نومبر 2018

چھ ماہ پہلے ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ ایک بہت بڑے اور نامی گرامی ہوٹل میں 11 مردوں نے اجتماعی زیادتی کر ڈالی تھی ۔۔اس وقت مجھے بہت دکھ ہوا ۔۔۔ان گیارہ کتوں کو عبرت ناک موت دینےکو دل چاہ رہا تھا ۔۔۔۔لیکن تب بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ ایک بہت بڑے ہوٹل میں وہ لوگ لڑکی کو بنا اسکی مرضی کے لے کر پہنچ کیسے گئے؟؟؟فرض کر لیتے ہیں کہ اسے ایک ہوٹل میں بلایا گیا تھا۔ یعنی وہ اپنی مرضی سے گئی تھی ۔۔۔۔کیا بنا مرضی کے کسی ہوٹل میں لے جائی جا سکتی ہے ؟؟اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ ایک بندے نے روم بک کیا ہو ۔۔۔۔ایک بہت بڑے ہوٹل میں ایک لڑکی کے ساتھ 11 بندے زیادتی کر رہے ہیں اور ساتھ والے کمرے میں آواز تک نہیں جا رہی ؟ عجب نہیں لگے گا ؟ ایک لڑکی جو دو دن سے گھر سے غائب ہے۔ اور بننا بھی ماڈل چاہتی ہے تو کیا اس کے گھر والوں کو علم نہیں ہوگا کہ ہماری بیٹی اسی سلسلے میں کسی سے ملنے گئی ہے ؟پہلے پہل سنا جاتا تھا کہ جسم فروشی کا دھندہ گرلز ہاسٹل اور یونیورسٹیوں میں بڑی خاموشی سے ہوتا ہے۔ لیکن میری معلومات کے مطابق اب یہ یونیورسٹی سے نکل کر کالج اور سیکنڈری سکولوں تک پہنچ چکا ہے۔۔۔اور اس کے پیچھے کوئی باقاعدہ نیٹ ورک نہیں ہوتا۔ یہ شروع ہوتا ہے احساسِ محرومی سے اور مقابلے کے رجحان سے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، ہر دوسری لڑکی کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور وہ سمارٹ فون کہاں سے آتا ہے یہ کوئی نہیں سمجھنا چاہے گا۔ گھر بیٹھے بیٹھے اس سمارٹ فون میں ایزی لوڈ کہاں کہاں سے آجاتا ہے یہ کوئی سمجھنا نہیں چاہے گا۔۔روز 50 روپے خرچہ لے جانے والی لڑکی کے پاس مہنگے موبائل، کپڑے، پرفیوم کہاں سے آگئے۔ یہ بھی ایک جسم فروشی ہے۔اب ہوتا کیا ہے۔ ہر سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں امیر لوگوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غریب لوگوں کے بھی۔ جب لڑکی اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی کے پاس مہنگا ترین موبائل دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ یہی موبائل میرے پاس بھی ہو۔جب و ہ ہر روز اپنی سہیلی کو نئے اور مہنگے کپڑے پہنے دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے کپڑے پہنے۔ جب وہی لڑکی مہنگے کاسمیٹکس اور پرفیوم اپنی سہیلی کے چہرے پر تھوپے دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی ان چیزوں کو استعمال کرے۔ جب وہ اپنی سہیلی کے بوائے فرینڈ کو اپنی سہیلی کے ساتھ روز یا ہر دوسرے دن میکڈونلڈ میں برگر کھانے جاتا دیکھتی ہے تو اسکا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی ہر روز کسی کے ساتھ برگر کھانے جائے۔کوئی اسکا بھی ایسے ہی نخرے اٹھانے والا دوست ہو۔ یہاں سےاپنی مرضی سے جسم فروشی کی سوچ کا بیج ڈل جاتاہے۔ اور کمال منافقت یہ ہے کہ نہ لڑکی اسے جسم فروشی ماننے کو تیار ہوتی ہے نہ لڑکا سمجھتا ہے کہ وہ جسم خرید رہا ہے۔ بلکہ دونوں اسے پیار اور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا نام دیتے ہیں۔ اب یہ مجھے بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ ایک ہی لڑکی یا لڑکے کے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ اکثر بدلتے بھی رہتے ہیں۔ غریب لڑکی چاہے گی کہ اسکا بوائے فرینڈ گاڑی والا ہو۔طوائف اگر اپنا جسم پیچ کے اپنے بچوں کیلئے روٹی خریدے تو وہ جسم فروشی ہوئی۔ اور ایک سٹوڈنٹ اگر آئے روز اپنا پارٹنر بدلے، روزپیسے لے، ایزی لوڈ مانگے، موبائل گفٹ میں لے، لباس لے ، پرفیوم لے تو یہ جسم فروشی نہیں۔ ایسا کیوں ؟ یہ دوہرا معیار صرف ہمارے معاشرے میں ہی کیوں؟میں یہاں مرد ذات کو ڈیفینڈ نہیں کر رہا، صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ حضور تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے.......خدارا لڑکیو! اپنی عزت کو سمجھو۔۔۔۔۔یہ دنیا محض فانی ہے ۔۔۔۔۔۔مہنگی اور برانڈڈ چیزوں سے نہیں، عزت سے زندگی گزاریں💖💖

سردیاں ان افراد کو پسند تو ہیں جنہیں گرمیوں کی دھوپ بردداشت نہین، لیکن اس سرد موسم میں سب سے زیادہ مسئلہ ان افراد کو ہوتا ہے جن کی جلد خشک ہے۔
بعض افراد سردیوں میں جلد خشک، بال روکھے اور ہونٹ پھٹنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خشک اور ٹھنڈا موسم ہونٹوں کو بھی خشک بنادیتا ہے جس سے ہونٹ پھٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ایسے میں اپنی جلد کے ساتھ ساتھ ہونٹوں کا خیال رکھنا بھی بےحد ضروری بن جاتا ہے، کیوں کہ پھٹے ہوئے ہونٹ آپ کی شخصیت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
اپنے ہونٹوں کا خیال رکھنے کے لیے بھی آپ کو کسی مہنگی پروڈکس خریدنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ہونٹوں کو نرم رکھنے کے لیے آپ کے کچن میں ایسی کئی چیزیں موجود ہیں جو اس مسئلے میں مدد دے سکتی ہیں۔

سردیوں میں ہونٹوں کا خیال رکھنے کی چند ٹپس
  1. ہونٹوں کو تھوک سے گیلا کرنا سب سے بڑی غلطی ہے، اس سے یہ مزید خشک ہوتے ہیں۔
  2. اگر ہونٹوں کا خیال نہ رکھا جائے تو انفیکشن ہوجانے کا خطرے ہوتا ہے۔
  3. ہمیشہ ہونٹوں پر بام رات کو سونے سے قبل لگائیں، ہونٹوں کو ٹھیک ہونے کا وقت دیں۔
  4. ہونٹوں پر بھی سن اسکرین لوشن لگائیں۔
  5. ویسے تو سردیوں میں زیادہ پیاس نہیں لگتی لیکن زیادہ سے زیادہ پانی پینے کی کوشش کریں۔

سردیوں میں ہونٹوں کے لیے گھریلو ٹوٹکے

ایلو ویرا (کوار گندل)

ایلوویرا کا پودا آسانی سے مل جاتا ہے، اس میں موجود گودا اپنے ہونٹوں پر لگائیں تاکہ یہ نرم رہیں۔

گھی

خشک ہونٹوں پر گھی کی ایک بوند بھی کمال دکھا سکتی ہے، رات کو سونے سے قبل ہونٹوں پر نرمی رہنے کے لیے گھی لگائیں۔

شہد

شہد خشک اور پھٹے ہوئے ہونٹوں کے لیے مددگار غذا ہے، گلسرین کے ساتھ شہد ملا کر ہونٹوں پر لگائیں۔

چینی

چینی ہونٹوں پر اسکرب کی طرح کام کرتی ہے، جو خراب جلد کو بھی صاف کرتی ہے۔

ناریل کا تیل

ناریل کے تیل کو ہونٹوں پر سونے سے قبل لگاکر چھوڑ دیں، یہ خشکی کو ختم کرکے انہیں نرم بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

کیا واقعی وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش کے مابین ہونے والا مکالمہ اتنا سنگین تھا کہ سعودی حکومت اس کا نوٹس لے، وزیراعظم پاکستان سے اظہار شکوہ کرے اور اس شکوے کی بنیاد پہ وزیر اعظم عمران خان جو کہ انتخابات سے قبل اپنی ہر تقریر میں خودمختاری، حمیت، غیرت اور خود احترامی کی باتیں کرتے تھے، وہ محض سعودی حکومت کی خوشنودی کے لئے اپنے ہی وزیر مملکت برائے داخلہ کی سخت الفاظ میں سرزنش بھی کریں اور اسے مجبور کریں کہ وہ سعودی حکومت کے نمائندے سے معافی مانگے اور پھر معافی مانگے جانے کے بعد بھی ان سے وزارت واپس لینے پہ غور و فکر کیا جائے، محض اس لیے کہ سعودی عرب نے ان کے حوالے سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

عالمی قوانین کے تحت پاکستان میں موجود سعودی سفارتخانہ سعودی جائیداد ہے اور سفارتخانہ کے اندر سعودی قوانین کا ہی اطلاق ہوتا ہے، چنانچہ اگر شہریار آفریدی نے سفارتخانے میں سعودی سفیر سے معافی مانگی ہے تو سفارتی ضوابط کے تحت اسے سعودی عرب میں جاکر سعودی حکومت سے معافی کی طلبی شمار کیا جائے گا۔ اسلامک یونیورسٹی کے صدر احمد یوسف الدرویش، سعودی حکومت، وزیراعظم عمران خان کے رویے اور شہریار آفریدی کی اپنے اصولی موقف پہ معذرت خواہی پہ رائے دینے سے قبل وہ مکالمہ ملاحظہ فرمائیں کہ جو وجہ تنازعہ بنا۔
اسلامک یونیورسٹی میں وزیر مملکت برائے داخلہ نے اسلامی یونیورسٹی کے صدر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”سعودی عرب میں پاکستانیوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ مسلمان اس وقت بے حس اور یتیم ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کی وسائل پر کوئی اور مزے کر رہا ہے جب کہ فیصلے کوئی اور کر رہا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہو گا ہم نے مسلمان کی عزت اور غیرت پر سودے بازی نہیں کرنی۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں کے ساتھ نامناسب سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، تنخواہیں نہیں دی جاتی۔ اس حوالے سے ہماری درخواست ہے کہ آپ آگے جا کر بتائیں کہ اس معاملے پر ہم خوش نہیں ہیں، یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔“
وزیر مملکت برائے داخلہ کا نے مزید کہنا تھا کہ ”مثال کے طور پر میں ایک ڈرگ ڈیلر ہوں، ایک بزرگ کو عمرہ یا حج کے بہانے ٹکٹ اور ویزا لے کر دوں اور اس کے سامان میں پاوڈر بھی رکھ دوں، تو اس بچارے کا سر قلم کر دیا جاتا ہے لیکن اس بارے میں تحقیقات نہیں کی جاتیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ سعودی جیلوں میں ایک بیرک میں 15 بندوں کی جگہ ہے لیکن وہاں 200 بندوں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ میرے پاکستانیوں کی تذلیل ہے۔ گوروں کو تو کوئی دیکھتا ہی نہیں ہے۔ میرا پڑھا لکھا بچہ سعودی عرب جاتا ہے تو اس کی تنخواہ مشکل سے 4 یا 5 ریال ہوتی ہے لیکن اگر کوئی گوری چمڑی والے نالائق سعودی عرب جاتے ہیں تو ان کی تنخواہ تیس چالیس ہزار ریال ہوتی ہے۔“
شہریار آفریدی نے کہا کہ ”ہم خود مسلمانوں کو کم تر ظاہر کر رہے ہیں۔ شہریار فریدی نے کہا کہ ہم نے کسی سے کچھ نہیں مانگنا ہمارا ایمان اللہ تعالی پر ہے، ہم سعوی عرب کو مزید عزت دیں گے لیکن سعودی عرب سے کہیں کہ وہ بھی پاکستانیوں کو گلے سے لگائے۔“
دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ شہریار آفریدی نے اس گفتگو کے دوران ایسی کون سی غلط بیانی کی ہے کہ جو توہین آمیزی کے ذمرے میں آتی ہو اور سعودی شاہی مزاج پہ اتنی گراں گزرے کہ نوبت سعودی سفیر سے معافی مانگنے تک جا پہنچے۔ شہریار آفریدی کی اس گفتگو کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پہ وائرل ہو چکی ہے۔ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کو درپیش مسائل کا ذکر منتخب جمہوری حکومت کا ایک ذمہ دار وزیر نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا؟
سعودی عرب کے لئے پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمات اتنی کم قیمت تو نہیں کہ ہمارا ایک منتخب وزیر اپنے ہی شہریوں کو درپیش مسائل کا ذکر تک نہ کر پائے۔ سعودی عرب کی مہربانی سے داخلی سطح پہ پاکستان کو جن حالات و مسائل سے دوچار ہونا پڑا، اس کی فہرست کافی طویل ہے اور پاکستانیوں نے اس کی شدید بھاری قیمت بھی چکائی ہے، اس فہرست اور قیمت پہ تفصیلی بات پھر کبھی، چونکہ شہریار آفریدی نے اپنی گفتگو میں دو اہم مسائل پہ بات کی ہے، پہلا سعودی عرب میں پاکستانیوں کے سرقلم کرنے کا جاری سلسلہ اور دوسرا سعودی عرب میں موجود افرادی قوت کو درپیش مسائل اور سعودی حکومت کی ان کے حل میں عدم دلچسپی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں مسئلے اتنی شدید نوعیت کے ہیں کہ حکومت کو اس پہ بات کرنی چاہیے؟ تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ان دونوں مسائل سے متعلق دو مختصر رپورٹس ذیل میں پیش ہیں۔
تقریباً دو ماہ قبل روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ”سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں دو ہزار سے زائد پاکستانی محنت کش گزشتہ 18 ماہ سے بغیر تنخواہ کے کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کیمپوں میں رہائش پذیر پاکستانی سہولیات سے محروم ہیں، ان کے اقامے کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اپنے ملک جانے کی اجازت بھی نہیں مل رہی اور وسائل بھی نہیں ہیں جبکہ پاکستانی سفارتخانہ بھی اس معاملے پہ چپ سادھے ہوئے ہے۔
ہولڈنگ کمپنی سے منسلک پاکستانیوں کا کہنا ہے کیمپوں میں رہتے ہوئے ان کے اقامے بھی ختم ہو چکے ہیں، ریاض کے علاقے الیہ کے ایک کیمپ میں موجود پاکستانیوں کو سعودی کمپنی معاہدہ کے تحت دیار غیر میں تو لے آئی مگر محنت کشوں کو گزشتہ اٹھارہ ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں، رزق حلال کی تلاش میں پردیس کی مشکلیں کاٹنے والے دو ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ریاض کے مختلف کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ 18 ماہ سے جیل جیسے حالات میں شب و روز گزارنے والوں کے اقامے بھی ختم ہو چکے، کمپنی واجبات ادا کر رہی ہے نہ ہی انہیں وطن واپس بھجوانے کا کوئی بندوبست ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل کی ہے۔
دوسری رپورٹ سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی جانب سے پیش کیے جانے والے وہ اعداد و شمار ہیں کہ جو انہوں نے رواں سال کے اوائل میں سینیٹ میں پیش کیے۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں 2013 ء سے اب تک مختلف جرائم میں 66 پاکستانیوں کو سزائے موت دی گئی۔ ”پاکستان میں کسی عربی کو پھانسی تو درکنار حوالات میں ایک شب گزاری بھی گناہ کبیرہ شمار ہوتی ہے“ ۔ وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ 1337 پاکستانی ریاض اور 1580 جدہ کی جیلوں میں قید ہیں۔
یعنی ریاض اور جدہ میں قید پاکستانیوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے متجاوز ہے۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانہ اور قونصلیٹس جیلوں میں قید پاکستانیوں کو قونصلر کی سطح تک رسائی فراہم کرتے ہیں تاہم ہمارے مشن کی قانونی خدمات، تراجم، مقدمات کی تیاری میں سہولت اور مختلف ایجنسیوں کے ساتھ معاملات طے کرنے تک محدود ہیں، اس سے زیادہ ہم کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ کیا یہ اعداد وشمار اس امر کے متقاضی نہیں کہ حکومت پاکستان اپنے شہریوں کی اس بے چارگی کو سعودی شاہی حکومت کے سامنے بیان کرے۔ اس ضمن میں شہریار آفریدی نے بات کی تو اس کی تحسین و ستائش ہونی چاہیے تھی اور وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ انہیں سراہتے، تاہم معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔
شہریار آفریدی کی بات پہ سعودی رویہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش یقینی طور پہ ایک پڑھے لکھے ہوں گے، پاکستان میں ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ کے طور پر انہیں کافی عزت و توقیر حاصل ہے۔ پاکستان نے انہیں جو احترام دیا ہے، وہ احترام اس امر کا متقاضی تھا کہ وہ سعودی شاہی خاندان کے سامنے وزیر داخلہ کی شکایت کرنے کے بجائے دونوں مسئلے مثبت انداز میں پیش کرتے تاکہ وہ موجود پاکستانیوں کو کچھ ریلیف ملتا یا جیلوں میں موجود پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی۔
اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر جرائم میں ملوث پاکستانیوں کے سر کاٹنے کے بجائے حکومت پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کے بعد ان افراد کی زندگی و موت کے فیصلے کیے جاتے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ سعودی شاہی مزاج کے سامنے پاکستان کو اپنے مسائل کے اظہار کی بھی اجازت نہیں اور سعودی شاہی اقدامات کے سامنے چوں چرا بھی توہین کے زمرے میں شامل ہے۔ اس بات کی تصدیق سعودی حکومت نے یوں کی ہے کہ بجائے مسائل کے حل کی یقین دہانی کے الٹا وزیراعظم کے سامنے اظہار ناراضگی کیا۔ سب سے بڑھ کر حیران کن اور قابل تشویش ردعمل وزیراعظم کا ہے کہ جنہوں نے پاکستانیوں کو خوداحترامی اور خودمختاری کے خواب تو بہت دیکھائے مگر جب تعبیر کا وقت آیا تو اپنے ہی وزیرداخلہ کو اصولی موقف چھوڑ کر سعودی سفیر سے معافی مانگنے کا درس دیا۔
کیا پاکستان سعودی عرب کی باج گزار ریاست ہے؟ عہد جمہوریت ہو یا دور آمریت، ہماری خودمختاری، قانون، خود احترامی ہمیشہ سعودی قصرشاہی میں رہن کیوں رہتی ہے۔ پیپلز پارٹی دور حکومت میں پروفیسر فتح ملک جو کہ بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر تھے۔ محض اس بناء پہ اپنے عہدے سے برطرف کیے گئے کہ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران سعودی شاہی نظام کی خامیوں پہ بات کی تھی۔ اس برطرفی کے خلاف اسلامک یونیورسٹی کے طالب علموں نے احتجاج کیا تو حکومت نے اس معاملے کو حل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی، ایوان صدر کی جانب سے مسلسل کوششوں کے باوجود بھی پاکستان سعودی عرب کو اس بات پہ قائل نہیں کر پایا کہ پروفیسر فتح ملک کو مزید چار ماہ برداشت کرلیا جائے۔
یہی نہیں بلکہ عدالتی احکامات کے باوجود ہم تلور کا شکار نہیں روک پائے۔ ہم تو مختلف حکومتی ادوار میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ان افسران کی برطرفیاں اور تبادلے بھی نہیں روک پائے کہ جنہوں نے حد سے متجاوز تلور کے شکار کی نشاندہی کرنے کی گستاخی کی۔ ہم شکاریوں کی صحرائی خیمہ بستیوں سے آنیوالی کمسن چیخوں پہ بھی اظہار افسوس یا ندامت تک ظاہر نہیں کر پائے، یہاں تک ہم نے ملکی ترقی اور عوامی ضرورت کے کئی منصوبے بھی محض اس بناء پہ عملدرآمد سے قبل ہی ترک کر دیے کہ سعودی فرمانروا خوش نہیں۔
آج تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر داخلہ کے معافی مانگنے کے باوجود بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ شہریار آفریدی سے وزارت واپس لے لی جائے۔ تبدیلی کے نعرے سے برسر اقتدار آنے والی حکومت ہی یہ بتا سکتی ہے کہ اس ضمن میں تبدیلی کہاں آئی ہے؟ ”گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا“ خبر نہیں کب تک سعودی سرزمین پہ تحقیق و تفتیش کے بغیر پاکستانی سرقلم ہوتے رہیں گے، پاک سرزمین پہ عوام و خواص کی زبان پہ تالے پڑے رہیں گے، خبر نہیں کہ ہمارے بچے، بچیاں، ہمارے توانائی اور معیشت کے منصوبے، ہمارے تلور، مہمان پردیسی پرندے، ہماری اقلیتیں، بعض مسالک عرب شاہی خوشنودی کب تک پہ صدقے واری ہوتے رہیں گے۔


مجھے اچھی طرح یاد ہے۔۔نواز شریف حکومت کے جب 100 دن پورے ہوئے تو عوام کو چھوڑیں 100 سے اوپر ن لیکی MNA رو رہے تھے ہمیں وزئراعظم صاحب نے نا تو ملاقات کے لیے بلایا ہے اور نا ہی کچھ نقد دیا ہے۔۔میاں صاحب الیکشن مہم کی تھکن اتارنے کے لیے شام 7 بجے اندر سے کنڈی لگا کر میرا سلطان ڈرامہ کے اتار چڑھاو پر نظر رکھے ہوئے تھے۔۔۔ان کی آنکھ صبح 10 بجے ہریسے کی دیگ پر ہی کھلتی اور بیچ والے 10 سے 7 تک 9 گھنٹے کھانے اور گپوں میں گزر جاتے۔۔۔واقفان حال کہتے ہیں اگر 2014 میں عمران خان دھرنہ نا دیتا تو نواز شریف اپنے 99 پرسنٹ MNAs کی شکلیں تک بھول چکا ہوتا۔۔مجال ہے اسمبلی ممبران اور پوری عوام میں سے کسی نے کارکردگی کا سوال کیا ہو یا رونا رویا ہو کہ جمہور کو کیوں بے خبر رکھا جا رہا ہے۔۔۔

تحریک انصاف کا 100 دن کی کارکردگی لیکر عوام کے سامنے پیش ہونا ہی تو سب سے بڑی تبدیلی ہے۔۔عمران خان نے اپنے 100 روزہ پلان پر عوام کو آج اعتماد میں لیا۔۔میرے سمیت ہر زی شعور سمجھتا ہے عمران خان کے پاس یہ 100 دن کسی چمتکار کے لیے نہیں بلکہ تیزی سے کھائی میں پھسلتی ڈھلوان کو روکنے کے لیے تھے۔۔۔PTI گورنمنٹ نے IMFکی امداد اور مزید قرضے سے بچتے ہوئے سر پر گرنے والے معاشی بحران کو ہی ڈیل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ہم قابل بھی ہیں اور ملک کی سلامتی اور ترقی کے لیے مخلص بھی۔۔آپکی کیا توقعات تھیں کیا آپ حقائق اور حقیقت کو جانتے ہوئے بھی ملک میں فراوانی کی نہریں بہتے دیکھنے کی توقع رکھتے تھے۔۔۔اگر ایسا ہی ہے تو آپ بائی نیچر مسند پٹواری ہیں۔۔۔۔

عمران خان نے کبھی نہیں کہا تھا کہ مین 100 دنوں میں بیرونی قرضہ اتاردوں گا۔۔دودھ اور شہد کی نہریں بہادوں گا۔۔۔ہاں کرپشن اور بے ایمانی روکنے کی بات کی تھی تو دنیا میں کرپشن کی رینکنگ میں بڑی تبدیلی اس بات کا ثبوت ہے۔۔۔پوری دنیا میں حکومتوں کے پہلے 100 دن نئی حکومت کو اپنی ترجیحات اور منشور میں طے کیے گئے مسائل کے خاتمے کی ڈائریکشن کے لیے دیے جاتے ہیں۔۔اچھی یا ہماری طرح بری پٹڑی کا ٹریک بدلا جاتا ہے۔۔۔اور جو حکومت ان 100 دنوں میں ٹریک پر چڑھ جائےوہ اگلے ہزاروں دن انجوائے کرتی بھی ہے اور عوام کے لیے سہولتیں لیکر آتی ہے۔۔۔تبدیلی اور ترقی کی تڑپ پچھلے حکمرانوں میں تھی یا عمران خان میں۔ 100 دنوں میں ہونے والے کابینہ کے اجلاسون کی تعداد پچھلی 10 سال کی جمہوریت سے زیادہ ہے۔۔۔اچھی امید رکھو انشااللہ ملک عظیم ملک بنے گا۔


اسلام آباد (29 نومبر 2018ء) گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ اس حوالے سے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سکھ رہنما گوپال سنگھ چاولہ نے کہا کہ بھارتی میڈیا نے پاکستان آنے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرنے پر مجھے دہشتگرد کہنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ، اگر میں دہشتگرد ہوں تو پاکستان کے آرمی چیف نے مجھ سے ملاقات کیوں کی ؟ انہوں نے کہا کہ میں نہ تو کسی اسرائیلی آرمی چیف سے ملا ہوں نہ ہی بھارتی آرمی چیف سے ۔

میں نے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے، چیف آف آرمی اسٹاف قمر جاوید باجوہ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں کیونکہ سکھ قوم کا پاکستان سے ایسا رشتہ ہے جیسے آپ مسلمانوں کا سعودی عرب سے ہے۔

اگر پاکستان ترقی کرتا ہے تو سکھ قوم بھی ترقی کرتی ہے۔ گوپال سنگھ چاولہ نے کہا کہ سکھ اور مسلمان کا آپس میں ایک گہرا رشتہ ہے۔ بابا گرونانک کی پیدائش جن ہاتھوں میں ہوئی تھی وہ مائی دولتاں تھیں، اور وہ مسلمان تھیں۔

گرونانک صاحب کی روحانیت کو جس نے سب سے پہلے تسلیم کیا وہ بھی مسلمان تھے۔ گرونانک صاحب کے جو سب سے قریب ساتھی تھے وہ بھی مسلمان تھے، گولڈن ٹیمپل کا سنگ بنیاد جس انسان نے رکھا وہ حضرت میاں میر نے رکھا وہ بھی مسلمان تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گرونانک صاحب جس کے سامنے ہم سر جھُکاتے ہیں اس میں بابا فرید صاحب کا ایک سو سے زائد مرتبہ تذکرہ کیاگیا ہے۔ گوپال سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت کو چاہئیے کہ اپنا منفی پراپیگنڈہ بند کرے۔  اور بھارت نے پاکستان کی جانب سے کرتاپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھے جانے پر پذیرائی کی بجائے واویلا کرنا شروع کر دیا۔خالصتان بھی آزاد ہو گا اور کشمیر بھی.



ہمارے گھر کے بالمقابل انکل علی رضا مرحوم کا چوبارہ تھا ، صحن ایک ہی تھا چوبارے کے نیچے ھم لوگ کھیل رھے تھے جبکہ میرا چھوٹا بھائی جو شاید سال بھر کا ھو گا بیٹھا ھوا تھا ،، مرزا صاحب کے بیٹے نے جو کہ مجھ سے چار پانچ سال چھوٹا تھا برآمدے کے ستون کے ساتھ لگے بھڑوں کے چھتے کو غلیل سے پتھر مارا ، چھتہ ٹوٹ کر سیدھا میرے بھائی پر گرا اور بھڑیں کچھ اس طرح اس کو لپٹ گئیں کہ سر اور منہ پہ صرف بھڑیں ہی نظر آتی تھیں چہرہ نظر نہیں آرھا تھا ، ھم خود بھڑوں کے ڈر سے دور سے ھی چیخ رھے تھے کہ امی جان دوڑتی ھوئی آئیں اور بھڑوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ پکڑ کر پھینکنے لگیں ، ان کے ہاتھ اندر باھر سے بھڑوں نے چھلنی کی طرح کر دیئے مگر انہوں نے بچے کو بھڑوں سے پاک کر کے ھی چھوڑا ، خود ان کے ہاتھ پھول کر کپہ بن گئے جبکہ بھائی کے ماتھے اور چہرے اور سر پر سوجن کا یہ عالم تھا کہ چہرہ فٹ بال نظر آتا تھا اور بعد میں بعض زخموں میں پیپ پڑ گئ اور چیچک کی طرح کے گڑھے پڑ گئے ،،،

مرزا صاحب سے شکایت کی گئ تو انہوں نے کہا کہ آپ فکر مت کریں بچے کو اپنے کیئے کی سزا "بروبر" ملے گی اور آئندہ اس کا باپ بھی ایسی شرارت نہیں کرے گا ـ تھوڑی دیر کے بعد چوبارے کے اوپر والے کمرے سے دَبل دبل اور دھما دھما کی آوازوں کے پسِ منظر میں ارشد مرزا کی چیخیں اور دہائیاں ، ہائے ابا جی ، اب نہیں کرونگا ،، ہائے مر گیا ،، ہائے دادی جی ،، امی دوڑتی ھوئی اوپر گئیں تا کہ بچے کو چھڑائیں کیونکہ بہرحال وہ ایک ماں تھیں ،، مرزا صاحب پلاننگ کے جوش میں دروزے کو اندر سے کنڈی لگانا بھول گئے تھے ،، امی نے جونہی دروازے کو دھکا دیا دروازہ چوپٹ کھل گیا ، دیکھا تو مرزا علی رضا مرحوم رضائیوں ، تلائیوں کو دبا دب کُوٹ رھے تھے جبکہ ارشد مرزا پاس کھڑا بسنتی کی طرح دلدوز چیخیں مار رھا تھا ،،،

یہی کچھ نیب شریف فیملی کے ساتھ کر رہی ہے ـ آشیانہ اسکیم میں شہباز شریف پر الزام لگایا گیا کہ اس نے ایک کمپنی پر دباؤ ڈال کر اس کا کنٹریکٹ منسوخ کیا ، جو کہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہے ، یہ ممکن نہیں کہ شہباز اور ان کے سیکرٹری کو یہ یاد نہ ہو کہ اس کمپنی کا کنٹریکٹ کیسے منسوخ ھوا تھا ،، مگر انہوں نے ریمانڈ کی مدت گزار دی اور اپنی بیگناہی میں کچھ پیش نہ کیا ، جب عوام بھی خوش ہو لی اور فلم کی طرح ان کے پیسے پورے ہو گئے تو اب اچانک ایک قانونی دستاویز سامنے آ گئ جس میں خود اس کمپنی نے درخواست کر کے معاہدے سے دستبرداری اختیار کی تھی جس کے عوض اس نے جرمانہ بھی ادا کر دیا تھا ـ اس دستاویز کے سامنے آتے ہی نیب کا کیس ختم ہو گیا اور وہ جو شکیل بھائی خوشخبری دے گئے تھے کہ نومبر کے آخر میں ریفرینس دائر ھو کر شہباز شریف کا معاملہ نمٹ جائے گا وہ موسم کی پیشگوئی سے زیادہ کچھ بھی نہ رہا ،، نیب نے مزید ریمانڈ کی درخواست دی تو عدالت نے پوچھا کہ اب کیا جواز ہے ؟ کہا گیا کہ نیب یہ نہیں کہتی ھے شہباز نے کرپشن کی ہے ،بس چند تحائف ہیں ھو حمزہ شہباز کو باپ کی طرف سے دیئے گئے ہیں ان کی وضاحت درکار ہے ، ریمانڈ چھ دن کا دیا گیا اور یہ چھ دن شہباز چریف پمز میں گزاریں گے اور فلم کا دی اینڈ ھو جائے گا ـ

جب آپ پولیس کو پیسے دے دیتے ہیں یا عرفِ عام میں مک مکا کر لیتے ہیں تو وہ آپ کو بری نہیں کر دیتے کیونکہ ان کا بری کرنا غیر محفوظ ھوتا ھے اس لئے کہ انکوائریاں بدلتی رہتی ہیں کوئی دوسرا انکوائری میں آپ کو گنہگار ثابت کر دے گا یوں پیسے ضائع ھو جائیں گے نئے تفتیشی کو پھر سے خریدنا پڑے گا ،لہذا محفوظ طریقہ یہ ہے کہ رشوت لینے والا آپ کو گنہگار قرار دے کر چالان کر دیتا ھے مگر ثبوت کے لئے ضمنیاں ایسی بےسروپا لکھتا ھے کہ ملزم عدالت کی طرف سے بیگناہ ہو جاتا ھے ، یا سزا ہلکی ملتی ہے اور کہہ دیا جاتا ھے کہ سیشن آپ کو ہلکی پھلکی سزا دے گا مگر اگلی عدالت آپ کو ضمانت دے دے گی اور ہائی کورٹ آپ کو بری کر دے گی ،، بالکل یہی گیم چل رہی ہے ، شریف فیملی کی اسکیننگ کر کے میل کچیل صاف کر دی گئ ہے اب وہ بالکل معصوم ہو کر اپنا کام کریں گے ،، کبھی اپنی حد سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے اور راوی چین ہی چین لکھے گا

پہلے سو دنوں میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی کامیابیوں کی فہرست مرتب کرنا خاصا دشوار کام ہے۔جمعہ والا کالم میں نے جمعرات کی شام تک دے دینا ہوتا ہے۔ جمعرات کو دن بھر کئی اخبارنویس دوستوں سے بات ہوئی، ان میں وہ بھی تھے جو تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ان تمام دوستوں سے یہی درخواست کی کہ براہ کرم مجھے وزیراعظم عمران خان کی کامیابیوں کے حوالے سے آگاہ کریں تاکہ اپنے کالم میں یہ تفصیلات درج کر سکوں۔یہ سوال کسی کو پسند نہیں آیا، اکثر نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ تمہاری مدد کریں، خود ہی ڈھونڈتے رہو۔ دو چار نے تو ناک بھوں چڑھائی کہ ایسا بے تکا سوال کیا ہی کیوں ۔بعض دوست گستاخانہ لہجے میں روایتی لاہوری جگتیں لگاتے رہے، افسوس کہ اپنے پیارے قارئین کے لئے انہیں نقل نہیں کر سکتا۔ ایک صحافی دوست نے انتظار کرنے کا کہا اور پھر ایک طویل فہرست واٹس ایپ کر دی۔ اس میں کوئی دو ڈھائی سو کے قریب کارنامے اور نئے کام (Initiative)گنوائے جو تحریک انصاف حکومت نے تین ماہ میں کر ڈالے، تحریر کے آخر میں منقول لکھا تھا۔ معلوم نہیں یہ بدبخت ,,منقول ,,کون ہے، فیس بک پر دئیے جانے والے نصف سے زیادہ سٹیٹس میں تحریر کنندہ کی جگہ پر منقول لکھا ہوتا ہے۔ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ دوست نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے یہ تحریر نقل کردہ ہے، کسی اور نے لکھی ہے اور عام طور پر مختلف جماعتوں کے میڈیا سیل کی جانب سے پریس ریلیز ٹائپ تحریر کو کاپی کر کے شیئر کرنے سے پہلے نیچے منقول لکھ دیتے ہیں تاکہ معاملہ گول مول رہے اوربات آگے بڑھانے والا کام بھی ہوجائے۔ بات سمجھ میں آگئی ، اس لئے ہم نے بھائی” منقول“ اور اس کی کوشش پر تین حرف بھیجے اور خود ہی دماغ سوزی فرمانے کا فیصلہ کیا۔ 
عمران خان کرکٹر رہے ہیں اور اکثر بات سمجھانے کے لئے کرکٹ کی مثال دیتے ہیں۔ہم بھی آج کرکٹ ہی سے استفادہ کرتے ہیں۔ ڈیوڈ گاور انگلینڈ کے مشہور بلے باز تھے۔بڑے سٹائلش انداز میں کھیلتے تھے، جس نے انہیں کھیلتے دیکھا، وہ ان کے بے مثال آف ڈرائیو نہیں بھول سکتا۔ ان کی بیٹنگ شاعری جیسی لطیف اور نفیس لگتی۔ گاور نے ایک بار لکھا ،” بطور بلے باز بڑے مختلف اور منفرد تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات بلے باز بڑا پراعتماد اور ہائی مورال کے ساتھ گراﺅنڈ میں اترتا ہے، اس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ آج سنچری کر کے واپس آنا ہے، فارم بھی اچھی ہے، پچ کنڈیشنز بھی ٹھیک ہیں تو آج میرا ہی دن ہے۔ یہ اور بات کہ اتفاق سے پہلا ہی گیند اچھا پڑا اور وہی پراعتماد بلے باز صفر پر آﺅٹ ہو کر واپس لوٹا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ پچ کنڈیشنز اچھی نہیں، ڈبل باﺅنس ہے، کوئی گیند اونچا، کوئی نیچا آ رہا، ہوا میں سوئنگ بھی ہور ہا۔ بلے باز کے لئے کھیلنا مشکل ہے، گھومتی گیندوں کو مس کر رہا، سلپ میں کیچ نکلے، مگر خوش قسمتی سے فیلڈر تک پہنچ نہیں سکے، بعض ان سائیڈ ایج ایک دو انچوںکے فاصلے سے وکٹ کے قریب سے گزرے ۔باہر سے دیکھنے والوں کو لگ رہا کہ ابھی وکٹ گری، مگر اس سب کے باوجود بلے باز وکٹ پر موجود ہے۔، گیند اسے درست نظر آنے لگا، اعتماد بحال ہو رہا،پچ کے باﺅنس سے ایڈجسٹ ہو رہا، گیند کی شائن کم ہونے سے باﺅلرز کو مدد کم ملنے لگی، وہ تھکنے بھی لگے۔ ایسے میں بلے باز سیٹ ہو کر اپنے کیرئر کی بہترین اننگ کھیل سکتا ہے اور مجھ (یعنی ڈیوڈ گاور)سمیت دنیا کے بہت سے بلے بازوں کے ساتھ ایسا ہوا کہ خراب حالات میں انہوں نے غیر معمولی اننگ کھیلی، آخری تجزیے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلے باز وکٹ پر ٹھیر گیا یا قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ واپس چلا گیا۔ اگر وہ وکٹ پر موجود ہے، اس میں صلاحیت ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، اس کو ملنے والے چانس، ان سائیڈ ایج، غلطیاں سب نظرانداز ہوجائیں گی۔ ریکارڈز بک میں سنچری ، ڈبل سنچری لکھی جاتی ہے، کوئی یہ نہیں لکھتا کہ اس نے اتنے چانس دئیے اور شروع میں وہ اتنی مشکل سے گزرا۔ “
عمران خان کے پہلے سو دنوں کے حوالے سے میرے تاثرات بھی ملتے جلتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ جس طرح کے دعوے کر کے تحریک انصاف اقتدار میں آئی تھی، وہ پورے نہیں کر پائی ۔ویسے تو یہ پہلے ہی سے علم تھا کہ ابتدائی چند مہینوں میں معجزہ برپا نہیں ہوسکتا۔ عملی زندگی میںمعجزات نہیں ہوتے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی کارکردگی کو ان بڑے بڑے دعوﺅں کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر کچھ زیادہ دل خوش کن تصویرنہیں بنے گی۔ اپنے پچھلے کالم میں حکومت کے ابتدائی تاثر اور جو غلطیاں، ناکامیاں نظر آ رہی ہیں، ان پر لکھا تھا۔ وہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں، مگر دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اب عمران خان کی حکومت کو ان کی پیش رو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی کارکردگی کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ عمران خان کے دعوے ان کی ناتجربہ کاری کے غماز تھے ۔ وہ وقت گزر چکا، اب وہ حکومت میں ہیں تو ان کی حکومت کو پاکستان کی دوسری حکومتوں کی طرح ہی دیکھنا چاہیے۔ ہم پاکستانی ہر معاملے میں کرشمے، معجزات کے متمنی ہوتے ہیں، پیر بھی اسے مانتے ہیں جو غیر معمولی کام کر دکھائے۔ سیدھا سادا شریعت پر عمل کرنے والا نیک آدمی ہمیں بطور پیر قابل قبول نہیں۔جعلی، دھوکے باز شخص کی چکربازیوں سے متاثر ہو کر اسے پیر بنابیٹھیں گے اور پھر گہرے زخم کھا کر اپنی غلطی کا احساس ہوگا۔ ہم کھیل میں بھی چکاچوند دھماکوں کے قائل ہیں۔ ایسا کھلاڑی جو ایک اوور میں دو تین چھکے لگا کر آﺅٹ ہوجائے ، وہ ہمارا ہیرو ہے۔ جو کھلاڑی وکٹ پر ٹھیرکر دھیرے سے رنز بنائے اور میچ جتوائے، اسے ہم ہیرو نہیں سمجھتے، اس پر پھبتی کستے اور طنز کرتے ہیں۔ سیاست اور حکومت مگر مختلف چیزیں ہیں، یہاں پر زیادہ سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔ 
عمران خان اور ان کے وزیرخزانہ اسد عمر نے پہلے سو دنوں کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں بہت سی باتیں کہیں،اپنی کاوشیں گنوائیں اور مستقبل کے منصوبے بھی شیئر کئے۔ عمران خان کی تقریر زیادہ بھرپور اور دل کو چھونے والی تھی۔ ایسی تقریر جس نے سننے والوں کے دل امید سے بھر دئیے, ایک خاتون کا مجھے ٹیکسٹ میسج آیا کہ کوئی تو ہے جو پاکستانیوں کے لیے سوچتا ہے.خان کا جوش وخروش اپنے مستقبل کے منصوبے گنواتے ہوئے ہمیشہ دیدنی ہوتا ہے۔ا یک بچے کی سی معصومیت اور ولولہ اس کے چہرے پر تھا۔اس کے اندر بہرحال کچھ ایسا ہے جو سننے والوں پر اثر کرتا ہے۔ یہ اس کی نیت ہے، کمٹمنٹ ہے یا پھرنظام بدل دینے کا عزم ۔ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ووٹ عمران خان کو ایسے نہیں ملے۔ عوام نے اس کے بات پر اعتماد کیا اور مینڈیٹ دے ڈالا۔ اب یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ جواب میں کچھ کر دکھائے۔ 
مجھے عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہ نظر آئی کہ اس نے امید کی شمع روشن رکھی ہے۔ اس کی غلطیاں ، ناتجربہ کاری ، کہیں کہیں پر غلط سلیکشن صاف نظر آ رہی ہے۔ اس کی نیت میں مگر کسی کو کوئی شک نہیں۔ عمران خان کے بہت سے مخالفین سے بھی بات ہوتی رہتی ہے، وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ عمران خان خود کرپٹ نہیں اور وزیراعظم بننے کے بعدمعمولی سا اشارہ بھی نہیں ملا کہ وہ مال بنانا چاہتا ہے۔ یہ رویہ ماضی کی وزرا اعظم سے یکسر مختلف ہے۔ ہر بار کابینہ کی تشکیل میں اندازہ ہوجاتا تھا کہ وزیراعظم صاحب مال بنانا چاہتے ہیں، اس لئے فلاں فلاں وزارتیں اپنے ”مخصوص “ساتھیوں کو دی گئی ہیں۔عمران خان کے حوالے سے کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ اس کی سلیکشن خراب ہو، غلط بندہ سلیکٹ کر لیا ہو، مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان نے فلاں کو وزیراعلیٰ یا وزیر اس لئے بنایا کہ وہ مال بنائے اور ”صاحب “کو بھی حصہ دے۔ عمران خان نے اپنی یہ کریڈیبلٹی بہرحال برقرار رکھی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ وہ تبدیلی لانا چاہ رہا ہے، ٹیکس نظام میں ریفارمز لانا، ملکی قوانین میں اہم تبدیلیاں ، معیشت پر پوری توجہ دینا، ایکسپورٹ بڑھانے، سرمایہ داروں کو ترغیب دلانے کے حوالے سے وہ پرجوش انداز میں کچھ کرنا تو چاہ رہا ہے۔ کس حد کامیاب ہوتا ہے، یہ الگ ایشو ہے، مگر اس کی نیت، خلوص ، عزم میں بہرحال شک نہیں۔ ایوان وزیراعظم میں طویل عرصے بعد ایسا شخص آیا جو ان اوصاف سے معمور ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کسی بڑی کامیابی سے کم نہیں کہ امید کی شمع ابھی جل رہی ہے، توقعات موجود ہیں، مستقبل میں بہت کچھ اچھا ہونے کا پورا امکان موجود ہے۔ حکومت کو وقت بہرحال دینا پڑے گا،ڈیڑھ دو سال کے بعد ہی جا کر درست رائے قائم کی جا سکے گی۔

محمد عامر خاکوانی

دوست مسلسل اس کرب میں مبتلا ہیں کہ تحریک انصاف حزب اختلاف میں کرتارپور کی طرح کے اقدامات کو غداری قراردیتی تھی لیکن اب امن کی علمبردار کیوں بن گئی؟ محترمہ شیریں مزاری کی ایک تقریر باربار شیئر کی جاتی ہے جس میں واہگہ کی سرحد سے تجارت بھی بندکرانے کی وہ دہائی دیتی ہیں۔ نون لیگ کے لیڈروںکا دکھ دیدنی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے ہر انی شیٹیو کو شک کی نظر سے ہی نہیں دیکھا گیا بلکہ سبوتاژ بھی کیاگیا۔

عرض ہے کہ حضور! وقت اور منظر نامہ بدلتاہے تو سیاسی حکمت عملی بدلنا پڑتی ہے۔ پرانے قصے دہرانے اور پوائنٹ سکورنگ کا اب کوئی فائدہ ہے نہ موقع۔ اس خطے کو امن اور خوشحالی چاہیے۔ تنازعات کا حل مذاکرات اور محبت سے کیا جاسکتاہے۔ وزیراعظم عمرن خان کی تقریر مجھے بہت پسند آئی۔ نیلسن منڈیلا کے لب ولہجے میں وہ بولے اور ایک ایک لفظ دل سے نکلتا ہوا محسوس ہوا۔سیاستدان کی نہیں یہ ایک مدبر کی تقریر تھی جو خطے کی تقدیر بدلنے کاوژن رکھتاہے۔وزیراعظم عمران خان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے نہ کہ ان کی ٹانگ کھینچی جائے۔

سوشل میڈیا پرلوگ کہتے ہیں کہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے تقریب میں شرکت کیوں کی یا وہ حکومت کی اس ایشو پر پشت پناہی کیوں کرتے ہیں؟ سابق وزیراعظم نوازشریف کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کوئی انی شیٹیو اداروں کی مشاورت اور انہیں اعتماد میں لے کر لیتے نہیںتھے۔ بادشاہوں کی طرح اپنے عزیز واقارب کی مشاورت سے ریاستی امور کے فیصلے کرتے۔ اگر انہوں نے قومی سلامتی کے اداروں کو بروقت اعتماد میں لینے کی زحمت کی ہوتی تو وہ امن کے عمل میں شراکت دار ہوتے۔
یہ اچھا نہیں کہ قومی سلامتی کے حلقے کرتارپور راہداری کی پشت پر چٹان کی طرح کھڑے ہیں؟ حکومت اور اداروں کا ایک صفحے پر آئے بغیر خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ بھی آج نہیں تو کل مذاکرات ہی کی کوکھ سے نکلے گی۔ دیگر دستیاب آپشن آزمائے جاچکے۔ کوئی نتیجہ نکلا نہ نکلنے کی امید ہے۔

اگرچہ پاکستان کے اقدامات کے جواب میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی کا ردعمل حوصلہ افزا نہیں لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بھاری سرمایہ کاری کرکے پا کستان کا دشمن نمبر ایک کا امیج ابھارا ہے۔ کرتارپورراہداری نے اس پروپیگنڈامہم کی ہوا نکال دی۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خطابات کو بھارتی ٹی وی چینلز نے لائیو دکھایا۔ بہت ہی موثر انداز میں انہوں نے خطے میں غربت کے خاتمے کی اور باہمی اشتراک کی بات کی۔کشمیر پر بھی عمران خان کا اظہار خیال لچک اور مذاکرات سے تنازعہ کے حل کی رضامند ی کی عکاسی کرتاتھا۔مجھے یقین ہے ان خطابات کا بھارتی رائے عامہ پر مثبت اثر ضرورہوگا ۔

بھارت کی حکمران جماعت کے منفی طرزعمل کا جواب اسی کے لب ولہجے میں دینے کی ضرورت نہیں۔یہ جال ہے جس میں پھنس گئے تو نکل نہ پائیں گے۔ قرآن مجید کی تعلیم ہے :’’برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست‘‘۔ بی جے پی کوعام الیکشن کا معرکہ درپیش ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے اس نے سرجیکل اسٹرائیک کی سالگرہ دھوم دھام سے منائی۔ اب وہ کیسے کرتارپور کھلنے کی تعریف کرتی۔ اسے بھارتی پنجاب کی حکومت اور رائے عامہ کے سامنے یوٹرن لینا پڑا۔ اپنے دووزراء کو پاکستان بھیجا اور دنیانے اس کے طرزسیاست کا مشاہد ہ کیااور اسے ناپسند بھی کیا۔دنیا بھر کے میڈیا نے اس تقریب کی نمایاں کوریج کی۔اسے ایک تاریخی دن قراردیا۔ پاکستان کے اقدام کی تعریف کی۔ پاکستان کا امیج ایک پرامن ملک کے طور پر ابھرا۔ یہ تاثر بھی دور ہوا کہ حکومت اور فوج دو مخالف سمتوں کے مسافر ہیں بلکہ بقول عمران خان کے ایک ہی صفحے پر ہیں۔

کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ قومی سلامتی کے ا داروں میں اب غالب سوچ یہ ہے کہ پاکستان کو دنیا سے الگ نہ کیا جائے بلکہ اسے عالمی نظام سے مربوط کیاجائے۔ رفتہ رفتہ پاکستان کو اس خطے ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں امن کے علمبردار کے طور پر ابھارا جائے جہاں مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دنیا میں امن واستحکام کے لیے کردار ادا کرنے کو بے تاب ہے۔ اس پس منظر میں کچھ ادارے کام کررہے ہیں اور اگلے چند برسوں میں درجنوں نئے ادارے سرگرم ہوتے نظر آرہے ہیں۔یمن میں ثالثی کی پاکستانی پیشکش کو بھی اسی پس منظر میں دیکھاجانا چاہیے۔ افغانستان کے حوالے سے چلنے والے ہر ٹریک میں پاکستانی سرگرم ہیں اور بھرپور تعاون کرتے نظر آرہے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پنجاب او رپنجاب کے درمیان بہت کچھ سانجھا ہے۔ زبان، کلچر اور بے شمار روایات ایک سی ہیں۔ دونوں خطوں کے درمیان پائی جانے والی اس یکسانیت کو ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتاہے۔ یہ پنجاب ہی تھا جس کے سینے پر تقسیم کی لکیر کھینچی گئی۔ ایک ملین لوگ۔ جی ہاں دس لاکھ انسان پرتشدد واقعات میں لقمہ اجل بن گئے۔ نفرت کی دیواریں کھڑی ہوئیں۔ اب یہ پنجاب ہی ہے جو محبت اور دوستی کا پل بننے کے لیے بے تاب ہے تو اسے روکا ٹوکا نہیں جانا چاہیے۔ پاکستان کی اقلیتیں اس کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ وہ دنیا کے کئی ایک ممالک کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات استوار کرانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انہیں قومی سطح پر بھرپور نمائندگی دی جانی چاہیے تاکہ وہ نمایاں اور ممتاز کرداراداکرنے کے قابل ہوسکیں۔

گنتی کے چند انتہا پسندوں کے سامنے سرجھکانے کے بجائے ریاست کو جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔پاکستان کا مستقبل ایک روشن خیال، اعتدال پسند، اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام ہے جہاں ہر شہری کی جان ومال محفوظ ہو۔انہیں مسجد، چرچ یا مندر میں جانے کی مکمل آزادی ہو۔ سیاسی اور فکری اختلاف کی بنیاد پر کسی کی جان ومال کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ ہو۔ ایسا کرنے والوں کے لیے جیل کی کال کوٹھڑی ہر وقت استقبال کے لیے تیار ہو۔ قائداعظم محمد علی جناح ایک ایسا ہی پاکستان دکھانا چاہتے تھے۔
ارشاد محمود


عربی زبان میں کسی جملے میں صفت اور موصوف لائے جائیں تو وہ دو طرح آسکتے ہیں:
اول،جس کی صفت بیان کی جارہی ہے اُسے ذکر کیا جائے،اِس کے بعد اُس کی صفت لے آئی جائے۔
مثلا: رجلٌ صالحٌ میں رجلٌ موصوف ہے صالحٌ صفت ہے 
طالبٌ مجتھدٌ میں طالبٌ موصوف اور مجتھدٌ صفت ہے 
یعنی، نیک آدمی اور محنتی طالب علم۔

دوم،صفت اور موصوف کو بیان کرنے کا دوسرا طریقہ اضافت کا ہے۔
1)یعنی موصوف کی اضافت صفت کی جانب کر دی جائے۔جیسے کہا جاتا ہے :مسجد ُالجامع یا ،صلاةُ الأولى
یہاں بظاہر مسجد مضاف اور الجامع مضاف الیہ ہے،لیکن حقیقت میں یہ موصوف اور صفت ہیں۔یعنی جامع مسجد،اور پہلی نماز۔

2)اِسی طرح صفت کی اضافت موصوف کی طرف بھی کی جا سکتی ہے۔ جیسے کہا جائے:جَرْدُ قَطيفةٍ، مغرّبة خبر، 
سَحقُ عِمامةٍ
یہاں سحق صفت اور عمامہ موصوف ہے جو آپس میں مضاف مضاف الیہ ہیں،
یعنی ،بوسیدہ عمامہ،اِسی طرح سحق درھمِ ِِبھی کہا جاتا ہے۔اصل میں یہ بھی موصوف صفت ہیں، درھم سحق تھا ،یعنی کھوٹا سکا۔
صفت اور موصوف کی باہمی اضافت کا یہ اسلوب عربی زبان میں فصیح ہے۔اِس لیے کہ اِس اسلوب کو خودقرآن مجید میں کئی جگہوں پر استعمال کیا گیا ہے۔مثلا متعدد مقامات پر ارشاد ہوا ہے:
{وَلَدَارُ الْآخِرَةِ}،
{حَقُّ الْيَقِينِ} ، 
{حَبَّ الْحَصِيدِ} ، 
{حَبْلِ الْوَرِيدِ}
{دین الحق}
{وعد الحق}
یہاں بھی بالکل وہی ہوا ہے کہ حق کی اضافت یقین کی جانب کردی گئی ہے ،دراصل دونوں موصوف اور صفت ہیں۔
قرآن مجید اور کلام عرب دونوں میں صفت اور موصوف کے استعمال کا یہ اسلوب بہت معروف ہے۔
اسی لیے عربی ادب یا نحو کی کوئی بھی کتاب اٹھالی جائے تو ہر جگہ "اضافۃ الموصوف الی الصفۃ" یا الصفۃ الی الموصوف" کی بحث باسانی مل جاتی ہے۔
گزشتہ کل بعض اصحاب علم نے غامدی صاحب کے ایک پچیس سال پرانے عربی خط کی ایک عبارت کو ہدف تنقید بنایا اور اُسے عربی گرامر اور اسلوب کے خلاف قرار دیا۔
ہماری نظر میں یہ اعتراض عربی زبان کے علم سے عدم واقفیت کی بنا پر ہے۔غامدی صاحب کا یہ جملہ نہ عربی زبان کے قواعد کے خلاف ہے اور نہ یہ بات زبان کے معروف اسلوب سے ہٹی ہوئی ہے۔
غامدی صاحب کی عبارت کے الفاظ یہ تھے:''و لیس لی بکم قدیمُ تعارفٍ ولا سالفُ لقاءِِ"" (یعنی، مجھے آپ سے، پہلے کوئی تعارف تھا، نہ کوئی گزشتہ ملاقات رہی) 
اِس پریہ اعتراض کیا گیا کہ قدیمُ تعارفٍ اور سالفُ لقاءٍ غلط ہے اور عربی گرامر کی روشنی میں سے ایسے نہیں کہا جا سکتا۔ 
اِس پر عرض یہ ہے کہ یہاں بھی عربی زبان کے معروف اسلوب کے تحت صفت کی اضافت موصوف کی جانب کردی گئی ہے، جیسے ،قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کی گئی ہے اور جو کہ کلام عرب میں معروف ہے ۔اصل میں یہ موصوف اور صفت ہیں ،یعنی" تعارف قدیم" اور" لقاء سالف"۔لیکن جب عربی کے معروف و معلوم اسلوب کے تحت صفت کی اضافت موصوف کی جانب کی گئی تو قدیمُ تعارفٍ ولا سالفُ لقاءِِ ہو گیا۔ اس پورے جملے کی گرامیٹیکل تالیف کچھ یوں ہے:

لیس (فعل ناقص) ،لی (خبر مقدم)، بکم(جار مجرور متعلق بالاسم الموخر)، قدیمُ(لیس کا اسم موخر،صفت ،مضاف)،
تعارفٍ (مضاف الیہ ،اصلا، موصوف)،اسی پر عطف سالفُ (اسم موخر،صفت،مضاف) ، لقاءِِ( مضاف الیہ،اصلاموصوف)


یہ بات اگرچہ نئی نہیں ہے،دنیا کی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب کبھی انسان نے کسی بھی میدان میں پہلے سے قائم شدہ تصورات کو چیلنچ کرنا چاہا تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس کی بات کو آگے بڑھ کر محض اس کی دلیل کی بنیاد پر قبول کر لیا گیا ہو۔

قائم شدہ تصورات محض کسی علمی مقدمے کا نام نہیں ہوتے ،یہ تصورات صدیوں کے سفر سے ایک تہذیب وجود میں لاتے ہیں ،وہ تہذیب کچھ ہیروز بناتی ہے ،وہ ہیروز اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں، انسانوں کی بڑی تعدار اس پہچان سے خود کو جوڑتی ہے، اس سے ایک عصبیت وجود میں آتی ہے ، یہ عصبیت ان ہیروز کو تقدس فراہم کرتی ہے،اس تقدس سے عقیدتیں جنم لیتی ہیں، وقت گزرتا ہے تو افراد کے ساتھ ساتھ ان عقیدتوں کو کرامات اور بشارتوں کی غیبی تائید بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت کو ہزار بارہ سو سال تک نسلوں کی تعلیم و تربیت کا حصہ بنایا جائے ، تو اس کا ایک سماجی ظھور ہوتا جو اس عہد کے لٹریچر،ثقافت اور رہن سہن سب میں نمایاں ہوجاتاہے، اس سے ایک رویہ پیدا ہوتا ہے۔یہ رویہ عقل کو ایک خاص ماحول میں جینے کا عادی بناتا ہے۔وہ ماحول "تقلید" کا ماحول ہوتا ہے ۔جہاں انسانی عقل کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تہذیبی روایت سے ملنے والے تصورات پر قطعی یقین رکھے۔چنانچہ اب علم کا سفر سوچنے سمجھنے ،تجزیاتی مطالعے یا تحقیق و تنقیح کا نہیں بلکہ صرف اس حق کے ابلاغ کا ہوتا ہے،جس کے حق ہونے کے خلاف ہر دلیل آپ سے آپ باطل تصور ہو۔

اس پوری بات کو اس تہذیب کے ایک بڑے عالم نے ایک جملہ میں یوں بیان کیا کہ "اگر سورج کی طرح روشن دلیل بھی تمھارے سامنے آجائے تب بھی اپنی اجماعی روایت سے روگردانی نہ کرنا".

اس طرح کے ماحول میں اگر "جاوید احمد غامدی" صاحب جیسا انسان پیدا ہوجائے جو ان قائم شدہ تصورات کے حصار سے نکل کر سوچے، ان اعتقادات کا اسقام واضح کرے، اس عقیدت کے قصر توڑ ڈالے،حقائق کا میرٹ کی بنیاد پر جائزہ لے،جسے علمی اعتبار سے مضبوط سمجھے قبول کرے، اور جو دلیل کمزور محسوس ہو اسے رد کردے، تحقیق کے اس سارے عمل میں اس کی توجہات کا مرکز یہ ہو کہ دماغ کو خالی کر کے اور خارجی اثرات سے بے نیاز ہو کر اصل بات سمجھنی ہے،اور پھر وہ طویل علمی ریاض سے اسے سمجھے، اس مانے ہوئے مقدمے کی غلطی بھی واضح کردے، پھر یہی نہیں بلکہ خدا کے دین کے اس تصور کو بھی پیش کردے جو اس کی نظر میں درست ہے، اور اہل علم کو دعوت دے کہ آئیے ! تلاش حق کے اس سفر میں طالب علم بن کر شریک ہو جائیں۔اور غیر جانب داری سے ان حقائق کا جائزہ لیں جنھیں ہم سے پہلے انسانوں نے سمجھا تھا!

تو کیا خیال ہے ہماری یہ تہذیبی روایت اس انحراف کو خوش دلی سے قبول کر لے گی۔ تاریخ بتاتی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔جب غامدی صاحب نے ان قائم شدہ تصورات کو دلیل و حجت کی بنیاد پر چیلنج کیا تو مخاطبین نے اسے ٹھنڈے پیٹوں قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔
لہذا کسی نے ان کے قول قدیم اور قول جدید کے تضادات سے علمی ناپختگی ثابت کرنی چاہی تو کسی نے ان کی عربی تحریر میں غلطیاں نکال کر لوگوں کو متوحش کرنے کا سوچا! 
کیا یہ سب کچھ ایک ایسے انسان کے لیے غیر متوقع ہے جس نے علم سے تہذیب کے جذبات کو چیلنج کر دیا ہو؟ 
جس ماحول میں عقل، قائم شدہ تصورات کے علاوہ کچھ سننے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے وہاں ایسی ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لیکن اگر عقل و خرد کی بنیاد پر غور کیا جائے تو کیا یہ بات کہی بھی جا سکتی ہے کہ اس کے قول قدیم اور جدید میں فرق ہے!

کیا اس دنیا میں کبھی ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کسی ماں نے یکایک ایک جوان رعنا کو جنم دیا ہو۔ وہ دنیا میں آتے ہی اپنے علم و ہنر کے بل پر کسب معاش میں مصروف ہوگیا ہو،تحقیقی مقالات لکھنے لگا ہو، ایجادات کرنی شروع کردی ہوں۔ایسا ممکن نہیں ،اگر نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی سماج میں ایک انسان آنکھ کھولے ،اس میں موجود علما،دانشوروں سے علم سیکھنے کا آغاز کرے اور وہ اپنے ماحول میں موجود افکار سے متاثر نہ ہو،اس کا حصہ نہ بنے ،تو کیا وہ اپنی تعلیمی زندگی کے آغاز میں ہی اپنی عقل کو پابند کردے کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ کر کسی جزیرے میں جا بسے گا ،وہاں اکیلے زندگی گزار کر غور و فکر کی صلاحیت پیدا کرے گا ،اور جب اس کی فکر پک کر تیار ہوجائے گی تو واپس آکر زمانے میں پیش کردے گا۔

یہ انسان اور اس کی فکری نشو نما کے عمل سے بے خبری ہے۔کسی صاحب علم کی تحقیق کے جواب میں اگر آپ کی مہم یہ ہو کہ پہلے یہ بھی ہماری بات کا قائل تھا،یہ اس کا قول قدیم ہے ،اور یہ جدید ہے، جو باہم مخلتف ہیں، لہذا یہ اس کی علمی نا پختگی کا ثبوت ہے تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ جو آپ اس کے قول قدیم تلاش کر کر لاتے ہیں اور اسے خود سے ہم آہنگ ثابت کرتے ہیں ،تو اس پر آپ کو کس بات کی خوشی ہے ؟اس کا یہ سفر تو آپ کے قائم شدہ تصورات اور آپ کی تاریخ سے انحراف کا سفر ہے ،یہ تو اس کے اپنے علم اور تحقیق کی بنیاد پر ہے۔لھذا یہ کیوں نہیں کرتے کہ آگے بڑھیے، اور اس آدمی کو اپنی بات کا قائل کر لیں جو کل تک آپ کے افکار کو صحیح مان کر کھڑا تھا ،اسے بیان کرتا تھا اس کا دفاع کرتا ہے،لیکن یہ تہذیب ایسا ہرگز نہیں کرتی، اس لیے کہ ایسا کرنے سے پہلے اس امکان کو ماننا ضروری ہے کہ ہماری بات دلیل کی بنیاد پر ہے، اگر دلیل سامنے والے کی مضبوط ہو تو اسے بھی قبول کرنا پڑے گا۔
اسی لیے یہ تہذیب اسے مذاق کا عنوان بناتی ہے، شخصی استخفاف کا موضوع سمجھتی ہے۔کسی کی علمی نا پختگی اور جدت پسندی ظاہر کرنے کے لیے پروپیگنڈے کا ہدف بناتی ہے۔
یہی معاملہ کسی صاحب علم کی زبان میں خامیاں اور غلطیاں تلاش کرنے کا ہے۔کیا دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا بھی ہوا کہ ایک شخص کسی زبان کو سمجھنے کے عمل کا آغاز کرے اور دوسرے ہی دن غالب اور فردوسی بن جائے، ہر انسان گھونٹ گھونٹ زبان سیکھتا ہے، لکھتا ہے، غلطیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں، محاورے بھی اجنبی آجاتے ہیں، ترکیبیں بھی غریب در آتی ہیں، پھر وہ زبان جو مادری زبان نہ ہو اور کوئی اسے اپنے ابلاغ کا ذریعہ بنانا چاہے تو اس میں اس کا اپنا اسلوب اور انداز نمایاں ہونے میں بھی وقت لگتا ہے، ایسے میں کوئی اٹھے اور کہے میٹرک میں فلاں مضمون لکھا تھا اس میں یہ غریب تعبیر استعمال کی، فلاں خط لکھاتھا اس میں بڑا منفرد انداز تھا، لہذا اس شخص کی کسی دینی اور مذہبی رائے کا اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے، تو اس پر عرض ہے کہ کسی دینی رائے کا اعتبار بالکل نہ کیجیے لیکن وہ دینی آرا نوجوانی کے مضامین یا خطوط میں زیر بحث نہیں بلکہ ربع صدی کی تحقیقات پر مشتمل علمی کتابوں میں موجود ہیں۔آئیے ان پر بات کیجیے۔سامنے والے نے پیغمبری کا دعوی نہیں کیا، ممکن ہے کوئی حقیقی علمی غلطی ہو، کسی استدلال میں سقم ہو ، لیکن یہ تہذیب اسے ایسے کبھی پیش نہیں کرے گی، اس لیے کہ علمی آرا کے دلائل کا جائزہ ان مسلمہ علمی بنیادوں پر لیا جاتا ہے، جہاں ایک جگہ ٹھہر کر دلیل سے بات کرنی ہوتی ہے، جسے دو اور دو چار کی طرح ثابت کرنا ہوتا ہے۔،جہاں یہ امکان ماننا ہوتا ہے کہ دلیل اپنی روایت کے خلاف بھی ہو سکتی ہے،لہذا یہ خوف آمادہ کرتا ہے کہ کیوں نہ پروپیگنڈا کر کے اس انسان ہی کو بے وقعت ثابت کر دیا جائے جس نے ہماری روایت کو چیلنج کردیا ہے۔

انسانی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ مرحلہ اسی وقت پیش آتا ہے جب کوئی فکر اپنی محکم بنیادوں پر کھڑی ہو چکی ہو، علم کی دنیا میں اس کی حقیقی پزیرائی ہو اور تہذیبی روایت کے قصر میں بند لوگ ان تصورات کے تسلط اور گھٹن سے آزادی محسوس کرنے لگیں۔

جو لوگ اس آلاو کو پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں، انھیں خبر نہیں ،ان کی پھونکیں اس آگ کو تہذیب کے اس جنگل تک پہنچا رہی ہیں، جہاں اسے پہنچنے میں ابھی شاید کچھ وقت لگنا تھا۔

پھر آپ ذراغور کریں کہ کاپی رائٹس کیا مالی حقوق ہیں؟ تو ان کی نوعیت سے واضح ہوتا ہے یہ مالی نہیں بلکہ ایسے ملکیتی حقوق ہیں کہ جن کا مقصد مال کمانے سے زیادہ علم کی نشر واشاعت کو روکنا ہے۔ آپ ذرا پیٹنٹس (patents) کے قوانین کو دیکھ لیں کہ کیا ہیں؟ پیٹنٹس (patents) کے قوانین کے مطابق اگر کسی شخص نے کچھ ایجاد کیا ہے تو اس ایجاد کا استعمال، اس کی تیاری، اس کی فروخت یہاں تک کہ اس میں بہتری لانے کے لیے اس میں تبدیلی بھی منع ہے، کم از کم بیس سال کے عرصے تک کے لیے۔ تو آپ اس کے مالی حقوق کے تحفظ کے نام پر علم کی نشر واشاعت پر قدغنیں لگا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کی ایک جماعت جو کاپی رائٹس کی قائل ہے، وہ بھی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر کسی شخص کا مقصد علم کی نشر واشاعت ہو اور تجارت نہ ہو تو وہ کسی مصنف کی اجازت کے بغیر بھی اس کی کتاب کی کاپی کر سکتا ہے یا کسی کو دے سکتا ہے۔ شیخ محمد بن صالح العثیمین، شیخ صالح المنجد وغیرہ سے ایسے ہی فتاوی منقول ہیں۔

پیٹنٹس (patents) کے قوانین کے مطابق اگر کسی فارماسوٹیکل کمپنی کے ریسرچر نے کسی بیماری کی کوئی دواء ایجاد کر لی ہے تو اب اس کمپنی ہی کے پاس اس دواء کے ملکیتی حقوق ہیں۔ پس فارماسوٹیکل کمپنی اس کو مہنگے داموں فروخت کریں اور اب وہی کمپنی وہ دواء تیار کر سکتی ہے اور اس کی من چاہی قیمت لے سکتی ہے۔ اب وہ دواء غرباء کی پہنچ سے دور رہے گی، لاکھوں کی اموات ہوں گی لیکن کاپی رائٹس کا قانون زندہ باد۔ بھئی دواء اگر آپ نے بنائی ہے تو بیماریاں بھی تو آپ نے ہی پیدا کی ہیں ناں تو کوئی احسان تو نہیں کیا آپ نے۔ پہلے آپ نے ترقی کے نام پر انڈسٹری لگائی، ہماری آب وہوا، فضاء، پانی اور کھانوں کو زہریلے کیمیکلز سے آلودہ کیا کہ جسے نت نئی بیماریاں پیدا ہوئیں۔ اب ان کا علاج دریافت کر لیا تو اس علاج پر آپ کی اجارہ داری قائم ہے، کمال ہے۔ اور تو اور کوئی ریسرچر اگر یہ چاہے کہ وہ اس دواء پر ہوئی ہوئی ریسرچ پر ریسرچ کر لے تو اس کی بھی اجازت لینی پڑے گی یعنی اب آپ کسی کے بنائے ہوئے فارمولاز پر مزید ریسرچ بھی نہیں کر سکتے کہ اس کی اصلاح کر لیں یا اس سے بہتر فارمولا لے آئیں۔

یہی حال سافٹ ویئر کی انڈسٹری کا بھی ہے کہ آپ کسی سافٹ ویئر میں اس مقصد سے تبدیلی بھی نہیں کر سکتے کہ اس کا پہلے سے اپ ڈیٹڈ یا بہتر ورژن لے آئیں کہ یہ حق صرف اسی حاصل ہے کہ جس نے وہ سافٹ ویئر پہلی مرتبہ بنایا تھا کہ وہی اس میں تبدیلی اور بہتری لا سکتا ہے اوراگر اسے کوئی تبدیلی یا بہتری نہیں سوجھتی تو وہ سافٹ ویئر پڑا رہے، ہمیں اس سے کیا غرض کہ اب اس سرمایہ دارانہ نظام میں اصل مقصد حیات (purpose of life)، سرمایے اور مال میں اضافہ ہے نہ کہ علم وفکر کی نشر واشاعت۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اسی بات کو بنیاد بنا کر کہ کاپی رائٹس کے قوانین سے علم کی نشر واشاعت رک جاتی ہے اور ایجادات کا پہیہ سست پڑ جاتا ہے، کاپی لیفٹ (copy left) کی تحریک چلائی گئی۔

کاپی لیفٹ کی تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ اپنا سافٹ ویئر ڈیزائن کرنے کے بدلے کوئی رقم یا اجرت وصول نہ کریں۔ آپ ضرور کریں کہ یہ آپ کا حق ہے کہ آپ نے محنت کی ہے لیکن اس تحریک اصل مقصد یہ تھا کہ آپ اپنی تصنیف، ایجاد اور اختراع پر اجرت لینے کے ساتھ ایسے حقوق کا دعوی نہ کریں کہ جس سے علم کی نشر واشاعت کو نقصان پہنچے۔ لہذا فری سافٹ ویئر فاؤنڈیشن نے جی این یو (GNU) کے نام سے ایک آپریٹنگ سسٹم بھی بنایا کہ جس کے کوئی کاپی رائٹس نہیں تھے اور بعد میں لینکس (LINUX) کے کاپی رائٹ فری ورژن میں اس کے کمپونینٹس کو استعمال بھی کیا گیا۔

تو علم تو اصل میں وکی پیڈیا کی طرح انسانوں کی ایک مشترک میراث تھی اور ہے لیکن کچھ لوگوں نے اسے ذاتی میراث بنا لیا ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ علم کسی کی ذاتی میراث نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے، یہ مقدمہ ہی غلط ہے۔ آپ اپنی محنت اور خدمت کی اجرت لے سکتے ہیں لیکن اپنی ایجاد اور تصنیف کے پیچھے موجود علم کی وراثت نہیں۔ مطلب آپ کہتے ہیں کہ سائنس اور سائنسی ایجادات میں نیوٹن اور اس جیسے سینکڑوں سائنسدانوں کا تو کوئی ملکیتی حصہ نہیں ہے جو سائنس کے ابا جی تھے لیکن آج کل کے چھوکروں کو تمام ملکیتی حقوق حاصل ہیں کہ جنہوں نے سائنس کی عمارت کی چھت کا صرف پلستر سیدھا کیا ہے۔ اور یہی حال علوم اسلامیہ کا بھی ہے کہ ان اسلامی علوم کی چودہ صدیوں میں کھڑی ہونے والی عمارت کی تعمیر میں آج کے محققین کا کتنا حصہ ہے کہ وہ اس عمارت کی چھت کے پلستر پر ملکیتی حقوق کا دعوی کر رہے ہیں۔

تو بات یہ بھی ہے کہ میں نے بازار سے ایک کتاب خریدی ہے، اس کی قیمت ادا کی ہے۔ اب یہ کتاب میری ملکیت ہے، میں اس کا جو مرضی کروں۔ میں اسے کسی کو آگے بیچ دوں، میں اس کو پھاڑ دوں، میں اس کو کسی دوست کو تحفے میں دے دوں، میں اسے لائبریری میں رکھوا دوں۔ اب میں اس خریدی ہوئی کتاب کو اگر پبلک لائبریری میں رکھوا دیتا ہوں تو مصنف کو مالی نقصان ہو گا یا نہیں؟ تو نقصان ضرور ہو گا کہ لائبریری میں وہ کتاب ہزاروں لوگوں کی رسائی میں ہو گی تو وہ کتاب نہیں خریدیں گے۔ تو اب کتاب کو لائبریری میں رکھوانے پر بھی پابندی کا قانون بنوا لینا چاہیے کیا؟ تو اس قسم کی دلیلیں کاپی رائٹس کے حق میں دی جاتی ہیں۔

اچھا یہ بتلائیں کہ جب آپ نے کتاب بیچی ہے تو کس چیز کی قیمت وصول کی ہے؟ گتے، کاغذ اور روشنائی اور کتابت کی یا کتاب میں موجود مواد کی۔ اگر پہلی چیز کی قیمت وصول کی ہے تو ذرا بغیر مواد کے خالی صفحات کی کتاب فروخت کر کے دیکھیں؟ اور اگر دوسری چیز کی قیمت وصول کی ہے تو بغیر گتے، کاغذ، روشنائی اور کتابت کے ذرا علم کا سودا کر کے دیکھیں۔ تو در اصل آپ نے دونوں چیزوں کی قیمت وصول کی ہے۔ بھئی آپ نے مجھے وہ کاغذ، گتا اور روشنائی بھی بیچی ہے اور اس کتاب میں موجود مواد بھی بیچ دیا۔ آپ اپنا علم بیچ چکے، اب یہ آپ کا نہیں رہا، اب یہ میرا علم ہے۔ اب آپ کی پچ (pitch) پر بات ہو رہی ہے۔ [جاری ہے]

انسانی جسم حیرت انگیز معلومات و صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جس کے بارے میں آپ جتنا زیادہ جانیں گے، اتنے ہی حیران ہوتے جائیں گے۔ 

آج ہم آپ کو انسانی جسم سے متعلق ایسے ہی کچھ حیران کن حقائق سے آگاہ کرنے جارہے ہیں جن سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔

جلد

کیا آپ جاتتے ہیں آپ کے بستر کے نیچے جمع زیادہ تر مٹی، آپ کی مردہ جلد ہوتی ہے جو سونے کے دوران جھڑتی ہے۔

ہڈیاں

ایک ننھے بچے میں عام انسان کی نسبت 60 ہڈیاں زیادہ موجود ہوتی ہیں یعنی کل 350 ہڈیاں۔ نشونما کے دوران کچھ ہڈیاں آپس میں جڑتی چلی جاتی ہیں جس کے بعد بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک انسان میں 206 ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں۔

پلکیں

ہماری پلکوں میں نہایت ننھے ننھے کیڑے یا لیکھیں موجود ہوتی ہیں۔

دانت

دانت ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو کسی نقصان کی صورت میں خود سے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔

دماغ

جب ہم نیند سے جاگتے ہیں تو ہمارے دماغ کی توانائی سے ایک ننھا سا لائٹ بلب باآسانی روشن کیا جاسکتا ہے۔

ڈی این اے

اگر ہمارے جسم کے اندر موجود ڈی این اے کو کھول کر سیدھا کیا جائے تو یہ 10 ارب میل کے فاصلے پر محیط ہوگا، یعنی اس کی لمبائی زمین سے سیارہ زحل تک اور پھر واپس زمین جتنی ہوگی۔

سانس لینا

انسان وہ واحد ممالیہ جانور ہے جو بیک وقت سانس لینے اور نگلنے کا کام نہیں کرسکتا۔

ڈائٹنگ

ڈائٹنگ کرنے والے افراد کا دماغ غذا کی کمی کے باعث اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے۔

موت

انسانی جسم کی موت کے 3 دن بعد وہ انزائم جو زندگی میں آپ کا کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں، وہی انزائم مردہ جسم کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔

بادام وٹامن ای ، میگنیشیم اور پروٹین حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس میں موجود صحت بخش فیٹی ایسڈز ، فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹ امراض قلب سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ ہمارے بڑے بچپن میں ہمیں روزانہ صبح سات بادام کھانے کا مشورہ دیتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بادام ذہن کو تیز کرنے میں معاون ہوتے ہیں ۔ ویسے تو بادام سارا سال ہی کھائے جاتے ہیں لیکن سردیوں میں انھیں کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔ غذائیت سے بھرپور بادام صحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ بادام کے چند چیدہ چیدہ فوائد و خصوصیا ت مندرجہ ذیل ہیں :

ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید

بادام میں موجود صحت بخش فیٹس ذیابیطس کے مرض سے بچاؤ کے لیے انتہائی فائدہ مند ہیں ۔ اس کے علاوہ میگنیشم بھی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور اکثر افراد میگنیشم کی کمی کی وجہ سے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ جسم میں میگنیشم کی تعداد بڑھانے کے لیے بادام کا استعمال مفید ہے ۔ بادام نہ صرف ٹائپ 1بلکہ ٹائپ 2ذیابیطس کے مریضوں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں ۔

بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں معاون

میگنیشیم بلڈ پریشر لیول کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ بادام کے استعمال سے جسم کو اتنا میگنیشیم مل جاتا ہے جو بلڈپریشر کنٹرول میں رکھنے کے لیے کافی ہے ۔ ہائی بلڈ پریشر یا ہائپر ٹینشن دل کے دورے یاگردوں کی خرابی کاباعث بنتے ہیں ۔ میگنیشم کی کمی ہائی بلڈ پریشر کی وجہ بن سکتی ہے چاہے آپ کا وزن زیادہ ہو یا نہ ہو ۔ چونکہ ہماری روز مرہ کی غذا جسم کی میگنیشیم کی ضرورت کو پورا نہیں کر پاتی اس لیے اس میں بادام شامل کرنے سے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے ۔

وزن کم ہوتا ہے

جی ہاں ! بادام کے استعمال سے وزن کم کیا جاسکتاہے ۔ بادام میں کچھ غذائی اجزا ایسے ہوتے ہیں جو جسم میں آسانی سے گھل نہیں پاتے جس کے باعث بادام کھا کرہمیں کافی دیر تک بھوک نہیں لگتی اور ہم دن میں کم کیلیریز استعمال کرتے ہیں ۔ کئی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بادام کو اپنے ڈائٹ پلان میں شامل کرنے والے افراد کا وزن ان لوگوں کے مقابلے جلدی کم ہوتا ہے جو بادام نہیں کھاتے ۔ 

دل کے لیے فائدہ مند

ایک تحقیق کے مطابق 1.5 اونس بادام ا ور دیگر تمام ڈرائی فروٹس کا روزانہا ستعمال امراض قلب کے خطرات کافی حد تک کم کر دیتا ہے۔ بادام میں موجود غذائی اجزا دل کو طاقتور بناتے ہیں ۔ بادام دل کے دورے اور ہائپر ٹینشن کے خطرات کو کم کرتا ہے ۔ اسے سے کولیسٹرول بھی کنٹرول میں رہتا ہے ۔

ذہن تیز کرتا ہے

بادام کی یہ خصوصیت تو ہم سب نے ہی سنی ہوگی ۔ بادام کے اندر موجود غذائی اجزا ذہن کی نشونما کرتے ہیں ۔ ان کے استعمال سے آپ کی ذہنی کارکردگی اور صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بادام میں موجود ایل کارنیٹائن اور ریبوفلیون دو ایسے اجزا ہیں جو بڑھتی ہوئی عمر میں انتہائی فائدہ مند ہوتے ہیں ۔ بادام کا استعمال ایلزائمرز جیسے ذہنی امراض سے بچاتا ہے ۔ ذہنی ماہرین کا کہنا ہے کہ بادام یا بادام کے تیل کا استعمال اعصابی نظام کو درست رکھتا ہے ۔

ہڈیاں مضبوط رکھتا ہے

بادام سے حاصل ہونے والے وٹامنز اور معدنیات ہڈیوں کے لیے بے حد مفید ہیں ۔ اس کے علاوہ بادام سے جسم کو فاسفورس بھی حاصل ہوتا ہے جس سے ہڈیوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بادام کے روزانہ استعمال سے انسان بڑھتی ہوئی عمر میں ہونے والی ہڈیوں کی بیماریوں جیسے آسٹیوپروسس سے بھی محفوظ رہتا ہے ۔

جلد نکھارتا ہے

بادام سے جلد کو حاصل ہونیوالے فائدے کسی سے چھپے نہیں ۔ یہ نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں کی جلد کے لیے بھی انتہائی فائدہ مند ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر نوزائیدہ بچوں کی بادام کے تیل سے مالش کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ بادام کا تیل اکثر صابن اور فیس واش میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس سے جلد نکھرتی ہے اور داغ دھبے بھی کم ہوتے ہیں ۔

قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے

انسان کا مدافعاتی نظام طاقتور ہو تو وہ تمام تر بیمیاریوں و نقصان دہ جراثہم سے محفوط رہتا ہے ۔ بادام کااستعمال قوت مدافعت میں واضح اضافے کا باعث بنتا ہے ۔ اس میں موجود قلوی مادہ (alkaline material) ساتھ ہی وٹامن ای جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں اہم کردارا دا کرتے ہیں ۔ دیگر قدرتی غذاؤں کی طرح بادام کے بھی کچھ نقصانات ہیں ۔ بدام کے اندر آکسیلیٹس ہوتے ہیں جو اگر جسم میں جمع ہونے لگیں تو صحت پہ منفی اثرات ڈا ل سکتے ہیں ۔ اسی لیے وہ لوگ جن کے گردے یا پتے میں پتھری ہو بادام کا استعمال نہ کریں ۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں کو اس سے الرجی بھی ہوجاتی ہے ۔ اگر آپ کو بادام سے الرجی ہو تو آپ کو بادام یا بادام کے تیل میں بنی کوئی بھی چیز استعمال نہیں کرنی چاہیے ۔ بادام کو ان کے چھلکوں سمیت کھانا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے ۔ بادام ہر عمر کے فرد کے لیے مفید ہیں۔ اگر اپنی جسمانی وغذائی ضروریات کو سمجھتے ہوئے بادام کااستعمال کیا جائے تو ہم اس سے بے شمار فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

badam ke nuksan in urdu nihar munh badam khane ke fayde badam ka istemal in urdu badam ke fayde badam khane ka sahi tarika in urdu badam ki taseer in urdu badam health benefits in urdu badam khane ka tarika in urdu Page navigation

دوا اور زہر میں تھوڑا ہی فرق ہوتا ہے وہ بھی صرف مقدار کا ۔اگر دوا زیادہ مقدار میں استعمال کی جا ئے تو وہ زہر بن جاتی ہے،چاہے وہ قدرتی اشیاء سے ہی کیوں نہ بنی ہو۔

ڈسپرین خون کو پتلا کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ہائی بلڈ پریشر والوں کے لئے فائدہ مند ہے۔لیکن مستقل اور مسلسل استعمال سے معدے اور گردے کے امراض لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

ڈسپرن میں موجود اسپرین جوکہ این ایس اے آئی ڈیز گروپ سے تعلق رکھتا ہے جسم میں موجود درد پیدا کرنے والے عنصر سائیکلو آکسیجنی انزائم کو بڑھنے سے روکتا ہے۔ایک ڈسپرن میں تیرہ سو ملی گرام اسپرن پایا جاتا ہے۔

ڈسپرن کیوں استعمال کی جاتی ہے ؟

  1. سر درد ،مائگرین ،دانت کے درد اور ماہواری میں ہونے والے درد کو دور کرنے کے لئے۔
  2. بخار اور اس میں ہونے والے درد کو ختم کرنے کے لئے۔
  3. کمر ،جوڑوں اور پٹھوں کے درد میں ۔
  4. دل کی تکلیف میں ابتدائی طبی امداد کے طور پر۔

ڈسپرن استعمال کرنے کا صیح طریقہ

  1. جسم کے درد میں کمی لانے کے لئے اور بخار میں ایک دن میں تیرہ سے زیادہ ڈسپرن نہیں لی جا سکتیں۔
  2. نوجوا ن اور بوڑھے افراد آٹھ گھنٹے میں ۱ سے ۲گولیاں لے سکتے ہیں ۔
  3. ۶ سال سے کم عمر افراد ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر استعمال نہ کریں۔
  4. دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں ایمبولینس کے آنے کے انتظار کے دوران ایک ڈسپرن دل کی شریانوں میں خون کا بہاؤ پتلا کرنے کے لئے دی جا سکتی ہے۔
  5. ڈسپرن لینے کا صیح طریقہ اسے پانی میں حل کرنا ہے۔
  6. ڈسپرن ہمیشہ کھانا کھانے کے بعد لینی چاہئے۔خالی پیٹ ڈسپرن کھانے سے معدے کے خراب ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

خطرات اور نقصانات

  1. سر درد میں یکے بعد دیگرے ڈسپرن کا استعمال درد کو مزید بڑھا دیتا ہے ۔
  2. یوں تو ڈسپرن ہر مزاج کے فردکے لئے موزوں ہے،مگر بعض اوقات طویل عرصہ تک اس کے استعمال سے معدے اور آنتوں میں سوزش کی شکایت ہو سکتی ہے ۔کبھی کبھی اُلٹی میں بھی خون آجاتا ہے ۔یہ اس صورت میں زیادہ ہوتا ہے جب مریض درد میں بے تحاشہ ڈسپرن خالی پیٹ استعمال کر لے۔
  3. عام طور پر ڈسپرن کا منفی اثر ہاضمہ پر پڑتا ہے اور مریض کے پیٹ میں معمولی درد ہو سکتا ہے۔
  4. الرجی ،ایکزما اور سانس کی بیماری شکار افراد کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ڈسپرن استعمال کرنی چاہئے۔
  5. کچھ لوگوں میں ڈسپرن کے استعمال سے ناک ،ہونٹوں یا جسم کے کسی حصہ پر سوجن یا خارش ہو سکتی ہے۔
  6. جگر اور گردوں کے شدید امراض میں مبتلا افراد کے لئے ڈسپرن مناسب نہیں۔

ڈسپرن کے فائدے

سر درد

سر درد کی مختلف اقسام کے لئے مجرب فارمولا ہے۔لیکن ایسے سر درد جو کسی بیماری کی وجہ سے ہوں ڈسپرن ان کے لئے موزوں نہیں ۔عام طور پر صدمے ،اُلجھن یا ذہنی بیماری سے پیدا ہونے والے سر درد میں ڈسپرن کام نہیں کرتی مگر بخار کے سر درد میں اور مایگرین شروع ہوتے ہی ڈسپرن لینے سے آرام آجا تا ہے۔

جلد کے امراض

ڈسپرن جلد کے امراض (ایکنی، جھریوں ،اور داغوں ) کیلئے مفید ہے۔ ڈسپرن کا ماسک بنایا جاتا ہے ( پانچ گولیاں ڈسپرن پسی ہوئی ، ایک چمچ دہی ، ایک چمچ شہد )کا ماسک جلد کے کھردرے پن کو ختم کرتا ہے۔اور ایکنی پیدا ہو نے سے روکتا ہے۔

ڈسپرن اور کینسر

آکسفرڈ یو نیورسٹی کے پروفیسرپیٹر راتھ ولجو کہ دنیا میں اسپرن پر تحقیق کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں اُن کے مطابق ایک اسپرن اگر روز استعمال کی جائے تو وہ بہت سے ممکنہ کینسر کو حملہ کرنے سے روکنے کا کام کرتی ہے، جیسے چھاتی کا کینسر۔

کیڑوں کے کا ٹے کی تکلیف سے نجات

مچھر ،یا شہد کی مکھی کے ڈنک سے ہونے والی سو جن کو کنٹرولکرنے کے لئے ڈسپرن کی ایک گولی کو متاثرہ حصہ پر آستہ مالش کی طرح رگڑنے سے درد میں نمایاں کمی آجاتی ہے اور سوجن بھی کم ہو جاتی ہے۔


کل رات گیارہ بجے کے قریب ڈرائیور اور ایک ملازم ٹریکٹر ٹرالی پر گیارہ ڈرم ڈیزل اور دو ڈرم پانی لے کر حاصل پور سے عازم گاوں ہوئے ۔۔۔ راستے میں پٹرولنگ پولیس قائم پور چوکی کے شیر جوان نائٹ شفٹ انچارج مدثر نے ٹریکٹر روک کر ڈرائیور اور ملازم سے چائے پانی کی درخواست کی۔

ان دونوں ناہنجاروں نے وہ درخواست بوجہ خالی جیب ریجیکٹ کردی بالکل ویسے ہی جیسے میری ہر ان بوکس کی گئی کوشش کو لڑکیاں ریجیکٹ کر دیتی ہیں۔ ان پولیس والوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ جن سے پیسے مانگ رہے ہیں وہ خود امب کے ملازم ہیں۔

خیر اس شفٹ انچارج صاحب نے اس درخواست کی ریجیکشن کا برا مناتے ہوئے رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب پرچہ درج کرکے ڈرائیور کو حوالات میں بند اور ٹریکٹر ٹرالی بمع مولانا ڈیزل تھانہ قائم پور ضلع بہاولپور میں بند کرکے ملازموں کے موبائل بھی بند کروا کر منشی تھانہ کے پاس جمع کروا دئیے۔

ادھر امب صاحب ساری رات تارے گنتے اور گیدڑ بھگاتے رہے ۔۔۔ دل میں عجیب عجیب وسوسے آتے رہے کہ ٹریکٹر چل تو پڑی تھی ہنوز منزل مقصود پر نہ پہنچی۔۔۔ بالآخر رات دو بجے ڈرائیور نے بذریعہ منشی ساری واردات کی اطلاع پہنچائی کہ آج چن ماہی کے مہمان بن گئے ہیں۔

صبح تھانے پہنچے تو پتہ چلا ناہنجار ٹریکٹر پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس کی ایک آنکھ بند تھی۔۔۔ ہمیں حیرت کا جھٹکا لگا کہ لائٹیں تو جل رہی ہیں مگر سرکار کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ پانی کے ڈرموں کو ایف آئی آر میں کیمیکل لکھا اور پکارا جا چکا تھا۔ اور ٹرالی میں گرے پانی کو ڈیزل لیکیج بنا کر تگڑی ایف آئی ار درج کی جا چکی تھی۔
سارا دن کی مارا ماری کے بعد ڈرائیور کی ضمانت اور ناہنجار ٹریکٹر ٹرالی کی سپرداری کا مرحلہ طے کیا گیا۔ پانچ ہزار وکیل کی فیس، ایک ہزار روپیہ تھانہ منشی کی فیس اور ایک ہزار روپیہ نکے تھانیدار عبدالرزاق کے بچوں کے فروٹ کے لیے اور تقریبا دو ہزار روپے عدالتی اخراجات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں۔
کہ اس پولیس سے جان بچانے والے مشن کے چار اہم اور مسلمہ اصول ہیں جومندرجہ ذیل ہیں۔

  1. پولیس والا جس مرضی وردی میں ہو۔۔۔ ہوتا خرامی ہے۔۔۔۔
  2. ہمیشہ ڈرائیور کی جیب میں 100 روپیہ موجود ہونا چاہیے ۔۔۔
  3. ڈیزل بےغیرت ہر جگہ ذلیل کرواتا ہے۔۔۔
  4. زمیندار کو اب عزت کے ساتھ خود کشی کر لینی چاہیے۔۔۔


اس وقت تقریباً ہر انٹرنیٹ استعمال کرنے والا فیس بک ضرور استعمال کرتا ہے۔ فیس بک کے بارے میں تو سبھی کو پتا ہے لیکن اس کی پرائیویسی سیٹنگز کے بارے میں لوگ کم ہی جانتے ہیں۔ فیس بک پر کچھ اپ لوڈ کرتے ہوئے، لکھتے ہوئے یا لائیک وغیرہ کرتے ہوئے انھیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا اس کی خبر کس کس کو ہو رہی ہے۔ فیس بک پر آپ جو کچھ بھی لائیک کرتے ہیں یا پوسٹ کرتے ہیں وہ ایک لمبے عرصے تک دوسروں کے سامنے رہتا ہے۔

فیس بک پر ہر کسی کہ کچھ نہ کچھ معلومات ضرور Public ہوتی ہے یعنی اس معلومات کو وہ لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں جو اُن کے فیس بک پر دوست نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ دوست تو وہ معلومات بھی دیکھ سکتے ہیں جس کا آپ کو اندازہ نہیں ہوتا بلکہ آپ سمجھ رہے ہوتے ہیں اس کی آپ کے علاوہ کسی کو خبر نہیں۔

فیس بک پر آپ کے بارے میں کون کون سی باتیں پبلک ہیں یہ جاننے کے لیے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھنگالنا پڑتا ہے جو کہ ایک مشکل کام ہے۔ اسے آسان بنانے کے لیے آپ ’’اسٹاک اسکین‘‘ ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں:


اس ٹول کی مدد سے آپ اپنی اور کسی کی بھی فیس بک پروفائل پر پبلکلی شیئر کردہ معلومات باآسانی اور فہرست وار دیکھ سکتے ہیں۔ آپ جس کی پروفائل دیکھ رہے ہوں اگر وہ آپ کا دوست ہو تو آپ مزید دلچسپ معلومات یہاں دیکھ سکتے ہیں مثلاً اس کی ماضی میں لائیک کردہ تمام تصاویر، اُس نے کن کن مقامات پر چیک اِن کیا، کون کون سی گیمز کھیلی وغیرہ۔

فیس بک ویسے اس طرح کی سروسز کو پسند نہیں کرتی اور ہمیشہ یہ کچھ عرصے بعد بند ہو جاتی ہیں لیکن اس بار دیکھنا ہے کہ یہ ویب سائٹ کتنے عرصے تک چلتی ہے کیونکہ بظاہر یہ فیس بک کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔

1982 میں فریضہ حج ادا کرنے چلے تو والدہ ماجدہ جی نے شفقتِ مادری کے ہاتھوں مجبور ھو کر میٹھے آٹے کی ٹکیاں تھیلا بھر بنا دیں ، جنہیں میٹھی ٹکیاں پنجاب والے کہتے ھیں ،ھم پہاڑیئے ان کو میٹھی گوگیاں کہتے ھیں ،، غالباً امی جی نے بھی نام ھی سنا تھا میٹھی ٹکیوں کا ، کبھی بنانے کا تجربہ انہیں نہیں ھوا تھا ، اولاد کی محبت میں غالباً پہلا تجربہ تھا کہ گھی بہت کم اور گرم مصالحہ یعنی کہ زیرہ زیادہ تھا- یہ ٹکیوں کی باٹا قسم تھی ،، اس زمانے میں راستے میں ھوٹل بہت کم اور دور دور واقع تھے ، آج کل تو قدم قدم ریسٹ رومز اور پیٹرول پمپ بن گئے ھیں ،،،،،،،،،،،،،،،، بس نے جب کوئی دو سو کلومیٹر سفر کر لیا تو ھم نے پہلی ٹسیٹ گوگی استعمال کی جو گوگی کی بجائے گُگلی ثابت ھوئی گوگی منہ کے اندر چلی تو جاتی تھی مگر اس کے بعد آگے چلتی نہیں تھی ۔
بلکہ اسی جگہ پھنس جاتی تھی ،، ھم نے ایک گوگی کو دو تین گلاس پانی کے ساتھ کھانے کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ ٹکیاں کھانے کی بجائے اکرامِ مسلم کرنے کے قابل ھیں ، چنانچہ ھم نے ایک ایک ٹکی چودہ پندرہ سواریوں میں تقسیم کر دی ، جس کے بعد بس میں بات چیت کی آوازیں بند ھو گئیں ،، غالباً لوگوں کے منہ تھک گئے تھے ان ٹکیوں کو آگے پیچھے کرنے کی جدوجہد میں ،،،،،،،،،،، مزید 100 کلومیٹر کے بعد ھم نے پھر ایک ایک ٹکی پیش کرنے کی کوشش کی مگر جس کے آگے ٹِکی پیش کرتے ، وہ منہ سے کچھ بولنے کی بجائے ہمیں گھور کر منہ دوسری طرف کر لینا زیادہ پسند کرتا، صرف گوجرانوالے دوست نے ھاتھ باندھ کر معافی مانگی ،، بس بھائی بس، توبہ تیری گوھگی کولوں ،، گوگی کو چونکہ انہوں نے جھٹکے سے ادا کیا تھا اس لئے ھم نے بھی وہ جھٹکا تحریر میں منتقل کیا ھے ،،۔
اس زمانے میں امارات سے بس پہلے قطر بارڈر میں داخل ھوتی تھی جہاں اِن آؤٹ ھو کر پھر سعودیہ میں داخل ھوتے تھے،، قطر ایمیگریشن پہ لائن لگی ھوئی تھی ،، حج سیزن تھا تو مسافروں کی طویل لائنیں لگی ھوئی تھیں ھماری لائن کے بائیں جانب خالی میدان میں ایک گدھی بیٹھی ھوئی تھی ، اسے دیکھتے ھی ھمارے تخلیقی ذھن نے ایک آئیڈیا پکڑ لیا ، میں نے ساتھ والے سے کہا کہ میری جگہ محفوظ رکھنا اور بس میں سے 10 بارہ ٹِکیاں کندورے کی دونوں سائڈ والی جیبوں میں ڈال کر لے آیا ،،،،،، لائن میں لگ کر میں نے کھوتی کو انٹرنیشنل زبان میں پچکارا ،، پہلی بچکاری پہ گدھی نے کچھ یوں بیزارگی سے مڑ کر دیکھا جیسے زبانِ حال سے کہہ رھی ھو کہ " تمہیں اٹھکیلیاں سُوجھی ھیں ،ھم بیزار بیٹھے ھیں " مگر دوسری پچکاری کو اس نے سنجیدگی سے لیا اور اٹھ کر کھڑی ھو گئ ،، تیسری پچکاری پہ نہ صرف ھمیں Locate کیا بلکہ سیدھی ھمارے پاس آ گئ جس پر بہت سارے دوستوں نے ناقابلِ اشاعت ریمارکس بھی دیئے ، ھم نے میٹھی گوگی نکال کر سلامی کے طور پر پیش کی جسے اس نے نہایت بردباری سے وصول کیا ، بلکہ گوگی سے پہلے ھمارے ھاتھ کو چومنے کے انداز میں سونگھ کر پھر میٹھی ٹکی کو دونوں ھونٹوں سے وصول کیا ،،،،،، اب گدھی ھماری لائن کے ساتھ ساتھ Move کر رھی تھی ، اور اس کے پیچھے اضافی لائن بھی بننا شروع ھو گئ تھی ،،،،،، شرطے نے جب اپنی پڑوسن کو یوں لائن میں لگے دیکھا تو پریشان ھو گیا وہ کیبن میں سے نکل کر باھر آیا گدھی کو ڈانٹ کر اس کی جگہ پہنچایا ،، اور اس کے پیچھے کھڑے لوگوں کو دوسری لائنوں میں بھیج کر واپس کیبن میں چلا گیا ،،،،،،، مگر جب اس نے کیبن میں اپنی کرسی پر بیٹھ کر باھر کی طرف نگاۃ دوڑائی تو گدھی پھر لائن کے ساتھ کھڑی میٹھی گوگی کھا رھی تھی ،،،،،،
 شرطہ پھر باھر آیا اور گدھی کو بھگا کر میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ مجھے دو جو تم اس گدھی کو کھلا رھے ھو ؟ میں نے اسے کہا کہ یار وہ تو یتیم ھے ،مسکین ھے ،بھوکی ھے اس کا حق کھا کر تم کیا کرو گے ؟ اس کو غصہ آ گیا کہنے لگا میں کھانے کے لئے نہیں مانگ رھا ،، میں حیوانات کی خوراک نہیں کھاتا اسے ڈسٹ بن میں پھینکوں گا ،، میں نے کہا کہ یہ تو انسانوں کی خوراک ھے سارے حاجی کھاتے آئے ھیں پوچھ لو ان سے ،، میں نے پہلی دفعہ اپنی بس کے حاجیوں کو باقاعدہ شرماتے دیکھا ،، کھوتی بھی آخر ایمیگریشن والوں کی پڑوسی تھی ،، سنا ھے کہ وکیلوں کے چوھے میں آدھے وکیل ھوتے ھیں ،، وہ کیبن کے پیچھے سے جا کر دوسری جانب سے گھوم کر دو صفوں کے درمیان گھس کر پھر میرے دائیں جانب آن لگی ،،،، میں جو اسے بائیں طرف دیکھ رھا تھا ، اچانک نرم نرم سی کسی چیز کے دائیں طرف لگنے سے چونک گیا ، دیکھا تو وہ نظروں ھی نظروں میں اپنا حق مانگ رھی تھی ،،،، اب سب مسافروں کا موضوع گدھی ھی تھی سب اپنے اپنے بچپن کے واقعات بیان کر رھے تھے جن کی ھیروئین کوئی نہ کوئی گدھی ھی تھی ،، ایک بنگالی کہنے لگے کہ میرے کو بچپن میں بابا نے گدھی کا بچہ بولا ،، امی بھی پیار سے کھوتی کا پتر کہتیں تو میں نے سچ مچ گدھی کو اپنی ماں سمجھنا شروع کر دیا ،، کئ دفعہ ھمیں گدھی کی کھُرلی میں سے سوتے ھوئے اٹھا کر لایا گیا ، ایک دفعہ ڈھاکہ میں ھمارے گھر مہمان آئے تو انہوں نے سب سے ملنے کے بعد ھم کو پیار کیا اور پوچھا یہ کس کا پُتر ھے ،، کسی کے جواب دینے سے پہلے ھم نے خود جھٹ سے بول دیا " گدھی کا " اس دن ھمارا باپ نے ھم کو قسم کھا کر بتایا کہ ھم گدھی کا بچہ نہیں بلکہ امی کا بچہ ھے اور ھم سے وعدہ کیا کہ اب وہ ھم کو کبھی گدھی کا بچہ نہیں بولیں گے،، ھم بہت شرارت کرتا تھا ،، ھمارا باپ کا غصے سے بُرا حال ھوتا ،اس کا چہرہ سُرخ ھو جاتا ، منہ بند ھوتا ،، مگر ھم کو اس کا چہرہ سے پتہ چلتا کہ اس کا ایک ایک انگ چیخ چیخ کر کہہ رھا ھے " کھوتی کا پُتر " مگر وہ اپنے وعدے کا پابندی کیا ،،منہ سے پھر کبھی گدھی کا بچہ نہیں بولا ،، آج ھم کو اپنا باپ کا بہت یاد آیا ،،ھم اس کا حج بدل کرنے جا رھا ھے ،،، وہ انتظار جو لائن میں لگ کر عذاب بن جاتا ھے ، لوگوں کی خوش گپیوں کی وجہ سے پک نک بن گیا مگر اصل حادثہ تب ھوا جب ھم ایمیگریشن سے فارغ ھو کر بس میں بیٹھے اور گدھی بس تک ھمارے پیچھے آئی ،، جونہی ھماری بس چلی تو ملک گلزار ایڈوکیٹ جو چؤا سیدن شاہ سے تعلق رکھتے تھے اچانک بولے ،،،،،،، حافظ صاحب یہ " کھوتیالوجی " کا پیریڈ آپ نے کیسے لگا لیا تھا ،، ان کے اس فی البدیہہ جملےپر بس کِشتِ زعفران بن گئ -

اکثر دوست ہم سے پوچھتے ہیں کہ یو ایس بی فلیش ڈرائیو پر پاس ورڈ کس طرح لگایا جاتا ہے۔ تو آئیے  آپ کو بتاتے ہیں کہ کس طرح باآسانی کسی بھی فلیش ڈرائیو، میموری کارڈ یا حتیٰ کہ سسٹم ڈرائیو پر بھی پاس ورڈ لگایا جا سکتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس کا بندوبست ونڈوز وِستا لے کر ونڈوز 10 میں پہلے سے ’’بِٹ لاکر‘‘ (BitLocker) کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔

آپ جس ڈرائیو پر پاس ورڈ لگانا چاہیں اس پر رائٹ کلک کرتے ہوئے ’’ٹرن آن بٹ لاکر‘‘ کا آپشن منتخب کر لیں۔

بِٹ لاکر پاس ورڈ

اگلے مرحلے پر ونڈوز ڈرائیو کا جائزہ لینے کے بعد پاس ورڈ منتخب کرنے کی اسکرین آپ کے سامنے پیش کر دے گی۔

پاس ورڈ بھولنے کی صورت میں اسے ریکوری کی (Recovery key) کے ذریعے واپس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگلے مرحلے پر اسی حوالے سے بتایا جائے گا کہ آپ ریکوری کی کن کن ذرائع سے محفوظ کر سکتے ہیں۔

دراصل بِٹ لاکر ڈرائیو میں موجود تمام ڈیٹا کو اِنکرپٹ کر دیتا ہے اس لیے اگلے مرحلے پر پوچھا جائے گا کہ آپ پوری کی پوری ڈرائیو کو اِنکرپٹ کرنا چاہتے ہیں یا اس کام کو جلدی نمٹانے کے لیے صرف استعمال شدہ اسپیس کو بھی انکرپٹ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ پاسپورٹ ڈرائیو، یو ایس ڈرائیو یا میموری کارڈ وغیرہ پر پاس ورڈ لگانے جا رہے ہیں تو اگلے مرحلے پر Compatible Mode کو منتخب کریں تاکہ ان ڈرائیوز کو جب کسی دوسرے پی سی پر استعمال کریں تو وہاں بھی درست پاس ورڈ دینے کے بعد انھیں استعمال کیا جا سکے۔

اگر آپ اس کام کے لیے تیار ہوں تو ’’اسٹارٹ انکرپشن‘‘ پر کلک کر دیں۔

انکرپشن مکمل ہونے پر آپ کو اطلاع کر دی جائے گی۔ یاد رکھیں کہ آپ کی ڈرائیو کی اسپیس یا اس میں موجود ڈیٹا کے اعتبار سے اس کام پر وقت لگے گا۔

اب آپ جب بھی اس ڈرائیو کو کھولنے کی کوشش کریں گے تو پاس ورڈ طلب کیا جائے گا

اور درست پاس ورڈ دینے کے بعد ہی اس تک رسائی ملے گی۔

آپ جب چاہیں پاس ورڈ بدل سکتے ہیں یا انکرپشن کو بند کر کے ڈرائیو کو واپس اصل حالت میں بھی لا سکتے ہیں۔


اینیمیٹڈ تصاویر جنھیں ہم جف (Gif) کہتے ہیں آج کل بہت پسند کی جاتی ہیں۔ مختصر سی یہ ہلتی جلتی تصاویر چند سیکنڈز میں پوری کہانی کا خلاصہ بیان کر سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ انھیں جف کی بجائے گف کہتے ہیں لیکن یہ غلط ہے، اس کا اصل تلفظ جِف ہے۔ اگر آپ بھی کسی یوٹیوب پر موجود وڈیو کے کسی منظر کو جِف میں بدلنا چاہتے ہیں تو یہ کام بغیر کسی سافٹ ویئر کے کر سکتے ہیں۔

جف یوٹیوب
یہ بہت ہی آسان ہے، سب سے پہلے یوٹیوب پر اپنی پسند کی وڈیو کھول لیں، اس کے بعد اس یوآریل میں youtube سے پہلے gif لکھ کر انٹر پریس کر دیں۔

آپ خود بخود جِف بنانے والی ویب سائٹ پر پہنچ جائیں گے۔ اس کے بعد یہاں موجود سلائیڈر کی مدد سے وہ جگہ منتخب کریں جسے آپ جِف بنانا چاہتے ہیں۔ یقیناً آپ جانتے ہوں گے کہ جِف تصاویر صرف چند سیکنڈز پر مشتمل ہوتی ہیں، آپ کسی وڈیو کی مکمل جف نہیں بنا سکتے۔

اس کے بعد اوپر موجود Create Gif کے بٹن پر کلک کر دیں۔

اگلے مرحلے پر آپ جِف کا نام اور ٹیگز وغیرہ منتخب کر سکتے ہیں، اگر اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تو براہِ راست نیکسٹ پر کلک کر دیں۔

یوٹیوب ٹو جف

اگلے مرحلے پر آپ کی جف تیار ملے گی۔ آپ چاہیں تو اس کے براہِ راست ربط کے ذریعے اسے فیس بک وغیرہ پر شیئر کر سکتے ہیں اور چاہیں تو ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں۔

ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد آپ چاہیں تو اس تصویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کریں یا پھر دوستوں کو وٹس ایپ وغیرہ پر بھی بھیج سکتے ہیں۔


کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے اسٹوریج کا انتہائی تیزی سے بھرنا ایک معمولی سی بات ہے کیونکہ ہم دن بھر جب کمپیوٹر استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو کئی فائلز ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، جو پروگرام ہم استعمال کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی ونڈوز میں اپنی عارضی فائلز بنا رہے ہوتے ہیں، پروگرامز اور ونڈوز کی اپ ڈیٹس بھی ڈاؤن لوڈ ہو رہی ہوتی ہیں۔

غرض اس دوران اتنے عوامل ہیں جو ہارڈ ڈسک کو بھرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔

اگر آپ ونڈوز 10میں بھرتی اسٹوریج سے پریشان ہیں تو باآسانی کئی جی بی کی خالی اسپیس باآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس کے لیے ونڈوز کی سیٹنگز کھول کر Storage لکھ کر تلاش کریں اور اسٹوریج کی سیٹنگز کھول لیں۔

یہاں آپ دیکھیں تو ایک نیا فیچر Storage Sense کے نام سے موجود ہے یہ فیچر فالتو فائلوں کو ٹھکانے لگا کر خود بخود بھی اسپیس بھرنے سے پہلے ہی خالی اسپیس بنا سکتا ہے۔

اور اگر آپ کسی ڈرائیو جیسے کہ سی ڈرائیو کو صاف کرنا چاہتے ہیں تو اُسے منتخب کر لیں۔ اگلے حصے پر آپ کو دکھایا جائے گا کہاں کتنی اسپیس استعمال ہو رہی ہے۔

اب یہاں اگر کوئی فالتو چیز جیسے کہ گیمز یا Temporary files جگہ گھیرے ہوئے ہیں تو ان کو منتخب کریں اور اگلے حصے میں آ کر ان سب کا قلمع قمع کر دیں اور کئی جی بی کی خالی اسپیس حاصل کر لیں۔

گوگل نے اپنے تمام سروسز کو ہمیشہ بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش جاری رکھی ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ یوٹیوب کا نیا فیچر ’’ڈارک تھیم‘‘ اب سبھی کے لیے دستیاب ہے۔ اسے فعال کرنے کے لیے آپ کو کسی قسم کی پیچیدہ سیٹنگز کی ضرورت نہیں بس درج ذیل ربط کھول لیں:
www.youtube.com/new
اس نئے تھیم میں فالتو چیزیں ہٹا کر وڈیوز کو دیکھنے میں مزید آسان بنایا گیا، یعنی اگر آپ ڈراک تھیم فعال نہیں بھی کریں گے تو یوٹیوب کا نیا ڈیزائن آپ کے لیے فعال ہو جائے گا۔
یہ پیج کھولنے کے بعد "Try it now” کے بٹن پر کلک کر دیں۔
اس کے بعد یوٹیوب کھول کر اپنی پروفائل تصویر پر کلک کرتے ہوئے سیٹنگز میں آئیں تو یہاں ’’ڈارک تھیم‘‘ کو فعال کرنے کا آپشن موجود ہو گا۔
بس اس کے سلائیڈر کی مدد سے اسے فعال کر دیں۔
اگر آپ کو یوٹیوب کا یہ کالا تھیم پسند نہ آئے تو یہیں سے اسے غیرفعال بھی کر سکتے ہیں لیکن یوٹیوب کا نیا ڈیزائن آپ کے پاس موجود رہے گا۔


موسم گرما جب آتا ہے تو اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ آتا ہے ۔موسم گرما summers میں تیزی سے بہنے والا پسینہ جسم میں پانی کی کمی پید اکرتا ہے اور نمکیات کی مقدار کا توازن بگڑ جاتا ہے ۔اس صورت حال میں دل گرم اور چکنی چیزوں کی طرف مائل نہیں ہوتا یوں جسمانی کمزوری بڑھنے لگتی ہے ۔ایسے میں اگر ہلکی صحت بخش غذائیں اور مشروبات استعمال کئے جائیں تو پانی ،نمکیات ملنے کے ساتھ ساتھ جسم کو درکار توانائی بھی مل جاتی ہے ۔

گرمی میں ناشتہ میں پراٹھے کے بجائے پین کیکس ،مینڈ وچ ۔کارن فلیکس لیا جاسکتا ہے ۔دوپہر کے کھانے میں سبزی کی بھجیا کے ساتھ مونگ کی دال ۔چپاتی لی جا سکتی ہے ،ساتھ پلیٹ بھر کر سلاد اور دہی ایک مکمل غذا ہے ۔گرمی میں پودینے کی چٹنی بھی مفید رہتی ہے ۔

1۔چاول

چاولو ں کا مزاج سرد ہوتا ہے ۔پیٹ میں گرمی بھرنے پر اور گرمی کے موسم میں روزانہ چاول کھانے سے ٹھنڈک ملتی ہے ۔گرمی میں چاول کئی طرح سے استعمال کئے جا سکتے ہیں ۔دال کے ساتھ یا شوربے کے ساتھ ۔گرمی میں چاولوں کے ساتھ سبزیاں کھانے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے ۔گرمیوں میں کھچڑی دہی کے ساتھ بہترین رہتی ہے ۔

ڈائٹنگ کے دوران اگر چاول کھانا ہو تو ہمیشہ چاول ابال کر اس کا پانی پھینک کر اسے استعمال کرنا چاہیے۔گرمی میں چاول اور سبزیوں کا سوپ استعمال کیا جا سکتا ہے ،مرغی کی یخنی میں ۶ سے ۷ چمچ ابلے چاول ڈال کر ہلکا سا پکا لیں اور اس میں شملہ مرچ ،ٹماٹر ،بند گوبھی ڈال دیں ۔اوپر سے کالی مرچ اور سرکہ ڈال کر کھائیں ۔

2۔سیاہ چنے

سیاہ چنے فائبر حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔گرمی میں زیادہ چکنی چیزوں سے پر ہیز کرنا چاہئے ۔چنے کاربوہائڈریٹس اور فایبر حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں ۔
أبلے ہوئے سیاہ چنے ایک کپ ،سلاد کے پتے ،کھیرا ،پیاز ،ہرا دھنیا ،ہری مرچ ،لیموں کا رس اندازے کے مطابق ،تین بڑے چمچ دہی زیرہ ایک چمچ نمک مرچ ڈال کر یکجاں کر لیں ۔یہ چاٹ گرمی کے موسم میں ٹھنڈی زیادہ اچھی لگتی ہے

3۔سلاد

سلاد قدرتی چیزوں کو تازہ اور قدرتی شکل میں کھانے کا ذریعہ ہے سلاد کچی اور کچھ أبلی ہوئی اشیائے خوراک کے مجموئے کا نام ہے ۔طبی افادیت کے اعتبار سے ہر گھر میں ہونا ضروری ہے ۔گرمیوں میں اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کیوں کہ کچی سبزیوں میں حیاتین اور ریشہ کے علاوہ معدنی نمک بھی ہوتا ہے۔سلاد میں کھیرا گرمی کی شدت کو کم کرتا ہے ۔سبز دھنیا دماغی کمزوری دور کرتا ہے،چقندر دل کے امراض کے لئے مفید ہے ،مولی خون میں یورک ایسڈ کی مقدار کو متوازن رکھتی ہے۔ ٹماٹر فولا ور کیشیم کا خزانہ ہے ۔سلاد کے طور پر پیاز دو بار لازمی کھانی چاہئے ۔کھانے کے ساتھ پیاز کے استعمال سے لو نہیں لگتی ۔یہ بھوک پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہاضمے میں مدد دیتی ہے اور قبض دور کرتی ہے ۔
سبزیوں کے ساتھ پھلوں کو بھی سلاد میں شامل کیا جاتا ہے ۔جیسے کینو کا رس ،سیب ،انناس اور گریپ فروٹ۔

4۔ پھلوں کی چاٹ

گرمی میں پھلوں کی چاٹ بہترین غذا ہے ۔گرمی میں آنے والے پھل جن میں تربوز ،آڑو ،خربوزہ ،آم ،خوبانی اور امرود نہ صرف جسم کو توانائی دیتے ہیں بلکہ جگر اور معدے کی گرمی کو بھی در کرتے ہیں ۔گرمی میں زیادہ ترٹھنڈ اتربوز کھانا چاہئے ۔اس کے علاوہ پھلوں کی چاٹ بنا کر اس پر لیموں چھڑک کر بھی کھائی جا سکتی ہے اور شیک بھی لئے جاسکتے ہیں ۔

5۔دہی

دودھ کے مقابلے میں دہی میں دو گنی غذائیت ہوتی ہے اس سے خون بنتا ہے ۔ایک پاؤ دہی میں آدھا کلو گوشت کی غذائیت ہوتی ہے ۔ایک کپ دہی میں ۷گرام پروٹین ،۲۷۲ ملی گرام کیلشیم اور ۱۵۰ کیلوریز ہوتی ہیں۔دہی سے چھاچھ ،لسی ،رائتے بنائے جاتے ہیں۔گرمی میں دہی کسی بھی صورت میں دسترخوان ضرور ہونا چاہئے۔
گرمی میں لوکی کا رائتہ ایک مکمل غذا ہے اسکے علاوہ آلو ،کدو اور دیگر سبزیوں کا رائتہ بھی بن سکتا ہے ۔سلاد کے أوپر بھی ڈالا جاتا ہے ۔
چاچھ میں یاہ نمک ،اجوائن ملا کر پینے سے وزن بھی کم ہوتا ہے اور گرمی بھی کم لگتی ہے ۔

6۔چٹنی

گرمی میں املی کا پانی مفید ہوتا ہے ۔املی کا رس کھانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور شربت میں بھی ۔املی کی چٹنی بھی گرمی میں بہت فائدہ دیتی ہے
ہرا دھنیا اور پودینہ گرمی میں تازگی کا احساس دیتے ہیں ان کو پیس کر املی کے رس میں ملا کر نمک مرچ اور زیرہ ڈال کر چٹنی تیار کرکے فرج میں محفوظ کی جا سکتی ہے ۔
آؒ لو بخارا چونکہ موسم گرما کا پھل ہے اس لئے قدرتی طور پر موسمی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے گرمی کے مضر اثرات سے بچاتا ہے ۔اس کی چٹنی اور مربہ أن لوگوں کے لئے مفید ہے جن کو گرمی میں سر میں درد ہوتا ہو اور قے اور جی متلانے کی شکایت ہو ۔

7۔صندل کا شربت

یہ ایک مہکتا ہوا مشروب ہے ،جو طبیعت کو فرحت بخشتا ہے یہ روح کی تازگی کے لئے بے مثال شربت ہے اس کو بنانے کے لئے آدھا کلو صندل کا برادہ ،آدھا کلو عرق گلاب میں پکا لیں اور چھان لیں ۔چینی اور پانی کا گاڑھا شیرہ بنا کر اس میں صندل کا پانی ڈال کر ہلکی آنچ پر پکایں ۔ٹھنڈا کر کے رکھ لیں ۔گرمی کے لئے ہترین شربت ہے ۔

8۔فالسے کا شربت

فالسے کا شربت دل کی گھبراہٹ ،اختلاج قلب ،پیاس کی شدت ،معدے کی کمزوری ،پیشاب کی جلن اور سینے کی جلن کو دور کر کے ٹھنڈک پیدا کرتا ہے ۔۔فالسے استعمال کرتے ہوے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ فالسہ ہمیشہ پکا ہوا ہو اور نرمی مائل ہو ۔کچا یا نہت پکا ہو فالسہ نقصان دہ ہوتا ہے ۔

9۔ا لائچی

چلچلاتی دھوپ میں گھر سے باہر نکلنے سے پہلے منہ میں ایک الائچی رکھ لیں یہ نسخہ خلیجی ممالک میں بے حد مقبول ہے زیادہ تر عرب تیز دھوپ سے بچنے کے لئے الائچی کھاتے ہیں۔اس کے علاوہ الائچی کا شربت بھی گرمی میں ہیٹ اسٹروک سے بچاتا ہے ۔


کیا آپ کا انٹرنیٹ کنکشن سست ہے؟ یا آپ فائلیں پوری رفتار کے ساتھ ڈاؤنلوڈ نہیں کر پاتے؟ تو یہ تحریر آپ کی بہت مدد کرے گی۔ آئیے سیکھتے ہیں کہ چند طریقوں سے کس طرح آئی ڈی ایم ڈاؤنلوڈ کی رفتار کو دوگنا کیا جا سکتا ہے۔

انٹرنیٹ ڈاؤنلوڈ مینیجر(آئی ڈی ایم) معروف ڈاؤنلوڈرز میں سے ایک ہے جو آپ کو کمپیوٹر پر ڈاؤنلوڈنگ رفتار بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ اس کی بہترین سہولت یہ ہے کہ کسی بھی ڈاؤنلوڈ کو کہیں بھی روکا اور وہیں سے دوبارہ شروع بھی کیا جا سکتا ہے۔ آج ہم ایسے طریقوں پر غور کریں گے جن کے ذریعے انٹرنیٹ ڈاؤنلوڈ مینیجر کی رفتار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ کو چند سادہ سے کام کرنا ہوں گے۔
اس کے لیے آپ کو اپنے ڈاؤنلوڈر کی سیٹنگز میں کچھ تبدیلیاں کرنا ہوں گی جس کے بعد آپ کو ڈاؤنلوڈ رفتار میں ڈرامائی اضافہ نظر آئے گا۔

پہلا طریقہ:
اپنے آئی ڈی ایم کی سیٹنگز میں چند تبدیلیاں کریں اور ڈاؤنلوڈ رفتار میں اضافہ کریں:
  1. انٹرنیٹ ڈاؤنلوڈ مینیجر کھولیں اور Downloads پر کلک کریں اور Speed Limiter کو بند کردیں۔
  2. ایک مرتبہ پھر Downloads میں جائیں اور Speed Limiter میں Settings میں جائیں۔ یہاں اپنے کنکشن کی رفتار سے کچھ کم رفتار کا انتخاب کریں۔ بہتر ہے کہ 1000 کے بی سے 10000 کے بی کردیں۔
  3. ایک مرتبہ پھر Downloads کے بٹن پر کلک کریں اور Options کا انتخاب کریں۔ Connection کے ٹیب میں ہائی بینڈوڈتھ کنکشن ٹائپ/اسپیڈ پر کلک کریں۔ تمام تبدیلیوں کو محفوظ کرنے کے لیے OK کا بٹن دبائیں۔
  4. اب آپ کو ” Default max. conn. number” پر کلک کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے آپ کو "آپشن” میں جانا ہوگا اور یہاں آپ Connection کے ٹیب میں جائیں اور Default max. conn. نمبر کو 8 سے 16 کرکے OK کا بٹن دبا دیں۔


کام ہو گیا، اب آپ کے انٹرنیٹ ڈاؤنلوڈ مینیجر کی رفتار بڑھ جائے گی۔

دوسرا طریقہ:

اگر آپ کو آئی ڈی ایم پر ڈاؤنلوڈ کی رفتار کم نظر آ رہی ہے تو اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کمپیوٹر اس وقت کچھ اور چیزیں بھی ڈاؤنلوڈ کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے یقینی بنائیں کہ تمام ایسے ڈاؤنلوڈز کو روک دیں تاکہ آپ کو زیادہ سے زیادہ رفتار ملے۔ آپ ونڈوز اپڈیٹ بھی دیکھ سکتے ہیں جو خاموشی کے ساتھ اپڈیٹس ڈاؤنلوڈ کر رہا ہوتا ہے۔

تیسرا طریقہ:

CTRL+ALT+DELETE کے بٹن دبائیں اور Task Manager کھول لیں۔ آپ ٹاسک بار پر رائٹ کلک کرکے بھی Task Manager کھول سکتے ہیں۔ بہرحال،اب اس میں آپ کو ایسی ایپلی کیشنز دیکھنا ہوں گی جو زیادہ ریم استعمال کر رہی ہیں۔ ایسی تمام غیر ضروری ایپس کو بند کردیں اور آئی ڈی ایم کو ریم استعمال کرنے دیں اس سے آپ کے ڈاؤنلوڈ کی رفتار میں یقینی اضافہ ہوگا۔

چوتھا طریقہ:

آئی ڈی ایم آپٹمائزر ٹول کا استعمال کریں تاکہ آئی ڈی ایم کی رفتار میں اضافہ ہو۔

  1. سب سے پہلے اپنے ونڈوز پی سی کے لیے آئی ڈی ایم آپٹمائزر ٹول ڈاؤنلوڈ کریں۔
  2. آئی ڈی ایم آپٹمائزر انسٹال کریں اور اسے کھول لیں۔ کھولتے ہی آپ کو Maximize Now کا بٹن نظر آئے گا۔ اس پر کلک کریں، آئی ڈی ایم ونڈوز ری اسٹارٹ کرنے کا کہے گا۔
  3. ری اسٹارٹ کرنے کے بعد آپ کا آئی ڈی ایم برق رفتار ہو جائے گا۔ کوئی بھی فائل ڈاؤنلوڈ کرکے تجربہ کریں۔ اگر آپ کو یہ تجربہ پسند نہ آئے تو آپ سیٹنگز میں جاکر Restore Default کر سکتے ہیں۔


MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget