18 ویں ترمیم اور بجلی کی پیداوار میں کی گئی ن لیگ کی ہوشربا کرپشن کی داستان

2010 میں 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبوں کو اپنے طور پر بجلی پیدا کرنے کی اجازت مل گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب پنجاب حکومت نے شہبازشریف کی سربراہی میں 23 ارب روپے کی لاگت سے نندی پور پاور پراجیکٹ شروع کیا اور کانٹریکٹ ایک چینی کمپنی کو دے دیا گیا۔

چینی کمپنی نے پراجیکٹ پر تیزرفتاری سے کام شروع کردیا اور پنجاب حکومت کی اپنی رپورٹ کے مطابق 2012 تک 95 فیصد کام مکمل ہوچکا تھا۔ لیکن اس دوران پراجیکٹ کیلئے 85 ملین ڈالرز (اس وقت کے تقریباً سوا 7 ارب روپے) کی لاگت سے منگوائی جانے والی مشینری کراچی پورٹ پر پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت نے روک لی اور 2012 تک اسے کلئیر نہ کیا گیا۔

چینی کمپنی نے مشینری کی لاگت کے ساتھ ساتھ اضافی 40 ملین ڈالرز یعنی تقریباً ساڑھے تین ارب روپے ہرجانے کی صورت میں حکومت سے طلب کرلئے اور پراجیکٹ منسوخ کردیا۔

پھر 2013 میں ن لیگ کی حکومت آئی اور وفاقی وزارت بجلی و پانی نے چینی کمپنی سے نیگوشی ایٹ کرنا شروع کیا۔ چند دنوں تک میٹنگز ہوتی رہیں اور پھر چینی کمپنی مان گئی جس کے نتیجے میں نئے سرے سے معاہدہ بنایا گیا۔

اب کی بار نندی پور پراجیکٹ کی لاگت 23 ارب سے بڑھ کر 58 ارب روپے کردی گئی اور اس کی وجہ زرداری حکومت کی طرف سے منصوبے میں کی جانے والی تاخیر بتائی گئی۔ حالانکہ نندی پور پراجیکٹ پر وہی مشینری استعمال ہوئی جو کہ کراچی پورٹ پر دو سال کھڑی رہی، لیکن اگر آپ تھوڑی دیر کیلئے مان بھی لیں کی وہ ساری مشینری تباہ ہوچکی تھی، تو اس سے زیادہ سے زیادہ مشینری کی لاگت یعنی 8 ارب روپے اضافہ ہونا چاہیئے تھا، 23 ارب سے سیدھا 58 ارب لاگت، یعنی 35 ارب کا اضافہ کرنے کا کیا تک تھا؟

بعد میں پنجاب حکومت نے وضاحت دیتے ہوئے یہ کہا کہ چونکہ منصوبے میں ایک گیس ٹربائن بھی شامل کردی گئی ہے، اس لئے لاگت بڑھی۔ لیکن پھر اس کے بعد اس ٹربائن کے نام پر مزید 7 ارب روپے علیحدہ سے بھی مانگ لئے گئے جس سے منصوبے کی مجموعی لاگت 65 ارب تک پہنچ گئی۔

اس منصوبے کی پیداوار 425 میگا واٹ تھی، غالباً 2014 میں نوازشریف نے نندی پور پراجیکٹ کا افتتاح کیا لیکن یہ پلانٹ صرف چھ گھنٹے چلنے کے بعد بند کرنا پڑا کیونکہ پلانٹ میں کئی نقائص تھے۔

پھر اس کو ٹھیک کرنے پر مزید لاگت آئی۔ کافی عرصے بعد جب یہ پلانٹ دوبارہ چلنا شروع ہوا تو واپڈا سے کہا گیا کہ وہ نیشنل گرڈ کیلئے بجلی نندی پور سے خرید لے۔ جب واپڈا کو نندی پور پراجیکٹ کی بجلی کے ریٹس بتائے گئے تو واپڈا نے انکار کردیا کیونکہ نندی پور پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی بجلی 44 روپے فی یونٹ پڑرہی تھی جبکہ واپڈا کو آئی پی پیز سے یہی بجلی 15 روپے فی یونٹ مل جاتی تھی۔ نتیجے کے طور پر ایک مرتبہ پھر یہ پلانٹ بند کرنا پڑ گیا۔

پچھلے دنوں جوڈیشل ریمانڈ پر جب شہبازشریف کو نیب نے پکڑا تو اس سے نندی پور پراجیکٹ کے حوالے سے بھی پوچھ گچھ ہوئی۔ شہبازشریف جو اس سے قبل اپنے سگے بھائی کے خلاف بھی جے آئی ٹی میں بیان دے چکا تھا، اس دفعہ بھی نیب کے سامنے فوراً سارا ملبہ اس وقت کے وفاقی وزیر خواجہ آصف پر ڈال دیا کہ نیا معاہدہ کرنے والا خواجہ آصف تھا، لاگت بڑھانے کا ذمے دار بھی وہی ہوگا۔

ذمے دار شہبازشریف ہو یا خواجہ آصف، ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ اس قوم کی اکثریت بے غیرتوں پر مشتمل ہے، ورنہ ایسا ممکن نہ تھا کہ اس کے سامنے اس کی ٹیکس کی کمائی کو یوں لوٹا جاتا اور لوٹنے والوں کو الیکشن میں ووٹ بھی ملتے رہتے۔

23 ارب سے شروع ہونے والا منصوبہ 65 ارب پر ختم ہوتا ہے، ملک کے دوسرے پلانٹس پر جو بجلی 15 روپے فی یونٹ پیدا ہوتی ہے وہ اس پراجیکٹ کے ذریعے 44 روپے فی یونٹ ملتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب روپے ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بڑا بھائی ووٹ کو عزت دلانے نکل پڑتا ہے اور چھوٹا بھائی زرداری کا پیٹ پھاڑتے پھاڑتے اچانک اس کی گود میں پدرانہ شفقت ڈھونڈ لیتا ہے، تیسری طرف پانی و بجلی کا وزیر دوسروں کو شرم اور حیا کا لیکچر دیتے دیتے خود بے شرمی کا پیکر بن جاتا ہے۔

2012 سے لے کر 2017 تک، شہبازشریف زرداری کو نندی پور پراجیکٹ میں تاخیر اور 42 ارب روپے نقصان کا ذمے دار قرار دیتا آیا، لیکن آج اسی زرداری سے بار بار معافی مانگ کر اتحاد بنا چکا۔

کبھی کبھی لغت سے شکایت کرنے کو دل کرتا ہے کہ اس نے بے غیرتی سے بڑا لفظ کیوں نہیں ایجاد کیا، جو کچھ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے اس ملک کے ساتھ کیا، وہ بے غیرتی سے بھی بہت آگے کی چیز ہے!!! بقلم خود باباکوڈا
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget