پہلوٹھے بچوں کی قربانی کی مشرکانہ رسومات پر تورات کا رد عمل اور حضرت اسمعیٰل کا واقعہ

مافوق ہستیوں ،ارواح یا معبودان باطلہ کی رضا جوئ کے لئے انسانی جان کی قربانیوں کی رسم ( Human sacrifice rituals) معلوم تاریخ کی ایک معروف معلوم حقیقت ہے۔ مشرق بعید، یورپ، چائنہ ، تبت، برصغیر، افریقہ اور مشرق وسطی نیز دنیا کا کوئ خطہ ایسا نہیں جہاں ایسی رسوم تاریخ میں نا ملتی ہوں۔ اس غیر فطری عبادت کو چونکہ انسانی ضمیر اور مصلحین کے رد عمل کا ہمیشہ ہی سامنا رہا ہے اسلئے بتدریج اس میں کمی واقع ہوتے ہوتے اب نابود ہوچکی لیکن اسکے باوجود بھی موجودہ صدی میں بھی اسطرح کے کیسیز برازیل ، چلی، میکسیکو، یو ایس، بنگلہ دیش ، انڈیا، نیپال اور افریقہ وغیرہ میں خبروں کی زینت بن چکے ہیں ۔ اس رسم کی اس بھی ذیادہ قبیح شکل پہلوٹھی اولاد کی قربانی کی رسم ( First child sacrifice rituals) تھی ۔ یہ رسم بھی تاریخ میں دنیا بھر مثلا قدیم کولمبین میکسیکو، جنوبی امریکہ کے مختلف خطوں ، مایا تہذیب، شمالی پیرو اور بالویریا وغیرہ کے علاوہ مشرق وسطی میں بابل سے مصر تک کے علاقوں میں ملتی ہیں ۔ عہدنامہ قدیم کی کتب اور یہودی لٹریچر بھی اس رسم سے متعلق بہت کچھ بتاتا ہے۔ حضرت سلیمان کی حکومت دولخت ہونے کے بعد شمالی ریاست نے بعل (Bull) کی پوجا شروع کردی تھی انکی مختلف رسومات میں سے ایک یہ رسم بھی موجود تھی جو انھوں نے غیر قوموں سے اپنائ تھی۔ بنی اسرائیل سے پہلے یروشلم میں جہنم نامی جگہ پر مزکورہ بالا دونوں رسوم آگ میں جلا کر ادا کی جاتی تھیں۔ اسی طرح اسرائیلیوں کے پڑوس کے بنی آمون میں بھی یہ رسم پائ جاتی تھی۔ بلکہ ساتویں صدی قبل مسیح میں میکاہ نبی بھی اپنے صحیفے میں بھی اپنے پہلوٹھے کو اپنے گناہ کے عوض اور جان کی خطاء کے بدلے میں قربانی کی رسم کے خلاف آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔ اسلام سے پہلے کچھ نجدی بدوی قبائل میں جہاں بیٹی پیدا ہونے پر اسے درگور کردیا جاتا تھا وہیں بچوں کو معبودوں کی خوشنودی کے لئے بھینٹ چڑھانے کی رسم بھی کچھ استھانوں پر موجود تھی(سورہ انعام ۱۳۷)۔ بلکہ تاریخی روایات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ غالبا رسول اللہ کے والد بھی کسی اسی طرح کی ملتی جلتی رسم کی بھینٹ چڑھتے چڑھتے سو انٹوں کے فدے کے عوض بچے تھے۔

اس پس منظر کی روشنی میں تورات کے پہلوٹھوں سے متعلق قانون سازی کو اگر دیکھا جاے تو یہ باور ہوتا ہے کہ یہ قوانین خود ساختہ نہیں بلکہ یہ سدزریعہ کے قوانین تھے جو پہلوٹھے سے متعلق مزکورہ رسم کے مقابلے میں دئے گئے ہونگے۔ اور سد زریعہ کے قوانین چونکہ ہمیشہ حالات کیساتھ مشروط ہوتے ہیں اسلئے شرک کے خلاف اسلامی انقلاب کے بعد اور تمدن میں تبدیلی کی وجہ سے خداے علیم و خبیر کے علم کے مطابق انکی ضرورت موجود نہ رہنی تھی اسلئے منسوخ کردئے گئے۔ 
مزکورہ پس منظر کیساتھ ہی حضرت اسمعیٰل کی قربانی کے واقعے کو بھی دیکھا جانا چاہئے۔ عبادات کے زمرے میں جتنی بھی رسوم ہمیشہ سے اسلام میں پائ جاتی رہی ہیں وہ دراصل شرک ہی کا ردعمل نظر آتی ہیں۔ یعنی جو کچھ بھی باطل معبودوں کی حمیت و خوشنودی کے لئے کیا جاتا تھا اس پر اللہ کا حق تھا جو کسی اور کے لئے بطور عبادت جائز نہ ہوسکتا تھا اسے اللہ کے لئے خاص کردیا جاتا رہا۔ اسلئے اس واقعے میں بھی بتایا گیا کہ اس غیر فطری رسم کے مقابل قربانی کی فطری عبادت رکھی گئ ہے۔ مقابل کی اس رسم کے عظیم پیمانے پر ادا ہونے کے لئے تورات میں قربانیوں کی عبادات کو دیکھنا چاہئے۔ ہمارے ہاں بھی بچے کی پیدائش پر جانوروں کی قربانی کو مستحب رکھا گیا۔ اسکے علاوہ ہر سال حج کے موقعہ پر قربانی کو عظیم درجے پر رائج کیا گیا۔ اب اسمیں ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ حضرت ابراھیم کو پہلوٹھے ( حضرت اسمعیٰل ) کی قربانی کا حکم دینے میں بھلا کیا حکمت تھی؟ ۔ حضرت ابراھیم سے متعلق قرآن سے جو بات بالکل واضح ہے وہ یہ کہ وہ اپنے دور اور علاقے میں اکیلے ہی ایک امت تھے جس سے ایک بہت بڑی امت نے جنم لینا تھا اسلئے عموما انھیں احکامات کی حکمت تجرباتی انداز میں سمجھانے کا طریقہ خدا نے اختیار کیا۔ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ باطل معبودوں کی حمیت و حمایت کے لئے ادا ہونے والی اس رسم سے متعلق حضرت ابراھیم کو لگاتار روی (رویاء) کروائ جارہی تھیں۔ اور پھر بالاخر اسکی شناحت سے تجرباتی طور پر گزارنے کے لئے بھی اور باطل معبودوں کے پوجاریوں کے اپنے معبودوں سے حمیت و حمایت کے مقابلے میں اسوقت کی دنیا میں موجود عام عرف کے مقابل حضرت ابراھیم و اسمعیٰل کے اپنے اس ذھنی خلجان کہ یہ اپنے معبود سے محبت کے اظہار کا آخری درجہ اسلام میں کیوں روا نہ رکھا گیا کا تجربہ کروایا۔ ایسا تجربہ یقینا ان دونوں کے لئے خدا سے محبت کا ایک بہت بڑا امتحان بھی بنا۔ اسلئے ان دنوں چلتی روی میں پھر ایک رویاء میں حضرت ابراھیم کو بھی دکھایا گیا کہ وہ بھی اپنے پہلوٹھے بیٹے کی قربانی اپنے سچے معبود کی نذر کرنے کی حالت میں ہیں ۔ صبح جب والد نے اس رویاء کی تعبیر اپنے بیٹے کے سامنے رکھی تو انھوں نے بھی کہا کہ یابت افعل ماتومر ستجدونی انشااللہ من الصابرین( بابا جانی آپ وہ کیجئے جسکا آپکو حکم دیا گیا ، مجھے آپ خدا کی رضا پر ڈٹ جانے والوں میں سے پائیں گے)۔ لہذا دونوں اس حکم پر راضی برضا ہوے اور حضرت اسمعیٰل نے سجدے کی حالت میں گردن کٹوانے کے لئے ماتھا زمین پر ٹیک دیا۔ حضرت ابراھیم جونہی آگے بڑھے تو نداء ایزدی آگئ کہ یہاں تک ہی آپ دونوں باپ بیٹا جو کچھ کرچکے ہیں بس اتنا ہی مطلوب تھا۔ رویاء سے مقصود کے مطابق آپکے جذبوں کی صداقت اعمال لکھنے والے فرشتوں کے سامنے بھی آچکی ہے۔ آپ بیٹے کی بجاے جانور کی ہی قربانی اس نیت سے دیں کہ کبھی اپنی جان خدا کے راستے میں دینا پڑی تو مجھے معلوم ہے کہ جیس کیفیت سے یہ جانور گزرا ہے مجھے بھی ان کیفیات سے ہی گزرنا ہوگا مگر پھر بھی میں کہتا ہوں کہ گزروں گا۔
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget