اکثر خیال آتا ہے کہ اگر کبھی کوئی ایسی ایجاد ہوگئی کہ انسان کی سوچ کو ریکارڈ کر سکے، اور پھر ایک انسان کی سوچ کو بچپن سے بڑھاپے تک ریکارڈ کیا جا سکے تو انسان اس کائنات کی لامحدود وسعتوں کی طرح سوچ کی کائناتوں، کہکشاؤں اور بلیک ہولز کو دریافت ہی کرتا رہ جائے گا، انسانی سوچ کا انت اس نہیں مل پائے گا۔
ثقلی امواج کیسے سوچ کے سمندر کو ہیجان میں ڈالے رکھتی ہیں، ایک خیال کے پر سے بندھا دوسرا خیال کیسے چپکے سے بات بدل دیتا ہے اور پھر گھوم کر دمدار سیارے کی مانند ، برسوں بعد پھر سے وہی خیال مجسم ہو کر آنکھوں میں در آتا ہے۔
کیسےبچے کے زہن میں تغ تغ اور غط غط جیسے رنگین بلبلے دھیرے دھیرے لفظوں کی مالا بنتے ہیں ، اور حرف مدعا بن کر اپنی پہلی ضرورت بیان کرتے ہیں۔
کیسے تتلی کے ست رنگے پروں پر مر جانے والی سوچ دھیرے دھیرے قوس قزح کو مہمان کرنے لگتی ہے۔
کیسے بدن کے چور خانوں میں پلتی بڑھتی خواہشیں اپنا وکیل اور اپنی عدالت دنیا سے الگ کر لیتی ہیں۔
کیسے ایمان اور کفر ، دن رات کی مانند سوچ کی دنیا میں ڈوبتے ابھرتے ہیں۔ بھنور کی آنکھ میں ڈوبنے سے پہلے سوچیں کس کو پکارتی ہیں۔
آنتوں کی جلن کیسے روح کو آمادہ کر پاتی ہے، کہ اسکی خوابگاہ کا میلاپن ہی انکی غذا ہے۔
دو لبوں کے ملنے اور کھلنے کے بیچ کتنے "سوچ ورہے" گزر جاتے ہیں، ۔ ۔ ۔ تب شائد کوئی ماپ سکے ۔
ایک تبصرہ شائع کریں