سنی ، شیعہ ، اباضی اور جدید معتزلہ کے مفسرین کی کتب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ ایک نہایت پیچیدہ سوال ہے جس کو لیکر متعارض آثار بھی پیدا ہوے۔ اس پوسٹ کی جانب میرا خیال لاادریت کے پیروکاروں کے ایک اعتراض سے پیدا ہوا۔ اس پوسٹ سے پیش نظر بھی صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ اعتراض صرف ان امور پر قائم کیا جاسکتا ہے جو قرآن نے صراحت سے بیان کردئے ہوں ۔ جو چیز صراحت سے بیان نہ ہوئ ہو اور اس پر پہلے سے ایک سے ذیادہ آراء پائ جاتی ہوں وہاں کوئ بھی اعتراض مذھب پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ ذیادہ سے ذیادہ کسی تعبیر پر پیدا ہوتا ہے۔ اور جب تعبیریں پہلے سے ہی مختلف فیہ ہوں تو وہ سوال کوئ نیا سوال نہیں رہتا بلکہ پہلے سے اہل علم میں موجود سوال کا محض اعادہ ہوتا ہے۔ موضوع پیش نظر کے ضمن میں مسلمانوں میں جو آراء عموما پیدا ہوئیں وہ درج ذیل ہیں۔
(۱): ایک راے کچھ روایات کے تحت یہ ہے کہ حرمت کی اصل “ رحم مادر “ ہے۔ اس اصول کا اطلاق حالات کے تحت تدریجا ہوا۔ اسلئے ایک نسل تک کے لئے حرمت کو صرف ماں تک ہی محدود رکھا گیا لیکن جونہی پہلی نسل سے کزنز پیدا ہوگئے تو پھر خاندان کا ادارہ وجود میں لانے کے احکام نازل کرکے اس اصول کا مزید اطلاق کیا گیا۔ تاہم پہلی نسل میں بھی اس اصول کا ایک گونا اطلاق یونہہ خدا نے یونہہ قائم رکھا کہ حضرت آدم کو اولاد بیٹی اور بیٹوں کے جوڑے کی شکل میں دی۔ اسطرح جو جوڑا ایک ہی حمل میں رحم مادر کا اشتراک رکھتا تھا ان پر تو باہمی شادی پر پابندی رکھی لیکن جن دو جوڑوں کے مابین بعد زمانی تھا ( جیسے اب آدم کی نسل میں بعد زمانی موجود ہے) تو انکے لڑکوں اور لڑکیوں کی باہمی شادی کو ایک نسل کے لئے روا رکھا گیا۔ باقی آراء کے مقابلے میں یہ اکثریتی طبقہ اپنی دلیل سورہ نساء کی پہلی آیت سے لیتا ہے کہ وبث منھما رجالا کثیرا ونساء۔ اور دونوں سے ہی مرد و عورت کی کثرت پھیلی۔
(۲): دوسری راے یہ ہے کہ انسانوں میں روح پھونک کر خود شعوری و اخلاق پیدا کرنے سے پہلے ہی ان میں تولید کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا ۔ وبدا خلق الانسان من طین ثم جعل نسلہ من سللہ من ماء مھین۔ ثم سواہ و نفخ من روحہ میں “ ثم” ( فھو حرف عطف یدل علی الترتیب مع التراخی فی الزمن) واضح کررہا ہے کہ تسویہ و روح کا عمل تولید کے بعد ہوا جبکہ اخلاقی اصولوں کا التزام روح پھونکنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ یہ قرآن سے ہی مزید دلیل یونہہ دیتے ہیں کہ باغ والے واقعہ کے بعد کہا گیا کہ اب تمھاری جانب شریعت کے احکام آئیں گے اور جو بھی انکی اتباع کرے گا وہی آخرت کے خوف و حزن سے محفوظ رہے گا ( فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدی فلا خوف علیھم ولا ھم یخزنون)۔ اس سے پہلے آدم و حواء کو ستر اور تولیدی مشاجرت کی ہی تعلیم اور تجربے کے لئے باغ میں سکونت اختیار کروائ گئ تھی۔ دونوں کو حکم دینے کا تخصیصی انداز “ انت و زوجک” بتاتا ہے کہ کسی جماعت میں سے خاص کرکے یہ حکم ان دونوں کو دیا جارہا ہے۔ اسی طرح جیسے باغ میں سکونت صرف ان دونوں کی کروائ جارہی ہے ویسے نکل جانے کا حکم ( فاخرجھما )بھی ان دونوں ہی کے لئے ہے۔ لیکن جب یہ پلٹ کر اسی جماعت میں آتے ہیں جہاں سے یہ الگ ہوکر باغ میں گئے تھے تو قرآن واضح کردیتا ہے کہ وہاں ایک جماعت موجود ہے جنھیں اب اس علاقے کو چھوڑ کر بکھرنا ہے یا کہیں اور جانا ہے۔
وقلنا اھبطوا منھا جمعیا، فاما یاتینکم منی ھدی فلا خوف علیھم ولا ھم یخزنون۔
اور پھر ہم نے حکم دے دیا کہ سب کے سب یہاں سے نکل جاو ۔ پھر جب تمھارے پاس میری ہدایت پہنچے گی تو جو شخص میری ہدایات پر عمل کرے گا وہی خوف و غم سے محفوظ رہے گا۔
انکے نزدیک بعضکم لبعض عدو کا مطلب یہ ہے کہ جہاں یہ جماعت موجود تھی وہاں ابھی معاشرت شروع نہ ہوئ تھی لیکن جب انھیں وہاں سے نکال کر کھیتی باڑی اور گلہ بانی وغیرہ کرکے ما تھے کے پسینے سے کمائ ہوی خوراک کے لئے تگ و دو کرنا تھی تو معاشرت کی وجہ سے جو حق تلفی اور تعدی شروع ہونی تھے یہ اسکی پیش خبری تھی۔
اس سوال کا جواب کہ اس واقعہ میں حضرت آدم ہی صرف خدائ مکالمے کے مرکز و محور نظر آتے ہیں وہ یہ دیتے ہیں کہ اسکی وجہ حضرت آدم کا اس جماعت کے لئے نبوت کے منصب پر چنا جانا ہے جیسا کہ سورہ آل عمران میں مزکور ہے کہ آدم کو بھی نوح کی طرح چنا گیا۔ اور جس ہدایت کے آنے کی خبر باغ والے واقعے کے بعد دی گئ ہے وہ انھی کے توسط سے آنی تھی۔ سورہ النساء کی پہلی آیت جسمیں کہا گیا ہے کہ وبث منھما رجالا کثیر و نساء کہ ان دونوں سے مرد و عورت کا پھیلاؤ ہوا کو وہ یونہہ واضح کرتے ہیں کہ یا تو وہ جماعت جو باغ والے واقعہ سے پہلے اور خیر و شر کا شعور پھونکنے سے پہلے موجود تھی وہ ساری کی ساری آدم و حواء کی ہی اولاد تھی جو خیر و شر کے شعور پھونکے جانے کے بعد اخلاقی احکام کی پابند بنی یا پھر اگر وہ انکی اولاد نہ بھی تھی تو بعد ازاں اللہ نے اسے آدم و نوح کے مابین آنے والے رسولوں کے ہاتھوں عذاب کا شکار کرکے انکی نسل کو باقی نہیں رہنے دیا اور صرف حضرت آدم کے بیٹے حضرت شیث کی اولاد ہی پھلی پھولی اسلئے ابن آدم کہلائ۔
(۳): ایک راے یہ ہے کہ حضرت آدم کی کوئ اولاد بھی خیر و شر کے احساس کی روح پھونکنے سے پہلے پیدا نہیں ہوئ۔ اسلئے انکی پہلی اولاد ہی شریعت کی پابند تھی ۔ اللہ نے انکی نسل کو بڑھانے کے لئے بہنوں اور بھائیوں کے مابین شادیوں کو بھی کبھی روا نہیں رکھا۔ تاہم جیسے حضرت مریم کے پاس اللہ نے اپنی روح بھیجی جس نے تسویہ شدہ بشر کا روپ دھارا ویسے ہی اللہ نے ملائکہ یا جنات میں سے کچھ کو معمور کیا کہ وہ انسانی روپ دھار کر پہلی لڑی کو دوسری میں بدلنے کا فریضہ بطور عورت کے سرانجام دیں ۔ اسی لئے نفس انسانی ہمیشہ مونث ہی ہوتی ہے۔
(۴): چوتھی راے کچھ جدید معتزلہ کی ہے کہ نفس واحد سے مراد پہلا امیبا ہے جو بیک وقت مزکر و مونث ہونے کی وجہ سے ایک سے دو اور پھر دو چار اور چار سے آٹھ میں ٹوٹتے اور ارتقائ منازل طے کرتے کرتے کیڑے سے بن مانس اور پھر بن مانس سے مانس کی شکل لیتے پہلی انسانی بستی کے وجود کا سبب بنا۔ اگر چہ جدید معتزلہ صوفیوں کے شدید ناقد ہیں لیکن قرآن فہمی میں الفاظ کی حقیقت و مجاز کی بحث میں انھی کے ہمنوا بھی ہیں اسلئے انکے نزدیک بھی قرآن مکمل طور کہیں حقیقی اور کہیں مجازی ہونے کی وجہ سے انکے ساتھ کھڑا ہے۔
(۵): ایک راے یہ ہے کہ اللہ نے بیک وقت بہت سے آدم و حواء پیدا کئے اسلئے سب ابن آدم کہلاتے ہیں ۔ یہ گروہ کیونکہ غالی قسم کے صوفیوں کا ہے اسلئے انکے نزدیک قرآن کی آیات کے ظاہری مطلب اور باطنی مطالب میں فرق ہوتا ہے اسلئے قرآن کی کوئ آیت انکے اس نظرے کے آڑے نہیں آتی ۔ ایک راے یہ بھی ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر ایک انسان نما مخلوق اور بھی تھی جو تولیدی عمل کے لئے انسان کے موافق تھی مگر بعد ازاں ختم کردی گئ۔ انکی عورتوں کو لونڈیاں بنا کر ان سے حضرت آدم کے بیٹوں کی پہلی نسل مکمل کی گئ ۔
ایک تبصرہ شائع کریں