بہت پہلے کہیں ایک شعر پڑھا تھا۔
؎ کٹ ھی گئ جدائئ بھی کب یہ ھوا کہ مر گئے۔۔۔۔۔۔۔ تیرے بھی دن گذرگئے میرے بھی دن گذر گئے
تب شائد اندازہ نھیں تھا کہ دن اتنی جلدی بھی گذر جاتے ھیں۔ کل ھی کی بات ھے ، پوسٹ مین اپنےسائکل کی گھنٹی بجا، ایک اڑتا ھؤا لفافہ پھینک کر یہ جا وہ جا۔ اور پھر اس اڑتے لفافے کے ساتھ ساتھ اڑتی میری امیدیں۔۔۔ آج مڑکے دیکھتا ھوں اور حیرانی سے سوچتا ھوں، کیاتھا اس لفافے میں۔۔۔ وھی صدیوں سے چلے آتے حرف، کسی نے خاص ترتیب میں پرو دیئے، سادہ سا کاغذ — یا پھر کچھہ نیلا نیلا سا ۔۔۔ اور وھی نیلا ڈاک کا لفافہ ۔۔۔ ٹکٹ لگا ھؤا۔
گیٹ کے اندر کچی زمین پر پڑا ہوا-
چیزوں کی اصل ویلیو کا اندازہ انکو بہت دیر کے بعد مڑ کے دیکھنے سے ھوتا ھے یا جب ھم اس خاص کیفیت میں ھوتے ھیں تب۔۔۔ یہ بتانا مشکل ھے۔ کچی زمین پہ، گھرکے اندر جانے والی راہداری کے ساتھہ، مٹیالے کپڑوں پہ نیلے دھبے کی طرح، وہ لفافہ تب لہو میں جو طوفان لاتا تھا وہ آج میں چاہ کے بھی نھیں سمجھا سکتا، بس اتنا یاد ھے تب دسمبر دسمبر نھیں لگتا تھا اور نہ جون جون۔
کتنی بار پڑھنے کے بعد دل کے تسلّی ہوتی تھی، کس کس کو جا کے بتانا ضروری تھا، فرعون کے ساتھہ شام کی چائے، کسی ڈھابے والی جکہ پہ، کتنی بار اس کے مندرجات پہ بحث کرنا کافی ھوتا تھا، اب یہ ساری باتیں ۔۔۔ بس باتیں ھیں، تب پوری ایک زندگی ہؤا کرتی تھی۔ فرعون کبھی کبھی چڑ جاتا تھا، تم الو کے پٹھے ہو جو اسکی چھوٹی سی بات کا پہاڑ بنا لیتے ہو۔۔۔ مزے کی بات ہے کہ برا بھی نہیں لگتا تھا۔ ہاں چھوٹی سی بات، اس سے یاد آیا کہ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ ۔۔۔ اور فرعون اپنا سر پکڑ لیتا۔
نیلے لفافے سے نکلنے والا سادہ کاغذ تھا تو ایک عام سا کاغذ، مگر ایک ٹین ایجر کی جذباتیت اور اردو نثروشاعری سے پروان چڑھتی اسکی رومانیت اس کاغذ کو شہرطلسم بنا دیتی۔ ہر حرف ایک استعارہ ہوتا اور ہر نکتہ گمان کی کمان پہ کھچا تیر۔
محبت، پیار، لوّ، افیکشن، دوستی۔۔ ہاں شائد دوستی سے ھوئی تھی ایک نہ رہنے والی کہانی، اور تب یہ خیال تھا کہ صرف دنیا میں ہم دونوں کو یہ انوکھا آئیڈیا آیا ھے۔
ایک تبصرہ شائع کریں