آج حاجی صاحب کچھ دل گرفتہ سے نظر آئے. میں نے وجہ پوچھی تو پہلے ٹال مٹول کرتے رہے. پھر گویا ہوئے.
"حنیف بھائی! ایک شعر سناؤں آپ کو؟"
میں نے کہا.
"جی ضرور..."
وہ کہنے لگے.
"میں کسی کام کا اگر ہوتا ،
وہ کسی کام سے ہی آ جاتا"
میں نے کہا.
" واہ... بہت خوب... مگر حاجی صاحب.... اس وقت... یہ شعر؟"
وہ کہنے لگے.
"بس یونہی شعر یاد آگیا... دراصل اب ہم اس عمر کو پہنچے ہیں کہ بالکل عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں"
میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا.
" کیا مطلب؟ "
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے.
" دراصل آدمی جب اس عمر میں ریٹائرڈ ہوتا ہے اور پھر کچھ کمانے کے قابل نہیں رہتا تو بیوی بچوں کے بھی رویوں میں فرق آنا شروع ہوجاتا ہے. ایک بیٹیاں ہیں جو پہلے کی طرح ملتی ہیں. بیٹے تو اگنور کرنا شروع کردیتے ہیں........ اور..... بیوی... جیسے کہہ رہی ہو... مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ... ہاہاہاہا"
حاجی صاحب نے بات پوری کرتے ہوئے ایک کھوکھلا، مصنوعی قہقہہ لگایا جس میں سے درد چھلک رہا تھا. میں نے اُن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا.
" خیریت تو ہے حاجی صاحب! کسی نے کچھ کہہ دیا کیا؟ "
حاجی صاحب مغموم سے لہجے میں کہنے لگے.
" نہیں حنیف بھائی! کہے گا کون... اور کیا کہے گا.... اصل میں ایک آبزرویشن ہے. جو آپ سے شیئر کی ہے"
میں نے ان کے چہرے کو بغور دیکھا.
" آپ کچھ چھپا رہے ہیں مجھ سے... کہہ دیں جو دل میں ہے. دل ہلکا ہو جائے گا "
وہ دھیرے دھیرے کہنے لگے. " گھر والے اب پہلے کی طرح میری بات کو اہمیت نہیں دیتے... شاید میں کماتا نہیں ہوں اس لئے... گھر میں زیادہ تر میرے بڑے بیٹے کی چلتی ہے. سب اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں.... یہاں تک کہ میری بیوی بھی... بھئی ظاہر ہے اُس نے اب بیٹوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے... میں نے تو کسی وقت بھی دنیا سے چلے جانا ہے "
یہ کہتے ہوئے اُن کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور بہتے ہوئے سیدھے ان کی ڈاڑھی میں جذب ہوگئے.
" ارے ارے حاجی صاحب! یہ کیا... اللہ آپ کو سلامت رکھے"
میں نے ان کا ہاتھ تھپتھپایا.
" آپ نے ذرا سی بات کو اتنا سیریس لے لیا "
وہ رومال سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہنے لگے.
" یہ ذرا سی بات نہیں ہے حنیف بھائی... میں اپنے خاندان میں نمبر ون ہوا کرتا تھا. لوگ آپس کے جھگڑوں کے فیصلے کرانے میرے پاس آتے تھے. آج یہ حال ہے کہ میرے اپنے بچے مجھ سے پوچھے بغیر سارے کام کرتے ہیں. صرف اس لئے کہ میں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی ساری جائیداد ان ناخلفوں میں تقسیم کردی"
میں نے پیار سے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا.
" دیکھئیے حاجی صاحب، ہر نسل کو اپنی اگلی نسل سے اسی قسم کی شکایات ہوتی ہیں کہ وہ ہماری نہیں سُنتی. ہمارے ، آپ کے بزرگوں کو بھی ہم سے یہی شکایتیں تھیں... یاد کریں. یہ ریت ہے دنیا کی
.... آپ کو... ہمیں اب دل بڑا کرنا ہوگا. انہیں بچہ سمجھنے کی بجائے انہیں بڑا تسلیم کرنا پڑے گا. انہیں بڑا بنانا ہوگا. اپنے بےجا حقوق سے دستبردار ہونا پڑے گا. ہمارے بزرگوں نے بھی تو ہمارے لئے جگہ خالی کی تھی نا؟ "
حاجی صاحب نے حمایت میں سر ہلایا.
میں نے کہا.
" ہم نے اپنی بہت سی چیزوں سے خود ہی دستبردار ہونا پڑے گا. اس سے پہلے کہ وہ ہم سے وہ سب چیزیں... وہ سب اختیارات چھین لیں. یہ دنیا کی ریت ہے. ہمیشہ کوئی بھی نمبر ون نہیں رہ سکتا. رہنے والی صرف میرے رب کی ذات ہی ہے"
"حنیف بھائی! ایک شعر سناؤں آپ کو؟"
میں نے کہا.
"جی ضرور..."
وہ کہنے لگے.
"میں کسی کام کا اگر ہوتا ،
وہ کسی کام سے ہی آ جاتا"
میں نے کہا.
" واہ... بہت خوب... مگر حاجی صاحب.... اس وقت... یہ شعر؟"
وہ کہنے لگے.
"بس یونہی شعر یاد آگیا... دراصل اب ہم اس عمر کو پہنچے ہیں کہ بالکل عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں"
میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا.
" کیا مطلب؟ "
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے.
" دراصل آدمی جب اس عمر میں ریٹائرڈ ہوتا ہے اور پھر کچھ کمانے کے قابل نہیں رہتا تو بیوی بچوں کے بھی رویوں میں فرق آنا شروع ہوجاتا ہے. ایک بیٹیاں ہیں جو پہلے کی طرح ملتی ہیں. بیٹے تو اگنور کرنا شروع کردیتے ہیں........ اور..... بیوی... جیسے کہہ رہی ہو... مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ... ہاہاہاہا"
حاجی صاحب نے بات پوری کرتے ہوئے ایک کھوکھلا، مصنوعی قہقہہ لگایا جس میں سے درد چھلک رہا تھا. میں نے اُن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا.
" خیریت تو ہے حاجی صاحب! کسی نے کچھ کہہ دیا کیا؟ "
حاجی صاحب مغموم سے لہجے میں کہنے لگے.
" نہیں حنیف بھائی! کہے گا کون... اور کیا کہے گا.... اصل میں ایک آبزرویشن ہے. جو آپ سے شیئر کی ہے"
میں نے ان کے چہرے کو بغور دیکھا.
" آپ کچھ چھپا رہے ہیں مجھ سے... کہہ دیں جو دل میں ہے. دل ہلکا ہو جائے گا "
وہ دھیرے دھیرے کہنے لگے. " گھر والے اب پہلے کی طرح میری بات کو اہمیت نہیں دیتے... شاید میں کماتا نہیں ہوں اس لئے... گھر میں زیادہ تر میرے بڑے بیٹے کی چلتی ہے. سب اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں.... یہاں تک کہ میری بیوی بھی... بھئی ظاہر ہے اُس نے اب بیٹوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے... میں نے تو کسی وقت بھی دنیا سے چلے جانا ہے "
یہ کہتے ہوئے اُن کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور بہتے ہوئے سیدھے ان کی ڈاڑھی میں جذب ہوگئے.
" ارے ارے حاجی صاحب! یہ کیا... اللہ آپ کو سلامت رکھے"
میں نے ان کا ہاتھ تھپتھپایا.
" آپ نے ذرا سی بات کو اتنا سیریس لے لیا "
وہ رومال سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہنے لگے.
" یہ ذرا سی بات نہیں ہے حنیف بھائی... میں اپنے خاندان میں نمبر ون ہوا کرتا تھا. لوگ آپس کے جھگڑوں کے فیصلے کرانے میرے پاس آتے تھے. آج یہ حال ہے کہ میرے اپنے بچے مجھ سے پوچھے بغیر سارے کام کرتے ہیں. صرف اس لئے کہ میں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی ساری جائیداد ان ناخلفوں میں تقسیم کردی"
میں نے پیار سے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا.
" دیکھئیے حاجی صاحب، ہر نسل کو اپنی اگلی نسل سے اسی قسم کی شکایات ہوتی ہیں کہ وہ ہماری نہیں سُنتی. ہمارے ، آپ کے بزرگوں کو بھی ہم سے یہی شکایتیں تھیں... یاد کریں. یہ ریت ہے دنیا کی
.... آپ کو... ہمیں اب دل بڑا کرنا ہوگا. انہیں بچہ سمجھنے کی بجائے انہیں بڑا تسلیم کرنا پڑے گا. انہیں بڑا بنانا ہوگا. اپنے بےجا حقوق سے دستبردار ہونا پڑے گا. ہمارے بزرگوں نے بھی تو ہمارے لئے جگہ خالی کی تھی نا؟ "
حاجی صاحب نے حمایت میں سر ہلایا.
میں نے کہا.
" ہم نے اپنی بہت سی چیزوں سے خود ہی دستبردار ہونا پڑے گا. اس سے پہلے کہ وہ ہم سے وہ سب چیزیں... وہ سب اختیارات چھین لیں. یہ دنیا کی ریت ہے. ہمیشہ کوئی بھی نمبر ون نہیں رہ سکتا. رہنے والی صرف میرے رب کی ذات ہی ہے"
ایک تبصرہ شائع کریں