پچھلی صدی میں عیسائ مشنریوں کیساتھ مناظروں کے دور میں تورات و انجیل کو ردعمل کی نفسیات نے ہمارے ہاتھوں بے جا رگڑا لگوایا۔ اس رگڑے کے دوران ہمارے ہاں ایسی بے اعتنائ بھی سامنے آی جو ان کتب سے متعلق نہ ہمارے قرون اولی کے زاویہ نگاہ اور نہ ہی قرآن مقدس سے میل کھاتی تھی۔ میرے خیال سے جیسے روایات کو اپنا علمی سرمایہ سمجھ کر انکی قرآن و سنت سے تطبیق پر ہمارے اہل علم نے کام کیا ہے ویسا کام ان کتب سے متعلق نہ ہوا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے احادیث و آثار ہمارا علمی سرمایہ تھا ویسے ہی یہ کتب (بالخصوص عہد نامہ قدیم) بھی ہماری کتب اور علuمی سرمایہ تھا۔ ان کتب کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے والوں پر واضح ہے کہ قرآن نے ان کتب سے متعلق ہمارے جیسا بے اعتنائ کا رویہ نہیں اپنایا بلکہ قرآن کو ان پر مہیمن ٹھہرا کر انھیں نور اور ہدایت کا منبع کہا ہے۔ قرآن نے اسفار کی غلطیوں کو بھی عوامی انداز سے انھیں کٹہرے میں کھڑے کئے بغیر گویا اہل الذکر علماء کی توجہ انکی جانب مبذول کروائ۔ ان کتب میں اکثر غلطیاں یا تو تراجم سے تراجم نے پیدا کی ہیں یا پھر ان تاریخی روایات نے جو بعد ازاں نزولی سیاق و سباق کی وضاحت کی لئے تورات کیساتھ جوڑ دی گئیں۔ قرآن نے جسطرح تقریباً پوری کتاب تکوین کو ہی کہیں نہ کہیں مختلف انداز سے اپنا موضوع بنایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب قرآن کے نزول سے قبل بھی تورات کا حصہ ہی سمجھی جاتی تھی۔ میرے مطالعے کی حد تک قرآن نے سب سے ذیادہ اصلاح اسی کتاب کی ہے۔
کتاب تکوین کا پہلا باب ہماری کائنات کا چھ ادوار سے گزر کر موجودہ تکمیل تک پہنچنے سے متعلق ہے۔ قرآن کو بھی اصولی طور پر اس خبر سے کوئ اختلاف نہیں بلکہ تائید کیساتھ بتاتا ہے کہ یہ کائنات تخلیق کہ چھ ادوار سے ہی گزری ہے۔ کتاب تکوین کے چھ ادوار کی ترتیب درج ذیل ہے۔
۱: پہلا دور : اگر بیگ بینگ سے ادوار کے قیاسات کو سامنے رکھا جاے ۹-۱۰ ارب سالوں پر مشتمل سب سے لمبا دور۔ اس دور میں زمین بھی باقی کروں کی طرح وجود میں تو آچکی تھی مگر انھی کی مانند بیابان تھی۔ اس دور کے خاتمے تک زمین بجھ چکی تھی اور سورج کے گرد گردش کرنے سے دن رات کا نظام بن چکا تھا۔ گیسیں بھی ٹھنڈی ہوکر اسکی سطح کو مکمل طور پر پانی سے ڈھانک چکی تھیں۔
۲: دوسرا دور؛ یہ دور غالبا پہلے دور سے دس گنا چھوٹا تھا۔ اس دور میں زمین کے گرد فضاء (atmosphere) اور واٹر سائیکل پیدا کیا گیا۔
۳: تیسرا دور: یہ دور دوسرے دور سے بھی چھوٹا تھا جسمیں واٹر سائیکل اور زمین کے اندرون میں جیالوجیکل تبدیلیوں کی وجہ سے پہاڑ اور خشکی نمودار ہوئ۔ تکوین کے مطابق یہ دور نباتات کی ابتداء ہوجانے تک محیط تھا۔
۴: چوتھا دور؛ آج تک ڈسکوریز کے نتیجے میں سب سے ذیادہ تنقید تکوین کے اس مزکورہ دور پر ہوتی ہے۔ کیونکہ اس دور میں خدا نے کہا ( کلمہ کن) خدا نے سورج چاند تارے بناے تاکہ موسموں اور دنوں میں تبدیلی واقع ہو۔ تنقید یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو پہلے دور میں ہوچکا اور اگر نہ ہوا ہوتا تو مزکورہ تین ادوار ہی وقوع پزیر نہ ہوسکتے ۔ تورات کے علماء اس اعتراض کا یہ جواب دیتے ہیں کہ سائنس کو ابھی بہت سفر کرنا باقی ہے۔ تاہم قرآن سورہ حم سجدہ کی آیت ۹ سے ۱۳ میں اسکا جواب یونہہ دیتا ہے کہ زمین پر حیات کی ابتداء اور اسکی ربوبیت کے مطلوب سامان کی تخلیق تو چار ادوار میں ہی ہوئ لیکن ارض و سماء کے اسٹریکچر کا تسویہ دو ادواروں میں ہوا۔ اس بات کا فیصلہ کہ کیا قرآن نے تکوین کے اس دور سے متعلق غلطی کو واضح کیا ہے یا پھر اسی کی وضاحت کی ہے کا فیصلہ جدید سے جدید ڈسکوریز کی بنیاد پر ہی کیا جاے گا۔ اگر تو قرآن تکوین کے اس مبہمدور کی وضاحت کررہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس چوتھے دور میں ارض و سماء کا پہلے دور کے بعد اب دوسری مرتبہ ایک اور بار تسویہ کرکے اسے اگلے ادوار کے قابل بنایا گیا۔ اسطرح قرآن کے مطابق ارض و سماء کے اسٹریکچر کی تخلیق و تسویہ دو ادوار سے گزرا۔
۵: پانچواں دور؛ زندگی نباتات کے دور سے آگے بڑھ کر آبی حیوانات اور اڑنے والے کیڑوں اور پرندوں تک پھیل گی۔
۶: چھٹا دور؛ اس دور میں مستقل طور پر خشکی میں رہنے والے حیوانات اور پھر بالاخر انسان وجود میں آے۔ انسان کی ابتداء کیسے ہوئ اسکی وضاحت تکوین کے باب دوم میں ہے جسے قرآن نے بھی متعدد مقامات پر موضوع بناکر اسکی وضاحت و اصلاح کے دونوں کام کئے۔
۷: ساتواں دور؛ اس دور میں خدا نے آرام کیا اور اسکو برکت دی۔ یہ جملہ پہلے باب کے خاتمے اور دوسرے باب کی ابتداء کے مابین ہے۔ غالبا ء اس جملے کو کسی نے سبت کے احکامت کے تناظر میں بعد ازاں دونوں ابواب کے مابین گھسیڑا ہے۔ سورہ ق کی آیت پچاس میں قرآن نے اس خود ساختہ ساتویں دور کی غلطی ان الفاظ میں واضح کی ہے؛
ولقد خلقنا السموات و الارض وما بینھما فی ستہ ایام، وما مسنا من لغوب۔
ہم نے ارض و سماء اور انکے مابین حیات و ربوبیت کا کارخانہ چھ ادوار میں ہی مکمل کیا ہے اور ہمیں کوئ تھکان لاحق نہ ہوئ کہ اسکے بعد ہمیں استراحت کی ضرورت بھی ہوتی۔
درج بالا چھ ادوار کو اصولی طور پر تسلیم کرکے قرآن نے متعدد مقامات پر ان سے متعلق معلومات میں مزید اضافے بھی کیے ہیں مثلا کہ یہ پہلے باہم ایک تھے جنھیں دھماکے سے علیحدہ کیا گیا۔ اسی طرح یہ کہ ابتداء میں یہ محض دخان ( گیسوں کا مجموعہ) تھا وغیرہ وغیرہ۔
ایک تبصرہ شائع کریں