رشتے بھی انسانوں کے ساتھ ہی بڑھتے پھلتے پھولتے ہیں اور بالاخر جوانی کی سرحد پار کرکے بڑھاپے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جو رشتہ کبھی بچپن میں گھنٹوں ساتھ کھیلنے پر بھی ابھی اور ابھی اور کی رٹ لگاتا چلا جاتا ہے وہ بڑھاپے میں چند حال احوال کی باتوں پر ہانپنے لگتا ہے۔
بہتر ہو کہ ہم رشتوں کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے انکے بڑھاپے کو پہچاننا شروع کردیں، اور بجائے ایک دوسرے سے شکوہ کناں ہونے کے یہ سمجھ لیں کہ ہر رشتے کی ایک عمر ہے اور انسانوں کی طرح رشتوں سے بھی ہم سدا جوان رہنے کی امید نہ کریں۔
اور جب رک رک کر بات ہونے لگے تو ہم جان جائیں کہ اب شکست و ریخت کا کائناتی عمل اس رشتے پر بھی ہوچکا اور اب ہمیں اسکو آہستگی سے اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے اگلی منزل کی طرف لے کر جانا ہے۔ بجائے اسکے کہ ہم اس پر رنجیدہ ہو کر رشتوں کو ان کی طبعی زندگی سے پہلے ہی ختم کردیں، اگر ہم ان کو وقفے وقفے سے پرہیزی کھانا دیتے رہیں، اور ماہے چھماہے، انکے چہرے سے گرد کو محبت سے صاف کرتے رہیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ بہت سے رشتے ناتے بڑھاپے کے کئی سال بھی ہمارے ساتھ رہیں۔
یار دکھیں، رشتوں کی قبروں سے بہتر بہرحال سانس لیتے رشتے ہوتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں