دلبر بھائی اردو کے لیے بہت حساس تھے۔ ہمیشہ کہا کرتے کہ وہ گھر میں خالص اردو بولتے ہیں تاکہ بچوں کو بھی اردو بولنا آئے، مگر انکے بچے بھی وہی بولتے تھے جو وہ خود بولتے تھے۔
ویسے بھی دلبر بھائی خود بہت شرمیلے تھے۔ اپنی بیوی سے بہت کم بات کرتے تھے۔ بس جو ضروری ہوا کہہ دیا۔ ہم انکے گھر جاتے تو کہتے "فیاض اور اسکی جورو آئے، ۔ ۔ ۔ چائے لاؤ" ۔ بس یہ کل جملہ ہوتا اور انکی وائف بھی اللہ کی بندی نے کبھی مڑ کے کوئی سوال نہ کیا، بلکہ تھوڑی دیر بعد سلیقے سے بہترین بنی ہوئی چائے ہمیں پیش کر دی۔ اور خود خاموشی سے بیٹھ کر ہماری باتیں سننے لگی۔
یہی کسی پاکستانی دوست کے گھر چائے پینے جاتے تو اندرون خانہ سے کئی سوال آتے۔ اسٹرونگ یا لائٹ؟ چینی علیحدہ؟ کیوں شوگر تو نہیں کسی کو؟ اچھا کسی اور نے تو نہیں آنا اس کے لیے بھی پانی چڑھا دوں؟ اور وہ دوست بیچارہ جواب دیتے دیتے ریٹائرڈ بیوروکریٹ جیسا لگنے لگتا۔
انکی اور میری بیٹی دونوں چند ماہ کی تھیں۔ ہمیں کافی دن تک انکی بیٹی کا نام پتہ نہ چلا۔ جب وہ دلبر بھائی کے پاس ہوتی اور وہ اسکو ہمارے سامنے اپنی وائف کو پکڑاتے تو کہتے، یہ لو تمہاری بچی۔ وہ واپس لا کر انکو تھماتیں تو کہتیں، اے لو تمہاری بچی۔ کافی دن بعد ہم نے اعتراض کیا کہ نام رکھ لو، تو بولے وہ تو رکھا ہوا ہے۔
ایک دن آفس سے ان کے ساتھ ہی گھر چلا گیا تو مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر جاتے ہوئے بولے، تم تھوڑا ویٹ کرو میں پانی نہا لے کر آتا ہوں۔ میں نے اور سوال نے انکا ویٹ کیا اور جب وہ واپس آئے تو پوچھا کہ پانی نہانا کیا مطلب؟ وہ بولے جیسے تم نہاتے ہو، ویسے ہم بھی پانی نہاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ دودھ یا کسی اور شے سے بھی نہاتے ہیں؟ بولے نہیں، میں نے کہا پھر نہانا ہی کہیے کافی ہوتا ہے۔ بگڑ گئے ، بولے پتہ کیسے چلے گا کس سے نہایا؟ تمہاری اردو کافی کمزور ہے۔ میں خاموش رہ گیا۔
مگر اس دن خاموش نہ رہ پایا جب آفس آ کر بتایا کہ انکے بھائی کے ہاں مرد بچہ ہوا ہے۔ میں نے کہا لڑکا ہوا تو لڑکا بولو۔ پھر سے بگڑ گئے بولے مرد بچہ میں کیا برائی ہے؟ میں نے کہا پھر بچہ ہی کہہ دو، یا بچی ہوئی ہے اگر لڑکی ہے تو۔ سر نفی میں ہلانے لگے اور افسوس ظاہر کیا کہ پاکستان جا کر اردو کا کیا حال کر دیا تم لوگاں نے۔ مرد بچہ ہے تو بولو کہ مرد بچہ ہے، اور بائیکو بچی ہے تو بولو کہ بائیکو بچی ہے۔ میں نے خاموشی میں عافیت جانی۔
ایک دن کسی اچھے موڈ میں تھے۔ کہنے لگے باقی باتیں الگ ہیں مگر تم لوگوں کے پاس علامہ اقبال تھے، وہ بہت اچھی اردو بولتے تھے اور شاعری بھی بولتے تھے۔ تم انکی کچھ شاعری بولو۔ میں نے شاعری بولنے پر انکو نہیں ٹوکا مگر دل ہی دل میں آسمان کی طرف منہ اٹھا کر خدا سے فریاد ضرور کی کہ اے پروردگار! پردیس کے رزق کی ساری آزمائشیں ایک طرف اور شاعری بولنے والے دوستوں کی محفل دوسری طرف۔ خیر انکو کچھ اشعار سنائے تو بہت پسند کیے۔ پھر بولے باقی سب بھی ٹھیک ہے مگر انکی شاعری جس میں ساری دنیا سے ہندوستاں کو اچھا کہا ہے وہ زبردست ہے۔ پھر لہک لہک کر گانے لگے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ۔ ۔ ۔ ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا"۔
گاتے گاتے رک کر پوچھا یہ گلستاں کا مطلب کیا ہے؟ میں نے بتایا گارڈن کو کہتے ہیں۔ کہتے اچھا لفظ ہے میں یاد کر لیتا ہوں، ابھی بولا کرونگا۔ پھر واقعی جب بھی کسی پارک جاتے تو کہتے فلاں گلستاں میں بہت مزہ آیا، جھولے بھی تھے، اور سلائیڈز بھی۔
سمندر کنارے کو دریا کنارے کہتے تھے۔ میں نے کہا تو دریا کو آپ کیا کہتے ہیں؟ وہ بولے دریا ہی کو تو دریا بول رہا ہوں۔ میں نے کہا اچھا تو یہ بتائیے جو پہاڑوں سے نکل کر سمندر تک پانی آتا ہے اس کو کیا کہتے ہیں؟ کہنے لگے اچھا تو تم ندی کی بات کر رہے ہو؟ اب میں ندی کا پوچھتا تو جانے کیا جواب آتا اس لیے چپکا ہو رہا۔
ایک تبصرہ شائع کریں