پاکستان کو ایک حوالے سے امتیازی حیثیت حاصل ہوچکی ہے کہ جس جس لیول کا انقلاب پچھلے چند برسوں میں ہمارے معاشرے میں آیا ہے، اس کی مثال تاریخ انسانی میں شاید نہ مل سکے۔ اس کی وضاحت چند مثالوں سے کئے دیتا ہوں:
پہلی مثال: کئی دہائیوں بلکہ صدیوں پر محیط اس خطے کے لوگوں کے مزاج میں گالم گلوچ، فحش گوئی اور تند مزاجی بھری جاچکی تھی، بات بات پر گالی دینا، گریبان پکڑنا اور ہاتھا پائی کرنا معمول کی بات سمجھا جاتا تھا جس کی وجہ سے مغرب میں ہمارے خطے کے لوگوں کے بارے میں برا تاثر قائم تھا۔ لیکن جب سے عمران خان سیاست میں فعال ہوا ہے، تب سے اچانک ہمیں پتہ چلا کہ اپنے مخالفین کو اوئے کہنا بھی انتہا درجے کی بدتمیزی اور گستاخی ہے۔ چاہے وہ مخالفین آپ کو ماؤں بہنوں کی گالیاں دیں، لیکن اگر عمران خان نے انہیں اوئے کہہ دیا تو قیامت آ جائے گی۔ عوامی اخلاق میں اتنی بڑی تبدیلی کی مثال کسی اور معاشرے سے ڈھونڈ کر دکھائیں۔
دوسری مثال: ساٹھ کی دہائی سے ہمارا ملک غیرملکی قرضے لیتا آیا ہے، مشرف دور میں یہ قرضے چالیس ارب ڈالرز کے ارد گرد ہوا کرتے تھے، زرداری حکومت کے خاتمے کے وقت پچاس ارب ڈالرز کے آس پاس پہنچ گئے اور ن لیگ کی حالیہ حکومت ختم ہونے پر یہ قرضے 92 ارب ڈالرز کے تھے۔ پچھلے پانچ سال میں ہر سال ۹ ارب ڈالرز کے حساب سے قرض ہم چڑھتا گیا لیکن مجال ہے کسی نے اعتراض کیا ہو۔ لیکن جونہی عمران خان کی حکومت آئی اور حکومتی ادائیگیاں کرنے کیلئے قرض لینے کا اعلان کیا، یکایک عوام کو قرض کی شکل میں برائی نظر آنا شروع ہوگئی۔ قرضوں کے حوالے سے عوامی سوجھ بوجھ میں چند ہفتوں کے اندر اندر اس قدر اضافے کی مثال کسی اور ملک سے ڈھونڈ کر دکھادیں۔
تیسری مثال: پچھلے ستر برس میں کرپشن کو ہمارے معاشرے میں ایک بہت اعلی اعزاز کی بات سمجھا جاتا رہا، یہی وجہ تھی کہ اس قوم نے ن لیگ اور پی پی کو تین تین مرتبہ مرکز میں اور چار چار مرتبہ صوبوں میں حکومتیں دیں اور انہوں نے رج کر کرپشن کی۔ لیکن پھر اچانک عمران خان کی حکومت آگئی اور پھر وزیراعظم کی طرف سے سرکاری کام کیلئے ہیلی کاپٹر کے استعمال کو بھی انہتا درجے کی کرپشن سمجھا جانے لگا۔ عوامی شعور میں اتنی بڑی تبدیلی کی مثال کسی اور ملک سے ڈھونڈ کر دکھادیں۔
چوتھی مثال: پچھلے ستر برس میں اس ملک پر اقربا پروری کا راج رہا۔ بھٹو، ضیا اور نوازشریف نے اپنی اولادوں کو آگے کیا۔ یہی حال مذہبی جماعتوں کا بھی رہا، مفتی محمود کا بیٹا فضل الرحمان اس کی پارٹی کا صدر بنا اور اب فضلو کا بیٹا ڈپٹی سپیکر کے الیکشن کیلئے نامزد ہوا۔ جماعت اسلامی کی اسی فیصد نئی قیادت موجودہ قیادت کی اولاد پر مشتمل ہے ۔ ۔ ۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک تحریک انصاف حکومت میں آگئی، پھر یکایک سب کو لگا کہ پرویزخٹک کے رشتے داروں کو ٹکٹ ملنا کتنا بڑا سیاسی جرم تھا ۔ ۔ ۔ اقربا پروری کے حوالے سے عوامی شعور میں اتنی بڑی تبدیلی کی مثال کسی دوسرے معاشرے سے ڈھونڈ کر دکھا دیں۔
مثالیں تو اور بھی بہت ہیں لیکن اوپر دی گئی مثالوں کو آپ دیگ کے چند دانے سمجھیں اور شکر ادا کریں کہ اللہ نے اس ملک میں کتنا بڑا انقلاب برپا کردیا کہ وہ معاشرہ جو مخالف خواتین کی جہاز سے ننگی تصویریں گرانے والے کو کبھی سر آنکھوں پر بٹھایا کرتا تھا، اب وہی معاشرہ اوئے کہنا بھی برداشت نہیں کرتا۔
اور ہاں، نوع انسانی کی تاریخ میں عورت، زمین، جائیداد، تیل، معدنی وسائل اور اقتدار کیلئے جنگیں لڑی جاتی تھیں، یہ مقام بھی اب پاکستان کو حاصل ہوچکا کہ یہاں بریانی کی پلیٹ میں بوٹی نہ ہونے پر پٹواریوں نے ایک دوسرے کے بال نوچ ڈالے، سر کھول ڈالے ۔ ۔ ۔
اب اس سے بڑی اور کیا تبدیلی چاہیئے آپ کو!!! بقلم خود باباکوڈا
ایک تبصرہ شائع کریں