اللہ کی نظر میں مسلم کون ہے؟ دین اسلام کے حوالے سے یہ ایک بالکل ابتدائی درجے کا سوال ہے لیکن ایک ایسا بنیادی سوال جسے بڑے بڑے نامور علماء ، جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی راہ میں لگا دیں، یا تو وہ اسے سمجھنے سے قاصر رہے اور یا پھر شاید سمجھنے کو تیار ہی نہ تھے ۔ حالانکہ اسے سمجھنا بہت آسان ہے خاص طور پہ جب ہم بچپن سے اسے اپنی کورس کی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں۔ ہم اسی سوال کویہاں ایک مختلف انداز میں اور ہمارے اردگرد معاشرے میں موجود مختلف مثالوں کے ساتھ پیش کر رہے ہیں تاکہ یہ وضاحت کی جا سکے کہ کیسے اس معاملے میں قران و حدیث کی روشنی میں درست جواب سےمعمولی سی روگردانی بھی ایک فرقے کو جنم دے دیتی ہے۔
:ایک مسلمان کا بنیادی صحیح عقیدہ مندرجہ ذیل ہے
توحید یعنی اللہ کی واحدانیت پر ایمان
اللہ کی واحدانیت پر ایمان تین چیزوں کا مجموعہ ہے یعنی دل میں ایمان، زبان سے توحید کا اقرار، اور اعمال سے اس ایمان کا اظہار۔ ان تینوں کے اشتراک سے ہی کلمہ یا اللہ کی واحدانیت کی شہادت مکمل ہوتی ہے۔ یہ شہادت جو لا الٰہ الاللہ یعنی’’ نہیں ہے کوئی معبود و الٰہ سوائے اللہ کے‘‘ سے شروع ہوتی ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا دیگر تمام جھوٹے خداؤں ، مددگاروں اور طاغوتوں کا انکار پہلے آتا ہے اور پھر ایک اللہ کی واحدانیت کا اقرار کیا جاتا ہے۔
اللہ اپنے آپکو ایک ایسی طاقت یا ہستی کے طور پر بیان کرتا ہےجس کی الفاظ میں تشریح ممکن نہیں اور دنیا کی کوئی زبان جس کا احاطہ نہیں کرسکتی لہذا اللہ کی ذات کو بیان کرنے کی کوشش کرنا بھی اسکے حکم سے روگردانی ہی ہوگا ۔اور جب ہمیں اللہ کے ۹۹ نام بتا دیئے گئے تو یہ ہمارے لیئے اللہ کو جاننے کے لئے کافی ہونا چاہیئے۔ سو اب جو لوگ اللہ کو نور کا بنا کہتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کے حق میں ناانصافی کرتے ہیں کہ نور یا روشنی تو اللہ کی تخلیق ہے اور اسی طرح اللہ سبحان و تعالیٰ قران میں ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ فرشتے نور سے بنے ہیں یا نوری مخلوق ہیں تو بھلا خالق اور مخلوق ایک کیسے ہو سکتے ہیں یا دونوں کا مادہ تخلیق ایک ، یعنی نور ہونا کیونکر ممکن ہے؟
توحید کا مطلب تمام جھوٹے خداؤں اور طاغوتوں کے انکار کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدہ و ایما ن کو شرک کی معمولی سے معمولی آلائش سے پاک کرنا بھی ہے۔ شرک اللہ کی ذات ، اسکی عبادت اور اسکے ناموں اور صفات [اسما والصّفات] میں سے کسی ایک یا تینوں میں ممکن ہے۔ جیسےآج کچھ فرقے اللہ کو نور مانتے ہیں جو کہ ایک خلاف قران اور مشرکانہ عقیدہ ہے ، اسی طرح فرقے اپنی فریادوں اور دعاؤں میں فوت شدہ انبیاء، اولیاء اور دیگر مردہ انسانوں کو پکارتے ہیں مثلاٌ یا رسول اللہ، یا علی مدد، یا غوث پاک وغیرہ یا انہیں دعا میں وسیلہ بنایا جاتا ہے جو عبادت اور اسماء والصفات کے شرک کے زمرے میں آتا ہے۔
اللہ کے پیغمبروں پر ایمان
تمام انبیا اور پیغمبر توحید کا ہی پیغام لے کر آئے البتہ اللہ کے آخری نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و بعثت کے ساتھ ہی ان سے پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں اور رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لئے صرف انکی شریعت پہ چلنا ہی لازم ٹھہرا۔ اسکے ساتھ ساتھ ناصرف محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کوصحیح احادیث کی صورت میں رہتی دنیا تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا بلکہ صحیح احادیث قران کی بہترین تفسیر بھی بیان کرتی ہیں۔ اس کے بر عکس ایک فرقے کا یہ ماننا ہے کہ نبوت کا سلسلہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جاری رہا اور ایک اور فرقہ قرآن کو تو مانتا ہے لیکن حدیث کا انکار کر دیتا ہے۔ یہ منکرین حدیث ہیں جواسلام میں حدیث کی حیثیت، اسکی ضرورت اور اسکی اہمیت کا سرے سے انکار ہی کر دیتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیگر مٹی کے بنے انسانوں اور اپنے سے پہلے آنے والے انبیاء کی طرح ایک بشر تھے، انکی پیدائش بھی قدرتی طریقے سے عمل میں آئی اور وفات کا معاملہ بھی ایسےہی تھا ۔ اس کے بر عکس ایک فرقے کا یہ ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اپنی مدینہ والی قبر میں ناصرف زندہ ہ ہیں بلکہ دنیا میں بھی ہر جگہ آتے جاتے ہیں۔
قرآن و صحیح حدیث ہمیں بتاتے ہے کہ دیگر انسانوں کی طرح محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سایہ تھا، وہ کھاتے پیتے ، سوتے، بیمار ہوتے تھے اور چوٹ لگنے پر زخم سے خون بھی نکلتا تھا وغیرہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد عالم برزخ میں ہیں اور قیامت کے بعدآپکو مقام محمود عطا کردیا جائے گا جو عرش الٰہی کے نزدیک ایک مقام ہے۔ اسی طرح محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے انبیا بھی انسان تھے اور ان میں سے کوئی بھی خدائی صفات رکھنے والا نہیں تھا۔ اسکے باوجود کچھ فرقے آج یہ مانتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور علی رضی اللہ عنہ خدائی صفات کے حامل تھے جو کہ یقینا غلط ہے بلکہ یہ عقیدہ تو عیسائیوں کا عیسٰی علیہ سلام کے بارے میں تھا جسے ہم شرک کہتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیا کی طرح معجزات عطا کئے گئے جن میں سے ایک واقعہ معراج کا بھی ہے جب وہ اللہ کے حکم سےحقیقی معنوں میں اپنے جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے گئےاور اللہ سے کلام کا شرف بھی حاصل ہوا لیکن اللہ کا دیدار نہیں کیا جیسا کہ آج بہت سے فرقے دعویٰ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے عائشہؓ نے صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق فرما دیا کہ ’’جو شخص یہ کہتا ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے (بخاری ، کتاب التفسیر)‘‘۔ اسی طرح عیسٰی علیہ سلام کو سولی پر نہیں چڑھایا گیا بلکہ انہیں اللہ کے حکم سے آسمانوں میں زندہ اٹھا لیا گیا اور قیامت سے پہلے دنیا میں انکی واپسی ہوگی۔ ہاں یہ کہ آسمانوں میں اٹھائے جانے سے پہلے وہ ایک پیغمبر تھے لیکن اب دنیا میں انکی واپسی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر اور انکے امتی کی صورت میں ہوگی۔ اس کے بر عکس کچھ فرقے یہ مانتے ہیں کہ عیسی علیہ سلام کی وفات ہو گئی اور اب وہ دنیا میں واپس نہیں آئیں گے اور کچھ کا کہنا یہ ہے کہ انکی واپسی ہو چکی ہے۔
آسمانی کتابوں پر ایمان
اللہ نے اپنے کچھ پیغمبروں کو کتابوں یا صحیفوں سے نوازا تاکہ وہ اپنی اپنی اقوام میں انکا پرچار کر سکیں۔ لیکن سوائے قران کے تمام پچھلی کتب اور صحیعفوں میں تحریف کر لی گئی لٰہذا اب صرف قران ہی اللہ کی مکمل اور آخری کتاب کی صورت میں دنیا میں موجود ہے اور اللہ نے قیامت تک اسکی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔ ان آسمانی کتب کو بھی وقتا فوقتا قران میں نور یا روشنی کہا گیا ہےجس کا مطلب ہدایت اور سچائی کی روشنی ہے۔ لیکن اسکے باوجودآج کچھ فرقے ان آیات کی غلط توجیح کرتے ہوئے نبی آخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نور اور اللہ کی ذات کا حصہ مانتے ہیں۔
اللہ کے فرشتوں پر ایمان
فرشتے نوری مخلوق ہیں، جس طرح تمام انسانوں بشمول تمام انبیاء و پیغمبران کا مادٔہ تخلیق مٹی ہے اور جنات آگ سے بنے ہیں اسی طرح فرشتے نور یا روشنی سے بنے ہیں۔ فرشتوں کو انسانوں کی طرح فیصلوں میں خودمختاری عطا نہیں کی گئی اسی لئے فرشتوں کا کام اللہ کے ہر حکم کی بغیر حیل و حجت برآوری کرنا ہے۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتے جبرائیل علیہ سلام کو اللہ کے احکام یا وحی انبیا تک پہنچانے کا کام سونپا گیا اور اسی طرح دیگر فرشتے کچھ اور کام کرنے پر مامور ہیں جیسے ارواح کو قبض کرنا وغیرہ۔ فرشتے صرف اور صرف اللہ کے حکم کے ہی تابع ہیں کسی اور ہستی کے نہیں۔
جب ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود و سلام پڑھتے ہیں تو دیگر عبادات ، دعاؤں اور پکاروں کی طرح یہ بھی اللہ کی طرف ہی لوٹتا ہے کیونکہ قران کے مطابق تمام کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، اور پھر اللہ اس درود و سلام کے عوض اپنی رحمتیں اور برکتیں ابراھیم علیہ سلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور انکی آل اولاد پر نازل کرتا ہے۔ اسکے باوجود آج تقریبا ٌ تمام فرقوں (بشمول اہلحدیث و سلفی) کا یہ ماننا ہے کہ فرشتے یہ درود لے جاکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردیتے ہیں جو اسے سنتے اور جواب دیتے ہیں حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی وفات کے بعد اس دنیا سے کوئی واسطہ نہیں اور السمیع العلیم صرف اللہ کی ذاتی صفات ہیں۔ بلکہ صلوٰۃ یا نماز میں پڑھا جانے واےدرود یا درود ابراھیمی میں تو مخاطب ہی اللہ تعالیٰ کو کیا جاتا ہے۔ صحیح احادیث کے مطابق درود ابراھیمی وہ واحد درود ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ دیگر تمام درود صدیوں بعد ان فرقوں نے ایجاد کئے گئے لہذا بدعت ہیں، بشمول الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کا بدعتی درود۔
اسی طرح ابلیس [شیطان] کے بارے میں بھی یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ ایک فرشتہ تھا لیکن درحقیقت وہ جن ہے۔ جنوں کو بھی انسانوں کی طرح فیصلوں میں خودمختاری [فری ول] عطا کی گئی ہےاور اسی کے تحت ابلیس نے آدم علیہ سلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ۔ اس واقعے کے بعد اسے قیامت تک لوگوں کو گمراہ کرنے کی اجازت دی گئی ۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کا یہ کام ابلیس انکے ذہن میں غلط تجاویز یا وسوسہ ڈالنے کی صورت میں کرتا ہے لیکن ان تجاویز پر عمل کرنے کا فیصلہ انسان کا اپنا ہوتا ہے یعنی قیامت کے دن انسان اپنے غلط عقائد و اعمال کے لئے شیطان کو مورد الزام نہیں ٹھہرا پائیں گے۔
موت کے بعدعذاب و راحت برزخ اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان
یہ شاید موجودہ دور کا سب سےپیچیدہ معاملہ ہے اور ہم اسے یہاں مختصراً زیر بحث لائیں گے۔ ہماری موت کے بعد ہمیں زمینی گڑھے یعنی قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے جہاں مردہ جسم مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتا ہے۔ موت کے بعد انسانی جسم مکمل طور پر کسی بھی قسم کی زندگی کے آثار سے عاری ہوتا ہے۔ جسم قبر میں گل سڑ جاتا ہے بلکہ قیامت سے پہلے تمام اجسام ختم ہو جائیں گے سوائے ایک ہڈی کے جسے عجب الذنب [دُمچی کی ہڈی] کہتے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ اسی ہڈی سے انسانی جسم کو دوبارہ بنائے گا اور پھر اس نئےجسم میں روح لوٹا دی جائے گی۔
اب موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کے اس درمیانی عرصے میں کیا ہوتا ہے؟ قران و حدیث سے یہی ثابت ہے کہ اس دورانیے میں تمام ارواح کو ایک انتظار گاہ میں رکنا ہوتا ہے جسے عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ لفظ برزخ کا مطلب آڑ یا رکاوٹ ہے یعنی ارواح کے لئے اس آڑ کو پھلانگ کر اس دنیا میں مدفون اپنے مردہ جسموں میں واپس آنا ممکن نہیں۔ عالم برزخ میں ارواح کو ایک نیا جسم عطا کیا جاتا ہےجو انکےدنیاوی اعمال کے مطابق ہوتا ہے، جیسے شہدا کو اڑنے والا سبز رنگ کا جسم ملتا ہے جبکہ زناکار مرد و زن برہنہ حالت میں ایک ساتھ ایک بڑےتنور میں جھونک دیئے جاتے ہیں۔ لٰہذا عالم برزخ میں ہونے والا عذاب اور راحت ہی درحقیقت قبر کا عذاب و راحت ہےاور اس سب کا دنیاوی قبر سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی لئے جب قران عذاب قبر کا ذکر کرتا ہے تو اسکا مطلب برزخ میں ہونے والا عذاب ہے اس زمینی گڑھےمیں نہیں۔
اس حوالے سے بھی کچھ فرقوں کا یہ ماننا ہے کہ تمام اولیا ء اپنی اپنی زمینی قبروں میں زندہ ہیں اور اپنے مریدوں کی پکاروں کو سنتے ہیں۔ اسی طرح ایک فرقہ یہ کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی قبر میں حیات دائمی حاصل ہے۔ کچھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح عید میلاد کے موقع پرانکے ہاں تشریف بھی لاتی ہے۔ ایک اور فرقہ تو یہاں تک کہتا ہے کہ اگرکوئی انسان کسی جانور یا مچھلی کا نوالہ بن جائے یعنی اسے دنیاوی قبر ملے ہی نا تو اسکی روح اس مچھلی یا جانور کے پیٹ میں لوٹائی جاتی ہے تاکہ اسے عذاب و ثواب ہو سکے۔ اسی دعوے کو مزید بڑھا کریہ بھی کہا جاتا ہے کہ روح کو برزخ سے نکال کر وقتاٌ فوقتا ٌ دنیاوی قبر میں مدفون جسم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تاکہ دونوں کو علیحدہ علیحدہ عذاب ہو سکے۔ سو جتنے منہ اتنی کہانیاں۔
روز محشر کو تمام انسانی جسم عجب الذنب نامی ہڈی سے دوبارہ سے بنائے جائیں گےاور یہی وہ دوسری زندگی ہے جسکا ذکر قران کرتا ہے۔ تمام انسانوں کا آخری حساب کتاب ہوگا جس کا کچھ تجربہ انہیں عذاب قبروبرزخ کے دوران ہو چکا ہوگا یعنی جس نے ایمان پر جان دی ہوگی اسے جنت ملے گی اور جو کفروشرک پر مرا اس کا ابدی ٹھکانا جہنم ہوگا چاہے کلمہ گو ہو اور دنیا میں کتنے ہی نیک کام کیوں نہ کئے ہوں۔ اسی طرح قیامت کے دن ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی جانب سے شفاعت کا حق ملے گا یعنی وہ اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے شرک پر جان تو نہیں دی ہوگی مگر ویسے گناہگار ہونگے انکے لئے اللہ سے بخشش کی دعا و سفارش کریں گے۔ اسی طرح دیگر مومنین کو بھی اللہ کے حکم سے اس سفارش کا حق ملے گا۔ یہاں بھی کچھ فرقوں کا ماننا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر اولیاء وغیرہ قیامت سے پہلے بھی اپنی اپنی قبروں سے انکی سفارش اللہ سے کر سکتے ہیں۔
تقدیر پر ایمان
اللہ کے پاس ہی غیب اور ماضی و مستقبل کےحالات و واقعات کا مکمل علم ہے۔ یقینناٌ اللہ نے اس غیب کی کچھ خبریں اپنےانبیاء اور پیغمبروں کو بھی بتائیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی عالم الغیب نہیں بنایا۔ لہذا کوئی بھی نبی یا پیغمبر بشمول محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب یا خود سے غیب جان لینے والے نہ تھے بلکہ غیب کی کچھ خبریں وقتا ٌ فوقتاٌ وحی کے ذریعے انہیں بتائی گئیں، یہ وحی کبھی فرشتے کے ذریعے آتی تو کبھی خواب میں دکھا دیا جاتا۔ یہاں بھی ایک بار پھر فرقوں پر نظر ڈالی جائے تو قران و حدیث سے مکمل تضاد نظر آتا ہے کہ کوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب مانتا ہےتو کوئی قبروں میں مدفون اپنے اپنے اولیاء اور پیروں فقیروں کو یہ درجہ دیئے بیٹھے ہیں کہ وہ مستقبل کا حال یہاں تک کہ زمین کی تہ میں چلنے والی چیونٹی کے دل کا حال تک جانتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تقدیر کے احوال لوح محفوظ میں لکھ دیے ہیں اور وہی جانتا ہے کہ ہماری زندگی کس وقت کیا موڑ لے گی۔ البتہ اس سے ہمارے فیصلہ کرنے کی طاقت یا فری ول کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ اسلئے کہ ہمیں یہ علم ہی نہیں ہے کہ اللہ نے ہمارے قسمت میں کیا لکھا ہے۔ لٰہذا ہم اپنے اعمال کے لئے ہی جوابدہ ہونگےاور اس حوالے سے یہ نہیں کہ سکیں گے کہ یہ تو ہمارے لئے پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا۔ اسی طرح دیگر ایسے معاملات ہیں جن کا تمام تراختیار صرف اللہ کےپاس ہے جیسے زندگی، موت اور رزق وغیرہ سو ایک مسلمان کے پاس کسی مردہ انسان کو داتا و دستگیر، غوث و مشکل کشا مان لینے کا کوئی جواز نہیں۔
یہ ہے وہ عقیدہ جس کی بنیاد پر کسی بھی انسان کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ عقیدہ اور اسے جاننے کے اصول خود اللہ نے ہی اپنی آخری کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے وضع کئے ہیں۔ لٰہذا اب اگر کوئی شخص کلمہ پڑھنے کے باوجود اس عقیدے یا اسکے اصولوں پر پورا نہ اترے تو کیا اسے مسلم مانا جائےگا؟
آئیے اب یہ دیکھیں کے کیسے ایک شخص زبانی کلمہ پڑھنے کے باوجود بھی مسلم نہیں گردانا جائے گا۔ مسلمان ہونے کی تین شرائط درج ذیل ہیں
۔۱۔ زبان سے کلمہ یا شہادت کی ادائیگی
۔٢۔ اوپر بیان کئے گئے عقیدے پر درست ایمان اور
۔۳۔ عبادات اور دیگر دینی امور کو انجام دینا جیسے صلوٰة ، زکوٰة، حج، روزہ، داڑھی، حجاب وغیرہ اور اسی طرح موسیقی اور دیگر لغویات سے پرہیز ۔
لٰہذا اگر کوئی اوپر بیان کی گئی شرائط میں سے شرط نمبر ایک تو پوری کرتا ہے یعنی زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کر لیتا ہے لیکن پھر شرائط نمبر دو اور تین کو خاطر میں نہیں لاتا یا انہیں نہیں مانتا تو ا یسا شخص مسلم نہیں بلکہ صرف مسلم ہونے کا دعویدار ہوگا۔ مثال کے طور پراگر ایک قادیانی شخص زبان سے کلمۂ شہادت کو ادا کرتا ہےلیکن پھر ختم نبوت کا انکار کر کے اپنے عقیدے میں کھوٹ شامل کر لیتا ہے تو پھر چاہے وہ ساری زندگی باقاعدگی سے صلوٰة ادا کرتا رہےاور بیس حج کر لے لیکن وہ اللہ کی نظر میں مسلم نہیں ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اللہ کے بتائے ہوئےاحکامات کی خلاف ورزی یا انکا رد کرے گا لٰہذا اسکی عبادات بے سود ہونگی۔ شرط نمبر ایک اور دو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور یہ اکٹھی عمل میں آئیں گی اور انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح پہلی دو شرائط پر ایک ساتھ عمل ہوگا تبھی تیسری کی ضرورت پیش آئےگی۔ ورنہ جب کوئی ابھی مسلم ہی نہیں ہوا تو پھر اللہ کے نزدیک اسکی عبادات کا کیا مول ہوگا؟ یعنی پہلی دو شرائط پر عمل کے بعد تیسری شرط یہ تعین کرے گی کہ ایک انسان کتنا اچھا مسلمان ہے یا کیا وہ مومن ہے یا نہیں، اس میں کتنا تقوٰی اور پرہیزگاری ہے اور انکی روشنی میں اسے جنت میں کونسا درجہ نصیب ہوگا۔ ظاہر ہے تقوے کے ضمن میں سب سےپہلےانبیاء اور پیغمبر آئیں گے، انکے بعد صحابۂ کرام کا نمبر آئے گا اورپھر دیگر مومنین ہونگے۔
سو اب کوئی چاہے ساری زندگی صرف پہلی شرط پوری کرنے کے بعد کسی بڑے امام،،کسی نامی گرامی ویب سائٹ، کسی پیر و مرشد جس کے نام کے بعد القابات کے ایک لمبی قطار ہو کی تقلید کرتے ہوئےگذار دے لیکن اللہ کی نظر میں اس سب کی کوئی اہمیت نہ ہوگی جب تک وہ شخص اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق مسلمان ہونے کی تمام شرائط پوری نہیں کرتا اور اوپر بیان کئے گئے عقیدے پر من و عن ایمان نہیں رکھتا۔ اور اس عقیدے کا بہترین پہلو یہ ہے کہ اسے تفصیل سے قران اور متواتر صحیح حدیث میں بیان کر دیا گیا ہےاور اس بنیادی بات کو سمجھنے کے لئے کسی نامی گرامی عالم کی تقلید کی ضرورت نہیں۔ اسی لئے اللہ قران میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ
البتہ ہم نے تو سمجھنے کے لیے قرآن کو آسان کر دیا پھر کوئی ہے کہ سمجھے۔ سورة القمر، آیات ۱۷، ۲۲، ۳۲ اور ٤۰
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر ایک قسم کی مثال بھی کھول کر بیان کر دی ہے پھر بھی اکثر لوگ انکار کیے بغیرا نہ رہے۔ سورة الاسراء ۸۹
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اوراے محمد ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے اور وہ مسلمانوں کے لیے ہدات اور رحمت اور خوشخبری ہے۔ سورة النحل، آیت ۸۹
مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ
اور ہم نے اس کتاب کو لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سورة الانعام ۳۸
اس کے بعد اب چاہے کوئی تقلید کرنا چاہےیا غیر مقلد ہونے کا دعوٰی کرےاور یا پھروہ لفظی بحث ومباحثے کرے یا فرقہ واریت کی لڑائیاں، اس کے پاس اس فارمولے سے ہٹنے کی کوئی گنجأش نہیں چونکہ اس فارمولے میں ردّوبدل نہیں کیا جا سکتا۔
السلام علیکم۔
ایک تبصرہ شائع کریں