تکوین کے پہلے باب سے متعلق پچھلی پوسٹ میں تفصیل آگئ کہ تورات ہماری کائنات کی تخلیق کو کیسے چھے ادوار کے ارتقائ عمل سے گزرتے ہوے موجودہ شکل تک اسکی تکمیل کی وضاحت کرتی ہے۔ چونکہ کائنات کا یہ ارتقاء تورات میں بیان ہوچکا تھا اسلئے قرآن نے ایک آدھ اصلاح اور ایک آدھ وضاحت کیساتھ محض اسکا ذکر کرکے بار بار اس سے استدلال کیا ۔ کائنات کی ارتقائ تخلیق کے برعکس انسانی تخلیق کے معاملے میں سمجھا جاتا ہے کہ شائد تورات نے آدم کا مٹی سے پتلا بناکر اسمیں روح پھونک دینے کا تصور رکھتے ہوے انسانی تخلیق میں ارتقاء کے سائنسی انکشافات کے برعکس کوئ بات بیان کی ہے۔ تکوین باب دوم کی آیت ۷ میں آدم کی تخلیق کا ذکر یونہہ آیا ہے؛
“ خداوند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اسکے نتھتنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور آدم ذی روح ہوگیا”۔
تکوین کی اس آیت کو سائنسی انکشافات کے برعکس کہنے کی بجاے انتہائ درجے کا اختصار کہنا چاہئے۔ یا یونہہ کہا جاسکتا ہے کہ تورات کائنات کی ارتقائ تخلیق کی تفصیل تو بیان کرتی ہے مگر انسانی تخلیق میں ارتقاء کے معاملے پر خاموش ہے۔ اسلئے اس معاملے کی تفصیل قرآن نے کردی ہے۔ اگر اوّل الذکر معاملے کی تفصیل بھی تورات نے کردی ہوتی تو شائد قرآن اس معاملے کو بھی اوّل الذکر معاملے کی طرح اختصار سے بطور پہلے سے بتائ ہوئ بات کے طور پر ہی لیتا۔ ایک ہی پہلو (ارتقائ تخلیق) کے دو معاملات پر قرآن و تورات کا یہ انداز( بہت سے ایسے ہی اور مقامات کی طرح )واضح کرتا ہے کہ قرآن دراصل عہد نامہ قدیم و جدید کے بعد اسی خدا کی جانب سے آخری عہدنامہ ہے۔
قرآن کی وضاحت ؛
جیسے پچھلی پوسٹ میں واضح کیا کہ کائنات کی ارتقائ تخلیق کے چوتھے دور سے متعلق اشکال کو قرآن نے یہ کہہ کر واضح کیا کہ ارض و سماوات تخلیق و تسوئیے کے لئے دو ادوار کے جوڑے سے گزرے۔ بعینہ قرآن نے واضح کیا ہے کہ انسانی تخلیق بھی اسی زمین پر دو ادوار کے جوڑے سے گزر کر مکمل ہوئ ہے۔ قرآن کے تفاصیل کو کچھ نکات میں دیکھتے ہیں ؛
۱؛ کیا انسان کو کسی آسمانی جنت میں پیدا کرکے زمین پر اتارا گیا ؟
قرآن سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ قرآن تورات کے مزکورہ بالا بیان کی ہی طرح کہتا ہے کہ ھو الذی انشاکم من الارض۔ اللہ وہ ذات ہی جس نے تمھارا نشو زمین میں سے کیا۔ ایک دوسرے مقام پر سازگار موسم کے آنے پر سازگار زمین سے بیج سے پودوں کے اگنے کی مشابہت کیساتھ اسکو یونہہ بیان کیا ہے کہ وقد خلقکم اطوارا۔ واللہ انبتکم من الارض نباتا۔ اور یقینا اس نے تمھیں مختلف مراحل ( اطوار) سے گزار کر تخلیق کیا ہے اور اس نے تمھاری نسل کو زمین سے اگایا ہے۔ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اسے مزید یونہہ واضح کیا ہے جیسے پہلی مرتبہ تم اس زمین سے پیدا ہوے اور موت کے بعد اسمیں لوٹا دئے گئے ویسے ہی دوسری مرتبہ بھی تم اسی زمین سے نکالے جاو گے ( منھا خلقنکم و فیھا نعیدکم و منھا نخرجکم تارہ اخری)۔ جیسے پہلی مرتبہ کو زمین سے اگنے والے نباتات سے مشابے بتایا بعینہ دوسری مرتبہ کو الگ سے اسی کو یونہہ بیان کیا کہ واللہ الذی ارسل الریح فتثیر سحابا فتنہ الی بلد میت فاحینا بہ الارض بعد موتھا کذالک النشور۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو بادل بھری ہوائیں مردہ زمین کی جانب ہانکاتے ہوے بھیجتا ہے جو برس کر مردہ زمین کو زندہ کردیتی ہیں ایسے ہی تمھارا نشور بھی ہوگا ۔ ایک دوسرے آیت میں یہی بات بیان کرکے فرمایا کہ کذالک الخروج ۔ مردہ لوگوں کا اسی زمین سے زندہ ہوکر خارج ہونا بھی ایسے ہی ہوگا۔ یعنی نباتات کے وہ بیج اور جڑیں یا پھر کیڑے مکوڑوں کے وہ انڈے جو مردہ زمین میں مٹی کیساتھ مٹی ہوچکے ہوتے ہیں وہ کیسے برسوں بعد بھی بارش کیساتھ پھر زندہ ہوجاتے ہیں بعینہ تمھارے اجزاء بھی جو مٹی کیساتھ مٹی ہوچکے ہونگے میں ایک ایسے سیال کی بارش برساؤں گا کہ پہلی مرتبہ کی طرح بغیر ماں کے پیٹ کے تم زمین کے پیٹ سے اگتے چلے جاؤ گے۔
۲: قرآن نے کہاں واضح کیا ہے کہ اس نے انسانی تخلیق کو بھی دو ادوار سے گزار ہے اور ان دو مراحل کی کیا تفصیل بیان کی ہے؟
سورہ سجدہ آیت ۷ سے قرآن نے اسے یونہہ بیان کیا ہے۔
وبدا خلق الانسن من طین۔ ثم جعل نسلہ من سللہ من ماء مھین۔ ثم سوہ ونفخ فیہ من روحہ وجعل لکم السمع والابصر والافئدہ۔
خدا نے انسان کی تخلیق اوّل کی ابتداء مٹی سے کی ۔ اسکے بعد دوسرے مرحلے میں اسکی نسل کو ایک حقیر سے سیال ( semen) کے خلاصے ( sperm) سے چلا دیا۔ اس دوسرے مرحلے کے بعد بھی اسکا آخری شکل تک لئے تسویہ (alignment) ہوتا رہا اور پھر اسے پہلے سے ممیز تخلیق بنانے لیگ کے لئےاپنی روح ( decree ) اس میں پھونک کر اسمیں حواس و خود شعوری پیدا کردی۔
درج بالا آیت میں پہلے مرحلے میں زمین کے پیٹ سے پیدا ہوتے بشر کی نسل میں سے (جس میں تولید کی صلاحیت موجود نہ تھی ) روح پھونکنے کے لئے جس شخص کا انتخاب کیا گیا اسے آدم کہا گیا ( ان اللہ اصطفی آدم و نوح و ءال ابراھیم و ء آل عمران علی العالمین ۔ آل عمران ۳۳)۔
پہلے مرحلے کی مزید ارتقائ تفصیل ؛
جیسے مزکورہ بالا دوسرے مرحلے میں تولید کے عمل کے لئے سللہ من ماء مھین کا لفظ آیا ہے بعینہ پہلے مرحلے کے متعلق قرآن نے واضح کیا کہ اسمیں زمین پر یہ عمل بھی سللہ من طین سے کیا۔ سللہ کسی چیز کے خلاصے یا لب لباب کو کہتے ہیں ۔ انسانی نطفے میں تولیدی مادہ صرف ایک فیصد ہوتا ہے جبکہ باقی مواد اس ایک فیصد تولیدی مادے ( جو بزات خود کروڑوں تولیدی جرثوموں پر مشتمل ہوتا ہے) کی حفاظت و نشونما کے لئے ہوتا ہے۔ یہ تولیدی جرثومہ زمین میں پاے جانے والے تقریباً ۱۲ عناصر مثلا فاسفورس، سلفر، کلورین، پوٹاشیم، کیلشیم ، زنک، آئرن، ٹائیٹینیم ، نکل ، کاپر، یوریا، گلوکوز ، سٹریٹ ، فرکٹوس اور کچھ پروٹینز وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ زمین کے یہی عناصر جو اب خوراک کے زریعے نطفے کی شکل بنتے ہیں پہلے مرحلے میں بھی پانی کیساتھ ملکر طین لازب ( نطفے نما چپکتے کیچڑ) کی شکل اختیار کرگئے۔ جیسے اب جس انڈے کے اندر بچہ پیدا ہورہا ہو اس میں موجود سیال سڑانگ ( حما مسنون ) پکڑ جاتا ہے ویسے ہی مزکور نطفہ نما کیچڑ بھی سڑانگ سے گزرا۔ جیسے اب بیجوں یا انڈوں ( پیٹ سے پیدا ہونے کے علاوہ دو زرائع جو انسانی تخلیق کے ادوار سے پہلے وجود پزیر ہوچکے تھے) کے اپر کی تہہ فاخر ہ ( اکڑی ہوئ سخت) ہوتی ہے اسی طرح اس پہلے مرحلے میں انسانی تخلیق بھی اسی طرح صلصال کالفخار کے قشروں کے بیچ ہوی۔ چونکہ اس نوع میں تولیدی صلاحیت ( یعنی اپنی ہی نسل کو بڑھانے کا بیج ) نہیں تھا اسلئے آدم کے علاوہ باقی سب اپنی نسل کو بڑھاے بغیر ختم ہوگئ۔
دوسرے مرحلے کی مزید تفصیل ؛
قرآن نے مزید واضح کیا کہ دوسرے مرحلے سے پیدا ہونے والا انسان اب بھی ارتقائ تولیدی تخلیق کے مراحل سے ہی گزرتا ہے۔ زمین کے اجزاء سے نطفہ بننے تک کے مراحل ، پھر نطفہ کا نطفہ امشاج ( مرد و عورت کے نطفے کا ملاپ ) کے مراحل ، پھر عورت کے پیٹ کا موافق ماحول تک کا سفر کہ اس میں نطفہ قرار پکڑ سکے، پھر قرار پکڑنے کے بعد اسکا ایک معلق کیڑے/ جونک کی سی شکل میں بدل جانا، پھر اسکا گوشت کے لوتھڑے میں بدل جانے کے مراحل ، پھر اس میں ہڈیوں کو پھوٹ پڑنا، اور پھر اس پر کھال کے بننے کا عمل وغیرہ شروع ہونا ۔ ان سب مراحل میں سے ہر مرحلے کے لئے الگ الگ سے تخلیق کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے اور پھر بالاخر جو بچہ وجود پزیر ہوا اسکے لئے ثم انشانہ خلق آخر یعنی بالاخر ایک ممیز تخلیق کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ ساری تدریج و تربیہ جو اب موجودہ طریقے سے ہوتی ہے پہلے مرحلے میں خدا نے اسے زمین کے کسی قبر نما پیٹ میں کیا۔
عموما خدا کے صفاتی ناموں میں اسکی ایک صفت “ رب” کو شامل نہیں کیا گیا ۔ لفظ رب کا معنی امام اصفہانی نے یونہہ بیان کیا ہے کہ الرب فی الاصل التربیہ و ھو انشاء حالا فحالا الی حد التمام، لفظ رب اصلا تربیہ کے معنی میں ہے اور اس سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ مختلف احوال سے گزارتے ہوے آخری کمال کی حد تک پہنچا دینا ہے۔ تفسیر بیضاوی میں امام بیضاوی نے بھی اس لفظ کا معنی التربیہ بتا کر کہا ہے کہ وھی تبلیغ الشی الی کمالہ شئیا فشیا یعنی کسی شے کو مختلف حالات سے گزارتے ہوے درجہ بدرجہ اگلے مرحلے میں داخل کرتے جانا۔ اس سے واضع ہوا کہ خدا کی اس صفت کا مطلب ہی ارتقاء دینے والا ہے۔ اور اسے شائد باقی صفات سے اسلئے ممیز رکھا گیا ہے کہ خدا کی باقی صفات کے محاسن ہمارے سامنے صرف صفت ربوبیت کے زریعے ہی ظاہر ہوتے ہیں ۔ اسی لئے قرآن کی ابتداء ہی میں کہا گیا ہے کہ الحمد للّٰہ رب العالمین ، تمام صفاتی محاس خدا کے لئے خاص ہیں کیونکہ وہی ربوبیت کرنے والا ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ قرآن انسانی تخلیق کو بھی دو ارتقائ ادوار میں بانٹ کر اسکی مزید ارتقاء ہی بتاتا ہے اگرچہ یہ ارتقاء ڈارون کی ارتقاء سے مختلف ہے مگر اسکے مقابلے میں انتہائ شاندار اور مبنی بر مشاہدہ ہونے کی وجہ سے وضاحت کے لئے مِسنگ لنکس کی کھوج کی محتاج بھی نظر نہیں آتی۔
ایک تبصرہ شائع کریں