والدین بچوں سے بہت محبت کرتے ھیں،اور والدین سے بڑھ کر اولاد کا کوئی خیرخواہ نہیں ھوتا اس میں کوئی دو رائے نہیں ھیں ،مگر اس پیار کو ریگولیٹ کرنے کے انداز اپنے اپنے ھیں غالباً اس کے پیچھے والدین کا اپنا بیک گراونڈ ھوتا ھے ، جو ساس خود مشکل دور سے گزری ھو وہ بہو کو کبھی خوش نہیں رکھ سکتی ، اسے ھمیشہ اسی عذاب سے گزارنا چاھتی ھے جس سے وہ گزر کر ساس بنی تھی ،، ھمارے زمانے میں پانی گرم نہیں ھوتے تھے ،ٹھنڈے پانی سے نہاتے تھے ، ھمیں تو میاں نے کبھی جیب خرچ نہیں دیا تھا ،، ھمیں تو کبھی کوئی آوٹنگ پہ لے کر نہیں گیا تھا وغیرہ وغیرہ ، لڑکے کو جتانا کہ بیوی اس طرح رکھ جس طرح تیرے باپ نے تیری ماں کو رکھا تھا ، تیرا باپ بولتا تھا تو پورے گھر کا پیشاب خطا ھو جاتا تھا ، تو بکری کے میمنے کی طرح بیوی کے پیچھے پیچھے پھرتا رھتا ھے ،زن مرید کہیں کے !
والدین بھی اولاد سے اسی طرح پیار کرتے ھیں جس طرح بچہ پیار میں پرندے کو اتنے زور سے پکڑتا ھے کہ اس کی جان نکل جاتی ھے مگر بہرحال بچے کے پیار اور خلوص پہ کوئی اشکال وارد نہیں کیا جا سکتا ، اس یقینی اور کولیکٹو اسٹیٹمنٹ کی وجہ یہ ھے کہ ھم خود اس مرحلے سے گزر چکے ھیں ،
ھر گھر میں ایک بچہ والدین کا فیورٹ ھوتا ھے ،چاھے وہ کتنا ھی لوفر لفنگا کیوں نہ ھو ، ماں اس سے پیار کرے گی ، اس کے بغیر کھانا نہیں کھائے گی، اس کے عیبوں پر پردے ڈالے گی ، اندھے بہرے باپ کو باھر سب اچھی خبریں ملیں گی ،بچہ موبائیل چھیننے والا ھو گا مگر اماں کی رپورٹ ھو گی کہ تہجد اور اشراق قضاء نہیں کرتا ،، اور یہی دونوں اوقات اس کی وارداتوں کے ھوتے ھیں، دل کا معاملہ اپنی جگہ مگر لین دین اور برتاؤ میں اولاد کے درمیاں تفریق اولاد کو ھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتی ھے، اللہ کے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک شخص ساری زندگی اھل جنت کے کام کرتا ھے یہانتک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف موت حائل ھوتی ھے ،کہ اچانک اولاد کے معاملے میں بے انصافی کر کے جہنم میں چلا جاتا ھے ،، خاص کر لڑکیاں بہت مظلوم ھوتی ھیں جہاں گھروں میں بھائیوں کو تو خوب ناز نخرے سے پالا جاتا ھے اور بیٹیاں بچے کھچے پہ پلتی ھیں ،، پھر رشتے نہ آنے پہ جس طرح بچیوں کو کوسا جاتا ھے ،، انہیں خودکشی یا فرار پہ مجبور کر دیا جاتا ھے ،، ھمارا دین تو ھمیں یہ سکھاتا ھے اور ھمارے پیارے نبی ﷺ کی تعلیم تو یہ ھے کہ پھل بھی لاؤ تو تھوڑا پڑوسی کے گھر بھیج دو ، ورنہ چھلکے چھپا کر پھینکو تا کہ اس کے بچے ضد کر کے اسے تنگ نہ کریں ھو سکتا ھے وہ افورڈ نہ کر سکتا ھو،، یہ اذیت خود گھر میں پیدا کر دینا ،، ایک بچے کو دس ھزار کی چیز لے دینا ،،جبکہ وہ لوفر ھے ،اور بچی کو دس روپے بھی دینا تو سو دفعہ کوسنے دے کر دینا !
اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں ایک صاحب بیٹھے ھوئے تھے کہ ان کا بیٹا آیا ، باپ نے اسے پیار کیا اور گود میں بٹھا لیا ،، پھر تھوڑی دیر بعد بیٹی بھی آ گئ تو اس آدمی نے اس کو بوسہ دیا اور ھاتھ پکڑ کر نیچے بٹھا لیا ،، اللہ کے رسول ﷺ جو بغور یہ ساری کارروائی دیکھ رھے تھے، تڑپ اٹھے آپ ﷺ نے فرمایا : بخدا تو نے عدل نہیں کیا ،،، تو اس کو ایک ران پہ بٹھا اور بیٹی کو دوسری ران پہ بٹھا ورنہ دونوں کو نیچے بٹھا ! امی ؑعائشہ صدیقہ طاھرہ طیبہ رضی اللہ عنہا و عن ابیہا کے یہاں ایک عورت اپنی دو بچیوں کے ساتھ آئی ، اماں عائشہؓ نے اسے تین کھجوریں دیں جو کہ اس وقت ان کو میسر تھیں، اس عورت نے ایک ایک تو ان دونوں بیٹیوں کو دے دی، اور تیسری اپنے لئے رکھ لی ، ایک بیٹی نے اپنی کھجور ختم کر کے ماں سے تیسری کھجور بھی مانگ لی جبکہ دوسری بیٹی اس کا منہ دیکھتی رھی،، ماں نے اس کھجور کے دوٹکڑے کیئے اور مانگنے والی کو آدھا دیا اور نہ مانگنے والی کو بھی باقی آدھا دے دیا ، حضرت عائشہؓ کو اس کا یہ انصاف بہت عجیب لگا ، جب اللہ کے رسولﷺ گھر واپس تشریف لائے تو انہوں نے آپﷺ سے سارا ماجرا کہہ سنایا ،، آپﷺ خاموش رھے ،تھوڑی دیر بعد فرمایا عائشہؓ اس عورت کا معاملہ تمہیں ھی نہیں اللہ پاک کو بھی بہت پسند آیا ھے اور اللہ نے اِس عورت کے عدل پر اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے ھیں ! یہ بچوں کی اپنی اپنی فطرت ھوتی ھے بعض منہ کھول کر مانگ لیتے ھیں اور بعض شرماتے رہ جاتے ھیں – کیا والدین ھی اپنے بچوں کی فطرت سے واقف نہیں ھوتے ؟ وہ نہ مانگنے والے کے مفادات کا تحفظ کیوں نہیں کرتے ؟
ایک تبصرہ شائع کریں