پریم چندکے ناول:کردار،زبان اور اسلوب کے تناظرمیں

پریم چندکے ناول:کردار،زبان اور اسلوب کے تناظرمیں
پریم چندکے مطابق انھوں نے پہلا ناول ۱۹۰۲ء اور دوسرا ۱۹۰۴ء میں لکھا۔ ان کے ابتدائی ناول' ہم خرما و ہم ثواب' اور' کشنا' ہیں لیکن چونکہ پہلے ایڈیشن کے بعد یہ ناول دوبارہ شائع نہیں ہوئے اس لیے اب تقریباً ناپید ہیں(۱) ۔قمر رئیس کے مطابق پریم چند کا پہلا ناول' اسرارمعابد' تھا جو مکمل نہ ہو سکا۔ یہ ناول بنارس کے ایک ہفتہ وار اخبار' آوازخلق' میں اکتوبر ۱۹۰۳ء سے فروری ۱۹۰۵ء تک شائع ہوا۔اس کے مصنف کا نام دھنپت رائے عرف نواب رائے الہ آبادی تھا۔ یہ ادھورا ناول سرشار کے ناول 'فسانہ آزاد 'کے طرزپر لکھا گیا۔ پریم چند سرشار سے متاثر تھے۔ انھوں نے ہندی میں' آزاد کتھا'کے نام سے' فسانہ آزاد' کی تلخیص بھی کی۔ انھوں نے ابتدائی عمر ہی سے سرشار کی تمام کتابوں کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔'زمانہ' کے مطابق' کشنا' پریم چند کا پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہے لیکن شواہد کے مطابق یہ ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا(۲)۔جبکہ' ہم خرما و ہم ثواب' ۱۹۰۶ء کے اواخر سے پہلے شائع ہوگیا۔اس کا ہندی ترجمہ' پریما 'کے نام سے ۱۹۰۷ء میں انڈین پریس الہ آباد سے شائع ہوا(۳)۔' ہم خرما و ہم ثواب 'میں نو مشقی کی تمام خامیاں موجود ہیں۔ پلاٹ ڈھیلا ڈھالا ،کردارپھسپھسے اور مکالمے بے جان ۔ اسے کسی پہلو سے کامیاب ناول نہیں کہا جا سکتا۔پورا ناول تیرہ ابواب پر مشتمل ہے ۔ہر باب کا ایک عنوان ہے اور یہ عنوان باب میں آنے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔نذیر احمد اور سرشار کے ناولوں میں یہ وصف پایا جاتا ہے۔ اس طرح اس ناول کو ان کی ہی پیروی کہا جا سکتا ہے۔
یہ ناول کمزورسہی لیکن اس میں پریم چند کی زندگی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس زمانہ میں انھوں نے ایک لڑکی سے محبت کی جس کا اعتراف آخری عمر میں اپنی پتنی کے رو برو کیا ہے(۴)۔ وہ اس لڑکی سے شادی کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو ایک بیوہ سے شادی کر لی۔اس طرح ان کا یہ اقدام بھی' ہم خرما و ہم ثواب' کے مطابق ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسی لیے پریم چند کو ہمیشہ اس ناول سے وابستگی رہی ۔شاید اسی جذباتی تعلق کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے اس ناول کو اصلاح و ترمیم کر کے مختلف زمانوں میں چار مختلف ناموں سے شائع کروایا۔قمر رئیس کے مطابق اردو میں یہی ناول بعد میں 'بیوہ 'کے نام سے شائع ہوا(۵)۔ ' بیوہ 'میں کردار وہی ہیں ۔سماجی اعتبار سے ناول کا موضوع ہندو دھرم اور سماج میں بیوہ کا مسئلہ ہے۔ ناول کا ہیرو امرت رائے آریہ سماجی تحریک سے متاثر ہو کر بیوائوںکے لیے ایک آشرم بنوانا چاہتا ہے تاکہ وہاں رہ کر وہ ان مظالم سے محفوظ رہیں جو ہندو سماج نے فرسودہ مذہبی روایات کی وجہ سے ان پر روا رکھے ہیں۔
مندر کے مہنتوں اور بچاریوں کی پوجا کے پردے میں نفس پرستی کو اتنی بے رحمی سے بے حجاب کرنا اس دور کے ایک ادیب کے لیے بڑی ہمت کی بات تھی۔
'زمانہ' کے مطابق' جلوئہ ایثار' ۱۹۱۲ء میں شائع ہوا(۶)۔ اردو میں' جلوئہ ایثار' کا پہلا ایڈیشن ۱۹۱۲ء میں الہ آباد سے شائع ہوا۔ یہ ناول سماجی اعتبار سے بہت مربوط اور منظم ہے ۔پریم چند نے سماج کی اصلاح کا جو بیڑہ اٹھایا تھا اس کے واضح خطوط اس ناول میں نظر آتے ہیں۔ناول کی سباما برسوں کی تپسیا کے بعد دیوی سے بردان مانگتی ہے تو ایسا سپوت بیٹا جو اپنے دیس کا اپکار کرے ۔اس کا سپوت بیٹا قومی خدمت کو شعار بناتا ہے اور سماج کی اصلاح کے لیے سوامی بن جاتا ہے۔قومی خدمت کا یہ تصور آریہ سماجی ہے اور سوامی وویکانند کی تعلیمات کے زیر اثر ہے۔اس ناول کے سماجی مقاصد کا ایک پہلو بے جوڑ شادیاں ہیں۔ ناول کی برجن کی شادی ایک جاہل رئیس سے کر دی جاتی ہے جو آخر بیوہ ہو جاتی ہے اور ناول کے ہیرو پرتاپ سے محبت کو چھپاتی ہے اور ہندو عورت کے پتی ورتا کو قائم رکھتی ہے۔وہ ایک بیوہ کی پر اذیت زندگی میں تلخیوں سے فرار شاعری اور بھگتی میں پناہ سے حاصل کرتی ہے لیکن یہ بیوہ کے مسائل کا حل تو نہیں۔ اس طرح اس سماجی مسئلے کے حل کی طرف پریم چندنے اشارہ نہیں کیا۔ 
' بازار حسن' اردو میں لکھا گیا لیکن ہندی میں 'سیواسدن 'کے نام سے دسمبر ۱۹۱۸ء میں شائع ہوا ،پریم چند نے نظر ثانی کے بعد دوبارہ اردو مسودہ تیار کر کے اسے دارالاشاعت پنجاب لاہور سے دو جلدوں میں ۱۹۲۱ء میں شائع کیا(۷)۔ ہندی ایجنسی نے پریم چند کو یک مشت چار سو روپے پیش کیے۔ اتنا معاوضہ ابھی تک انہیں کسی کتاب پر نہ ملا تھا۔کچھ اس کشش نے اور کچھ اس غیر معمولی شہرت نے جو اس ناول کی اشاعت سے ہندی داںحلقہ میں پریم چند کو ملی،انہیں ہندی میں لکھنے کی طرف متوجہ کیا۔اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اس زمانے میں سرکاری ملازمت کی زنجیروں سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔اس کے بعد قلم ہی کو آمدنی کا ذریعہ بنانا تھا اور اس کا میدان اردو کی بہ نسبت ہندی میں زیادہ وسیع تھا۔ چنانچہ جب یہ ناول ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا تو اسی پبلشر نے ان کے دوسرے ناول 'گوشہء عافیت' کی اشاعت کے لیے تین ہزار روپے بطور معاوضہ پیش کیے۔ 
اس طرح پریم چند کا اردو سے ہندی کی طرف جھکائو بنیادی طور پر ایک معاشی مسئلہ تھا۔ہندی ادب میں اس ناول نے معیارات کا تعین کیا۔ اس کا موضوع سماجی تھا اور اس موضوع پر بہت کچھ اردو میں لکھا جا چکا تھا۔ رسوا، شرر، آزاد اور نذیر احمد کے ناول مارکیٹ میں موجود تھے۔ امرائو جان ادا کی موجودگی میں اردو میں 'بازار حسن' کی جگہ نہ تھی۔ اس لیے ہندی میں یہ زیادہ مقبول ہوا ۔'بازار حسن' کا موضوع شہری زندگی کی معاشرتی تباہ کاریوں اور شہر میں رہنے والے متوسط طبقے کے مسائل ہیں۔ بالخصوص ہندو عورت کی سماجی پستی اور بے چارگی۔اس ناول میں پریم چند نے معاشرتی خرابیوں کو ان کے وسیع سماجی، اخلاقی اور اقتصادی پس منظر میں دکھایا ہے اور نفسیاتی پہلوئوں پر بھی غور کیا ہے۔ ناول کی ہیروئن سمن کا ایک طوائف کی خوشحال زندگی سے متاثر ہوکر طوائف بننا بدلے کی انتہا ہے۔عورت بدلہ لینے میں اس قدر گر سکتی ہے لیکن اس کا بازار میں بیٹھ کر اپنی عصمت کی حفاظت کرنا اور پھر دوبارہ شرافت کی زندگی کی طرف آنا، مایوسی اور بے سہارا ہو کر آشرم میں جانا ہندی سماج میں عورت کی بے چارگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ناول میں طوائف کو مسلمان ظاہر کرنا بھی معنی خیز ہے ۔
سماج کا عجیب جبر ہے کہ سمن کا عاشق ہی اس کا ہونے والا بہنوئی ہے۔سمن کا شوہر گناہوں کا پرائسچت کرنے کے لیے سادھو بن چکا ہے۔ وہ جو بیوائوں کی لڑکیوں کو پالنے کے لیے آشرم تعمیر کرتا ہے، سمن اس کی نگران اور معلمہ ہو جاتی ہے ۔پلاٹ کو پریم چند نے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ناول میں کچھ چیزیں اضافی ہیں جیسے بازار حسن کو ہٹانے کی تحریک ،میونسپلٹی میں دلچسپ مباحثہ وغیرہ۔ پریم چند کیونکہ آریہ سماجی تحریک سے متاثر ہیں اس لیے وہ ہر چیز میں سماج سدھار شامل کر لیتے ہیں۔ وہ طوائف کی اصلاح کر کے اسے معاشرے کے لیے باعزت فرد بنانا چاہتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سمن باعصمت ہونے کے باوجود معاشرے میں باعزت مقام نہیں حاصل کر پاتی۔پریم چند طوائفوںکوبارونق جگہوں سے ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ متوسط طبقہ کے رنگین مزاج نوجوانوں کے اخلاقی بگاڑکا سبب بنتی ہیں۔تاہم یہ ایک سطحی زاویہء نظر ہے۔ بیسوائوں کی لڑکیوں کو تعلیم دینا ایک الگ مسئلہ ہے اور معاشرے کا ان کو قبول کرنا دوسرا۔ کیا ان پڑھی لکھی لڑکیوں کو کوئی شمع حرم بنانے پر تیار ہے۔ پریم چند نے اس ناول میں ایک سوال اٹھایا ہے کہ عورت مرد سے کیا چاہتی ہے۔ اس کی قدر، خودداری کی حفاظت، اس پر اعتماد اور اس کے احساسات کااحترام ۔یہ نہ ملے تو وہ باغی ہو سکتی ہے اور سمن سے سمن بائی بن سکتی ہے۔لیکن کیا وہ طلاق نہیں لے سکتی ۔ہندو سماج میں طلاق کا وجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک عورت کا سانحہ ہے۔ اگر وہ والدین کے گھر چلی جائے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے لیکن خودداری کا خون کر کے عزت اور عفت کو بچانا زیادہ بہتر ہے۔اگر یہ ناول عورت کے حقوق اور آزادی کی جنگ ہے تو وہ کون سے حقوق ہیں جو پریم چند اس ناول کے ذریعے عورت کو دلانا چاہتے ہیں۔
اس ناول میں سمن کی نسبت اس کی بہن شانتا کا کردار جاندار ہے ۔سمن اس وقت تک کامیاب اور باوقار ہے جب تک وہ مصنف کے آدرش واد کے ہتھے نہیں چڑھی۔اس کا کردار گناہ کا پرائسچت کر کے آب و تاب کھو بیٹھتا ہے۔ شانتا آخری لمحوں تک منفرد ہے ۔سمن کے کردار میں کشمکش کا پہلو بہت کمزور ہے ۔پریم چند نے اس ناول میں بے شمار غلطیاں کی ہیں ۔ مثلاً سمن کو جلد سے جلد طوائف بنانا، سمن جیسی شریف لڑکی کا اتنی جلدی بازار میں بیٹھنے پر راضی ہو جانا،ساری دال منڈی کو ایک ہی دن میں خالی کر دینا، پھر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرکے متفقہ طور پر طوائفوں کا بے شرمی، ذلت اور عیش پرستی کی زندگی ترک کر کے شرافت کی زندگی کا آغاز کرنا، سب مصنوعی لگتا ہے ۔پریم چند کے سماجی مقاصد مروجہ اخلاقیات کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔ طوائفوں کا یہ کہنا کہ انھوں نے سماجی اور معاشی حالات سے نہیں بلکہ شہوت پرستی سے تنگ آکر یہ پیشہ اختیار کیا، حقائق کے خلاف ہے۔پریم چند طوائفوں کو گناہوں کی غلامی سے نجات تو دلاتے ہیں لیکن وجوہات تلاش نہیں کرتے جس کی وجہ سے لاکھوں عورتیں دال منڈی میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ پریم چند کے کردار کھوکھلے ہیں وہ کردار کی تعمیر پر توجہ نہیں دیتے ان کی نظر مقصد پر رہتی ہے اور ان کے کردار موم کی ناک کی طرح لگتے ہیں۔پریم چندکا ناول 'گوشہء عافیت' لگ بھگ سوا سات سو صفحات کا طویل ناول ہے جو اردو میں لکھا گیا لیکن ہندی میں' پریم آشرم' کے نام سے۱۹۲۲ء میں شائع ہو گیا تھا۔اردو میں اس کی اشاعت ۱۹۲۹ء کے لگ بھگ ممکن ہو سکی(۸) ۔پریم چندنے اس ناول میں ہندوستان کے محنت کش طبقے کی زندگی اورمسائل کو موضوع بنایا ۔پریم چند نے یہ ناول اپنی ملازمت کے دوران لکھا۔اسی لیے اس میں سیاسی ہنگامہ آرائیاں واضح نظرنہیںآتیں۔ نو بہ نو مسائل کو ناول کے پلاٹ میں سمونا آسان نہ تھا۔ کاشتکاروں کے مسائل، بیگار،سیلاب،ہندو مسلم اتحاد، روحانیت، اعلیٰ طبقہ کی خودغرضانہ ذہنیت، توہم پرستانہ ہندو عقائد کے مہلک اثرات، جاگیرداری کے مقابلے میں کاشتکاروں کی کشمکش ، کہیں پولیس کے اختیارات کی کہانی ہے اور کہیں ان اختیارات کا ناجائزاستعمال۔ اس ناول میں پریم چند نے مرکزی کرداروں کو خودکشی پر مجبور کیا ہے۔ جانے کیوں؟پریم چندپسے ہوئے طبقات کو بیدار کرنا اور اٹھانا چاہتے ہیں۔و ہ ان مزدوروں کی بیداری کو ہندوستان کی بیداری کے مترادف گردانتے تھے۔ اس ناول میں انھوںنے ہندوستانی محنت کش طبقہ کی نمائندگی کی ہے۔ اس ناول کے کردار جیتے جاگتے ہیں۔ ان میں کشمکش موجود ہے۔
ہندوستان کی تہذیبی روایات اور سماجی زندگی کے روشن اور تاریک پہلو پریم چند نے آشکار کیے ہیں۔پریم چند کو یہ طبقاتی شعور ان کی ملازمت نے دیا۔انھوں نے گائوں گائوں جو فرائض منصبی ادا کیے تو قریب سے کسانوں کے مسائل کا مطالعہ کیا ۔انھوں نے گھریلو تنازعات ،روایت پرستی ،مذہبی عقیدت مندی ،خوف و ہراس ،جہالت ،خود غرضی ،اقتصادی بدحالی اور خودی یا حفظ نفس پر کمال مہارت سے قلم اٹھایا۔زمیندار طبقوں کے نمائندوں گیان شنکر، گائتری اور رائے کملا نند کو پریم چندنے خود کشی پر مجبور کر دیاکیونکہ یہ ان کے پسندیدہ کردارنہیں۔انھوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ معاشرے میں طاقتور طبقات کمزوروں کے استحصال کے لیے ہمیشہ دھرم اور ایشور کا سہارا لیتے ہیں لیکن یہ بات درست نہیں۔گیان شنکر مذہب کے سہارے کے بغیر بھی وہ سب کچھ کر سکتا تھا۔ یہ سوچ سوشل ازم سے آئی ہے ۔ پریم چند کی اپنی نہیں۔اس ناول میں بھی پریم چند نے حسب عادت آدرش واد کا سہارا لیا ہے۔ ناول میں پریم چند کا گاندھیائی تصور پریم شنکرکی صورت میں سامنے آتا ہے(۹) ۔
اس کردار کے وسیلہ سے پریم چند کاشتکاروں کی اصلاح کرتا ہے لیکن وہ انقلاب کا قائل نہیں۔ ظلم کا جواب دینا نہیں جانتا اسے زمینداروں سے کوئی رنجش نہیں(۱۰)۔پریم چندکا آدرش واد ناول کے حسن کا بیڑا غرق کر دیتا ہے۔ مایا شنکر کا زمینداری سے دست بردار ہونا عصری قانون کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ شردھا کا اپنے شوہر پریم شنکرسے سمجھوتا ، رائے کملا نند کا پرائسچت، گائتری اور گیان شنکر کا خودکشی کرنا حقیقت کیخلاف ہے۔یہ حقیقت پسندی نہیں رومانوی فکرہے۔ تاہم اس ناول کے کردار پہلے ناولوں کے مقابلے میں جاندار ہیں۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ پریم چند کے ناولوں کے چھوٹے کردار بڑے کرداروں کی نسبت زیادہ جاندار ہیں جیسے قادر، منوہر اور بلراج وغیرہ۔ پریم چند بنیادی طور پر سدھار چاہتے ہیں ۔اس کے لیے کردار نگاری اور پلاٹ کو اہمیت نہیں دیتے۔قمر رئیس نے گیان شنکرکے کردار کو نذیر احمد کے ابن الوقت سے مشابہ قرار دیا ہے۔ دونوں طرزکہن کے مخالف ہیں آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن آخر پر دونوں کوشکست ہوتی ہے(۱۱)۔لیکن نذیر احمد کے کردار خودکشی نہیں کرتے۔پریم چند کا ایک اور سماجی ناول 'نرملا'ہندی اور اردو میں ایک ہی نام سے چھپا تاہم ہندی میں جنوری ۱۹۲۷ء اوراردو میں ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا(۱۲) ۔نرملا ایک معاشرتی اور سماجی ناول ہے جس میں ان مشکلات کا تجزیہ ہے جولڑکی کی شادی میں جہیز نہ دے سکنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ پریم چند نے متوسط طبقہ کے تین گھرانوں کے افراد سے اس ناول کا پلاٹ بنا ہے۔ ناول کی ہیروئن ۱۵ سالہ نرملا چالیس سالہ شخص سے بیاہ دی جاتی ہے۔ نرملا پتی کو محبت کی چیز نہیں احترم کی چیزسمجھتی ہے ۔پریم چندکوجوکردارپسند نہیں آتااس کاعلاج کرنے کے بدلے اسے خودکشی پر مجبورکر دیتے ہیں ۔اس ناول کا کردارڈاکٹر سنہا کوصرف اس لیے خودکشی کروا دیتے ہیں کہ وہ اپنی سابقہ منگیتر جو اب بیوہ ہے ،سے اظہار محبت کر دیتا ہے اور اس کا علم اس کی پتنی کو بھی ہو جاتا ہے۔ اس اظہار محبت میں ترس اور رحم کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔اب یہ بات یا یہ جرم اتنا بڑا نہیں کہ کوئی خودکشی کر لے۔پریم چند کے کردار جانے کیوں اتنے انا پرست واقع ہوئے ہیں۔حالانکہ پریم چند خودانا پرست نہیں۔ ناول کی ہیروئن نرملا حالات سے مجبور ہو کر موت کو گلے لگاتی ہے اور اپنی شیر خوار بچی آشا کو اپنی نند رکمنی کے حوالے کرتے ہوئے وصیت کرتی ہے کہ ' چاہے کنواری رکھیے گا چاہے زہر دے کر مار ڈالیے گا مگر نااہل کے گلے نہ باندھیے گا'(۱۳)۔سماجی برائیوں کودکھاتے ہوئے پریم چند کالہجہ تلخ ہو جاتا ہے ۔مصنف نے اس ناول میں بھی کردار نگاری پر نہیں سماجی مسئلہ پر روشنی کو نصب العین بنایا ہے۔ پریم چند نے بعض کرداروں کے نفسیاتی مسائل کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے مثلا ًنرملا (ماں) اور منسارام(سوتیلا بیٹا)کی محبت جو باپ کی موجودگی میں تلخ اور تنہائی میں شیریں بن جاتی ہے، کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
پریم چند کا ناول' غبن' بھی ایک سماجی اور معاشرتی ناول ہے جو بنیادی طور پر زیورات کی ٹریجڈی ہے۔یہ اردو اور ہندی دونوں میں ایک ہی نام سے شائع ہوا تاہم پہلے ہندی میں مارچ ۱۹۳۱ء اور پھر اردو میں دو جلدوں میں ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا(۱۴)۔اس ناول کا موضوع بھی متوسط طبقہ ہے ۔ان کی کھوکھلی نمائش پرستی۔ یہ مطالعہ سماجی بھی ہے، انفرادی اور نفسیاتی بھی۔ناول کا ہیرو نمود و نمائش کا دلدادہ ایک بے فکرا نوجوان ہے جو چہیتی بیوی کی ایک خواہش کے لیے دفتر میں غبن کرتا ہے اور پھر کلکتہ فرار ہو جاتا ہے۔ جہاں وہ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور سرکاری گواہ بن جاتا ہے۔پریم چندنے اس ناول میں بھی زہرہ کا کردار مسلمان دکھایا ہے اور اسے طوائف بتایا ہے۔ پریم چند کا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے ناولوں میں پست کردار مسلمان دکھاتے ہیں۔پریم چند کا یہ پہلا ناول ہے جس میں انہوں نے کسی' گوشہء عافیت' کی تعمیر کر کے قاری کو جھوٹی تسلی نہیں دی ۔اس طرح اس ناول میں پریم چند آدرش وادی نہیں لگتے۔ اس ناول کے کردار اچھے برے نہیںعام انسان ہیں۔ان میں ہر طرح کے جذبات موجود ہیں اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
پریم چند نے اس دور کے معاشرتی اور سیاسی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔مثلاً بڑھاپے کی شادی،جائیداد سے ہندو عورت کی محرومی، عصمت فروشی ، رشوت ستانی اور پولیس کے مظالم ،سودیشی تحریک اور ستیہ گرہ پر بھی اظہار خیال کیا ہے ۔ پریم چند نے اس ناول میں ایک آدرش عورت کی مکمل تصویر بھی پیش کی ہے۔تاہم قومیت اور انسانیت کو پتی ورتا اور دھرم سے بلنددرجہ دیا ہے۔ ناول میں رتن اور وکیل صاحب کا کردار اضافی لگتا ہے۔ دیبی دین بیدار ہوتے مزدوروں کے سیاسی شعور کا استعارہ ہے۔وہ بورژوا طبقہ کی قومی راہنمائی کے سوانگ کی اصلیت جانتا ہے۔ناول کا ہیرو رما ناتھ پریم چندکاآدرش کردارنہیں۔نرملا میں نرملا کا کردار حقیقی اور ارضی ہے۔غبن میں رما کا کردار بھی اتنا ہی جاندار ہے اور یہی دونوں کردار ان ناولوں کی اساس ہیں۔پریم چند نے 'چوگان ہستی 'اردو میں لکھا ۔ یہ ان کا سب سے طویل ناول تھا۔ ہندی اور اردو میں دو دو جلدوں میں شائع ہوا۔ اردو میں' چوگان ہستی کے' نام سے ۱۹۲۸ء میں شائع ہوا۔ ہندی میں اس کا نام 'رنگ بھومی' رکھا گیا۔' زمانہ 'کے مطابق یہ ستمبر اکتوبر ۱۹۲۸ء میں دارالاشاعت پنجاب کی طرف سے شائع ہوا(۱۵)۔ ایک ہزار صفحات کا یہ ناول پریم چند کی صحت اور فراغت کے دور کی یادگار ہے۔ اس ناول میں پریم چند کا آدرش وادپھر لوٹ آیا ہے۔ سورداس ،جانہوی اور صوفیہ کے کردار اس مثالیت کے آئینہ دار ہیں۔اس ناول میں گاندھی واد بھی کھل کر سامنے آیا ہے۔سورداس مہاتما گاندھی کے عقائد کا ترجمان ہے۔ وہ حق کے لیے لڑنے والا فرد ہے۔ ونے اور صوفیہ کی محبت کی کہانی اس کے متوازی چلتی ہے۔پریم چند نے حسب روایت دونوں کو خودکشی پر مجبور کیا ہے حالانکہ ونے محنت، ریاضت اور محبت سے لوگوں کے دل جیت سکتا تھا اور صوفیہ کا حصول بھی اس کے لیے بڑی بات نہ تھی۔جانے پریم چند دو محبت کرنے والوں کو ملنے کیوں نہیں دیتے؟شاید اس لیے بھی کہ وہ خود بھی اپنی حقیقی زندگی میں محبت نہ پا سکے۔
پریم چند نے سرمایہ داری کی لعنتوں اور صنعتی دور کی آلودگیوں کا تجزیہ بھی کیا ہے نیزدیسی ریاستوں میں غیر ملکی سامراجی اقتدار کی ریشہ دوانیوں کا تذکرہ بھی۔پریم چندمختلف مذاہب کے درمیان رشتہ ازدواج کے مسئلہ کا کوئی حل پیش نہیں کر سکے۔ سورداس کا کردار پریم چند کا آئیڈیل کردار ہے۔سورداس کا کارخانے کی تعمیر کی مخالفت جاگیر داری کی صنعتی دور سے نفرت ہے اور آخر کاراس کا ہارنا اور کارخانے کا بن جانا جاگیردارانہ سماج پر صنعتی سماج کی فتح ہے۔تاہم گوشت پوست کے انسان کو پریم چند نے مافوق الفطرت بنا دیا ہے۔ پریم چند کے باقی کرداروں کی طرح ونے بھی انتہائی کمزور کردار ہے جو ایک طرف صوفیہ کے اشارے پر قومی خدمت اور ایثار کی عظمتوں تک جاتا ہے تو اسی کے اشارے پر خود غرضی اور نفس پرستی کی پستیوں میں گر جاتا ہے۔قاری کو اس کے خود کشی کرنے تک اس سے کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہوتی ۔ پریم چندکے اس بڑے ناول میں خامیاں بھی بڑی بڑی ہیں مثلا ًزینب اور رقیہ کو بیوہ ہونے کے باوجود انتہائی سنگ دل اور خود غرض دکھانا۔اس میں پریم چند کا بھی قصور نہیں کیونکہ ان کے نزدیک وفا اور بے غرضی صرف ہندو عورت میں ہو سکتی ہے۔ونے کا پورا ایک سال نفس پرستی کا شکار رہنا، جڑی بوٹیوں کی مدد سے صوفیہ کی محبت کو مشتعل کرنا حقیقت سے زیادہ خوابوں کی دنیا معلوم ہوتا ہے۔ 
پریم چند نے 'چوگان ہستی 'کے چار سال بعد ۱۹۲۸ء میں ناول 'پردئہ مجاز'لکھا۔ اردو میں لاجپت رائے اینڈسنز سے ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا ۔پلاٹ کی پیچیدگی نے اس ناول کو ایک گورکھ دھندہ بنا دیا ہے۔ اس ناول میں بھی پریم چند نے معاشرتی مسائل مثلاً ہندو مسلم اتحاد اور مسئلہ ازدواج پر روشنی ڈالی ہے۔ پیچیدگیوں کے باوجود یہ ناول پریم چند کے اسلوب اور فن کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔بنیادی کہانی چکر دھر اور منورما کی ہے۔ رانی دیو پریا اور مہندرکمارکے اوتار یا بار بار جنم کی کہانی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ پریم چند نے ہندوئوں کے آواگون کے نظریے کواس ناول میں بڑی خوبصورتی سے سمو دیا ہے۔اس ناول میں ہندو مسلم مذہبی ہم آہنگی کے کچھ نمونے بھی دکھائے ہیں جن کا اس ناول سے میل نہیں وہی پرانا طریقہ ہے کہ اگر ایک ہندو مرے تو ایک مسلمان کو مار کر حساب برابر کر دو۔زمینداروں سے پریم چند کو کد ہے اور اس ناول میں بھی ان کے مظالم کی دردناک کہانی سنائی ہے۔ انہوں نے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جاگیردارانہ نظام کی بنیاد ظلم و استبداد پر قائم ہے یہ نظام بہت تھوڑے دنوں کا مہمان ہے اور وہ زمانہ آ رہا ہے یا تو راجہ اپنی رعایا کا خادم ہو گا یا ہو گا ہی نہیں(۱۶)۔ متوسط طبقے کی بے جا انا پرستی پریم چند کا موضوع ہے۔ چکر دھر شہر کے رئیس کی بیٹی منورما سے شادی کر سکتا تھا لیکن اس کی فرضی انا پرستی آڑے آتی ہے تاہم چکر دھر اس ناول کا ایک مکمل کردار ہے جس میں محبت اور نفرت دونوں کے جذبات موجود ہیں۔تاہم اس کا حقائق سے فرار ہو کر سادھو بن جانا عجیب لگتا ہے۔ اس ناول کا دوسرا مضبوط کردار منورما ہے پریم چند کی مکمل ہندو عورت: حقائق کا مقابلہ کرنے والی، حالات سے منہ نہ موڑنے والی، زندگی سے بھرپور، محبت کی متلاشی اور خوشیاں بانٹنے والی تاہم اس کی محبت کی سمجھ نہیں آتی۔ کیا اس کی محبت عقیدت ہے جو ایک اچھے شاگرد کو ایک اچھے استاد سے ہوتی ہے۔راجا بشال سنگھ کا کردار ایک مکمل جاگیردار کا کردار ہے۔ نوجوان خوبصورت جسموں کا خوگر۔ ٹھاکر ہری سیوک اور لونگی کا کردار دلچسپ ہے۔ لونگی سے ٹھاکر کا بیاہ نہیں ہوا لیکن وہ اس کے گھر میں بیاہتا بیوی کی طرح حکمرانی کرتی ہے۔ پریم چندنے اسے بھی ایک مثالی ہندو عورت کے روپ میں دکھایا ہے ۔ویسے بھی ہندو راجپوتوں میں عورتوں کو گھرمیں ڈال لینا نئی بات نہیں بلکہ ان کے بھگوان کرشن نے رکمنی کو اٹھا کر لایا اور شادی کیے بغیر اپنے گھر میں ڈال دیا۔ پریم چند نے بھی ایک عورت کو بیاہ کے بغیر گھر ڈال لیا تھا ممکن ہے لونگی کا کردار اسی سے لیا ہو(۱۷)۔ 
پریم چند کے باقی ناولوں کی طرح اس ناول میں بھی کمزوریاں موجو د ہیں مثلاً اہلیا کا خواجہ محمود کے لڑکے کو قتل کرنا ۔کسی نازک لڑکی کا خنجر سے ایک مرد کو قتل کرنا ویسے بھی عجیب بات ہے لیکن یہ واقعہ سارے شہر کو معلوم ہے، مقدمہ تو دورکی بات پولیس اس سے بازپرس تک نہیں کرتی۔ پریم چند نے ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۲ء کے درمیان ایک اور ضخیم ناول لکھا جو ۱۹۳۲ء میں سرسوتی پریس سے شائع ہوا اس کا نام 'میدان عمل 'تھا۔ اس ناول میں پریم چند آدرش وادی نہیں۔ اس ناول کا ہر کردار سمجھوتا کر رہا ہے امر کانت سکھدا سے، سلیم سکینہ سے، سکینہ حالات سے اور لوگ حالات کے جبر سے۔ اس عہد کی کانگرس کی سیاست اور متوسط طبقہ کے طرز فکر کا عکاس اس ناول کو کہا جا سکتا ہے۔ اسے گاندھی ارون معاہدہ کا اثر بھی کہا جا سکتا ہے تاہم سکھدا کا تبدیل ہونا، سکینہ کا پردے سے نکل کر میدان عمل میں آنا، سلیم کا اتنی اچھی نوکری کو لات مارنا، سب کرداروں کا ایک جگہ جیل میں بند ہونا اور ملنا سب مصنوعی لگتا ہے۔ جہالت کا علاج تعلیم ہے اور پریم چند نے اس ناول کے ذریعے اس سوچ کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔اچھوتوں کی حالت کو بدلنا گاندھی کا خواب تھا اور پریم چند نے بھی اسی کو اپنایا ہے۔پریم چند اس ناول میں عدم تشدد کے اثر سے اس وقت باہر آ جاتے ہیں جب ٹھاکر کی غریب بیوی کو انگریز بے آبرو کرتے ہیں اور وہ پاگل ہو کر دو انگریزوں کو مار دیتی ہے ۔اس عورت کے لیے سارا شہر چندہ جمع کرتا ہے ،اس کا مقدمہ لڑتا ہے اور جیتتاہے۔ پریم چند نے مزدور تحریک کو بھی اس ناول میں مناسب جگہ دی ہے ۔ یہ وہ دور تھا جب کیمونزم پوری دنیا میں لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ چکا تھا ۔پریم چند کیمونسٹ تحریک سے متاثر تھے۔ شانتی کمار اور سکھدا کے ذریعے انھوں نے مزدوروں کو اپنے حقوق کے لیے منظم کیا ہے۔ گائوں پریم چند کا خاص موضوع ہے اور انہوں نے اس ناول میں شہر کی نسبت گائوں کی کامیاب تصویر کشی کی ہے ۔ علاقہ کے زمیندار مہنت آشا رام اور ان کی مذہبیت پر پریم چند نے چابک رسید کیے ہیں تاہم ان کا ہیرو امر کانت قدم قدم پر سمجھوتے کرتا ہے۔ وہ کامیابی اور شہرت کاطالب رہتا ہے۔ پریم چند کی طرح و ہ ٹکرائو کی پالیسی سے اجتناب کرتا ہے۔ وہ شہرت اور کامیابی کا بھوکا ہے۔ تاہم پریم چند نے یہ حقیقت بھی واضح کی ہے کہ محنت کش عوام میں جب تک سامراجی حکومت سے ٹکر لینے کا حوصلہ پیدا نہ ہو گا ہندوستان غلامی اور اس کی لعنتوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتا۔اس ناول میں بھی کچھ چیزیں اضافی ہیں مثلا ًمنی کی سرگزشت، ایک مسلمان کردار کالے خان کا تالیف قلب، اس کی موت، امر کانت کا فلسفیانہ سوچ بچارسب مصنوعی لگتا ہے۔رہائی کے بعد ایک ان پڑھ جاہل عورت منی سے انتہائی آسان اور صاف ستھری اردو زبان میں تقریر کرواناپریم چند کا تخیل ہی تو ہے۔ ناول کا سب سے زیادہ کامیاب حصہ منی اور امرکانت یاامرکانت اور سکینہ کے رومان کا ہے۔ سکینہ کی محبت امر کانت کو آگے بڑھنے اور میدان عمل میں کودنے پر ابھارتی ہے اور وہ اپنی محبت کا ترفع کر لیتا ہے اور اس طاقت کو محنت کش طبقہ کے حقوق کے لیے استعمال کرتا ہے۔ 
پریم چند کا آخری اردو ناول جو انہوں نے میدان عمل کے بعد ۱۹۳۴ء اور ۱۹۳۵ء میں لکھا، 'گئودان' ہے۔اس ناول کے کردار واضح طور پر طبقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہوری اور دھنیاکسانوں کی،داتا دین جھنگری سنگھ اور منگرو ساہ مذہبی پیش وائوں اور ساہو کاروں کی ، رائے اگر پال سنگھ زمینداروں کی، کھنہ سرمایہ داروں کی، مہتا اور مرزا خورشید نیزاونکار ناتھ متوسط طبقہ کے دانشوروں اور قومی راہنمائوں کی۔ ناول کا محور ہوری ہے جو کہ کسان ہے ،اس کی موت پر ناول کا اختتام کر کے پریم چند نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہیں سمجھوتے پر اعتقاد نہیں رہا تھا۔پریم چند نے کسانوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ، مہاجنوں اور عمال حکومت کی خباثتوں کے علاوہ مذہب اور ذات پات کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔برہمنوں نے مذہب کو ہمیشہ اپنے خودغرضانہ مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کا دین دھرم خریدا بھی جا سکتا ہے۔ اگر کوئی برہمن کسی عورت کو بغیر بیاہ کے رکھ لے تو بے دھرم نہیں ہوتا جبکہ یہی کام چمار کرے تو بے دھرم اور اس کو کفارہ دینا پڑے گا۔پریم چندنے اس ناول میںہندوستان کے کسان کو اپنے حقوق سے آشنا بتایا ہے لیکن اس کے دکھ درد اور مسائل کم نہیں ہوئے۔ رائے اگر پال کی خباثتیں زمیندارطبقہ کی خباثتیں ہیں۔ایک طرف جاگیردارانہ سماج میں تسکین کے سامان ہیں، نفسانی خواہشات کی تکمیل ہے ،کوئی بن بیائے کہارن کو لیے بیٹھا ہے ،کسی نے اہیرن کو گھر میں ڈال رکھا ہے اور کوئی چمارن سے جنسی پیاس بجھا رہا ہے۔ دوسری طرف گائوں کے مزدور اورکسان معاشی ابتری کا شکار ہیں۔اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرنے والا گوبر بھی آہستہ آہستہ سمجھوتے کرتا چلا جارہا ہے۔ تاہم اس کا سماجی شعور بیدار ہے اور اس کا بار بار یہ کہنا کہ' یہی جی چاہتا ہے کہ لاٹھی اٹھائوں اور داتا دین پٹیشوری جھنگری سب سالوں کو مار گرائوں اور ان کے پیٹ سے روپے نکال لوں''(۱۸) ۔
پریم چند نے مزدوراورسرمایہ دار کی کشمکش کو بھی موضوع بنایا ہے ۔متوسط طبقے کے وہ افراد جو مزدوروںکی راہنمائی کا دعوٰی کرتے ہیں اور سرمایہ داروں کی عیش کوشی کو حقارت سے دیکھتے ہیں لیکن وہ بھی اندر سے کھوکھلے ہیں۔وہ سب کچھ حاصل کرناچاہتے ہیں جو سرمایہ دار کے پاس ہے ۔بورژوا معاشرے کی رنگینیوںسے نفرت کرتے ہیں لیکن یہ سب ریاکاری اور ظاہر داری ہے۔جب کوئی حسینہ جام پیش کرے توان کے تمام اصول اور ضابطے اس جام میں ڈوب جاتے ہیں۔ناول میں پریم چند کی مذہبی بیزاری دراصل اس کچلی ہوئی انسانیت کا شدیدذہنی رد عمل تھا جسے انہوں نے اپنے فن کا موضوع بنایا۔
مسٹر مہتا پریم چند کا آئیڈیل کردار ہے۔ انہوں نے اسے ایک باعمل فلسفی بتایا ہے لیکن شراب کوبرا جاننے کے باوجود وہ شراب پیتا ہے ۔پریم چند کا کرداربھی ایسا ہی تھا وہ بھی شراب پیتے تھے لیکن اسے برا جانتے تھے(۱۹ )۔سرمایہ داری، زمینداری ،مغربی تہذیب، گھر اور سماج میں عورت کی حیثیت اور دائرہ عمل جیسے موضوعات پرمسٹر مہتا پریم چند کی زبان سے بولتے ہیں ۔اس ناول میں پریم چند نے عورت کا سماج میں مرتبہ پر کھل کر اظہار رائے کیا ہے ۔وہ عورت کے گھر سے باہر کے کردار سے مطمئن نہیں ۔ ان کے نزدیک اس کی زندگی کا محورگرہستی ہے لیکن خدمت اور قربانی کا تقاضا وہ عورت ہی سے کرتے ہیں۔ یہ تصور پرستانہ اندازفکر ہے۔ جب مالتی مسٹر مہتا کے آدرش میں ڈھل جاتی ہے تو وہ اس سے شادی کی درخواست کرتا ہے لیکن مالتی یہ کہہ کر شادی سے انکار کر دیتی ہے کہ اس طرح ہم روحانی ارتقاء کی اعلیٰ منزلیں طے نہیں کر سکتے۔ اس طرح پریم چند مالتی کی شخصیت کو یا پڑھی لکھی عورت کی شخصیت کو مرد کی شخصیت میں ضم کرکے فنا نہیں کرنا چاہتے۔یہ مثالی محبت جومالتی اور مہتا ، ونے اور صوفیا ، چکر دھراور منورما، سکینہ اور امر کانت، منی اور امر کانت کی صورت میں دکھانا چاہتے ہیں وہ خود اختیار نہ کر سکے۔ لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ عورت کو مرد کی طرح آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ اسے اقدار کا پابند بھی بنانا چاہتے ہیں۔ پریم چند بنیادی طور پر مغرب زدگی کے خلاف ہیں۔
پریم چند نے اپنے ناولوں میں مذہبی رواداری دکھانے کی کوشش کی ہے۔ان کے ناول' پردئہ مجاز' کے کردار خواجہ محمود اور جسودا نندن مذہبی رواداری کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔دونوں قربانی دے کر فرقہ واریت کی آگ کو بجھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔'میدان عمل 'کے کردار امر کانت ،سکھدا ،سکینہ ،سلیم وغیرہ سب اس رواداری کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔سب مل کر ایک سماج کی تشکیل کرتے ہیں اور ہندوستانی معاشرے کو جبر کے پنجے سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں اور سب سمجھوتے کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔جس سے پریم چند یہ دکھاناچاہتے ہیں کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو رواداری برقرار رکھنے کے لیے بہرحال سمجھوتے کرنے پڑیں گے اور قربانی دے کر اس ایکتا کو قائم رکھنا پڑے گا۔یہی صورت حال ان کے ناول' گئو دان 'کے شہری کرداروں کھنا ،مالتی ،مہتا ،مرزا خورشید ،اونکار ناتھ اور ٹنخا کی ہے۔ ان سب کے روز مرہ معمولات میں کبھی ہندو مسلم کا سوال سامنے نہیں آتا۔ یہ اس ہم آہنگی کا عکس ہیں جو پریم چند ہندوستان میں موجود سب مذاہب کے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں۔
'بازار حسن' کی بھولی بائی اور سمن بائی پریم چند کے طاقت ور نسوانی کردار ہیں ۔اگر ایک مسلمان ہے تو دوسری ہندو۔ دونوں ہندی سماج کی مجبور عورتیں ہیں اور دونوں اس سماج میں بغاوت کا سمبل ہیں۔دونوں معاشی طور پر آزاد اور خودمختار رہنا چاہتی ہیں۔' بازار حسن' کی دال منڈی کی طوائفیں خواہ ہندو ہوں یا مسلمان، معاشی اور معاشرتی جبر کی وجہ سے دال منڈی میں آ کر بیٹھتی ہیں اور ایک چھوٹی سی امید کی کرن'آشرم ' پر یہ گناہ کا کاروبار چھوڑدیتی ہیں۔اس ناول کے کردار حاجی ہاشم ان طوائفوں کی بستی میں مسجد اور سیٹھ چمن لال مندرتعمیرکروادیتے ہیں۔' گوشہء عافیت 'میں اگر ایک طرف جوالا سنگھ، دیا شنکر، ڈاکٹر پریا ناتھ خودغرضیوں کی وجہ سے کسانوں پر ظلم کرتے ہیں تو دوسری طرف انہی کے درمیان ڈاکٹر عرفان علی، ایجاد حسین اورشیرشاہ موجود ہیں۔ ان سب سے پریم چند قاری کو نفرت دلاتے ہیں لیکن مذہب کی بنیاد پر نہیں۔
پریم چند کے ابتدائی ناول اور افسانوں کا اسلوب رومانی اور تخیلی ہے۔ اس دور میں پریم چند کی تخلیقات میں فارسی اور اردو کے الفاظ زیادہ ملتے ہیں۔مکالموں میں مصنوعی اور غیر فطری زبان، فارسی اور عربی کے ادق الفاظ سے بوجھل ہیں۔اس دور میں داستانی رنگ ہے کیونکہ پریم چند نے داستانیں بہت پڑھی تھیں۔ان کے ناول' بازار حسن' میں پریم چند کا اپنا رنگ نمایاں ہوتا ہے اور' نرملا' تک آتے آتے ان کے اسلوب میں ایک انفرادیت کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اب الفاظ بے روح نہیں۔ ان میں زندگی، حرارت اور حرکت ہے۔ ۱۹۱۵ء میں پریم چند نے ہندی میں لکھنا شروع کیا(۷)۔ اسی لیے اس دور میںان کی تحریر میں سنسکرت الفاظ بھی اکثر مل جاتے ہیں جیسے ادرستکار ، اناتھ ،جم دوت، سورگ باش، سنسکار، پرلوک، لوک، ادھار ،گھٹنا وغیرہ۔ اسی دور میں ضرب الامثال اور کہاوتیں بھی سامنے آئیں۔جن میں ہندی الفاظ اور مرکبات کو خوبصورتی سے پرو دیا ہے۔جیسے دودھار گائے کی لات بری نہیں لگتی،جیسا تانا بانا ویسی بھرنی، کل کا بنیا آج کا سیٹھ وغیرہ۔ پریم چند نے 'چوگان ہستی'،' پردئہ مجاز'،'میدان عمل' اور 'گئو دان' میں فارسی اور عربی کے دقیق الفاظ نیزہندی کے غیرمانوس الفاظ کم استعمال کیے ہیں۔
ان ناولوں میں ان کی تحریر سادہ اور رواں ہے بول چال کی عام زبان استعمال کی ہے۔ جملے چھوٹے ہیں۔ پریم چند کی زبان و بیان کے اسلوب کو ڈھالنے میں ان کی شعوری کوششوں کا بڑا دخل رہا ہے اس دور میں وہ گاندھی کے زیر اثر ہندوستانی زبان کے پرجوش حمایتی تھے۔ وہ مروجہ اردو اور ہندی کو ایک ہی قوم کی زبان سمجھتے تھے(۸)۔ان کی اس کوشش سے اردو اور ہندی دونوں زبانوں کو فائدہ پہنچا۔ ہندی اور اردو زبان کے یہ الفاظ بے جان پیکر نہیں ان الفاظ سے وابستہ تصورات نے اردو کو نئی روایات، نیا ذہن اور فکر واحساس کا نیا اندازدیا۔ مثلا ًدھرم ، ادھرم ،دھرم شاستر،سنگھاسن ، آدر، اپکار، تیاگ ،آتما اور چنتا وغیر ہ ۔اردو کے ذخیرہ الفاظ میں یہ توسیع اور اضافہ پریم چند کا قابل قدر کارنامہ ہے۔ ان کی عبارتوں میں اکثر فارسی اور عربی کے الفاظ کے دوش بدوش ہندی کے ایسے الفاظ بھی مل جاتے ہیں جن سے کم ازکم اردو داں حلقہ اب تک مانوس نہیں رہا۔پریم چند کے اسلوب کی یہ بھی خوبی ہے کہ وہ رنگ آمیزی اور انشاء پردازی بہت کم کرتے ہیں۔تحریر کا سیدھا سادہ اندازاختیار کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں گہرائی اور جامعیت کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ ان کے مقولے ان کے وسیع مشاہدے کی ترجمانی کرتے ہیں مثلاً غصہ میں آدمی حق کا اظہار نہیں کرتا وہ محض دوسروں کا دل دکھانا جانتا ہے(۹)۔
پریم چندکی تشبیہات میں ایک شاعرانہ لطافت، ندرت اور تازگی کا احساس ملتا ہے۔جیسے گنگا کسی دوشیزہ کی طرح ہنستی، اچھلتی، ناچتی اورگاتی چلی جا رہی ہے (۱۰)۔راجا صاحب ا ور ان کے مشیر کھڑے حسرت ناک نظروں سے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔گویا شمشان میں کھڑے لاش کا جلنا دیکھ رہے ہوں( ۱۱)۔مکالمہ ناول کا بہترین عنصر ہوتا ہے۔ مربوط اور منظم مکالمے ہی ناول کی جان اور شان ہوتے ہیں۔ پریم چنددیہات کی زبان، کسانوںکے لب و لہجہ اور تلفظ کوموثر اندازمیں پیش کرتے ہیں۔ وہ ہر طبقہ اور گروہ کی زبان پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کے ناولوں میں تعلیم یافتہ طبقہ کے کردار صاف ستھری بامحاورہ اردو بولتے ہیں تاہم بعض اوقات وہ ایسے الفاظ و تراکیب اور محاورات استعمال کرتے ہیں جو کردار سے لگا نہیں کھاتے مثلاً پروفیسرمہتا اور امر کانت کی زبان سے تمدنی افتراق ،جوہر نمائی ،تہذیب نفس جیسے الفاظ۔ پریم چند جب کسی پنڈت، مہنت یا پجاری کی گفتگو دکھاتے ہیں تو اس کے مکالموں میں سنسکرت کے الفاظ غالب نظر آتے ہیں۔جیسے یہ سب مایا ہے۔ یہ سب اگیان ہے۔ بالکل اگیان۔ اسی اگیان کے کارن منش سوارتھ میں پڑ کر اپنا سرب ناش کرتا ہے (۱۲)۔پریم چندمقصدیت کی لگن میں یہ بھول جاتے ہیں کہ مکالمے طویل ہو رہے ہیں۔'گئو دان' کے علاوہ کم وبیش ہر ناول میں یہ کمزوری موجود ہے اس کے علاوہ بعض اوقات اپنے کرداروں سے ایسے جملے ادا کرواتے ہیں جو اس کردارسے مناسبت نہیں رکھتے۔مثلا ً'میدان عمل' کی منی کی زبان سے شستہ اردو۔ پریم چند کے اسلوب کی ایک اور خوبی ان کی منظر نگاری ہے۔ان کے ابتدائی دور کے ناولوں میں قدرتی مناظر رومانی لباس میں ملتے ہیں۔ ہما چل کی وادیاں،گیان سرورکانیلگوں پانی ،گنگا کا کنارا اور مندروں کا کلس۔ اس کے علاوہ دیہات کے پرسکون مناظر اور قدرت کے حسن فراواں کا بیان۔ 
پریم چند کا ناول' اسرار معابد'ان کا پہلا لیکن نامکمل ناول ہے اس کا پس منظر کیونکہ ہندی سماج ہے اس لیے الفاظ بھی ہندی زبان کے زیادہ استعمال کیے ہیں مثلاً گئو شالہ، دھرم شالہ ، لال چندن، نرک، رساتل، جنیئو،ورکنیا، کام دیو،تناسخ،ورت،پربھو،اوجھا،لالسا، دانتا کلکل، ساھو، بھیتر،نرجل ورت، ڈھوکے ڈھو وغیرہ۔یہ سب الفاظ ایک پس منظر بھی رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر پریم چند کا پس منظر بھی ہے۔ کیونکہ پریم چند بہرحال ایک ہندو تخلیق کار تھے۔ انھوں نے تلمیحات بھی ہندو دیو مالا سے لی ہیں تاہم انھوں نے مذہب اور اس کے ظواہر پر سخت الفاظ میں تنقید بھی کی ہے۔ پریم چند نے اس ناول میں محاورات بھی استعمال کیے ہیں جو تعداد میں زیادہ نہیں ہیں۔ ان محاورات میں ہندی اور فارسی کابہترین امتزاج دیا ہے جیسے منہ پڑی خالہ نانی اور پیٹھ پیچھے دشمن جانی،صورت نہ شکل چولھے سے نکل،جا کے پیر نہ پھٹی بیوائی وہ کیا جانے پیر پرائی، رانڈکہے کہ سب کا مرے اور سانجھ کہے کہ بجر پڑے،ہلدی گلی نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا۔ تاہم پریم چند نذیراحمد کی طرح محاوروں کے بادشاہ نہیں ۔وہ محاورات کم استعمال کرتے ہیں ۔انھوں نے اپنی ابتدائی تخلیقات میں فارسی الفاظ اور فارسی مرکبات کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔مثلاً درہم نا خریدا، تصدیع دہی،موالید،خدمت معہودہ، بلا عیانت ایزدی،معہود گیتی، پیر خود ماندہ درگاہ وغیرہ۔
لفظیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ پریم چند پر ہندی اور سنسکرت کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔تاہم پریم چند کیونکہ مقامی رنگ لیے ہیں اس لیے یہ ا ثر عجیب اور دقیق محسوس نہیں ہوتا۔ان کے ہندی اور سنسکرت الفاظ کے ذریعے ہندی سماج، ہندو دیو مالا اور ہندو مذہب کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ پریم چند جہاں رنگینی بیان اور لفاظی کی کوشش کرتے ہیں وہیں ٹھوکر کھاتے ہیں۔ان کے فارسی کے الفاظ محاورات اور تراکیب کی نسبت ہندی الفاظ میں زیادہ گیرائی ہے۔اس ابتدائی دور میں پریم چندکو سرشار کے مطالعہ سے فارسی اور اردو کے الفاظ تو ضرور مل گئے تھے لیکن ابھی انھیں الفاظ کے موزوں استعمال ، جملوں کو ترتیب اور محاوروں کی نشست کاسلیقہ حاصل نہیں ہوا تھا۔'ہم خرما وہم ثواب' میںلکھتے ہیں کہ جب کبھی وہ سنگھار کر کے کسی تقریب میں جاتی تھی تو حسین عورتیں باوجود حسد کے اس کے پیروں تلے آنکھیں بچھاتی ہیں(۱۳)۔دولہا دلہن ایک دوسرے کے عاشق زار تھے(۱۴)۔شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے کو دولہا دلہن کہنا بے محل بات ہے۔ حسداور دلی احترام وعقیدت غیر فطری طور پر یک جان دکھائے گئے ہیں۔افعال کا استعمال بھی غلط ہے آنکھیں بچھاتی ہیں کے بجائے بچھاتی تھیں ہونا چاہیے۔ مکالموں میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ مصنوعی اور غیر فطری ہے۔ مثلا ًپورنا فرقت کی ماری ہوئی سہیلی پریما سے اس طرح گفتگو کرتی ہے۔ پورنا:پیاری پریما: آنکھیں کھولو ،یہ کیا گت بنا رکھی ہے۔ پریما: ہائے سکھی: میرے تو سب ارمان خاک میں مل گئے۔پورنا :پیاری ایسی باتیں نہ کرو۔تم ذرا اٹھ تو بیٹھو(۱۵)۔ ہندی الفاظ اس ناول میں بھی زیادہ ہیں مثلاً ًبھنڈارہ،کٹھ کلیجہ،کلونتی،سیاپا،ڈھلمل،چرنا مرت وغیرہ۔ تاہم یہ تمام وہ الفاظ ہیں جو پریم چند نے کم و بیش ہر ناول میں استعمال کیے ہیں۔ہر ہندی لفظ کا ایک پس منظر ہے محاورات اکثر جگہوں پر غلط لکھتے ہیں مثلا ًکانا پھوسی کرنا کو کاناپھسکی لکھاہے۔بعض محاورات دلچسپ لکھتے ہیں جیسے لنگوٹی میں پھاگ کھیلنا۔
نذیر احمد اور سرشار کے ناولوںکی طرح پریم چند کی ان ابتدائی تصانیف میں اکثر عبارتیں فارسی اور عربی کے ثقیل الفاظ سے بوجھل ہیں۔ہندی الفاظ زیادہ ہیں ۔زبان ثقیل اور ناہموار ہے۔ جا بجا فارسی الفاظ و تراکیب کے ساتھ ہندی اور سنسکرت کے بے جوڑالفاظ ہیں۔مثلا ً بڑی تپسیا کا بردان، دیوی کی بنتی کرنا، کیا تیرے دربار سے نراش جائوں، تیری بدھی کو دھنیا ہے تیری اچھا پوری ہو گی،بیٹا وہ جو دیش کا اپکار کرے۔پریم چند نے تلمیحات بھی ہندی تہذیب اور کلچر سے لائی ہیں۔جیسے ماگھ کے مہینے میں کمبھ کا میلہ لگتا ہے، ایشورکی مہما اپرم پار ہے وغیرہ۔پریم چند کے آخری ناول گئو دان کی کامیابی کی وجہ بھی ان کا سادہ اسلوب ہی ہے۔ زبان و بیان پر پریم چند کی فنکارانہ قدرت ہے۔ اس اسلوب کو ڈھالنے میں پریم چند نے شعوری کوشش کی ہے۔ اس ناول کے ذریعے پریم چند نے سینکڑوں ہندی کے الفاظ کو اردو زبان میں خوبصورتی سے پرو دیا ہے۔اس ناول میں انھوں نے ضرب الامثال اور محاورات کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔مقامی زبان کے الفاظ جگہ جگہ استعمال کیے ہیںمثلاً کھلیتی جو کھیت کی تصغیر ہے۔ تاہم بعض مقولے آدھے لکھے ہیں یا غلط لکھ دیے ہیں۔مثلاً ساٹھے پر پاٹھے۔ مقولہ ہے ساٹھا پاٹھا بیسی کھیسی۔ ہندی مرکب الفاظ اس ناول میں بہت بھلے لگتے ہیں جیسے اتھا ہ ساگر،گئو رس،بھڑبھونجا، گرام سدھار،کاٹ پیچ،سوکھا پالا وغیرہ۔پریم چند نے ہندی الفاظ کو اردو الفاظ کے ساتھ ملا کر مرکبات اور محاورے بنانے کا بھی کامیاب تجربہ کیا ہے مثلاً ابر جانا، کربی لگنا، سادھ پوری ہونا،ٹکڑا خور،تلک چھاپے کا جال، پھلاہار کرنا،بورا جانا،آرتی کا پن، اردب میں ڈالنا،اپناوا جتانا،گائوں سنگھٹن،خراد پر چڑھنا وغیرہ۔کچھ محاورے پریم چند کی اپنی ہی ایجاد لگتے ہیں، بن گھرنی گھر بھوت کا ڈیرا،پان کی طرح پھیرنا، ساد پوری ہونا۔ ہندی کے بے شمار محاورات کو اردو زبان میں پرو دیا ہے۔مثلاً طویلے کی لتہاوج،نہ ماتا ملی نہ رام ہی ملے، اپنا سونا کھوٹا تو سنار کا کیا دوش وغیرہ۔
پریم چند نے گہرے مشاہدے ،وسیع تجربے اور غور و فکر کے بعد خوبصورت مقولے اورجملے ایجاد کیے مثلاًبوڑھوں کے لیے ماضی کی راحتوں، حال کی تکلیفوں اور مستقبل کی تباہیوں سے زیادہ دلچسپ اور کوئی موضوع نہیں۔(۱۶) انھوں نے تشبیہات کے ذریعے عبارت میں شاعرانہ لطافت،ندرت اور تازگی پیدا کی جیسے دھنیا اس پاپی جھنیا کو گلے لگائے اس کے آنسو پونچھ رہی تھی جیسے کوئی چڑیا اپنے بچوں کو پروں میں چھپائے بیٹھی ہو(۱۷) پریم چند کے اسلوب کی خوبصورتی ان کی مکالمہ نگاری بھی ہے۔انھوں نے جاندار مکالمے کے ذریعے ناول میں قاری کی دلچسپی ہر سطح پر قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔مثلاً میں کسم (قسم)کھاتا ہوں سلو کہ اب کبھی ایسا نہ ہو گا۔اس کی آواز میں التجا تھی۔ سلیا کا جی بھی ڈانوا ڈول ہونے لگا۔اس کا رحم پرکیف ہو چلا اور جو کرو۔تم جو چاہنا سو کرنا۔ سلیا کا منہ اس کے منہ کے پاس آگیا تھا اور دونوں کے سانس ،جسم اور آواز میں لرزش ہو رہی تھی کہ دفعتاًسونا نے پکارا (۱۸)۔
حوالہ جات
۱۔ نگم،دیانرائن(مترجم)،'منشی پریم چند کی کہانی ان کی زبانی'مشمولہ، ''زمانہ''پریم چند نمبر،نئی دہلی،قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو،ص ۵۴
۲۔ قمررئیس،ڈاکٹر،''پریم چند کا تنقیدی مطالعہ:بہ حیثیت ناول نگار''،ص ۱۱۵
۳۔ نگم،دیانرائن(مترجم)،'منشی پریم چند کی کہانی ان کی زبانی'،ص ۱۳
۴۔ شورانی دیوی،''پریم چند:گھرمیں''،کراچی:فضلی سنز،ص ۳۵۱
۵۔ نگم،دیانرائن(مترجم)،'منشی پریم چند کی کہانی ان کی زبانی'،ص۲۵
۶۔ ایضاً،ص ۱۰
۷۔ ایضاً،ص ۳۵
۸۔ نگم،دیانرائن(مترجم)،'پریم چند کی تصانیف'مشمولہ، ''زمانہ''،ص ۳۵
۹۔ قمررئیس،ڈاکٹر،''پریم چند کا تنقیدی مطالعہ:بہ حیثیت ناول نگار''،ص۱۸۲
۱۰۔ پریم چند،'گوشہء عافیت'،مشمولہ،مدن گوپال (مرتب) ''کلیات پریم چند۳''،دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،جنوری / مارچ ۲۰۰۰ئ،ص ۲۶۸
۱۱۔ قمررئیس،ڈاکٹر،''پریم چند کا تنقیدی مطالعہ:بہ حیثیت ناول نگار''،ص۱۷۸
۱۲۔ نگم،دیانرائن،'پریم چند کے حالات زندگی ازدیا نرائن نگم'مشمولہ،''زمانہ''،ص ۲۵
۱۳۔ پریم چند،نرملا،'،مشمولہ،مدن گوپال(مرتب)''کلیات پریم چند۶''،دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ۲۰۰۱ئ، ص ۱۷۱
۱۴۔ نگم،دیانرائن،'پریم چند کے حالات زندگی ازدیا نرائن نگم'مشمولہ''زمانہ''،ص ۲۵
۱۵۔ نگم،دیانرائن،'پریم چند کی تصانیف'مشمولہ، ''زمانہ''،ص ۳۵
۱۶۔ پریم چند،پردئہ مجاز،'،مشمولہ،مدن گوپال (مرتب) ''کلیات پریم چند۵''،دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،جون۲۰۰۲ئ،ص ۸۴
۱۷۔ قمررئیس،ڈاکٹر،''پریم چند کا تنقیدی مطالعہ:بہ حیثیت ناول نگار''،ص۲۵۳
۱۸۔ پریم چند،گئودان،'،مشمولہ،مدن گوپال(مرتب) ''کلیات پریم چند۸''،دہلی:قومی کونسل برائے فروغ
اردوزبان،جولائی۲۰۰۲ء ص ۲۶۸
٭٭٭٭

لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget