سے جدا ہوگئے۔ خوش قسمتی سے احمر اپنے دادا دادی پاس ہی تھا۔ اور چھوٹی سی عمر میں ہی وہ اپنے والدین کے شفقت سے محروم ہو گیا۔ جب بارہ سال کا ہوا تو سلطان ہمدان کی بیگم اپنے بیٹے کی موت کے غم کو دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ تب سے لے کر اب تک پورا ایمپائیر اور احمر کی پرورش سب سلطان ہمدان نے ہی کی اور سنبھالا۔ اور ایک سخت خول خود پر چڑھا لیا جو انکے غم کو کسی کے سامنے ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا۔ سلطان ہمدان صرف ایک انسان کے سامنے کمزور تھا اور وہ احمر ہمدان تھا جو انکی جینے کی وجہ تھی اور آج وہ پانچ سال بعد وآپس آیا تھا تو سلطان ہمدان کے دل کی بےچینی کو سکون سا مل گیا تھا)
_____________________
احمر ہمدان اپنے کمرے میں داخل ہوا وہ کمرہ کم اور ایک شہزادے کا کمرہ زیادہ لگ رہا تھا۔ جہاں دنیا بھر کی ہر چیز موجود تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ سنجیدگی بچپن سے نہ تھی۔ احمر ہمدان اپنے کمرے میں داخل ہو کر سب سے پہلے اپنے والدین کی تصویر کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا۔
السلام علیکم ماما پاپا دیکھے آج میں آ ہی گیا۔ احمر ہمدان نے تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
احمر نے اپنے والدین کی تصویر بلکل اپنے بیڈ کے سامنےلگائی تھی تاکہ ہر صبح سب سے پہلے وہ انہیں دیکھے۔
احمر ہمدان پھر چل کر ایک اور تصویر کے سامنے جا کر کھڑا ہوا۔
بلآخر میں جتنا بھی بھاگ لوں سامنا مجھے کرنا ہی پڑنا ہے اور دیکھو میں سامنا کرنے کو تیار ہو اب۔ احمر ہمدان اس تصویر کو دیکھ کر بول رہا تھا۔
احمر ہمدان تصویر کو مسلسل دیکھ رہا تھا جیسے بس نہ چلے اور تصویر کے اندر موجود مجسمے کو باہر نکال کر سامنے کھڑا کر دے اور پھر اس سے شکوہ کرے۔
احمر نے جیب سے سگار کی ڈبیہ نکالی اور تصویر کو دیکھتے ہوئے سگار پھونکنے لگا۔
اتنے میں کسی نے دروازے کو دستک دی ۔ احمر ہمدان چونکا اور پھر اندر آنے کی اجازت دے دی۔
چھوٹے صاحب۔ بڑے صاحب اپکا انتظار کررہے ہیں ۔ جلدی تیار ہو کر آ جائے۔ ملازم نے احمر ہمدان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا آرہا ہو تم جاؤ۔ احمر ہمدان نے لاپرواہی سے کہا اور سگار کو بجھا کر واش روم کی طرف بڑھ گیا تاکہ فریش ہوسکے۔
ایک تبصرہ شائع کریں