کیا حواء آدم کی پسلی سے یا عورت مرد کی پسلی سے پیدا ہوئ ہے؟

کتاب تکوین باب ۲ میں مزکور ہے کہ؛ 
اور خدا نے آدم کو باغ عدن میں رکھا تاکہ وہ اسکی باغبانی اور نگرانی کرے۔ ۔۔۔ خدا وند نے کہا کہ آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ میں ایک مددگار بناونگا جو اسکی مانند ہو۔ لیکن آدم کے لئے کوئ مددگار نہ ملا۔ تب خداوند نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور جب وہ سو رہا تھا تو اس نے اسکی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اسکی جگہ گوشت بھر دیا ۔ تب خداوند نے اس پسلی سے ایک عورت بنائ اور وہ اسے آدم کے پاس لے آیا۔ آدم نے کہا ، اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے ، وہ ناری کہلاے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئ تھی۔

جتنی اغلاط کی اصلاح قرآن نے کتاب تکوین کی کی ہے اتنی بلکہ اسکا عشر عشیر بھی شائد باقی سب کتابوں کی ملا کر بھی نہ کی ہو۔ مزکورہ بالا واقعہ کے مقابلے میں قرآن نے بتایا کہ تعلیم کی غرض سے ایک باغ میں سکونت کا حکم آدم و حواء دونوں کو دیا گیا تھا۔ یعنی حواء کی پیدائش کا مزکورہ بالا واقعہ جس باغ کا بتایا گیا ہے اس باغ میں جانے سے بھی پہلے میاں بیوی دونوں ہی موجود تھے ۔ وقلنا یادم اسکن انت و زوجک الجنہ ( اور پھر ہم نے کہا کہ اے آدم آپ اور آپکی بیوی اس بتاے ہوے باغ میں سکونت اختیار کرو)۔ لہذا تورات کا مزکورہ بالا واقعہ صحیح نہیں ہے۔

لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ آدم و حواء کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن بخاری کی روایت میں رسول اللہ کے ایک ارشاد کی روایت نقل ہوئ ہے کہ عورت مرد کی پسلی سے ہی بنی ہے لہذا اس سے موافقت کا رویہ اپنایا جاے ۔ اسلئے اس روایت سے بھی کسی نہ کسی طور پسلی والی بات کی تائید ہوتی ہے۔ 
اس روایت میں جو بات کہی جاری ہے وہ یہ ہے کہ عورت ہرگز مرد کی غلام یا اس سے کمتر نہیں کہ اس سے کمی کمین والا رویہ اختیار کیا جاے ۔ وہ اور مرد ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے یکساں واجب احترام ہیں ۔ عورت کا مرد سے طلاق لینے کا ایک بڑا سبب مرد کا عورت سے رویہ بن سکتا ہے اسلئے مرد اپنے روئیے کی اصلاح کریں ۔ یہ بات کہ مرد و عورت ہم جنس اور یکساں خود داری رکھتے ہیں اسکے لئے بتایا کہ عورت بھی مرد کی پسلیوں سے ہی بنتی ہے۔ یعنی وہ نطفہ جس سے مرد و عورت پیدا ہوتے ہیں وہ یخرج من بین الصلب والترائیب ۔ ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان سے وجود میں آتا ہے۔ مرد کے نطفے میں x اور y دونوں طرح کے کرومسومز ہوتے ہیں جبکہ عورت میں صرف x کا جوڑا ہوتا ہے۔ اسلئے لڑکا یا لڑکی پیدا ہونے کا دارومدار مرد کے نطفے پر منحصر ہوتا ہے۔ جیسے مرد کی مردانگی مرد کے نطفے سے وجود پزیر ہوتی ہے ویسے ہی عورت کے عورت ہونے کا فیصلہ بھی مرد کے بین الصلب والترائیب سے کیا جاتا ہے۔ اگر مرد کی پسلیوں میں اکڑ ہے تو عورت بھی اسی اکڑ سے ہی وجود پزیر ہوئ ہے۔ جیسے تم مرد ایک دوسرے کے دبانے کی کوشش میں اکڑ کا مظاہرہ کرتے ہو ویسے ہی جب عورت کو بھی دباو گے تو وہ بھی ایسے ہی اکڑ کا مظاہرہ کرے گی ۔
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget