کیا عمران خان صرف کرکٹ کھیلنا جانتا ہے؟

عمران خان نے ساری عمر کرکٹ کھیلی اور اسی میں نام اور شہرت بھی کمائی۔ اس وقت بھی وہ کرکٹ کے ماہرین میں چوٹی کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر کرکٹ سے ریٹائیرمنٹ کے بعد انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور بیس سال کے طویل (یا مختصر) عرصے میں پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن گئے۔  میرے ملک کے دانشور البتہ ابھی بھی عمران خان کو ایک سیاستدان نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھا کرکٹر تو تھا مگر سیاست میں وہ بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ کوئی اسکی مردم شناسی ، کوئی اسکی ناکام شادیاں، اور کوئی دھرنوں کی مالا کو اس ناکامی کے لیے بطور دلیل استعمال کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی عمران خان کو کرکٹ کے علاوہ کچھ نہیں آتا؟

مگر اس سے پہلے،  زرا میرے ملک کی جمہوریت کا حال ملاحظہ فرما لیں، جو دو خاندانوں  کا زاتی کھلیان بنی ہوئی ہے، جس کو پانچ سال تک ایک لوٹتا ہے اور پھر دوسرے کو باری دے دیتا ہے۔ دوسرا لوٹتا ہے تو پہلے والا  اس "جمہوریت” پر پہرا دیتا ہے کہ کوئی "طالع آزما” آ کر اس "پارلیمانی اور مقدس” کھیل کو بگاڑ نہ دے۔

آپ میں سے جو  حضرات پاکستانی سیاست کو دنیا میں بالکل انوکھا اور الگ سمجھتے ہیں۔ اسکی کرپشن ، ڈائنامکس، کرداروں اور گندگی کو محض پاکستان کے اندر ہی تصور کرتے ہیں، انکو میں دنیا کے دیگر پسماندہ ملکوں کی "ست ماہی” جمہوریتوں کا مطالعہ کرنے کی دعوت دوں گا۔

جمہوریت وہیں اپنائی (یا امریکا کی جانب سے اتاری) جاتی ہے جہاں انسان بستے ہوں۔ اسکو ” عوام کی حکومت ،عوام کے زریعے، عوام کے لیے ” بھی کہا جاتا ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ آجاتا ہے کہ قدرت نے حضرت انسان کو سب ہی خطوں میں ایک جیسی خصوصیات دے کر پیدا کیا ہے۔  طاقتور کا وسائل اور کمزور انسانوں پر غلبہ ہمیشہ سے انسان کا پسندیدہ مشغلہ و مجبوری رہا ہے۔ پہلے چنگیز و اسکندر ہوا کرتے تھے۔ ہاتھی گھوڑے لے کر کسی بھی انسانی بستی پر چڑھ دوڑتے تھے۔ آدھے مار کر باقی غلام بنالیا کرتے تھے۔ پھر صنعتی انقلاب مزدوروں کے حقوق اور عوام کی حکومت نامی   شوشے آ گئے۔ طاقتوروں نے پرانے حربے چھوڑ کر نئے انداز اپنا لیے۔ مگر پرنالہ وہیں گرتا رہا ، یعنی غریب کی کمر پر۔

 آپ جہاں کہیں بھی کسی پسماندہ ملک کی جمہوریت  کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو پاکستان کی جمہوریت جیسی ہی کسی شے کا سامنا ہوگا۔ فوج کا طاقتور کردار، مقامی طاقتوروں اور مافیاؤں کا گٹھ جوڑ،  بھیڑوں کی گنتی، بیلٹ بکس کا اغوا اور پانامے ، آپ کو  ہر ملک میں سب کچھ ملے گا۔

میاں نواز شریف صاحب بجا طور پر فرماتے ہیں کہ ایسی جمہوریت کو عمران خان جیسوں سے ہی خطرہ ہوتا ہے۔ وہ بھی تب تک ، جب تک وہ نمک کے ساتھ نمک نہیں بن جاتا۔ کیونکہ عمران خان جیسے کردار ان جمہوریتوں میں کم ہی ابھرتے ہیں اور اکثر اوقات ابتدا ہی میں دبا دیے جاتے ہیں۔  پسماندہ جمہوریتوں کو عمران جیسے کرداروں سے خطرہ کیوں ہوتا ہے؟ اسکا جواب آسان ہے۔ کیونکہ یہ نہ تو مافیا ہوتے ہیں ، نہ ہی وڈیرے اور سردار، اور نہ ہی بھیڑ بکری۔ اسلیے یہ سب کی آنکھوں میں چبھتے ہیں۔

اب آ جائیے عمران خان کی سیاست پر۔ عمران خان نے کرکٹ چھوڑ کر 1996 میں  سیاست شروع کی تو میرے ملک کے دانشوروں میں سے کسی ایک نے بھی وہ پیش گوئی نہیں کی جو پندرہ سال بعد 2011 میں لاہور میں ایک بڑی سیاسی قوت کے  وجود میں آنے کی تھی۔ ہر ایک نے عمران خان کو کرکٹ اور خیراتی کاموں تک محدود رہنے کا مشورہ دیا۔  عمران خان نے ایسے ہر مشورے کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑا دیا۔ اور بالاخر ملک کے سیاسی منظر پر ایک اور سیاسی پارٹی بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ سیاسی پارٹیاں تو ملک میں ہزاروں کی تعداد میں رجسٹرڈ ہیں، مگر اس نے اپنی پارٹی کو ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت بنا دیا۔ اور ایسا اس نے تن تنہا، کسی بڑے سیاسی نام کے بغیر کیا۔ آپ کہہ لیں کہ جاوید ہاشمی، محمود قریشی جیسے سیاسی لوگ اسکے ساتھ تھے، مگر یہ سارا شو عمران خان کا تھا، فیصلے بھی اسکے تھے، غلطیاں بھی اسکی تھیں۔  اب میری دانشوروں سے التجا ہے کہ پاکستان کے سیاسی افق پر سیاست کے ماہر بزرجمہروں میں سے ایسے ایک یا دو نام ہی بتا دیں، جنہوں نے ایک نئی پارٹی بنائی ہو، اور اس کو ملک کی تیسری، چوتھی، پانچویں قوت بنا دیا ہو؟ مگر پھر بھی آپ کے خیال میں عمران کو سیاست کا کچھ پتہ نہیں۔

خیر آگے چلتے ہیں۔ 2013 کے الیکشن آ گئے۔ اپنی توقع کے برعکس عمران خان صرف  قومی اسمبلی کی 33 سیٹیں لے سکا۔ اور خیبر پختونخواہ میں وہ جماعت اسلامی کے ساتھ ملکر حکومت بنانے لائق ہو سکا۔ بہت غلطیاں اس نے کیں۔ دوستوں اور خیرخواہوں کو ناراض کیا، اسکی مردم نا شناسی ہر جگہ آڑے آئی اور کئی اچھے لوگوں نے پارٹی کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ انٹراپارٹی الیکشن میں مصروف ہو کر اس نے انتخابی مہم چلانے کا بہت ساوقت ضائع کر دیا۔ اور بھی بہت ساری غلطیاں اس نے کیں۔ مگر وہ ملک کے دوسرے بڑے ووٹ بینک کا مالک بن گیا۔  اور اسکو پہلی بار یہ بھی علم ہوا کہ پاکستان جیسے ملکوں کی جمہوریتوں میں زاتی خوبیاں، پارٹی منشور، اور انتخابی مہم ایک چیز ہوتے ہیں اور ریٹرننگ آفیسر، پٹواری، پولیس، اور مقامی اثروروسوخ والے شرفا و غنڈے دوسری چیز۔

2013 کے الیکشن عمران خان اور اسکی پارٹی کے نوجوان ووٹروں کے لیے ایک فلمی کہانی بن گئے۔ چوہدری کے غنڈے انکی آنکھوں کے سامنے انکا بویا اناج لوٹ کر لے گئے، اور مسجد کا ملا اور گاؤں کا پٹواری چوہدری کی بےگناہی ثابت کرنے حلفیہ بیان دینے پہنچ گئے۔

عمران خان کے اندر کا کھلاڑی یہ نا انصافی برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ چوہدری کو گنہگار ثابت کرنے کے لیے تھانہ کچہری کے چکر لگانے لگا۔  اور بالاخر چودہ مہینوں تک ہر آئینی طریقہ اختیار کرنے اور ہر آئینی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد اس نے اپنا جمہوری حق احتجاج استعمال کرنے کا اعلان کیا۔  میں اکثر حیرت سے ان دانشوروں کے مضامین پڑھتا ہوں جو دن رات اس بات پر کڑہتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی بندہ دس ہزار لوگ لے آئے گا اور اپنا فیصلہ حکومت سے منوا لے گا۔ کیا انکا یہ "کوئی بھی بندہ” ان مراحل سے گزر کر آئے گا جن میں سے عمران خان گزرے ہیں۔ اگر آپ کو یاد نہیں تو میں دہرائے دیتا ہوں۔  اور وہ یہ ہے  کہ کوئی بھی بندہ ، کوئی بھی بندہ۔۔۔ میں پھر دہراتا ہوں۔۔۔ کہ۔۔ کوئی بھی بندہ۔۔۔ اپنی ساری جوانی لگا کر ملک کا نام روشن کرے، پھر سترہ سال اپنی قوم کو جگانے پر لگائے اور اس پر اپنی خانگی زندگی بھی قربان کر دے  اور اس ملک کے ٨٠ لاکھ ووٹوں سے پارلیمنٹ میں آئے ۔ پھر اپنے چرائے گئے مینڈیٹ کے لیے چودہ مہینے تک اس ملک کے ہر مطلقہ ادارے کا دروازہ کھٹکھٹائے ۔ تنگ آ کر اپنی حمایت سے بنائی حکومت کو وارننگ دے ، اور جواب میں حکومتی وزیروں کے بچگانہ ٹھٹھا مخول سے بھرے جواب سن کر عوام کی طاقت سے احتجاج کرنے کا اعلان کرے تو  یہ اسکا جمہوری حق کہلائے گا یا دس ہزاری دستے کی چڑھائی۔ پھر عمران خان کو سیاست سکھانے والے بزرجمہر  اسکو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ یہی جمہوری حق نوازشریف اور بینظیر نے اپنے اپنے وقت میں کھل کر استعمال کیا تھا۔ کیا یہ اس وقت ایک سیاسی عمل تھا، اور عمران خان تک آتے آتے کرکٹ کا کھیل بن گیا؟

اب آخری بات، جس پر میں آپ سب کے ساتھ ہوں۔ کہ عمران کو سیاست سے زیادہ کرکٹ کی سمجھ ہے اور وہ سیاست میں بھی کرکٹ ہی کھیل جاتا ہے۔

اول تو عمران خان پاکستان کی سیاست کو اس طرح سمجھتا ہی نہیں جس طرح نواز شریف اور آصف زرداری، یا مولانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں۔  عمران خان وہ سیاست جانتا ہے جس میں لوگ اپنی مرضی سے ووٹ ڈالتے ہیں، جبکہ پاکستان میں وہ سیاست کامیاب ہے جس میں بقول چوہدری شجاعت "مٹی پاؤ” اور عوام کو بیوقوف بنا کر ووٹ لے لو، اور اسکے لیے ہر ہر حربہ جائز سمجھو۔

دوسرا یہ کہ عمران نے ساری عمر کرکٹ کھیلی ہے تو  اسکا اثر تو یقیناً  اس میں رہے گا۔  اب اگر آپ نے عمران خان کی کرکٹ دیکھی ہے، یا کسی بھی حملہ آوور کپتان  کا کوئی میچ کبھی دیکھا ہے۔ کرکٹ میں پیویلین میں بیٹھے مخالف ٹیم کے کھلاڑی کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اہمیت صرف اور صرف ایک کھلاڑی کی ہوتی ہے، جو پیڈ باندھے، بیٹ اٹھائے سامنے وکٹ پر کھڑا ہوتا۔ کرکٹ کے کپتان کو پتہ ہوتا ہے، اسکی وکٹ گرے گی تو کھیل کا پانسہ پلٹ جائے گا۔ پیویلین کے کھلاڑی خود سے ہمت ہار جائیں گے۔ ہارتا ہوا میچ جیت میں بدل جائے گا۔ ایسے وقت میں ایک جارح کپتا ن اپنی ساری غلطیاں، کمزوریاں بھول جاتا ہے۔ کس اوور میں کیا غلطی ہوئی، اور کس کیچ کے چھوٹ جانے پر کتنا نقصان ہوا، وہ یہ سب اپنے دماغ سے نکال دیتا ہے۔ اور اپنی ساری توجہ اور توانائی صرف اور صرف  اس وکٹ پر کھڑے کھلاڑی کو آؤٹ کرنے پر لگا دیتا ہے۔

آپ میں سے جو حضرات عمران خان کو مفید مشورے دے رہے ہیں کہ وہ احتجاج چھوڑ کر اگلے الیکشن کی تیاری کرے ورنہ اگلا میچ بھی اسکے ہاتھ سے نکل جائے گا، میں آپ سب کے اس مشورے کے صائب ہونے میں کئی شک نہیں رکھتا۔ مگر میں آپ کو عمران خان کا کھیل بتا رہا ہوں۔ وہ اپنا میچ آخری بال تک کھیلتا ہے، اور کبھی بھی پیویلین واپس لوٹ آنے سے پہلے اگلے میچ کا نہیں سوچتا۔ پانامہ لیکس نے میچ کے آکر میں ایک بونس اوور عمران خان کو دے دیا ہے۔ اسکے اندر کا فائیٹر کپتان کرکٹ کا میدان سجا چکا ہے۔ بال اس کے ہاتھ میں ہے، اور ہدف سامنے۔ آپ اسکو اگلے میچ کا سوچنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔

 اس مرحلے پر آکر مجھے بھی لگتا ہے کہ شائد کپتان کو کرکٹ کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ اور وہ پاکستان کی سیاست میں بھی کرکٹ ہی کھیل رہا ہے۔ مگر امید کے خلاف امید رکھتے ہوئے میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ شائد وہ ایسے ہی اسٹیٹس کو، کو توڑنے میں کامیاب ہوجائے، کیونکہ پاکستان کی سیاست میں سیاست کے اندر رہ کر تو یہ کام نہیں ہو سکتا۔


لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget