انسانی زندگی کا وظیفہ

مچھر مارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو جی بھر کر خون پی لینے دو۔ جب اس کا وجود بھر جائے اور اڑنے کے قابل نہ رہے تو ایک ہی ہاتھ سے اس کو کچل ڈالو۔
ہمارے یہاں کچھ لوگ نفس کو مارنے کے لیے بھی یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اور برسوں نفس کو خون پلاتے رہتے ہیں۔ اس امید میں کہ ایک دن اسکو ایک ہی ہاتھ سے کچل دیں گے۔ 
مگر نفس کبھی نہیں بھرتا، اور کبھی نفس کے ساتھ کچلنے والا ہاتھ بھی کپا ہو جاتا ہے۔

ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ مکتی مل جائے۔ نروان حاصل ہو جائے۔ کسی آسان طریقے سے نفس و خواہشات کا خاتمہ ہو جائے۔ مگر یہ حقیقت جان کر بہتوں کو مایوسی ہوگی کہ نفس اڑتے مچھر کی مانند نہیں ہے جو ایک ہاتھ سے کچلا جا سکے۔ یہ تو ہر سانس کے ساتھ آکسیجن کے ساتھ دیگر کئی گیسوں کی طرح مکس ہو کر داخل ہوتا ہے، اور جسم کو مقدور بھر نقصان پہنچا کر واپس آتا ہے۔

کچھ تیاگی صوفیوں نے آسان حل ڈھونڈا اور موہ مایا سے دور جا کر کٹیا بسائی کہ دنیا تیاگنے کا اس سے بہتر طریقہ انکو سمجھ میں نہ آیا۔ میرے (باغی و فسادی) خیال کے مطابق یہ ایسے ہی تھا جیسے ہم میں سے اکثر روزے رکھنے کے لیے دن کو سونے اور رات کو جاگنے لگ جاتے ہیں۔ اصل کشٹ سے بھاگنا اور اسکا اپائے کر لینا، "عبادت یا عبودیت" نہیں ہوتی۔ یہ تو چیٹنگ ہے صاف صاف چیٹنگ۔

پرانے زمانے کے استاد نے کمپیوٹر بچوں کو سزا کے طور پر ہزار دفعہ "آئی ایم سوری" لکھ کر لانے کو کہا۔ تیس میں سے انتیس بچوں نے کاپی پیسٹ سے سمارٹ کام کیا، صرف ایک بچے کو استاد کی رمز سمجھ میں آئی، اسکا ہاتھ ٹائپنگ کرکر کے دکھ رہا تھا، اور استاد کی آنکھوں میں کمپیوٹر جنریشن سے امید کی چمک تھی۔

لطیفہ ہے، کہ جنت ابھی کہاں آباد ہوئی، ۔ ۔ ۔ 
لطیفہ ہے کہ حساب کتاب ہونے کے بعد جہنمیوں کے ایک گروہ کو دو کروڑ نوری سال جہنم میں جلنے کی سزا سنائی گئی۔ سارے جہنمی سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ "اتفاق سے" ان میں انجنئر، سائنسدان، ماہر تعمیرات، ٹاؤن پلانر سبھی شامل تھے۔ شام تک فیصلہ ہوگیا کہ جہنم کی گرمی ناقابل برداشت ہے۔ فوری طور پر کچھ کرنا ہوگا۔ ہنگامی بنیادوں پر سارے کام پر لگ گئے اور دنوں میں وہ شاندار عمارت کھڑی کردی، جس میں بحریہ ٹاؤن کی طرح چوبیس گھنٹے بجلی کا انتظام تھا۔ ائیرکنڈیشنر نے زندگی آسان کردی۔ اگلے دو ڈھائی کروڑ سال ہنستے کھیلتے گذر گئے۔
مگر اسکے بعد ہر گذرتا روز قیامت ہو گیا کہ نجات کے فرشتے نے سزا ختم ہونے کا اعلان کرنے آنا تھا، مگر کئی ماہ گذر گئے اور وہ نہ آیا۔ جہنمی، جو اب ائیر کنڈیشنر کے مزے لے لے کر موٹے تازے ہو رہے تھے، فکر سے انکے چہرے سوکھنے لگے۔ 
بالاخر نجات کے فرشتے کی جگہ ایک اور عذاب کا فرشتہ اترا اور یہ فرمان لے کر آیا کہ تمام جہنمیوں کی سزا میں دو کروڑ نوری سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔ کیونکہ شرط سزا پوری کرنے کی تھی۔ اور گرمی میں جلنا اس سزا کا حصہ تھا۔

ظاہر ہے لطیفہ نما واقعہ محض یہ بتانے کے لیے ہے کہ اس کائنات میں ہر شے کے ایک وظیفہ ہے جس کو پورا کیے بغیر اگلا مرحلہ نہیں آتا۔ بس موجود مرحلے کی تکرار ہوتی جاتی ہے۔

دین فطرت، انسان کا وظیفہ نفس کے ساتھ لڑتے ہوئے دنیا کو بسر کرنا طے کرتا ہے۔ مگر ہم میں سے اکثر یا تو نفس کو مچھر کی طرح خون پلانے میں جت جاتے ہیں، اور یا پھر اس سے بھاگ کر جنگلوں میں پناہ لیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں "جینے کی سزا" پوری نہیں ہوتی۔

انسانوں کے درمیان رہنا سہنا، اور نفس کو ہر سانس خود پر جھیلنا۔ یہ ہے انسانی زندگی کا وظیفہ۔ فرار کی کوئی راہ نہیں۔ 
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget