کس محبت کی بات کر رہے ہو؟ وہ کھلکھلا دی
پتہ نہیں، فلمیں دیکھا کرو، پتہ چل جائیگا۔ میں نے صلاح دی۔
ہوں ں ں ۔ ۔ ۔ وہ خلا میں دیکھتے ہوئی بولی، فلمیں ۔ ۔ ۔ وہی ناں ۔ ۔ ۔ جن میں سارا زور ایک دوسرے کو رسی باندھ کر کھینچنے میں لگایا جاتا ہے؟
نہیں تو ۔ ۔ ۔ میں گڑبڑاتے ہوئے بولا، کیا تم واقعی رومینٹک موویز نہیں دیکھتیں؟ میں بات کو جس طرف لے جانا چاہتا تھا، وہ ادھر جانے کو آمادہ نہیں تھی۔
ہممم دیکھتی ہوں، مگر مزاحیہ سمجھ کر ۔ ۔ ۔ ہی ہی ہی ۔ ۔ جوکروں کے کرتب سمجھ کر۔
یہ رسی باندھ کر کھینچنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ میں ابھی تک ادھر ہی اٹکا ہوا تھا۔
وہ ۔ ۔ ۔ بھئی پوری مووی میں لڑکا یا لڑکی جذباتی کمندیں پھینکتے رہتے ہیں ایک دوجے پر۔ مقصد ہر قیمت پر اپنے مخالف کو چت کرنا ہوتا ہے۔
بھئی ظاہر ہے انسان محبت میں ہی تو چاہتا ہے کہ دوسرا اس سے متاثر ہو جائے اور اسکی طرف کھنچا چلا آئے۔
یا کم از کم اس کے لیے اپنے دل میں کچھ گنجائش پیدا کر لے۔ اس گنجائش کو نکالنے کے لیے تا تھیا کا ناچ ناچنا بھی پڑ جائے تو صوفی لوگ کہاں پرواہ کرتے ہیں؟ میں نے اپنی رائے دی۔
شہریار! کیا واقعی تم ایسی محبت کا خواب رکھتے ہو؟ وہ یکدم سنجیدہ چہرہ کیے میرے انٹرویو کے موڈ میں آگئی۔
نن نہیں تو ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے ۔ ۔ ۔ سب یہی تو کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ایسا ہی تو ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ہے نا ؟ میں پھر گڑبڑا گیا۔
کہاں ہوتا ہے؟ کیا تم نے اپنے ماں باپ کو کبھی گانے پر ناچتے دیکھا؟ میں نے اپنے ابا کو کبھی اپنی اماں کے لیے وائلن بجاتے نہیں دیکھا۔ میرا باپ ایک ملاح تھا، وہ لانچ سے گھر آتا تو اسکا لباس پسینے سے شرابور ہوتا، میری پروفیسر ماں اس کو دیکھتے ہی ناک منہ چڑھا لیتی۔ کیا یہ محبت ہے؟
نہیں ۔ ۔ ۔ یہ تو واقعی محبت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مگر شادی سے پہلے تو ۔ ۔ ۔ میں نے کچھ کہنا چاہا۔
مگر مجھے شادی کے بعد والی محبت چاہیے، اس نے میری بات کاٹ دی۔ تم مجھ سے محبت چاہتے ہو، میں تمہیں شادی کے بعد والی محبت دونگی۔ تمہارے آنے پر بھی اپنے کام لگی رہوں گی۔ تمہیں اگنور کر کے پہلے اپنے کپڑے سمیٹوں گی۔ پھر جب تم تھکن میں اپنے جوتے موزے خود اتارو گے۔ اور تولیہ اٹھا کر نہانے چلے جاؤ گے۔ تو میں ایک میکانکی انداز میں فریج سے سالن نکال کر گرم کرونگی اور تمہارے باہر نکلنے سے پہلے دو چپاتیاں بنا کر سالن کے ساتھ رکھ دونگی۔ اور خود اوپر اسٹور میں پرانی استری ڈھونڈنے چلی جاؤنگی۔
میں ہونقوں کی طرح اسکا منہ دیکھے جا رہا تھا۔
بولو! کرو گے ایسی محبت؟ چاہو گے ایسی توجہ؟
یہ کچھ زیادہ ہی چاہت نہیں ہے؟ میں نے بات کو ہنسی کی طرف لے جانا چاہا۔
تو پھر جاؤ، اور اس ہندوستانی لڑکی راجؔ سے اظہار محبت کرو۔ وہ تمہارے کلچر سے زیادہ قریب ہے۔ وہ تمہارے لیے سگریٹ پینا بھی چھوڑ دے گی، اور تمہاری مرضی کا میوزک بھی سننے لگے گی۔ اور تو اور جتنی چینی تم پیتے ہو چائے میں، اتنی ہی چینی وہ بھی پینے لگے گی۔ مگر ایک بات یاد رکھنا، یہ سب وہ تمہیں لبھانے کے لیے کریگی، اندر سے وہ راجؔ ہی رہے گی۔
میں نے کینٹین کے دوسرے کونے میں بیٹھی راجؔ کو دیکھا، جو اپنے برٹش بوائے فرینڈ کے ساتھ بیٹھی سگریٹ کے دھویں سے ہوا میں مرغولے چھوڑ رہی تھی۔ ہاہ ۔ ۔ ۔ مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب ۔ ۔ ۔ ہم لوگ بھی کن دائروں میں گھومتے رہتے ہیں۔ زینیؔ یورپین تھی مگر اسکے خیالات میرے پنجاب کے دیہات میں بسی کسی مٹیار جیسے تھے۔ جبکہ راج جو انڈیا سے آئی تھی اسکے انداز کسی بھی یوروپین لڑکی سے کہیں زیادہ بیباکانہ تھے۔
اچھا، میں نے ہار ماننے والے لہجے میں کہا، تم کیسی محبت کو مانتی ہو؟
میں ۔ ۔ ۔ ؟ اس نے اپنے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے لمبی آواز نکالی۔ میں نے سر ہلایا اسکی بات سننے کو۔
مجھے محبت نہیں ساتھ چاہیے۔ کیونکہ میں جانتی ہوں، محبت ساتھ کا آوٹ کم ہے۔ جیسے تالاب کی کائی۔ تالاب ہو، پانی ہو تو کائی جم ہی جاتی ہے۔
میں اپنی پلیٹ میں رکھی مچھلی کا ٹکڑا کاٹتے کاٹتے رک گیا۔ زینیؔ ، لاپرواہ لاابالی سی، اچانک ایسی بات کردیتی تھی کہ میری ساری کتابیں دھڑام سے میرے ہی اوپر گر جاتیں۔ کئی کتابوں کے فرق پھڑپھڑاتے اڑتے اڑتے دور نکل جاتے۔ لڑکپن اور نوجوانی میں پڑھی ساری عاشقانہ کتابوں کی واٹ لگا دینے والی لڑکی ۔ ۔ ۔ روزانہ میرے ساتھ ہی کینٹین میں کیوں چلی آتی تھی۔ اسکا جواب مجھے شائد کبھی نہیں ملنے والا تھا۔
ایک تبصرہ شائع کریں