اکتوبر 2018

صحبت کے بعد کی کمزوری کا علاج


اگر جماع کے بعد آپ کے جسم سے جان نکل جاتی ہو اوردوبارہ صحبت کے لیئے شہوت نہ آتی ہو یا شہوت لیٹ آئے ۔۔یا جماع کو دل نہ کرے تو اس نسخہ کو اگر صحبت کے بعد پینا معمول بنا لیا جائے تو زندگی بھر کبھی جنسی کمزوری کا شکار نہیں ہوں گے آپ۔

ہوالشافی

دودھ 1پاو ۔۔بڑاچمچ شہد1 عدد۔۔پسی ہوئی دارچینی چوتھائی چمچ چائے والا

طریقہ استعمال

دودھ میں شہد و دار چینی ملا کر بعداز جماع پی لیا کریں۔ بفضل تعالیٰ تمام ضائع شدہ بحال ہوجائیگی




This post is all about mardana kamzori ka ilaj urdu video, mardana kamzori ka ilaj kay desi totkay, mardana kamzori ka ilaj full, mardana kamzori ka ilaj youtube, mardana kamzori ka ilaj in hindi, mardana kamzori ka ilaj urdu mein, mardana kamzori ka ilaj homeopathic, mardana kamzori ka ilaj in urdu etc.

This post is all about mardana kamzori ka ilaj urdu video, mardana kamzori ka ilaj kay desi totkay, mardana kamzori ka ilaj full, mardana kamzori ka ilaj youtube, mardana kamzori ka ilaj in hindi, mardana kamzori ka ilaj urdu mein, mardana kamzori ka ilaj homeopathic, mardana kamzori ka ilaj in urdu etc.

This post is all about mardana kamzori ka ilaj urdu video, mardana kamzori ka ilaj kay desi totkay, mardana kamzori ka ilaj full, mardana kamzori ka ilaj youtube, mardana kamzori ka ilaj in hindi, mardana kamzori ka ilaj urdu mein, mardana kamzori ka ilaj homeopathic, mardana kamzori ka ilaj in urdu etc.

آل ثمود قوم عاد کے بعد آئی‘ یہ بھی انتہائی خوشحال اور مضبوط لوگ تھے‘ قد طویل اور جسم انتہائی مضبوط تھے‘ وہ بستر پر علالت کے عالم میں نہیں مرتے تھے‘ چلتے پھرتے کام کرتے ہوئے ٹانگیں سیدھی کرتے تھے“ ہچکی لیتے تھے اور دنیا سے رخصت ہو جاتے تھے‘ وہ بھی عاد کی طرح پہاڑ کاٹ کر عمارتیں بنانے کے ماہر تھے‘ اللہ نے انہیں بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے ریوڑوں سے نواز رکھا تھا‘ خوشحالی‘ پتھر کے تراشے ہوئے گھر اور جسمانی مضبوطی نے ان میں تکبر پیدا کر دیا‘
تکبر اور کفر دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں‘ متکبر لوگ بہت جلد کافر ہو جاتے ہیں‘ وہ بھی کافر‘ بت پرست اور مشرک ہو گئے‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح
ؑ کو مبعوث فرمایا‘ آپ نے قوم ثمود کو اللہ کا پیغام دیا‘ قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا‘ آپ نے قوم سے پوچھا ”تمہیں کیا معجزہ چاہیے“ قوم نے کہا تم اگر نبی ہو تو سامنے چٹان (پہاڑ) سے اونٹنی برآمد کردو‘ وہ اونٹنی بچہ دے اور ہم سب کےلئے دودھ‘ حضرت صالح ؑ نے دعا فرمائی‘ چٹان پھٹی اور ایک خوبصورت اونٹنی برآمد ہو گئی‘ اونٹنی چلتے ہوئے قوم ثمود کے پاس آئی‘ بچہ جنا اور اس کے تھن دودھ سے بھر گئے‘ قوم ثمود لاجواب ہو گئی‘ اللہ تعالیٰ نے بعد ازاں اونٹنی کےلئے ایک چشمہ رواں کیا اور چرنے کےلئے نخلستان آباد کر دیا‘ اونٹنی اور اس کا بچہ سارا دن اس نخلستان میں چرتے رہتے تھے‘ ثمود کے سات قبیلے اونٹنی کا دودھ آپس میں تقسیم کر لیتے تھے‘ حضرت صالح ؑ نے چشمے کا پانی بھی تقسیم کر دیا‘ پانی ایک دن اونٹنی پیتی تھی‘ لوگ اس دن اس کا دودھ دھوتے تھے‘ وہ لوگ اگلے دن اونٹنی کا دودھ نہیں نکالتے تھے اور چشمہ اس دن قبیلے کے جانوروں کےلئے وقف ہوتا تھا لیکن پھر نافرمانی کے کیڑے نے ان کے دماغ پر دستک دی اور ثمود کے دو نوجوانوں قیدار اور مصدع نے اونٹنی کو قتل کر نے کا منصوبہ بنا لیا‘ شراب پی اور اونٹنی پر حملہ کر دیا‘ قیدار نے تیر چلایا جبکہ مصدع نے تلوار سے اس کی ٹانگیں کاٹ دیں‘ اونٹنی کے بچے نے دیکھا تو اس نے چیخ ماری اور اسی چٹان کے اندر چلا گیا جس سے اونٹنی نے جنم لیا تھا‘
اونٹنی کا قتل قوم ثمود کے خاتمے کا باعث بن گیا‘ اللہ تعالیٰ نے ان پر تین دن کا عذاب اتارا‘ پہلے دن ان کے چہرے سرخ ہوئے‘ دوسرے دن زرد ہو گئے اور تیسرے دن سیاہ ہو گئے‘ پھر شہر میں زلزلہ آیا‘ ایک چنگاڑ کی آواز آئی‘ پہاڑ قاشوں میں تقسیم ہو ئے اور قوم ثمود صفحہ ہستی سے مٹ گئی‘ مفسرین کے خیال کے مطابق چنگاڑ حضرت جبرائیل کی چیخ تھی‘ حضرت صالح ؑ اپنے 120 ساتھیوں کے ساتھ نقل مکانی کر گئے اور یوں آل ثمود بھی تاریخ کے اوراق میں جذب ہو گئی۔
حضرت صالحؑ کی قوم کہاں آباد تھی‘ اس کے بارے میں دو روایات ہیں‘ پہلی روایت کے مطابق آل ثمود سعودی عرب میں مدینہ منورہ سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر آباد تھی‘ یہ تبوک کا علاقہ ہے‘ اردن کی سرحد پر واقع ہے اور یہ حضرت صالح ؑ کی نسبت سے مدائن صالح کہلاتا ہے‘یہ سرخ چٹانوں کا شہر ہے‘ پتھروں کے گھر‘ دروازے‘ کھڑکیاں اور قدیم ٹمپل آج تک موجود ہیں‘ چشمے اور نخلستان کے آثار بھی ہیں‘ حضرت صالحؑ قوم پر عذاب کے بعد حضرموت یا احقاف تشریف لے آئے تھے‘
یہ علاقہ اس وقت یمن اور آج عمان (صلالہ) کا حصہ ہے‘ حضرت صالحؑ نے یہیں انتقال فرمایا‘ صلالہ سے دو سو کلومیٹر دور ناسک کے مقام پر ان کا مزار بھی موجود ہے‘ دوسری روایت کے مطاق آل ثمود نے قوم عاد کے علاقے پر قبضہ کیا‘ یہ صلالہ کے مضافات میں آباد ہوئے‘ اونٹنی اسی علاقے کی ایک چٹان سے نکلی ‘ یہیں قتل ہوئی‘ ثمود یہیں عذاب کا نشانہ بنے اور حضرت صالحؑ عذاب کے بعد صلالہ سے دو سو کلومیٹر دور ناسک میں آباد ہوگئے اور ان کا یہیں انتقال ہوا‘
حقیقت کیا ہے یہ اللہ کی ذات جانتی ہے تاہم یہ طے ہے صلالہ اور مدائن صالح کے درمیان3ہزار ایک سو 11کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور یہ لوگ بیک وقت دو مختلف مقامات پر نہیں رہ سکتے تھے‘ یہ دونوں مقامات ایک ملک کا حصہ بھی نہیں ہو سکتے تھے لیکن یہ عین ممکن ہے ثمود پر عذاب کے بعد زندہ بچ جانے یا ایمان لانے والے لوگ احقاف سے حجاز میں مدائن صالح شفٹ ہو گئے ہوں‘ وہاں پہاڑوں میں پتھر تراش کر گھر بنائے ہوں اور یہ بعد ازاں کسی قدرتی آفت کی وجہ سے مدائن صالح سے پیٹرا منتقل ہو گئے ہوں کیونکہ پیٹرا اور مدائن صالح کے مکانات بھی ایک جیسے ہیں اور دونوں کا آرٹ اور رہن سہن بھی ایک جیسا تھا اور یہ دونوں شہر ایک ہی روٹ پر چند سوکلو میٹر کے فاصلے پر ہیں‘
پیٹرا اردن میں وادی موسیٰ میں واقع ہے‘ وادی موسیٰ ماضی میں تبوک تک وسیع تھی‘ آج بھی ایک بڑی سڑک تبوک اور پیٹرا کو آپس میں جوڑتی ہے چنانچہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے آل ثمود احقاف (صلالہ) میں آباد تھی‘ عذاب کے بعد کچھ مومن حضرت صالح ؑ کے ساتھ ناسک میں آباد ہو گئے اور کچھ ایک دو نسلوں کے بعد مدائن صالح چلے گئے اور ان کی نسل بعد ازاں پیٹرا میں نقل مکانی کر گئی تاہم یہ بھی ممکن ہے آل ثمود مدائن صالح سے احقاف آئی ہو لیکن یہ امکان کم ہے‘ کیوں؟
کیونکہ عذاب کے بعد آل ثمود (مومنین) کو فلسطین (اردن‘ شام اور اسرائیل) قریب پڑتا تھا اور یہ دنیا کی مقدس اور قریب ترین جگہ چھوڑ کرپونے چار ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بے آب وگیاہ احقاف میں کیوں آئیں گے؟ چنانچہ مجھے عمانی تھیوری زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتی ہے‘ یہ اس ضمن میں دو شواہد بھی پیش کرتے ہیں‘ یہ شواہد حضرت صالحؑ کا مزار اور اونٹنی کی جائے قتل ہے‘ مجھے ان دونوں مقامات کی زیارت کی توفیق ہوئی‘ میں نے ڈاکٹر کاشف مصطفی اور امیر حمزہ کے ساتھ جمعہ 28 ستمبر کو حضرت صالحؑ کے مزار پر حاضری دی اور ہم اتوار 30 ستمبر کو اونٹنی کی جائے قتل پر گئے۔
حضرت صالحؑ کا مزار صلالہ سے دو سو کلومیٹر دور ناسک کے مقام پر ہے‘ یہ مزار خشک پہاڑوں کے درمیان چوٹی پر واقع ہے‘ مزار تک سیڑھیاں جاتی ہیں‘ عرب انبیاءکرام‘ صحابہ اور اولیاءکرام کی قبروں کو احتراماً بڑا بناتے ہیں‘ یہ قبر بھی لمبی تھی‘ مزار کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد کے علاوہ کچھ نہیں‘ مزار کے چاروں اطراف گہری کھائیاں ہیں اور کھائیوں کے بعد خشک سیاہ پہاڑ ہیں‘ سمندر وہاں سے زیادہ دور نہیں‘ راستے میں ملکہ سبا (بلقیس) کا محل بھی آتا ہے‘
کیا ملکہ بلقیس واقعی یہاں کی باسی تھیں؟یہ تاریخی لحاظ سے ثابت نہیں ہو سکا‘ سبا قوم یمن کے دارالحکومت صنعا ءسے 135 کلومیٹر کے فاصلے پر مارب میں آباد تھی‘ وہاں بھی ملکہ بلقیس کا ایک محل موجود ہے چنانچہ اللہ بہتر جانتا ہے‘ صلالہ میں سمہارم کے مقام پر آثار قدیمہ ہیں‘ یہ آثار ملکہ بلقیس سے منسوب ہیں‘ ہم سمہارم  بھی گئے جبکہ حضرت صالحؑ کی اونٹنی کی جائے قتل شہر کے درمیان واقع ہے‘ یہ ایک غار نما جگہ ہے‘ آپ سیڑھیاں اتر کر نیچے آتے ہیں تو سامنے ایک چٹان آتی ہے اور چٹان پر اونٹنی کے پاﺅں کے نشان ہیں اور پاﺅں کے نشان سے ذرا سے فاصلے پر خون کے سیاہ دھبے ہیں‘
مقامی لوگوں کا کہنا ہے پانی کا چشمہ اس چٹان کے دامن میں تھا‘ قوم ثمود کے بدبختوں نے جب اونٹنی کو قتل کیا تو اونٹنی نے شدت غم میں چٹان پر پاﺅں مارے‘ اللہ تعالیٰ نے پاﺅں کے نشان چٹان پر ثبت کر دیئے‘ اونٹنی کا لہو بھی قدرت نے بطور ثبوت چٹان پر درج کر دیا‘ چٹان کے دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا غار ہے‘ یہ غار چٹان پھٹنے سے وجود میں آیا تھا‘ مقامی لوگوں کا خیال ہے اونٹنی کا بچہ اس غار میں اتر گیا تھا‘ چٹان کے قدموں کی مٹی گیلی تھی‘ یوں محسوس ہوتا تھا چٹان کے اندر سے اب تک پانی رستا ہے اور یہ پانی مٹی کو گیلا رکھتا ہے‘
میں نے چٹان‘ اونٹنی کے پاﺅں اور خون کی ویڈیو بنا لی‘ اونٹنی کے پاﺅں اور خون کے نشان کے قریب روحانی کشش سی محسوس ہوتی تھی‘ آپ اگر روحانیت میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کسی بھی مقدس جگہ کا آسانی سے اندازہ کر سکتے ہیں‘ آپ کسی نبی‘ صحابی یا ولی کے زیر استعمال جگہ پر جائیں‘ آپ کی روح کو وہاں سگنل ملنا شروع ہو جائیں گے‘ آپ کو یوں محسوس ہو گا آپ ایک موبائل فون ہیں اور وہ جگہ وائی فائی ہے اور وائی فائی کے سگنل آپ کے ریسیور پر دستک دے رہے ہیں‘
بعض اولیائ‘ صحابہ اور انبیاءنے اپنے وائی فائی پر پاس ورڈز لگا رکھے ہوتے ہیں‘ آپ پاس ورڈز جانے بغیران کے سگنل وصول نہیں کر پاتے جبکہ بعض شخصیات کے سگنلز ”پاس ورڈ فری“ ہوتے ہیں‘ آپ بس وہاں جائیں اور اپنے ریسیور کی کیپسٹی کے مطابق سگنلز وصول کر لیں اور آپ اپنا رانجھا راضی کر لیں‘ اونٹنی کے پاﺅں اور خون کا نشان بھی وائی فائی تھا اور ہمیں اپنی روحوں میں اس کی باقاعدہ وائبریشن محسوس ہو رہی تھی‘ ہم پر اونٹنی کی مظلومیت اور اللہ کی ناراضگی دونوں کی ہیبت اتر رہی تھی‘
ہم نے جھرجھری لی اور باہر آ گئے‘ صلالہ کا قدیم شہر البلد اس جگہ سے زیادہ دور نہیں تھا‘ یہ نشان اگر حقیقی ہیں تو پھر البلد آل ثمود کا شہر ہو گا‘ وہ یہیں کہیں دائیں بائیں آباد تھے اور اللہ تعالیٰ کی بھجوائی اونٹنی اپنے بچے کے ساتھ اسی جگہ چرتی تھی اور یہیں کہیں اللہ کا فضل اترتا تھا اور حضرت جبرائیل امین اللہ کا پیغام لے کر یہیں کہیں حضرت صالحؑ کے پاس تشریف لاتے تھے‘ ہم جوں جوں یہ سوچتے جا رہے تھے‘ ہماری روحوں کے اندر گھنٹیاں بجتی جا رہی تھیں‘ ہم سرشاری کی کیفیت میں ڈوبتے جا رہے تھے۔ نوٹ :چٹان‘ اونٹنی کے پاﺅں اور خون کی ویڈیو


https://web.facebook.com/javed.chaudhry/videos/189737201940745/

احقاف قوم عاد کا مسکن تھا‘ عربی میں ریت کے لمبے اور اونچے ٹیلوں کو حقف کہا جاتا ہے‘ احقاف حقف کی جمع ہے اور یوں اس کا مطلب ہوتا ہے ریت کے اونچے اور لمبے ٹیلوں کی زمین‘ یہ علاقہ یمن اور عمان کے درمیان بکھرا ہوا تھا‘ قوم عاد یہاں ساڑھے آٹھ ہزار سال قبل آباد تھی‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں سرسبز کھیتیاں بھی دے رکھی تھیں‘ جانور بھی‘ پانی بھی اور وافر خوراک بھی‘ نعمتوں کی اس فراوانی نے انہیں بھٹکا دیا‘ وہ اللہ کے باغی ہو گئے‘ ہدایت کےلئے حضرت ہود ؑکو بھجوایاگیا‘
وہ انہیں تبلیغ کرنے لگے لیکن عاد ان کا مذاق اڑانے لگے‘ وہ شرک سے پیچھے ہٹنے کےلئے راضی نہ ہوئے‘ شداد اس قوم کا بادشاہ تھا‘ یہ دو بھائی
تھے‘ شدید اور شداد‘ شدید پہلے بادشاہ بنا‘ وہ فوت ہوا تو شداد نے اقتدار سنبھال لیا‘ وہ ایک وسیع سلطنت کا حکمران تھا‘ حکومت یمن سے عراق اور بعض روایات کے مطابق ایران تک پھیلی تھی‘ حضرت ہود ؑ نے اسے بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کا دل بھی بند تھا‘ دونوں کے درمیان مکالمہ ہوا‘ شداد نے حضرت ہود ؑ سے پوچھا‘ میں اگر ایمان لے آﺅں تو مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ حضرت ہود ؑ نے فرمایا تم پر جنت حلال ہو جائے گی‘ شداد نے پوچھا جنت کیا ہے؟ حضرت ہود ؑ نے اسے جنت کا نقشہ بتایا‘ شداد نے دعویٰ کردیا یہ کیا بڑی بات ہے‘ میں بھی ایسی جنت بنا سکتا ہوں‘ حضرت ہود ؑ نے اسے اس کفر اور اس شرک سے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آیا‘ اس نے سلطنت کے تمام بڑے معمار اکٹھے کئے اور احقاف میں ارم کے مقام پر 20 کوس لمبی اور چوڑی جنت بنوانی شروع کر دی‘ جنت میں سونے اور چاندی کی اینٹیں بھی لگائی گئیں اور جواہرات بھی لٹکائے گئے‘ اس نے شہد‘ دودھ اور پانی کی نہریں بھی رواں کر دیں اور دنیا جہاں کے درخت‘ پودے اور پھول بھی لگوا دیئے‘ قوم عاد بلند ستونوں پر محلات بنانے کی ماہر تھی‘ شداد کی ارم (جنت) میں یہ فن عروج پر تھا‘ ریت کے ٹیلوں کے درمیان بلند ستون تھے اور ان ستونوں پر سونے اور چاندی کی عمارتیں کھڑی تھیں‘ شداد نے فیصلہ کیا تھا وہ جنت کی تکمیل کے بعد اس میں قدم رکھے گا‘
معماروں نے جب اسے جنت کی تکمیل کی اطلاع دے دی تو وہ تیار ہوا‘ اپنی فوج لی اور جنت کی انسپکشن کےلئے نکل کھڑا ہوا‘ وہ جنت کے دروازے پر پہنچا‘ گھوڑے سے نیچے اترنے لگا‘ ابھی اس کا ایک پاﺅں زمین اور دوسرا گھوڑے کی رکاب پر تھا کہ ملک الموت آ گیا‘ شداد نے اس سے صرف جنت میں قدم رکھنے کی مہلت مانگی لیکن فرشتے کا جواب تھا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے میں تمہیں تمہاری جنت میں قدم نہ رکھنے دوں‘ وہ بہت گڑگڑایا لیکن ملک الموت نے اس کی جان قبض کر لی‘
وہ زمین پر دوسرا قدم نہ رکھ سکا‘ شداد کی موت کے بعد حضرت جبرائیل امین نے چیخ ماری اور شداد کی پوری جنت زمین میں دھنس کر غائب ہو گئی‘ شداد کا انجام قوم عاد کےلئے کافی تھا لیکن جب انسان کی عقل پر غرور کا پردہ پڑتا ہے تو شداد ہو یا شدید اسے کسی کا انجام دکھائی نہیں دیتا‘ حضرت ہود ؑ قوم کو شداد کا انجام بتا بتا کر ڈراتے رہے لیکن عاد نہ مانے یہاں تک کہ وہ مایوس ہو گئے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں ساتھیوں کے ساتھ علاقے سے نکلنے کا حکم دے دیا اور وہ قوم کو آخری بار سمجھا کر احقاف سے نکل گئے‘
اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد عاد پر خوفناک آندھیاں مسلط کر دیں‘ وہ آندھیاں سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہیں یہاں تک کہ پوری قوم اپنے بلند ستونوں اور سونے اور چاندی کی عمارتوں سمیت زمین میں دفن ہو گئی‘ قوم عاد کا نشان تک نہ رہا‘ پوری وادی ریت کے صحرا میں گم ہو گئی‘ پانی کے ذخیرے بچے اور نہ ہی درخت‘ پودے‘ جانور اور کھیتیاں‘ صرف ریت کے لمبے اور اونچے ٹیلے بچ گئے‘ قوم عاد کے بعد ثمود کا دور آیا‘یہ لوگ موجودہ سعودی عرب کے علاقے مدائن صالح میں آباد ہوئے‘ پہاڑ تراش کر گھر بنائے‘
اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی رزق‘ پانی اور سبزے سے نوازہ‘ وہ لوگ قدآور اور مضبوط بھی تھے‘ وہ کھڑے درخت اکھاڑ کر پھینک دیتے تھے‘یہ طاقت انہیں کفر کی طرف لے گئی‘ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کےلئے حضرت صالح ؑ بھجوائے‘ وہ انہیں سمجھاتے رہے لیکن وہ بھی باز نہ آئے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت کے راستے پر لانے کےلئے اونٹنی اور اس کا بچہ بھی بھجوایا لیکن وہ ہدایت پانے کی بجائے اونٹنی کے دشمن ہو گئے‘ انہوں نے ایک دن اونٹنی پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا‘
اونٹنی کا بچہ ڈر کر پہاڑ کی طرف دوڑا‘ پہاڑ شق ہوا اور وہ اس میں گم ہو گیا‘ یہ واقعہ قوم ثمود کی تباہی کا باعث بنا‘ حضرت جبرائیل نے چیخ ماری اور مدائن صالح سے لے کر حضر موت تک پانچ سو کلو میٹر کے پہاڑ چھوٹی چھوٹی کاشوں میں تقسیم ہو گئے یوں قوم ثمود بھی برباد ہو گئی‘ حضرت صالح ؑ قوم کی تباہی کے بعد حضرت ہود ؑ کے علاقے احقاف میں آگئے‘ پہاڑوں میں آباد ہوئے‘ انتقال فرمایا اور پہاڑ کی چوٹی پر مدفون ہوئے۔احقاف کایہ علاقہ اس وقت عمان میں موجود ہے‘
قوم عاد اور قوم ثمود(باقی ماندہ لوگ) دونوںکے لوگ صلالہ شہر کے مضافات میں آباد تھے‘ حضرت ہود ؑ اور حضرت صالح ؑ کے مزارات بھی صلالہ میں واقع ہیں‘ ناسا کو 1992ءمیں عمان کے صحرا میں ریت سے 13 میٹر نیچے ایک شہر دکھائی دیا‘ یہ ایک حیران کن دریافت تھی‘ اس پر کام شروع ہوا اور شہر کا سرا مل گیا لیکن شہر کھودا نہ جا سکا‘ وجہ گندھک تھی‘ وہ شہر پورے کا پورا گندھک کے جوہڑ میں غرق تھا‘ آرکیالوجسٹس نے پائپ لگا کر پانی نکالنے کی کوشش کی لیکن یہ آسان کام نہیں تھا چنانچہ یہ لوگ 26سال گزرنے کے باوجود ریت میں گم شہر کی صرف ایک چٹان کھود سکے اور یہ چٹان شداد کی جنت کا سرا تھی ‘
میں اس جنت گم گشتہ کی تلاش میں جمعہ 28 ستمبر کو صلالہ پہنچا‘ یہ علاقہ ماضی میں یمن کا حصہ ہوتا تھا‘ تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام حضر موت تھا‘ علماءاور آرکیالوجسٹس صدیوں سے اس کی تلاش میں تھے‘ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سورة ہود‘الفجر‘ الاعراف“ الشعرائ‘ المومنون‘ الاحقاف‘ حٰم سجدہ ‘ الذاریات‘القمر‘ النمل‘ الشمس اور بنی اسرائیل میں قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر فرمایا‘ اس ذکر نے بھی اس تلاش کو مہمیز کر دیا‘ یہ علاقہ 1843ءمیں سب سے پہلے ایک جرمن فوجی نے دریافت کیا تھا‘
اس کا کہنا تھا علاقے کی ریت باریک سفوف کی طرح تھی اور اس میں جو بھی چیز گر جاتی تھی وہ چند لمحوں میں ریت میں دفن ہو جاتی تھی‘ اس کا خیال تھا ریت کے نیچے زمین نہیں‘ یہ علاقہ ریت کی دلدل ہے‘ شداد کی جنت آج کل اوبار  کہلاتی ہے‘اوبار ریت کے سمندر میں چھوٹا سا شہر ہے‘ شہر سے باہر نکلیں تو دائیں بائیں ریت کے ٹیلے ہیں اور یہ ٹیلے ایک طرف سے سعودی عرب اور دوسری طرف سے یمن کے بارڈر تک چلے جاتے ہیں‘ میں اسلام آباد سے اوبار پہنچا تھا جبکہ میرے دوست ڈاکٹر کاشف مصطفی جنوبی افریقہ سے صلالہ آئے تھے‘
ڈاکٹر کاشف مصطفی دل کے سرجن ہیں‘ یہ بھی مذہبی سیاحت کے جنونی ہیں‘ یہ تورات‘ انجیل اور قرآن کے مقامات تلاش کرتے رہتے ہیں‘ یہ چند برس قبل اسرائیل گئے اور ”دیوار گریہ کے آس پاس“ کے نام سے شاندار کتاب لکھی‘ میں نے یہ کتاب پڑھنے کے بعد ڈاکٹر کاشف مصطفی کو تلاش کیا اور یوں ان کے ساتھ دوستی ہو گئی‘ ہمیں اس سفر کے دوران محسوس ہوا جیسے ہم ایک ہی ذات کے دو ٹکڑے ہیں اور قدرت نے ہمیں ملا کر ہم پر عظیم احسان کیا‘
ہم ہفتہ 29 ستمبر کی دوپہر صلالہ سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اوبار پہنچ گئے‘میں آپ کو اوبار کے بارے میں بتانے سے پہلے حضرت ہود ؑ اور حضرت صالح ؑکے بارے میں بتاتا چلوں‘ یہ دونوں انبیاءصلالہ میں مدفون ہیں‘ حضرت صالح ؑ شہر سے دو سو کلو میٹر دور سیاہ خشک پہاڑ پر آرام فرما رہے ہیں جبکہ حضرت ہود ؑشہر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر دفن ہیں‘ حضرت ہود ؑ کا ایک مزار یمن میں برہوت کے مقام پر بھی موجود ہے‘ حضرت علیؓ نے اس مزار کی نشانی بتائی تھی‘ وہ سرخ ٹیلے پر واقع ہے اور حضرت ہود ؑ کے سرہانے جھاڑ کا درخت ہے‘ یہ دونوں نشانیاں صلالہ میں موجود ہیں‘بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔
ہم سخت گرمی میں اوبار پہنچ گئے‘ ہمارے سامنے شداد کی جنت کے آثار موجود تھے‘ وہ ایک وسیع میدان تھا‘ میدان کے درمیان میں چونے کے پتھر بکھرے ہوئے تھے‘ ہم پتھروں کے درمیان سے ہوتے ہوئے آخری سرے پر پہنچے‘ وہاں اچانک ایک وسیع گڑھا دکھائی دیا‘ ہم گڑھے میں لڑھکتے ہوئے نیچے پہنچے‘ سامنے چٹان تھی اور چٹان کے درمیان سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں‘ ہم سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے گئے‘ سیڑھیاں ایک چھوٹے سے کمرے میں جا کر ختم ہو گئیں‘
اندر گندھک کی بو پھیلی ہوئی تھی‘ پانی کا پمپ اور پائپ بھی موجود تھا‘ کمرے میں اندھیرا تھا‘ شداد کی جنت اس کمرے کے نیچے کہیں دفن تھی‘ اس سے نیچے کھدائی نہیں کی گئی تھی‘ ہمارا دل گھبرا گیا‘ ہم باہر آ گئے‘ ہمارے اوپر چٹان جھکی ہوئی تھی‘ چٹان پر درزیں تھیں اور وہ درزیں منہ سے عبرت کا سیاپا کر رہیں تھیں‘ چٹان آج بھی آہستہ آہستہ نیچے کھسک رہی ہے گویا آج ساڑھے آٹھ ہزار سال بعد بھی شداد کی جنت زمین میں دھنس رہی ہے‘ ہم نے اوپر چٹان کی طرف دیکھا‘
چٹان کے اوپر گرم ہوا بہہ رہی تھی اور ہوا کے درمیان آسمان ہچکولے لے رہا تھا‘ پوری کائنات اس وقت تین نقطوں میں سمٹ آئی تھی‘ آسمان‘ ہوا اور ریت کا قبرستان‘ ماضی‘ حال اورمستقبل اور تینوں کے درمیان ہم تھے‘ خوف‘ وحشت اور عبرت کی زمین پر کھڑے چھ ہونق لوگ اور وہ ہونق لوگ کبھی آسمان کی طرف دیکھتے تھے‘ کبھی ریت کی طرف اور کبھی چٹان کے نیچے دفن شداد کی جنت کی طرف اور کبھی یہ سوچتے تھے‘ وقت کے اس احقاف جس میں شداد جیسے لوگ دفن ہو گئے‘ اس میں ہم جیسے لوگوں کی کیا اہمیت‘ کیا حیثیت ہے!۔

javed chaudhry best columns today, javed chaudhry columns express, javed chaudhry columns in urdu 2018, javed chaudhry best columns, javed chaudhry columns pdf download, javed chaudhry wikipedia, javed chaudhry column on maulana tariq jameel. 


سامری جادوگر کا نام بھی موسیٰ تھا‘ اسرائیلی کتابوں میں درج ہے سامری کی والدہ اس کی پیدائش کے بعد انتقال کر گئی‘ اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل ؑ نے اسے اٹھایا اور ایک غار میں اس کی پرورش کی‘ وہ خطرے سے نکل آیا تو اسے ایک نیک گھرانے کے حوالے کر دیا گیا‘ وہ بڑا ہوا تو منفی ذہنیت کا چالاک شخص نکلا‘ اللہ تعالیٰ نے اس دور میں دو موسیٰ پیدا کئے تھے‘پہلا موسیٰ فرعون کے محل میں پل کر جوان ہوا لیکن وہ فرعون کے سائے میں پرورش پانے کے باوجود اللہ کے نیک ترین بندے ثابت ہوئے‘

دوسرے موسیٰ نے حضرت جبرائیل امین کے سائے میں آنکھ کھولی‘فرشتوں کے سردار کی نگرانی میں بچپن گزارا لیکن وہ جوان ہونے کے بعد

نہ صرف خود گمراہ ہوا بلکہ اس نے بنی اسرائیل کو بھی بھٹکا دیا‘ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں موساؤں کے ذریعے یہ پیغام دیا انسان کی فطرت تبدیل نہیں ہوتی خواہ موسیٰ بن عمران فرعون کی گود میں پرورش پائے یا پھر موسیٰ سامری حضرت جبرائیل کے سائے میں آنکھ کھولے‘ بائبل اور قرآن مجید کے مطابق حضرت موسیٰ ؑ نے توریت لینے کیلئے 40 دن کوہ طور پر قیام فرمایا‘ سامری جادوگر نے بنی اسرائیل کے زیورات جمع کئے‘ انہیں پگھلا کر سونے کا بچھڑا بنایا‘ اس کے منہ میں حضرت جبرائیل ؑ کے گھوڑے کے پاؤں کی مٹی رکھی‘ پڑھ کر پھونکا اور بچھڑے سے آواز آنا شروع ہوگئی‘ سامری نے اس کے بعد بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا پر لگا دیا‘ حضرت ہارون ؑ نے قوم کو روکنے کی کوشش کی لیکن لوگ باز نہ آئے‘ حضرت موسیٰ ؑ تورات لے کر طور سے واپس آئے تو وہ قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھ کر دل گرفتہ ہو گئے‘ وہ حضرت ہارون ؑ سے سخت ناراض ہوئے‘ بعض روایات کے مطابق حضرت موسیٰ ؑنے ان کو گردن یا داڑھی مبارک سے بھی پکڑ لیا تھا‘ حضرت ہارون ؑ نے عرض کیا‘ میں نے قوم کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ لوگ میری جان کے درپے ہو گئے تھے‘ بہرحال قصہ مختصر حضرت موسیٰ ؑنے بچھڑے کو آگ لگا دی اور سامری جادوگر کو نکال دیا‘ یہ روایت بھی موجود ہے حضرت موسیٰ ؑنے سامری جادوگر کو قتل کر دیا تھا‘
ہم اگر پہلی روایت کو سچ مان لیں تو پھر تاریخ کے مطابق سامری جادوگر صحرائے سینا سے صلالہ آگیا تھا‘ وہ صلالہ کیوں آیا؟ اس کے تین امکانات ہو سکتے ہیں‘ صلالہ میں حضرت عمران ؑ کی قبر موجود ہے‘ مورخین کا خیال ہے یہ حضرت عمران ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے والد تھے اور سامری جادوگر کا خیال تھا حضرت موسیٰ ؑکبھی نہ کبھی اپنے والد کی قبر پر آئیں گے اور وہ یہاں ان سے بدلہ لے لے گا‘ میں نے لوگوں سے یہ بھی سنا یہ حضرت عمران ؑ حضرت مریم ؑ کے والد تھے اور یہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر فلسطین سے حضر موت (صلالہ) تشریف لے آئے تھے‘ یہ کون ہیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے

تاہم میں نے اتوار کی صبح ان کے مزار پر حاضری دی اور دعا بھی کی‘ دوسرا امکان‘ یہ علاقہ لوبان کی وادی کہلاتا تھا‘ یہاں آج بھی لوبان کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور لوبان جادو میں استعمال ہوتا ہے‘ لوبان کا درخت جھاڑی نما ہوتا ہے‘ یہ گرم‘ ریتلی اور کم پانی والی زمین میں پیدا ہوتا ہے‘ اس کے تنے اور شاخوں سے گوند جیسا مواد نکلتا ہے‘ یہ مواد جلایا جاتا ہے اور اس کے دھوئیں سے خوشبو پیدا ہوتی ہے‘ مجھے اس سفر میں لوبان کے فارم پر جانے اور لوبان دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا



اور تیسرا امکان‘ صلالہ یمن کا حصہ تھا اور یمن کا یہ حصہ جادوگری کا گڑھ تھا چنانچہ سامری جادوگر یہاں آ گیا‘ صلالہ میں اس نے اپنا قلعہ اور جادو کی یونیورسٹی بنائی اور لوگوں کو جادو سکھانے لگا‘ وہ خواتین کے پاؤں کے نشان دیکھ کر ان پر جادو کر دیتا تھا اور وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتی تھیں‘ خواتین نے سامری کے جادو سے بچنے کیلئے لمبے برقعے پہننا شروع کر دیئے‘ برقعے کا پلو زمین پر گھسٹتا رہتا تھا اور وہ زمین سے ان کے پاؤں کے نشان مٹاتا رہتا تھا‘ صلالہ کی خواتین آج تک زمین پر گھسٹنے والے لمبے برقعے پہنتی ہیں‘

صلالہ میں آج تک جادوگر بھی موجود ہیں‘ سامری صلالہ میں فوت ہوا تھا چنانچہ دنیا بھر کے جادوگر اپنے ”گرو“ کو سلیوٹ کرنے کیلئے صلالہ آتے ہیں‘ ہمیں سامری کی قبر پر جانے کا اتفاق بھی ہوا‘ قبر پر اداسی اور ویرانی تھی تاہم میں اس کے قلعے پر نہ جا سکا۔عمان میں پاکستان کی ایک نشانی بھی موجود ہے‘ عمان میں عیسائیوں کے دو چرچ ہیں‘ یہ دونوں چرچ پاکستانی کرسچین کمیونٹی نے قائم کئے‘ پروٹسٹنٹ چرچ بشپ آف لاہور تھامس والپے فرنچ نے 1891ء میں قائم کیا تھا‘ وہ زندگی کے آخری حصے میں تبلیغ کیلئے عمان آئے‘

چرچ قائم کیا اور مسقط کے مضافات میں انتقال کر گئے اور وہ مسقط میں مدفون ہوئے‘ عمان میں تین ہزار پاکستانی عیسائی اور ڈیڑھ ہزار پاکستانی ہندو ہیں‘ پاکستانی عیسائیوں نے آج سے 25 سال قبل صلالہ شہر میں ”چرچ آف پاکستان“بھی تعمیر کیا‘ یہ اپنی نوعیت کا منفرد چرچ ہے‘ عمان میں تین لاکھ پاکستانی مقیم ہیں‘ یہ عرب دنیا میں پاکستانیوں کی تیسری بڑی آباد کاری ہے لیکن آپ المیہ ملاحظہ کیجئے عمان کیلئے پی آئی اے‘ ائیر بلیو اور شاہین ائیر لائین نے فلائٹیں بند کر دی ہیں‘

پی آئی اے صرف مسقط تک محدود ہے جبکہ صلالہ سے کوئی فلائیٹ نہیں جس کی وجہ سے پاکستانی شدید مشکلات کا شکار ہیں‘ عمان کے ساتھ بڑا رابطہ عمان ائیر لائین ہے‘ یہ اکیلی اتنا زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتی‘ میری پی آئی اے‘ ائیر بلیو اور شاہین ائیر لائین سے درخواست ہے آپ مہربانی فرمائیں اور اپنی فلائیٹس بحال کریں تاکہ لوگوں کی تکالیف کم ہو سکیں۔میں نے صلالہ میں بے شمار زیارتیں کیں لیکن حضرت اویس قرنیؓ کے مقام پر پہنچ کر میرے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو گئیں‘ حضرت اویسؓ قرن کے رہنے والے تھے‘

یہ بستی صلالہ شہر اور جبل سے حضرت ایوبؑ کے مزار کے درمیان پڑتی تھی‘ یہ پہاڑوں کی اترائی پر چھوٹا سا گاؤں تھا‘ گاؤں کے آثار اب ختم ہو چکے ہیں‘ آپؓ اس گاؤں میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ والدہ کے علاوہ خاندان میں کوئی نہیں تھا‘ وہ بھی علیل اور بوڑھی تھیں‘ والد کا انتقال ہو چکا تھا‘ آپؓ نبی اکرمؐ کے دور رسالت سے تعلق رکھتے تھے‘ رواں رواں مسلمان اور عاشق رسولؐ تھا‘ آپ رسول اللہ ﷺکے قدموں میں حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن والدہ کی علالت اور بڑھاپا آڑے آ رہا تھا چنانچہ آپؓ عاشق ہونے کے باوجود زیارت رسولؐ سے بہرہ مند نہ ہو سکے‘

اونٹ کے بالوں کے سخت کپڑے پہنتے تھے‘ جوکی سخت روٹی کھاتے تھے اور شدید گرمی میں بھیڑ بکریاں چراتے تھے‘ آپؓ کوڑھ کے مرض میں بھی مبتلا رہے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے شفاء عنایت فرمائی لیکن آپؓ کے بدن پر درہم کے برابر کوڑھ کا نشان رہ گیا تھا‘یہ نشان آپ کی نشانی تھا‘ نبی اکرمؐ نے وصال سے قبل پوری دنیا میں حضرت اویس قرنیؓ کو اپنے خرقہ مبارک کیلئے چنا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو خرقہ مبارک پہنچانے اور امت کی بخشش کیلئے دعا کرانے کی ذمہ داری سونپی‘

یہ دونوں خلفاء وصال رسولؐ کے بعد قرن تشریف لائے‘ حضرت اویس قرنیؓ کو تلاش کیا‘ خرقہ مبارک پیش کیا اور نبی اکرمؐ کی طرف سے امت کیلئے بخشش کی دعا کی درخواست کی‘ یہ شاید کائنات کا سب سے بڑا اعزاز تھا‘ آپؓ نے نبی اکرمؐ کے خرقہ مبارک کو بوسا دیا اور ٹیلے کے پاس سجدہ ریز ہو کر امت کیلئے دعا فرمانے لگے‘ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو ان کے سوز اور وارفتگی نے حیران کر دیا‘ حضرت اویس قرنیؓ والدہ کے انتقال کے بعد حجاز تشریف لے گئے‘ وہ 657ء (37 ہجری) کو جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت امیر معاویہؓ کے لشکر کے ساتھ جنگ میں بھی شریک ہوئے تھے‘

صفین آج کے عراق اور شام کی سرحد پر واقع ہے‘ آپ نے اس جنگ میں شہادت کا رتبہ پایا اور صفین سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر شام کے شہر رقہ میں مدفون ہوئے‘ آپؓ کے مزار پر ایک شاندار مسجد تعمیر ہوئی لیکن بدقسمتی سے داعش نے یہ مسجد اور یہ مزار 2013ء میں تباہ کر دیا تاہم قبر آج بھی موجود ہے‘ دنیا میں اویسیہ کے نام سے ایک روحانی سلسلہ بھی پایا جاتا ہے‘ اویسیہ سلسلے کے لوگ عشق کو مذہب کے دیگر شعائر پر فوقیت دیتے ہیں‘ صلالہ میں بھی حضرت اویس قرنیؓ کا مزار ہے لیکن یہ مزار حقیقی نہیں‘

قرن کے لوگوں نے آپ کے گھر (کٹیا) میں آپ کا فرضی مزار بنا دیا تھا‘ گھر ختم ہو گیا لیکن مزار آج تک موجود ہے‘ قرن گاؤں بھی ختم ہو چکا ہے‘ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر اب درختوں‘ جھاڑیوں اور چھوٹے پودوں کے سوا کچھ نہیں‘ مزار بلند ہے اور وادی نیچے‘ آپ کو دور دور تک سبزہ دکھائی دیتا ہے‘ میں حضرت اویسؓ کے مزار کی پائنتی میں کھڑا ہو گیا‘ میرے دائیں بائیں اور سامنے اور پیچھے سبزہ بچھا ہوا تھا‘ میں نے مزار کا چکر لگایا‘ فضا میں حضرت اویسؓ کے عشق کی خوشبو ابھی تک موجود تھی‘

میں نے منہ کھول کر لمبی سانس لی اور یہ سوچ کر میرا پورا وجود سرشار ہو گیا حضرت اویس قرنیؓ بھی اس فضا میں سانس لیتے تھے‘ یہ ہوائیں ان کے بدن کی خوشبو سونگھتی تھیں اور اس خوشبو کو مقدس راز کی طرح لے لے کر پھرتی تھیں‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے آنسو چھپانے کیلئے سر جھکایا تو مجھے اپنے گناہ گار پاؤں دکھائی دیئے‘ میں نے اپنے آپ کو ملامت کیا اور خود سے کہا‘ اوبدبخت انسان! او گستاخ آدمی! تمہیں کس نے اجازت دی تم اپنے گستاخ پاؤں عشق کی زمین پر رکھ دو‘ بس یہ سوچ آنے کی دیر تھی اور میرے اندر ہچکیوں کا سونامی آ گیا اور میں اپنا سینہ تھامنے پر مجبور ہو گیا۔



javed chaudhry best columns today, javed chaudhry columns express, javed chaudhry columns in urdu 2018, javed chaudhry best columns, javed chaudhry columns pdf download, javed chaudhry wikipedia, javed chaudhry column on maulana tariq jameel. 

عمران احمد چنیوٹ کا رہائشی ہے‘ اس کے بقول یہ دنیا کا سب سے بڑا سائنس دان‘ طبی دنیا کا شاندار ترین دماغ اور کائنات کا سب سے بڑا موجد ہے‘ یہ ڈاکٹر آر یو عمران احمد کہلاتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے یہ دس نوبل انعام اور 40 شاہ فیصل ایوارڈز حاصل کر چکا ہے‘ یہ 100 سائنسی کارنامے اور سائنس کو 361 نئے قوانین دے چکا ہے‘ یہ قوانین نیوٹن اور آئن سٹائن کے قوانین سے بڑے ہیں اور یہ دنیا میں میڈیکل جوڈیشری کا موجد ہے‘ ڈاکٹر عمران احمد کا دعویٰ ہے دنیا جہاں کے ادارے اس کی ذہانت اور سائنسی مہارت کا ٹیسٹ لے چکے ہیں اور یہ قدرت کے اس شاہکار پر حیران ہیں‘

یہ پیچیدہ اور ناقابل علاج امراض کا

علاج بھی جانتا ہے‘ اس نے چنیوٹ میں باقاعدہ کلینک کھول رکھا تھا‘ یہ سوشل میڈیا پر کمپیئن چلاتا تھا‘ کینسر اور ہائیپاٹائٹس کے مریضوں سے ساڑھے پانچ ہزار روپے وصول کرتا تھا‘ادویات دیتا تھا اور دعویٰ کرتا تھا مرض دس دن میں ختم ہو جائے گا‘ یہ خود ساختہ ایم بی بی ایس بھی تھا‘ یہ دنیا کے کسی میڈیکل کالج کا طالب علم نہیں رہا‘ یہ فزکس‘ کیمسٹری اور بائیالوجی کی الف ب بھی نہیں جانتا لیکن یہ اس کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر بھی تھا‘ یہ ان امراض کا علاج کر رہا تھا جن کی ٹریٹمنٹ دنیا کی کوئی لیبارٹری ایجاد نہیں کر سکی‘ یہ مزید دس نوبل انعام اور 50 شاہ فیصل ایوارڈز بھی حاصل کر سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے 7 اکتوبرکو چنیوٹ پولیس نے اس ”عظیم دماغ“ کو گرفتار کر لیا اور اسے جھوٹ اور دھوکہ دہی میں جیل بھجوا دیا‘یہ جیل میں بھی اپنے دعوے پر قائم ہے‘ اس کا کہنا ہے آپ مجھے چھ مہینے مہلت دیں‘ میں ثابت کر وں گا میں آئن سٹائن سے بڑا سائنس دان ہوں۔میں دل سے سمجھتا ہوں ہمیں ڈاکٹر آریو عمران احمد کو موقع دینا چاہیے‘ ہم اگر اسد عمر کو موقع دے رہے ہیں تو ڈاکٹر آریو میں کیا خرابی ہے؟ڈاکٹرآر یو عمران خود کو دنیا کا سب سے بڑا سائنس دان سمجھتا ہے اور اسد عمر خود کو دنیا کا سب سے بڑا معاشی دماغ‘دونوں میں کیا فرق ہے؟ڈاکٹر آر یو کا دعویٰ ہے آپ مجھے ساڑھے پانچ ہزار روپے دیں‘ مریض میرے حوالے کریں اور پھر میرا کمال دیکھیں ‘
اسد عمر بھی یہی دعویٰ کرتے تھے‘ آپ ہمیں اقتدار دیں اور پھر پٹرول اور گیس سستی ہوتے ‘ اوورسیز پاکستانیوں کوڈالروں کی بارش کرتے ‘ پاکستان کو عالمی سرمایہ کاری کا مرکز بنتے‘ ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھتے‘ مہنگائی اور بے روزگاری کو کم ہوتے اور روپے کی قدر میں اضافہ ہوتے دیکھیں‘آپ دونوں ڈاکٹروں کے دعوے آمنے سامنے رکھیں‘آپ کودونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا لیکن آپ ریاست کی منافقت ملاحظہ کیجئے پولیس نے ڈاکٹر آر یو کو گرفتار کر لیا‘ یہ جیل میں سڑ رہا ہے جبکہ پولیس اسد عمر کو روزانہ سلیوٹ کرتی ہے‘

میں ریاست کے اس دہرے معیار پر حیران ہوں‘ اگر ڈاکٹر آر یو عمران اپنے دعوے ثابت نہیں کر سکا‘ یہ اپنے دس نوبل انعام‘ 40 شاہ فیصل ایوارڈز‘ 100 سائنسی کارنامے اور 360 سائنسی قوانین کے ثبوت نہیں دے سکا تو ڈاکٹرآر یو اسد عمر نے پچھلے 55 دنوں میں کیا کمال کیا؟ حکومت کے 55 دنوں میں سٹاک ایکسچینج میں لوگوں کے 794 ارب روپے ڈوب گئے‘ مارکیٹ صرف اکتوبر کے مہینے میں 500 ارب روپے نیچے آئی‘اگست میں 100 انڈیکس43 ہزار78 پوائنٹس پر تھا‘ یہ آج 38792 پر آ چکا ہے‘



گردشی قرضے 596 ارب روپے تھے‘ یہ 1200 ارب روپے ہو چکے ہیں‘ تجارتی خسارے میں بھی 2 ارب ڈالر اضافہ ہو چکا ہے‘ گیس کے نرخ 147 فیصد بڑھ چکے ہیں‘روٹی دو روپے ‘ نان تین روپے‘ چینی چار روپے‘ گھی10 روپے‘آٹا 5 روپے اور دالیں14 روپے مہنگی ہو چکی ہیں‘ درسی کتب کی قیمتیں بھی 10 فیصد بڑھ گئیں‘ اگست میں ہمارے فارن ایکسچینج ریزروز 16 ارب ڈالر تھے ‘یہ اب 8 ارب ڈالر ہوچکے ہیں اور ڈالر نے 124 سے 138 روپے پرچھلانگ لگا دی لہٰذا پچھلے 55 دنوں میں ملک کومجموعی طور پر 2800 ارب روپے کا نقصان ہوا‘

ہم اگر اس خسارے کو 55 دنوں میں تقسیم کریں تو یہ 51ارب روپے روزانہ بنتا ہے لیکن آپ ہماری منافقت دیکھئے ہم نے 5500 روپے کا نقصان پہنچانے والے ڈاکٹرآر یو عمران کو گرفتار کر لیا لیکن ملک کو روزانہ 51ارب روپے کاٹیکہ لگانے والے ڈاکٹر کےلئے قومی اسمبلی میں ڈیسک بجائے جاتے ہیں‘ کیا یہ کھلا تضاد نہیں! مجھے یہ تضاد پورے معاشرے میں دکھائی دیتا ہے‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے کیا ہم میں ہر شخص کے اندر ایک آر یو اور ایک اسد عمر نہیں بیٹھا ہوا‘

کیا ہم خود کو دنیا کی ذہین ترین‘ عقل مند ترین اور شاندار ترین قوم نہیں سمجھتے‘ ہمیں کیل اور پیچ لگانا نہیں آتا‘ آپ کو پورے ملک میں اچھا ڈرائیور‘ اچھا کک اور اچھا الیکٹریشن نہیں ملتا‘ہماری مسجدوں اور یونیورسٹیوں کے باتھ روم بھی گندے ہوتے ہیں‘ ہم آج تک پارلیمنٹ ہاﺅس کے ٹوائلٹس میں صابن نہیں رکھ سکے اور ہم آج تک قوم کو ہیلمٹ کی عادت نہیں ڈال سکے لیکن ہم اس کے باوجود دنیا کی شاندار اور ذہین ترین قوم ہیں‘ ہم اپنے دعوے دیکھیں تو محسوس ہوگا دنیا ہمارے سینگوں پر کھڑی ہے اور ہم نے جس دن اپنے سینگ نکال لئے یہ دنیا ختم ہو جائے گی لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو ہم میں سے اکثر لوگ ڈاکٹر آریو اسد عمر نکلتے ہیں‘



ہم سب فطرتاً ڈاکٹر آر یو عمران احمد ہیں‘ ہم خود کو دس دس نوبل انعام اور چالیس چالیس شاہ فیصل ایوارڈ دیتے رہتے ہیں ‘ہم خود کو دنیا کا سب سے بڑا موجد اور سب سے بڑا سائنس دان بھی سمجھتے ہیں لیکن عملاً ہم پاگلوں سے بھی کوئی اونچی‘ کوئی بلند قوم ہیں۔میں نواز شریف کا ناقد ہوں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں نواز شریف ملک کے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں‘ یہ ان کی ضد اور یہ ان کی جلد بازی تھی جس نے ان کی پارٹی‘ ان کی حکومت اور ملک تینوں کو نقصان پہنچایا‘

یہ اگر 2014ءکی ضد کو 2019ءتک موخر کر دیتے تو آج ملک مختلف ہوتا لیکن اس تمام تر تنقید کے باوجود ہمیں یہ ماننا ہوگا نواز شریف بالخصوص شہباز شریف نے ملک کو سنبھالے رکھا‘ پنجاب آج نہ صرف تینوں صوبوں سے بہتر ہے بلکہ شہباز شریف نے ملک میں گورننس کی ایک نئی مثال بھی قائم کی چنانچہ ہم نے اسے گرفتار کر کے زیادتی کی‘ آپ دیکھ لیجئے گا نیب آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم میں بھی کرپشن ثابت نہیں کر سکے گا‘ یہ کیس بھی بالآخر ایون فیلڈ ثابت ہو گا‘

ہمیں آج یہ بھی ماننا ہوگا سابق حکومتیں کرپٹ ہوں گی‘ یہ لوگ ظالم اور بے وقوف بھی ہوں گے لیکن یہ لوگ جیسے بھی تھے یہ رو پیٹ کر ملک چلا رہے تھے‘ یہ کہیں نہ کہیں سے مانگ تانگ کر سسٹم کو دھکا لگا لیتے تھے اورملک میں بجلی‘ گیس اور پٹرول کے نرخ بھی کم تھے اور ڈالر بھی 103 روپے پر تھا مگر ہم نے ان کو نکال کر یہ ملک نیک اور ذہین لوگوں کے حوالے کر دیا‘آپ سوچئے عوام کو ان نیک لوگوں کا کیا فائدہ ہوا‘ لوگوں کو نئے پاکستان نے کیا دیا؟

یہ پولیس کو غیر سیاسی اور خودمختار بنانا چاہتے تھے لیکن یہ پنجاب میں ایک ایماندار آئی جی برداشت نہیں کر سکے‘حکومت نے ایک ماہ بعد آئی جی محمد طاہر کو تبدیل کر دیا اور ردعمل میں اس ناصر درانی نے بھی استعفیٰ دے دیا جس نے پنجاب میں پولیس ریفارمز کرنی تھیں‘ کیا یہ نیا پاکستان ہے؟ نئے پاکستان کی نئی حکومت کو بیورو کریسی سے کام لینے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں‘ آپ جب فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے سینئر بیورو کریٹس کو جیلوں میں رکھیں گے اور شہباز شریف کو خوفناک مثال بنا ئیں گے تو کون سا افسر کام کرے گا‘ کون سا چیف منسٹر صوبے کو تبدیل کرنے کی جرات کرے گا‘

حکومت پاکستانی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دے رہی ہے‘یہ پاکستانی ماہرین کو بھی واپس بلا رہی ہے لیکن ڈاکٹر سعید اختر اور محمود بھٹی جیسی مثالوں کے بعد کون باہر سے سرمایہ لائے گا اور کون ملک کی خدمت کےلئے یہاں آئے گا‘ یہ تاجروں اور صنعت کاروں کا اعتماد بھی بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن ملک ریاض کی مثال کے بعدان کی بات پر کون یقین کرے گا‘ لوگ ترکی‘ مالٹا‘ ملائیشیا‘ مشرقی یورپ‘ برطانیہ اور کینیڈا میں سرمایہ کاری کیوں نہ کریں‘ وہاں سرمایہ بھی محفوظ رہتا ہے‘ فیملی سمیت شہریت بھی مل جاتی ہے اور تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی مفت ہیں‘

ملک ریاض کی ویلیو اس وقت تین ہزار ارب روپے ہے گویا یہ شخص اکیلا ملک کے کل بجٹ کا 60 فیصد ہے ‘ ہم اگر اس کا بھٹہ بٹھا رہے ہیں تو پھر باہر سے کون آئے گا اور ملک کے اندر سے کون ملک ریاض بننے کی غلطی کرے گا‘ یہ واحد آدمی ہے جو حکومت کو 50 لاکھ سستے گھر بنا کر دے سکتا ہے یایہ حکومت کو سستے مکان بنانے کا طریقہ سکھا سکتا ہے لیکن وزیراعظم انیل مسرت کو جہازوں میں لے کر پھر رہے ہیں اور ملک ریاض ایک دروازے سے دوسرے دروازے پر دھکے کھا رہا ہے

چنانچہ پھر آپ کچھ بھی کر لیں‘ آپ خواہ مارکیٹنگ کے دنیا کے بہترین لوگ ہائیر کر لیں لیکن آپ میاں شہباز شریف‘ گرفتار سینئر بیورو کریٹس‘ ڈاکٹر سعید اختر‘ محمود بھٹی اور ملک ریاض جیسی مثالوں کی موجودگی میں نیا تو کیا پرانا پاکستان بھی نہیں چلا سکیں گے‘ آپ رہی سہی معیشت کا بھی بیڑہ غرق کر دیں گے‘ آپ رحم کریں‘ یہ ملک ڈاکٹرآر یواسد عمر جیسے مزید ماہرین افورڈ نہیں کر سکتا‘آپ سنبھل جائیں ورنہ دنیا اسد عمر کو نوبل انعام یافتہ معیشت دان ڈکلیئر کر کے تاریخ کو ہنسنے پر مجبور کر دے گی۔

javed chaudhry best columns today, javed chaudhry columns express, javed chaudhry columns in urdu 2018, javed chaudhry best columns, javed chaudhry columns pdf download, javed chaudhry wikipedia, javed chaudhry column on maulana tariq jameel. 

آپ اگر اسلام آباد میں رہتے ہیں تو آپ راول ٹاؤن چوک کو اچھی طرح جانتے ہوں گے‘ یہ چوک کلب روڈ پر سرینا ہوٹل سے فیض آباد کی طرف جاتے ہوئے آتا ہے‘ چوک میں ایک پٹرول پمپ اور ایک پرانی مسجد ہے‘ میں 1993ء میں اسلام آبادآیا تو مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا‘ گاؤں کی زمینیں ایکوائر ہو چکی تھیں‘ امیر لوگ زمینوں کی قیمتیں وصول کر کے بڑے بڑے سیکٹروں اور فارم ہاؤسز میں شفٹ ہو چکے تھے لیکن وہ غرباء پیچھے رہ گئے تھے جن کی زمینوں کے پیسے امراء کھا گئے یا پھر وہ جو گاؤں کے کمی کمین تھے اور ان کے نام پر کوئی زمین نہیں تھی‘ حکومت نے انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا‘
دنیا میں ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لہٰذا وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں مقیم تھے‘ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ نے ان کو بے شمار نوٹس دیئے مگر مکینوں کا کہنا تھا ”ہم کہاں جائیں‘ آپ ہمیں بتا دیں ہم وہاں چلے جاتے ہیں“ حکومت ظاہر ہے ایک ٹھنڈی ٹھار مشین ہوتی ہے‘ اس کا دل ہوتا ہے اور نہ ہی جذبات لہٰذا حکومت جواب میں ایک اور نوٹس بھجوا دیتی تھی‘ نوٹس بازی کے اس عمل کے دوران بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں‘ ضلعی انتظامیہ نے جب بھی سویلین گورنمنٹ سے آپریشن کی اجازت مانگی حکومت نے اجازت نہ دی‘ انتظامیہ ایک بار مشینری لے کر وہاں پہنچ گئی‘ چودھری شجاعت حسین اس وقت وزیر داخلہ تھے‘ ان کو اطلاع ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ذاتی طور پر آپریشن رکوایا لیکن پھر 1999ء آ گیا اورجنرل پرویز مشرف حکمران بن گئے‘ ان کا قافلہ روز اس چوک سے گزر کر وزیراعظم ہاؤس آتا تھا‘ جنرل مشرف کی طبع نازک پر غریبوں کی وہ جھونپڑیاں ناگوار گزرتی تھیں‘ وہ ایک دن گزرے‘ کھڑکی سے باہر دیکھا اور آپریشن کا حکم جاری کر دیا‘ میں ان دنوں شہزاد ٹاؤن میں رہتا تھا اور روزانہ راول چوک سے گزرتا تھا‘ میں نے دوپہر کو دفتر جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے وہ آپریشن دیکھا‘ وہ لوگ انتہائی غریب تھے‘ ان کے گھروں میں ٹوٹی چار پائیوں‘ پچکے ہوئے برتنوں اور پھٹی رضائیوں کے سوا کچھ نہیں تھا‘ انتظامیہ نے وہ بھی ضبط کر لئے‘ گاؤں چند گھنٹوں میں صاف ہو گیا‘ زمین کو فارم ہاؤسز میں تبدیل کر دیا گیا اور وہ فارم ہاؤسز امراء نے خرید لئے‘
صرف مسجد اور اس کے ساتھ چند قبریں بچ گئیں‘ وہ قبریں بھی اب کم ہوتی چلی جا رہی ہیں‘ یہ کہانی یہاں پر ختم ہو گئی‘ 2007 ء میں اس کہانی کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آیا‘ ملک میں اس وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک چل رہی تھی‘ ایک روز ایک صاحب وہیل چیئر پر میرے پاس تشریف لائے‘ وہ ٹانگوں سے معذور تھے اور چہرے سے بیمار دکھائی دیتے تھے‘ میں انہیں بڑی مشکل سے گھر کے اندر لا سکا‘ وہ مجھے اپنی کہانی سنانا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا‘ راول چوک کا وہ آپریشن انہوں نے کیا تھا‘ وہ اسے لیڈ کر رہے تھے‘
میں خاموشی سے ان کی داستان سنتا رہا‘ ان کا کہنا تھا‘ ان کے تین بچے تھے‘ دو لڑکے اور ایک لڑکی‘ شادی پسند کی تھی‘ وہ سی ایس پی آفیسر تھے‘ کیریئر بہت برائیٹ تھا‘ سینئر اس کی کارکردگی سے بہت مطمئن تھے‘ ان کا اپنا خیال بھی تھا وہ بہت اوپر تک جائیں گے‘ وہ رٹ آف دی گورنمنٹ کے بہت بڑے حامی تھے‘ وہ سمجھتے تھے قانون پر سو فیصد عمل ہونا چاہیے اور جو شخص قانون کے راستے میں حائل ہوریاست کو اس کے اوپر بلڈوزر چلا دینا چاہیے چنانچہ جنرل مشرف نے جب راول چوک کے مکانات گرانے کا حکم دیا تو یہ ذمہ داری انہیں سونپی گئی‘ یہ فورس لے کر وہاں پہنچے اور گھر گرانا شروع کر دیئے‘
لوگ مزاحم ہوئے‘ پولیس نے ڈنڈے برسائے‘ لوگوں کو گرفتار بھی کیا اور ایک آدھ موقع پر ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی‘ بہرحال قصہ مختصر آپریشن مکمل ہو گیا اور انتظامیہ نے ملبہ اٹھانا شروع کر دیا‘وہ رکے اور پھر بھولے‘ آپریشن کے بعد اینٹوں کے ایک ڈھیر پر درمیانی عمر کی ایک خاتون بیٹھی تھی‘ وہ ملبے سے نہیں اٹھ رہی تھی‘ اس کا صرف ایک مطالبہ تھا‘ وہ کہہ رہی تھی وہ بس ایک بار آپریشن کرنے والے صاحب سے ملنا چاہتی ہے‘ انتظامیہ عموماً ایسے مواقع پر خواتین سے زبردستی نہیں کرتی چنانچہ اہلکاروں نے انہیں بتایا اور وہ خاتون کے پاس چلے گئے‘
خاتون نے ان کی طرف دیکھا اور کہا ”صاحب یہ آپریشن آپ نے کیا“ میں نے جواب دیا ”ہاں“ اس نے جھولی پھیلائی‘ آسمان کی طرف دیکھا اور بولی ”یا پروردگار‘ اس شخص نے میرے اور میرے بچوں کے سر سے چھت چھینی‘ یا اللہ اسے اور اس کے بچوں کو برباد کر دے“ میں اس وقت جوان تھا‘ میں نے منہ دوسری طرف پھیر دیا‘ اس خاتون نے اس کے بعد کہا ”یا اللہ ہم سے ہمارے گھر چھیننے والے تمام لوگوں کو برباد کر دے“ اس نے اس کے بعد اپنی پوٹلی اٹھائی‘ اپنے بچے ساتھ لئے اور وہ چلی گئی‘
وہ رکا‘ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور بولا‘ جاوید صاحب آپ یقین کریں وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں بحرانوں سے نہیں نکل سکا‘میں اس پوٹلی والی کی بددعا کا نشانہ بن گیا‘ میرا ایکسیڈنٹ ہوا‘ میری بیوی اور میری بچی مر گئی‘ میری ٹانگیں کٹ گئیں‘ میرے دونوں بیٹے ایک ایک کر کے بیمار ہوئے‘ میں نے اپنی ساری جمع پونجی ان کے علاج پر لگا دی لیکن وہ فوت ہو گئے‘ مجھے سسرال سے گھر ملا تھا‘ وہ بک گیا‘ میں نے اپنا گھر بنایا تھا‘ وہ2005ء کے زلزلے میں گر گیا‘
محکمے نے میرے اوپر الزام لگایا‘ میری انکوائری شروع ہوئی‘ میں ڈس مس ہوا اور میں بے گناہی کے باوجود آج تک بحال نہیں ہو سکا‘ میں مقدمے پر مقدمہ بھگت رہا ہوں‘ میں 38 سال کی عمر میں شوگر‘ بلڈ پریشر اور دل کا مریض بھی بن چکا ہوں اور میرے تمام رشتے دار اور دوست بھی میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں مجھے اس عورت کی بددعا لگی تھی‘ حکومت‘ میرا محکمہ اور آرڈر دینے والے لوگ تینوں پیچھے رہ گئے لیکن میں برباد ہو گیا‘

میں آج سوچتا ہوں تو میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں‘میں کتنا بے وقوف تھا! میں نے اس جنرل مشرف کے حکم پر غریبوں کے سروں سے چھت چھین لی جو خود تاریخ کے سب سے بڑے قبضہ گیر تھے‘ وہ غریب چند کنال زمین پر قابض تھے جبکہ جنرل مشرف نے 8 لاکھ مربع کلو میٹر کے ملک پر قبضہ کر رکھا تھا‘ وہ رکا اور بولا‘ آپ آج سڑکوں پر جنرل مشرف کے خلاف جلوس دیکھ رہے ہیں‘ آپ یقین کیجئے یہ بھی اب میری طرح اپنی گھر میں نہیں رہ سکیں گے‘ ہم سب کو اس عورت کی آہ کھا جائے گی‘
وہ رکا اور پھر بولا‘ آپ کو میری باتیں عجیب لگیں گی لیکن میں نے تحقیق کی ہے‘ اس آپریشن کا حکم دینے والا ہر شخص میری طرح ذلیل ہوا‘ ان میں سے آج کوئی شخص اپنے گھر میں آباد نہیں‘ وہ سب اولاد اور بیویوں کے بغیر عبرت ناک اور بیمار زندگی گزار رہے ہیں یہاں تک کہ اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے کی ساری پراپرٹی بھی بک گئی اور اس کی اولاد بھی دربدر ہو گئی‘ وہ بھی عبرت کا نشان بن کر آخری سانسیں لے رہا ہے‘ وہ صاحب اپنی کہانی سنا کر چلے گئے‘ میں چند دن اس کہانی کے تاثر میں رہا اور پھر نئے واقعات نے اس واقعے کو یادداشت کے آخری کونے میں دھکیل دیا‘ میں اسے بھول گیا۔
وہ صاحب اور تجاوزات کے خلاف وہ آپریشن مجھے چند دن سے بار بار یاد آ رہا ہے‘ حکومت اس وقت آدھے ملک میں د ھڑا دھڑ لوگوں کے مکان اور دکانیں گرا رہی ہے‘ یہ لوگ یقینا ناجائز قابض ہوں گے اور ریاست کو اپنی رٹ ضرور اسٹیبلش کرنی چاہیے لیکن کیا سرکار کی زمین پر صرف یہ لوگ قابض ہیں اور کیا صرف چار پانچ مرلے کے گھر اور بیس فٹ کے شیڈز ناجائز تجاوزات ہیں؟حکومت ذرا سی تحقیق کرے اسے لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ ملے گا‘ کیا حکومت اس پر بلڈوزر چلا سکتی ہے‘ جی نہیں‘ عمران خان کبھی یہ غلطی نہیں کریں گے‘
دوسرا‘ عام غریب لوگ سرکاری زمینوں‘ سڑکوں کے ساتھ موجود رقبوں‘ گلیوں‘ بازاروں اور چوکوں پر تھڑے اور چھپر بنا لیتے ہیں‘ کیوں؟ اس کی واحد وجہ ان جگہوں کا خالی اور بے مصرف ہونا ہے‘ آپ جب پارک کی جگہ پارک‘ گرین بیلٹ کی جگہ گرین بیلٹ‘ مسجد کی جگہ مسجد‘ فٹ پاتھ کی جگہ فٹ پاتھ اور نرسری کی جگہ نرسری نہیں بنائیں گے تو اللہ کا کوئی نہ کوئی بندہ اس زمین پر جلد یا بدیر آباد ہو جائے گا‘ کیوں؟کیونکہ یہ زمین اللہ کی ہے اور اللہ کے بندے اس پر لاکھوں سالوں سے آباد ہوتے آ رہے ہیں‘
انسان کی نفسیات ہے یہ خالی جگہ نہیں چھوڑتا لہٰذا حکومت اگر ان زمینوں کو ناجائز قابضین سے بچانا چاہتی ہے تو پھر یہ انہیں خالی نہ چھوڑے‘ یہ انہیں نیلام کر دے‘ الاٹ کر دے یا پھر کرائے پر دے دے‘ سرکار کو آمدن بھی ہو گی اور زمینوں پر ناجائز قبضے بھی نہیں ہوں گے اور تیسرا اور آخری نقطہ‘ اللہ کی ذات ہر چیز‘ ہر ضرورت سے بالاتر ہے لیکن گھر اور تعریف دنیا کی دو واحد چیزیں ہیں جس کی اللہ کو بھی طلب ہوتی ہے‘ پوری زمین پر اللہ کے گھر (عبادت گاہیں) ہیں اور یہ اپنے بندوں سے اپنی حمدو ثناء کی توقع بھی کرتا ہے‘
اللہ جب بھی کسی سے خوش ہوتا ہے تو یہ اسے چھت اور رزق دیتا ہے اور اسے اپنے ذکر کی توفیق بھی عطا کر دیتا ہے چنانچہ میرا تجربہ اور میرا مشاہدہ ہے دنیا کا ہر وہ شخص جو کسی کے سر سے چھت اور اس کا روزگار چھینتا ہے یا پھر کسی معزز شخص کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے اور وہ شخص اس کے بعد روز مرتا اور روز جیتا ہے مگر اس کی سزا ختم نہیں ہوتی لہٰذا آپ جو دل چاہے کریں لیکن کسی کی بددعا نہ لیں‘ دنیا کے تمام عہدے‘ کرسیاں اور تکبر عارضی ہوتے ہیں‘ یہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں میں صرف پوٹلی والیوں کی دعائیں اور بددعائیں کام آتی ہیں۔

javed chaudhry best columns today, javed chaudhry columns express, javed chaudhry columns in urdu 2018, javed chaudhry best columns, javed chaudhry columns pdf download, javed chaudhry wikipedia, javed chaudhry column on maulana tariq jameel. 

لندن کی آبادی 1750ءسے 1810ءکے درمیان 15 لاکھ تک پہنچ چکی تھی‘ آبادی کے لحاظ سے یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا‘ شہرمیں ان دنوں سر ہی سر نظر آتے تھے‘ شہر منصوبہ بندی کے بغیر بڑا ہوا تھا چنانچہ سڑکیں‘ بازار اور رہائشی آبادیاں لوگوں کا دباﺅ برداشت نہیں کر پا رہی تھیں‘ لندن میں سیوریج سسٹم نہیں تھا‘ ہر گھر کے سامنے سپٹک ٹینک ہوتا تھا‘ڈیٹا کے مطابق شہر میں دو لاکھ گٹڑ تھے اور یہ گٹڑ صبح شام ابلتے رہتے تھے‘ گندا پانی لندن کی گلیوں میں بہتا تھا‘

بارش اس غلیظ پانی کو بہا کر دریائے تھیمز میں لے جاتی تھی‘ میٹرو پولیٹن بعدازاں دریا کا پانی پمپ کر کے گھروں کو سپلائی کر دیتی تھی اور یوں شہری

اپنا سیوریج پیتے تھے‘ شہر کے غرباءعموماً تہہ خانوں میں رہتے تھے‘ گھروں کے یہ حصے اکثر اوقات سیوریج کے پانی سے بھرے رہتے تھے یا پھر وہاں گندے پانی کی سیلن ہوتی تھی‘ یہ گندگی بیماری میں تبدیل ہوئی اور1831ءمیں لندن میں ہیضے کی خوفناک وباءپھوٹ پڑی‘ 55 ہزار لوگ مارے گئے‘ یہ وبائ‘ گندگی اور بدبو سفر کرتے کرتے ہاﺅس آف کامنز کے اندر تک پہنچ گئی‘ 1858ءمیں سیلن کے اثرات برطانوی پارلیمنٹ کے فرش‘ دیواروں اور ستونوں میں بھی دکھائی دینے لگے‘ ہاﺅس آف کامنز کے پردے تک بدبودار پانی میں بھیگ گئے اور ارکان پارلیمنٹ ناک پر رومال رکھ کر اسمبلی آنے پر مجبور ہو گئے‘ یہ صورت حال ناقابل برداشت تھی چنانچہ گورنمنٹ نے اس کے تدارک کا فیصلہ کیا‘ حکومت کو مختلف ماہرین نے مختلف تجاویز دیں لیکن یہ تمام علاج عارضی تھے‘ حکومت اس کا کوئی مستقل حل نکالنا چاہتی تھی‘حکومت نے یہ ذمہ داری جوزف بازل گیٹ  کو دے دی‘ وہ اس وقت میٹرو پولیٹن کا چیف انجینئر تھا‘ وہ ذہین‘ معاملہ فہم اور لانگ ٹرم پالیسی بنانے کا ماہر تھا‘ جوزف نے پورے لندن کا سروے کرایا‘تمام لوگوں کا ڈیٹا جمع کیااور ہر شخص سے پوچھا وہ کتنی بار واش روم استعمال کرتا ہے‘ استعمال اور تعداد کو بعد ازاں آپس میں ضرب دی‘ اسے تین سے ضرب دی اور پھر اس ڈیٹا کو پائپوں سے ضرب دے کر لندن میں سیوریج کا سسٹم بچھانا شروع کر دیا‘ جوزف نے پورے شہر کو سیوریج سے جوڑا‘
شہر سے دس کلو میٹر دور ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا‘ سیوریج لائین کو اس پلانٹ سے منسلک کیا‘ سیوریج کا پانی صاف کیا اور پھروہ صاف پانی دریا میں ڈال دیا‘ لندن کا سیوریج ایشو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو گیا‘ جوزف کا سسٹم کس قدر مکمل اور شاندار تھا حکومت کو اس کا اندازہ 1960ءکی دہائی میں ہوا‘ لندن میں1960ءمیں پراپرٹی کا بوم آیا‘ اپارٹمنٹس ٹاورز اور ہائی رائز بلڈنگز بنیں اور سیاحوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہو گیا‘ حکومت کا خیال تھا شہر کا سیوریج سسٹم چوک ہو جائے گا اور میٹرو پولیٹن اس کی توسیع پر مجبور ہو جائے گی لیکن میئریہ جان کر حیران رہ گیا جوزف بازل گیٹ کا سسٹم یہ دباﺅ آسانی سے برداشت کر گیا‘

شہر میں کسی جگہ سیوریج چوک ہوا اور نہ ہی بہاﺅ میں رکاوٹ آئی‘ جوزف بازل گیٹ کا یہ سسٹم بعد ازاں پورے برطانیہ اور پھر یورپ کے تمام ملکوں کے تمام بڑے شہروں میں بچھایا گیا‘ فرانس‘ جرمنی اور سپین نے اس سسٹم میں ایک اضافہ کر دیا‘ یہ ملک سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کر کے گھروں میں واپس بھجواتے تھے‘ یہ پانی کموڈز میں دوبارہ استعمال ہوتا ہے‘ یورپ کے نوے فیصد گھروں میں پانی کی دو لائین بچھائی جاتی ہیں‘ پہلی لائین صاف پانی سپلائی کرتی ہے‘



لوگ یہ پانی پیتے اور اس سے کھانا پکاتے ہیںجبکہ دوسری لائین میں ٹریٹمنٹ شدہ پانی ہوتا ہے‘ یہ پانی باتھ رومز‘ ٹوائلٹس‘ لانڈری‘ لانز اور گیراج میں استعمال ہوتا ہے‘ یورپ میں حکومتیں ہر گھر سے پانی کا بل بھی وصول کرتی ہیں‘ یہ بل پانی میں کفایت شعاری کی عادت بھی ڈالتا ہے اور حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔آپ مجھ سے اگر پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پوچھیں تو میں گندگی کو کرپشن‘ ناانصافی اور عدم مساوات سے بھی بڑا مسئلہ کہوں گا‘ ہم من حیث القوم گندے لوگ ہیں‘

معاشرہ کچن سے شروع ہوتا ہے اور واش روم میں ختم ہوتا ہے اور ہماری یہ دونوں جگہیں انتہائی گندی ہوتی ہیں‘ آپ خواہ کروڑ پتی لوگوں کے گھروں میں بھی چلے جائیں‘ آپ خواہ کسی شہر کی کسی گلی میں نکل جائیں‘ آپ کو وہاں گندگی کے ڈھیر ملیں گے‘ ہماری مسجدوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں بھی گندگی ہوتی ہے‘ آپ پارلیمنٹ ہاﺅس کے واش رومز دیکھ لیجئے‘ آپ کو وہاں بھی صابن نہیں ملے گا‘ حکومت کے سارے واش رومز گندے ہوتے ہیں‘ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں بھی کچرہ ٹھکانے لگانے کا کوئی ٹھوس بندوبست نہیں‘ اسلام آباد کا آدھا سیوریج نالوں اور ڈیم میں جاتا ہے‘

لاہور کا گند راوی اور کراچی کا کچرہ سیدھا سمندر میں گرتا ہے‘ آپ ملک کے کسی سیاحتی مقام پر چلے جائیں‘ آپ کو وہاں گند کے ڈھیر ملیں گے‘ ہم 21 ویں صدی میں بھی لوگوں کو واش روم استعمال کرنے کا طریقہ نہیں سکھا سکے‘ ہم لوگوں کو یہ نہیں بتا سکے صابن سے ہاتھ دھونا کتنا ضروری ہے‘ ہم انہیں یہ نہیں سمجھا سکے آپ جو گند سڑکوں پر پھینک رہے ہیں وہ اڑ کر دوبارہ آپ کے گھر آئے گا‘وہ آپ کی سانس کی نالیوں کے ذریعے آپ کے جسم میں جائے گا‘ ہم لوگوں کو یہ بھی نہیں بتا سکے گٹڑ کا پانی زمین میں موجود پانی میں شامل ہو جاتا ہے‘ یہ غلیظ پانی صاف پانی میں شامل ہوتا ہے‘

ہم اور ہمارے خاندان یہ پانی پیتے ہیں اور یوں ہم مہلک امراض کا نشانہ بن جاتے ہیں اور ہم لوگوں کو آج تک یہ بھی نہیں بتا سکے ہمارا ملک اگر ہائیپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے ‘ ٹی بی میں پانچویں‘ شوگر میںساتویںاور گردے کے امراض میں آٹھویں نمبر پر ہے یا ہمارے ملک میں ہر سال تین لاکھ لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو اس کی اصل وجہ گند ہے‘ ہم لوگ گندے ہاتھوں سے گندے برتنوں میں کھاتے اور گندا پانی پیتے ہیں چنانچہ ہم صحت مند کیسے ہو سکتے ہیں؟۔



میں نئی حکومتوں کی حماقتوں کا ناقد ہوں لیکن حماقتوں کے اس انبار میں یہ لوگ کلین اور گرین پاکستان کے نام سے ایک اچھا کام بھی کر رہے ہیں‘ یہ کام ستر سال پہلے شروع ہونا چاہیے تھا تاہم دیر آید‘ درست آید‘ یہ کام اگر آج بھی شروع ہو جائے تو یہ بیمارستان صحت مندستان میں تبدیل ہو جائے گا لیکن آپ کو اس کےلئے جوزف بازل گیٹ کی طرح لمبی پلاننگ کرنا ہوگی‘ گندگی کینسر کی طرح ہوتی ہے‘ آپ زخم پر پٹی باندھ کراس کا علاج نہیں کر سکتے لہٰذا وزیراعظم یا وزراءاعلیٰ صاف سڑک پر صاف جھاڑو پھیر کر پوری قوم کو صاف ستھرا نہیں بنا سکیں گے‘ گند ہماری فطرت‘ ہماری عادت ہے‘

آپ کو یہ عادت بدلنے کےلئے سائنسی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا‘ آپ کو پرسنل ہائی جین سے لے کر ماحولیات تک صفائی کا سلیبس بھی بنانا ہوگا اور یہ سلیبس پہلی سے دسویں جماعت تک سکولوں میں بھی متعارف کرانا ہوگا‘ آپ کو پورے پاکستان میں پبلک ٹوائلٹس بھی بنوانے ہوں گے اور عوام کو ان کے استعمال کا طریقہ بھی سکھانا ہوگا‘ ہم آج بھی پینے کا صاف اور میٹھا پانی فلش میں بہاتے ہیں‘ ہمیں یہ ٹرینڈ بھی فوراً بدلنا ہوگا‘ حکومت فوری طور پر نئی تعمیرات کےلئے نئے بائی لاز بھی بنائے‘

فلش اور صاف پانی کی لائین بھی الگ الگ کرے اور یہ ہر گھر میں چھوٹے سے ٹریٹمنٹ پلانٹ کو بھی لازمی قرار دے‘ یہ پلانٹ استعمال شدہ پانی صاف کر کے دوبارہ فلش کے ٹینکوں میں ڈالے اور پھر صاف کرے اور پھر مین سیوریج لائین میں ڈالے‘ ہم اگریہ بندوبست پورے ملک میں نہیں کر سکتے تو نہ سہی لیکن ہم یہ قانون ملک کے دس بڑے شہروں میں تو بنا سکتے ہیں‘ ہم ان شہروں کی حالت تو بدل سکتے ہیں‘ حکومت اسی طرح کچرہ اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ٹھیک کرے‘

ہر شہر میں صفائی کے ڈائریکٹوریٹ بنائے جائیں‘ لوگ بھرتی کئے جائیں‘ گھروں سے فیس لی جائے اور پھر اگر کسی شہر کی کسی گلی میں کچرہ نظر آئے تو آپ ذمہ داروں کو الٹا لٹکا دیں‘ دنیا میں کچرے سے بجلی بنانے کے پلانٹس بھی آ چکے ہیں‘ حکومت ہر شہر میں یہ پلانٹس بھی لگوا سکتی ہے یوں بجلی کا ایشو بھی ختم ہو جائے گا اور کچرہ بھی ٹھکانے لگ جائے گا اور حکومت ہر کچے اورپکے مکان کےلئے باتھ روم کا سائز اور ڈیزائن بھی فائنل کر دے‘ پلمبرز کو اس ڈیزائن کی ٹریننگ دی جائے اور انہیں پابند بنایا جائے‘

جو پلمبر خلاف ورزی کرے گا اسے سات سال قید بامشقت دے دی جائے گی‘ ریستورانوں اور دکانوں میں بھی باتھ روم لازمی ہوں اور ان کا باقاعدہ سٹینڈرڈ ہو‘ موٹروے پولیس کی طرح سینیٹری پولیس بھی بنائی جائے اور یہ پولیس گند پھیلانے والوں کو بھاری جرمانہ کرے‘ یہ گھروں اور پبلک باتھ رومز کا معائنہ بھی کرے اور اسی طرح ملک میں زمین کا کوئی چپہ بھی خالی نظر نہیں آنا چاہیے‘ زمین کی ایک ایک انچ پر پودا ہونا چاہیے‘ وہ خواہ پھول ہو‘ گھاس ہو یا پھر درخت ہو‘ پاکستان کے ہر طالب علم‘ ہر ملازم اور ہر کمپنی کےلئے درخت لگانا لازمی قرار دے دیا جائے‘

لوگ ہر سال ٹیکس ریٹرن کی طرح گرین ریٹرن بھی فائل کریں اور حکومت اس کا بھی آڈٹ کرے اور آخری تجویز ‘برادر اسلامی ملک ازبکستان نے دس سال میں ملک کو صاف کر کے کمال کر دیا‘ آپ دس بڑے شہروں کی کارپوریشنز کے دو دو لوگ ازبکستان بھجوائیں‘ یہ لوگ ان سے صفائی کا طریقہ سیکھیں اورکام شروع کرا دیں‘ ہمارا ملک دو تین برسوں میں کلین بھی ہو جائے گا اور گرین بھی ورنہ پھر اسی طرح ہمارے وزیراعظم ہر سال جھاڑو دیتے رہیں گے‘ سڑکوں پر گند میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ہم اسی طرح بیمار ہوتے چلے جائیں گے۔

javed chaudhry best columns today, javed chaudhry columns express, javed chaudhry columns in urdu 2018, javed chaudhry best columns, javed chaudhry columns pdf download, javed chaudhry wikipedia, javed chaudhry column on maulana tariq jameel. 

پال ایلن مائیکرو سافٹ میں بل گیٹس کا پارٹنر تھا‘ بل گیٹس پال سے 12 سال کی عمر میں ملا‘ یہ دونوں اس وقت سکول میں پڑھتے تھے‘ دونوں کمپیوٹر کے نشئی تھے‘پال ایلن1971ءمیں واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی گئے اور1974ءمیں ڈراپ آﺅٹ ہوگئے جبکہ بل گیٹس 1973 ءسے 1975ءتک ہارورڈ یونیورسٹی میں زیرتعلیم رہے‘ اس دوران پال ایلن نے بل گیٹس کو ہارورڈ یونیورسٹی چھوڑنے پر راضی کیا اور دونوں نے 1975ءمیں مائیکرو سافٹ کی بنیاد رکھی اور پھر اس کمپنی نے پوری دنیا کا مزاج بدل دیا‘

کمپیوٹر آفیشل سے پرسنل بنا اور یہ آخر میں موبائل فون میں تبدیل ہو گیا‘ یہ پال ایلن 15اکتوبر2018ءکوسیاٹل میں انتقال کر گیا‘ یہ خون کے سرطان میں مبتلا تھا‘ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا‘ ذاتی

دولت 20بلین ڈالر سے زائد تھی‘ اس نے 1982میں مائیکرو سافٹ چھوڑی اور زندگی کے باقی 36سال فلاح و بہبود میں لگا دیئے‘ یہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنی دولت انسانیت کےلئے وقف کر گیا‘ دنیا کے تمام نامور چیف ایگزیکٹوز کا دعویٰ ہے مائیکرو سافٹ کے پیچھے دماغ بل گیٹس کا تھا لیکن کمپنی کو دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشن پال ایلن نے بنایا‘ یہ قدرتی طور پر بزنس کو سمجھتا تھا اور مشکل سے مشکل ڈیل کو اپنے حق میں استعمال کرلیتا تھا‘ پال ایلن کی بزنس فلاسفی کے صرف دو ستون تھے‘ بڑے فیصلوں سے پہلے چھوٹے چھوٹے فیصلے اور کامیاب مثالوں کو قبول کرنا‘ یہ دونوں فلسفے بظاہر آسان دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ انتہائی مشکل ہیں‘ پال ایلن کا خیال تھا آپ اگر کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ پہلے چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حاصل کریں‘ یہ چھوٹی کامیابیاں آپ اور آپ کے ساتھیوں کے اعتماد میں بھی اضافہ کریں گی اور یہ آپ کو بڑی کامیابی حاصل کرنے کا گُر بھی سکھا دیں گی‘ دوسرا وہ کہتا تھا دنیا میں اس وقت کامیابی کے بے شمار ماڈل موجود ہیں‘ آپ اپنا ماڈل تخلیق کرنے کی بجائے ان میں سے کوئی ماڈل لیں اور کام شروع کر دیں‘ آپ کا وقت اور توانائی دونوں بچ جائیں گی‘ وہ کہتا تھا آپ کامیابی کا ماڈل لیتے وقت ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو جائیں‘ اگر آپ کے دشمن نے بھی کارآمد سسٹم بنایا ہے تو آپ اس سے وہ سسٹم لیں‘ اسے استعمال کریں اور استعمال کے بعد اس کا شکریہ ادا کریں‘ آپ کبھی نقصان میں نہیں رہیں گے۔
پال ایلن کی اس فلاسفی میں عمران خان کےلئے دو شاندار ٹپس چھپی ہیں‘ پہلی ٹپ‘وزیراعظم بڑی سے پہلے چھوٹی کامیابیاں حاصل کریں‘ حکومت نے بدقسمتی سے کرسی پر بیٹھتے ہی مشکل اور بڑے فیصلے شروع کر دیئے ہیں‘ یہ فیصلے حکومت اور اس کی اہلیت دونوں کو بھی لے کر بیٹھ رہے ہیں اور عوام نے بھی سر پر ہاتھ رکھ کر دہائیاں دینا شروع کر دیں‘ یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو یہ ملک کی پہلی حکومت ہو گی جس کے خلاف چھ ماہ میں عوامی احتجاج شروع ہو جائے گا‘

لوگ سڑکوں پر ہوں گے اور حکومت کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی‘ مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے یہ لوگ جس طرح بیورو کریسی پر غیر ضروری دباﺅ ڈال رہے ہیں اور یہ جس طرح متکبرانہ لہجے میں بات کرتے ہیں‘ سرکاری مشینری اس سے تنگ آ کر کام کرنا بند کر دے گی اور یہ بہت بڑا بحران ہو گا چنانچہ عمران خان کو چاہیے یہ بڑے اور مشکل فیصلوں کو ترجیحات کی فہرست میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر لے آئیں اور پہلے چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حاصل کریں مثلاً پاکستان میں ستر سال سے ٹریفک کے مسائل ہیں‘



موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتے‘ لوگ کسی بھی جگہ سے سڑک پار کر لیتے ہیں‘ ڈرائیور لائین کی پرواہ نہیں کرتے اور لوگ بلاوجہ ہارن بجاتے رہتے ہیں‘ گاڑیوں کی مینٹیننس اور انشورنس کے قوانین پر بھی آج تک عملدرآمد نہیں ہوا اور پاکستان روڈ سیفٹی میں بھی دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے‘ حکومت یہ مسئلہ فوراً حل کر سکتی ہے‘ آپ اعلان کریں ملک میں فلاں تاریخ کے بعد لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والوں کو دو لاکھ روپے جرمانہ ہو گا‘

موٹر سائیکل بنانے والوں کو پابند کیا جائے یہ موٹر سائیکل کے ساتھ دو ہیلمٹ بھی دیں گے اور ہیلمٹ استعمال نہ کرنے والے کا موٹر سائیکل ضبط کر لیا جائے گا‘ آپ اسی طرح گاڑی کی مینٹیننس اور انشورنس کو بھی قانون بنا دیں‘ پاکستان میں کوئی گاڑی انشورنس اور مینٹیننس سرٹیفکیٹ کے بغیر سڑک پر نہیں آنی چاہیے‘ آپ اس کےلئے فائن (جرمانہ) پولیس بنائیں اور یورپ کی طرح فائن کرنے والے ہر اہلکار کو جرمانے کی رقم میں سے 25 فیصد بونس دیں‘ آپ چند ماہ میں یہ کامیابی حاصل کر لیں گے‘

پاکستان میں 80 لاکھ نشئی ہیں‘ ملک میں دنیا کے تمام مہلک نشے بھی عام ملتے ہیں‘ ہماری ائیر ہوسٹس اور پائلٹس تک منشیات کے جرم میں گرفتار ہوئے‘ سعودی عرب کی جیلوں میںسینکڑوں پاکستانی سمگلر بند ہیں‘ ہمارے ائیر پورٹس پر ہر دوسرے دن منشیات پکڑی جاتی ہیں‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں تک اس ذلت کی آماجگاہ ہیں‘ اسلام آباد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے‘ شہر میں شراب فروشوں کے دو گروپ ہیں‘ پورا شہر ان سے واقف ہے لیکن کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا‘

آپ اے این ایف کو ایکٹو کر کے پاکستان کو منشیات فری بنا سکتے ہیں اور پوری دنیا کےلئے مثال بن سکتے ہیں‘اسی طرح پاکستان کے اڑھائی کروڑ بچے اس وقت بھی سکول کی نعمت سے محروم ہیں‘ آپ اعلان کریں ایک سال بعد ملک کا کوئی بچہ سکول سے محروم نہیں ہو گا‘ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ میٹرک تک تعلیم ضرور حاصل کرے گا‘ پاکستان ”فوڈ کوالٹی“ میں بدترین ملکوں کی فہرست میں شامل ہے‘ ہمارا وزیراعظم بھی عام لوگوں کے ساتھ دودھ‘ دہی‘ پانی‘ گوشت‘ روٹی اور سبزی کے نام پر زہر کھا رہا ہے‘



آپ ملک میں کم از کم خوراک ہی کو خالص کر دیں‘ آپ فوڈ پولیس بھی بنائیں‘ یہ پولیس جو کیس پکڑے آپ اسے بھی ریکوری کا 20 فیصد ادا کریں‘ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا‘ آپ اسی طرح سٹریٹ چلڈرن کو بیت المال کے سکولوں میں داخل کریں‘ ملک کے تمام بھکاریوں کو اٹھائیں اور ایدھی فاﺅنڈیشن اور سکل ڈویلپمنٹ کے اداروں کے حوالے کریں‘ آپ ملک کے دس بڑے شہروں کو صاف پانی فراہم کرنا شروع کریں‘ ملک کو بچوں کی سات بیماریوں سے پاک کریں‘

یہ قانون بنا دیں ملک کے تمام بچے ہسپتالوں میں پیدا ہوں گے اور یہ پیدائش کے فوراً بعد رجسٹرڈ ہوں گے اور آپ ملک کو اسلحہ فری بھی کرنا شروع کر دیں‘ یہ تمام کام معمولی بجٹ کے ساتھ بڑی آسانی سے ہو سکتے ہیں‘ یہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حکومت کے اعتماد میں اضافہ کریں گی اور حکومت اگر اس کے بعد ملک کے تمام کرپٹ لوگوں کو بھی پکڑ لے گی یا یہ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں دگنا اضافہ بھی کر دے گی تو لوگ اسے خوشی سے قبول کر لیں گے ورنہ دوسری صورت میں حکومت بڑے اور بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش میں کچلی جائے گی۔

ہم اب پال ایلن کی دوسری فلاسفی کی طرف آتے ہیں‘ وہ کہتا تھا آپ کامیابی کا ماڈل دشمن سے لیتے ہوئے بھی نہ گھبرائیں‘حکومت یہ بھی کر سکتی ہے‘ پاکستان میں سب برا نہیں ‘ ہم نے ستر سال میں کامیابی کی بے شمار مثالیں قائم کی ہیں‘ حکومت ان مثالوں کو ماڈل بنا لے‘ قوم تبدیل ہو جائے گی‘ مثلاً پاکستان میں عبدالستار ایدھی جیسے ان پڑھ شخص نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بنائی‘ آپ یہ ماڈل پاکستان کے تمام شہروں میں متعارف کرا دیں‘ پاکستان میں ٹی سی ایس اور لمز یونیورسٹی جیسے بین الاقوامی ادارے بنے‘

عالمی یونیورسٹیوں میں ان کی مثالیں دی جاتی ہیں‘ آپ محکمہ ڈاک میں ٹی سی ایس اور سرکاری یونیورسٹیوں میں لمز کا ماڈل متعارف کرا دیں‘ حکومت سے پی آئی اے نہیں چل رہی لیکن ائیر بلیو منافع میں جا رہی ہے‘ آپ پی آئی اے کو ائیربلیو کے ماڈل پر شفٹ کر دیں‘ ڈاکٹرعبدالباری خان نے کراچی میں انڈس ہسپتال بنا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ آپ یہ ماڈل پاکستان کے بیس بڑے ہسپتالوں میں متعارف کرا دیں‘ میاں شہباز شریف نے دوبار روایتی بیورو کریسی سے کام لے کر پنجاب کی حالت بدل دی‘

آپ گورننس کا یہ ماڈل وفاق اور چاروں صوبوں میں متعارف کرا دیں‘ قصوری فیملی نے30 شہروں میں بیکن ہاﺅس اور50 شہروں میں سٹی سکول کے کیمپس قائم کر کے پاکستان میں سکولوں کی سب سے بڑی پرائیویٹ چین بنائی‘ آپ یہ ماڈل بتدریج سرکاری سکولوں میں نافذ کر دیں‘ ملک میں تیس برسوں میں ہاﺅسنگ کے دو کامیاب ماڈل متعارف ہوئے‘ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاﺅن‘ آپ دونوں ماڈل لیں اور ملک کے دس بڑے شہروں کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز میں نافذ کر دیں‘

آپ اگر بحریہ ٹاﺅن کے بائی لاز کو ہی قانون بنا دیں تو ملک کے تمام تعمیراتی ایشوز ختم ہو جائیں گے‘ آپ اسی طرح تمام سرکاری دفتروں میں پاک فوج کا احتسابی نظام نافذ کر دیں‘ آپ پوری حکومت میں فوج کا پروموشن سسٹم بھی متعارف کرا دیں‘ آپ تمام سرکاری محکموں میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جیسا سنیارٹی سسٹم بھی بنا دیں اور آپ چپڑاسی سے لے کر سیکرٹری تک حکومت کی تمام تقرریاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حوالے کر دیں اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں نیسلے پاکستان‘ اینگرو اور پاکستان ٹوبیکو کمپنی کا ہائرنگ ماڈل متعارف کرا دیں تو ملک بڑی آسانی سے ٹریک پر آ سکتا ہے‘

کامیابی کے یہ تمام ماڈل پاکستانی ہیں اور ان ماڈلز نے دنیا کو حیران کر دیا ہے‘ نیسلے کمپنی نے اپنا پانی کا برانڈ (پیور لائف) پاکستان سے سٹارٹ کیا تھا‘ یہ برانڈ اب دنیا کے 40ملکوں میں چل رہا ہے‘ نیسلے کمپنی کا دنیا کا دودھ کا سب سے بڑا پلانٹ بھی پاکستان میں ہے‘ پاکستان میں اگر یہ ممکن ہے تو پھر کوئی چیز ناممکن نہیں‘ آپ بس ناکام محکموں میں یہ کامیاب ماڈل متعارف کرا دیں اور پھر پرانے پاکستان کے ملبے سے نیا پاکستان طلوع ہوتا دیکھیں چنانچہ میری درخواست ہے‘ عمران خان عوام کی مانیں یا نہ مانیں یہ پال ایلن کی مان لیں‘ یہ خسارے میں نہیں رہیں گے۔

javed chaudhry best columns today, javed chaudhry columns express, javed chaudhry columns in urdu 2018, javed chaudhry best columns, javed chaudhry columns pdf download, javed chaudhry wikipedia, javed chaudhry column on maulana tariq jameel. 

وہ 1995ءمیں پنجاب یونیورسٹی میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے‘ وہ کانفرنسوں میں شرکت کےلئے یورپ اور امریکا جاتے رہتے تھے‘ وہ گورے طالب علموں سے ملتے تھے تو محسوس کرتے تھے پاکستانی طالب علم صلاحیت اور علم میں ان سے بہت آگے ہیں‘ ہماری یونیورسٹیاں اگر اپنے طالب علموں کو اعتماد دے دیں‘ ان کی زبان اور ابلاغ پر توجہ دیں اور یہ اگر ان کی بین الاقوامی سطح کی گرومنگ کر دیں تو پاکستانی نوجوان دنیا کو حیران کر سکتے ہیں چنانچہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے سکالرشپس کا کرائی ٹیریا منگوایا‘

فزکس ڈیپارٹمنٹ میں خصوصی کلاسز شروع کیں اور وہ طالب علموں کو یورپی سکالر شپس حاصل کرنے کی ٹریننگ دینے لگے‘ یہ کمیونی کیشن‘ پرسنیلٹی‘ نالج اور زبان کی ٹریننگ تھی‘ پروگرام 1999ءمیں

شروع ہوا اور کامیاب ہو گیا‘ فزکس ڈیپارٹمنٹ کے 40 طالب علم اب تک اس پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی سکالرشپس حاصل کر چکے ہیں‘ یہ سٹوڈنٹس ملک اور بیرون ملک شاندار سائنس دان ثابت ہو رہے ہیں۔یہ پراجیکٹ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے شروع کیا تھا‘ یہ منصوبہ اتنا کامیاب ہوا‘ 2002ءمیں ملک میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنا اور اس نے ملک کو نئے پی ایچ ڈی دینا شروع کر دیئے‘ کنساس سٹیٹ یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے بین الاقوامی سکالر ڈاکٹر ٹم بولٹن پروفیسر مجاہد کامران سے اتنے متاثر ہیں یہ انہیں ”گولڈ مائین آف گریجویٹ سٹوڈنٹس“ قرار دیتے ہیں‘ کنساس سٹیٹ یونیورسٹی کا فزکس ڈیپارٹمنٹ انہیں پروفیسر آف پروفیسرزبھی کہتا ہے لیکن ہم انہیں کیا سمجھتے ہیں آپ کو یہ جاننے کےلئے 11 اکتوبر 2018ءکا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دیکھنا ہوگا‘ نیب نے اس دن پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری کو باقاعدہ ہتھکڑیاں لگا کر لاہور کی نیب کورٹ میں پیش کیا‘ ان کے ساتھ مزید پانچ پروفیسرزبھی شامل تھے‘یہ پانچوں پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کے دور میں پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار رہے تھے‘یہ بھی ہتھکڑیوں میں عدالت میں پیش کئے گئے‘
ڈاکٹر مجاہد کامران پر دس الزامات لگائے گئے‘ نیب کا کہنا تھا وائس چانسلر نے 2013ءسے 2016ءکے دوران ساڑھے پانچ سو لوگوں کو کنٹریکٹ پر ملازمتیں دیں‘ یہ اس کنٹرکیٹ کو ”ری نیو“ بھی کرتے رہے‘ یہ تمام بھرتیاں سیاسی اور غیر قانونی تھیں‘ یہ پیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے من پسند ٹھیکے داروں کو ٹھیکے بھی دیتے رہے‘ انہوں نے اپنی دوسری بیگم شازیہ قریشی کو لاءکالج کا پرنسپل بھی بنایا اور یہ اپنے من پسند طالب علموں کو سکالر شپ بھی دیتے رہے‘

یونیورسٹی کے رجسٹرار بھی اس ”خوفناک دھندے“ میں ان کے شریک تھے وغیرہ وغیرہ‘ نیب لاہور نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا اور ڈی آئی جی پولیس (آپریشنز) شہزاد اکبر رانا نے انہیں گرفتار کیا‘ ہتھکڑی پہنائی اور انہیں اسی حالت میں نیب کورٹ لاہور پہنچا دیا‘ یہ مناظر ٹیلی ویژن کے ذریعے پورے ملک نے دیکھے‘ عوام کی طرف سے شدید ردعمل آیا‘ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیئرمین نیب نے نوٹس لیا‘ ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد اور ڈی آئی جی شہزاد اکبر کو عدالت میں طلب کر لیا گیا‘



چیف جسٹس نے سلیم شہزاد کی گوشمالی کی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ سلیم شہزاد نے بعدازاں عدالت اور پروفیسروں (شاید) سے تحریری معذرت کر لی‘ سپریم کورٹ نے یہ معذرت قبول کر لی اور یوں یہ مسئلہ ختم ہو گیا لیکن سوال یہ ہے کیا اس معافی کے بعد ریاست اور عوام کا اساتذہ کے ساتھ رویہ بھی بدل جائے گا‘ میرا خیال ہے نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہم ایک علم اور معلم دشمن معاشرے میں رہ رہے ہیں‘ ہم عالم‘ لکھاری اور استاد کو اچھا معاوضہ دیتے ہیں اور نہ ہی عزت‘ ہماری نظر میں کتابیں لکھنے‘ پڑھنے اور پڑھانے والے تینوں قسم کے لوگ فالتو‘ بے معنی اور کمی کمین ہیں‘

آپ کسی دن ریکارڈ نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو بلوچستان کے وہ سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی جن کے گھر سے 65 کروڑ روپے برآمد ہوئے تھے‘ نیب انہیں صاف کپڑے‘ گھر کا کھانا‘ شیو کا سامان بھی فراہم کرتا رہا‘ راﺅ انوار پر 444لوگوں کے قتل کا الزام ہے‘ نقیب اللہ محسودکا قتل تقریباً ثابت ہو چکا ہے لیکن یہ اس کے باوجود نہ صرف پولیس کے پروٹوکول میں عدالت آتے ہیں بلکہ یہ ٹہلتے ہوئے آتے ہیں اور ٹہلتے ہوئے چلے جاتے ہیں‘ یہ 21 مارچ 2018ءکو پہلی بار سپریم کورٹ پیش ہوئے تو یہ ججز گیٹ سے عدالت میں لائے گئے‘

انہیں عزت اور تہذیب کے ساتھ مخاطب بھی کیا گیا اور انہیں جہاز میں کراچی بھی پہنچایا گیا‘ ایان علی پرپانچ لاکھ ڈالر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنا‘ ایف آئی اے نے انہیں14 مارچ 2015ءکو اسلام آباد ائیرپورٹ پر ڈالرز کے ساتھ گرفتار کیا‘ یہ بھی پورے پروٹوکول کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں‘ پولیس اہلکار ان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنواتے تھے‘ ڈاکٹر عاصم پر 479ارب روپے کا الزام تھا‘ یہ ہمیشہ عزت کے ساتھ عدالت لے جائے گئے‘ شرجیل میمن پرپونے چھ ارب کا الزام تھا‘

یہ بھی نہ صرف عزت اور احترام کے ساتھ عدالتوں میں پیش کئے جاتے ہیں بلکہ انہیں ہسپتالوں میں صدارتی سویٹ کی سہولت بھی حاصل ہو تی ہے‘ ہسپتالوں میں انہیں شہد اور زیتون کی فراہمی بھی جاری رہتی ہے اور اگر چیف جسٹس ان کے کمرے پر چھاپہ مار لیں تو زیتون واقعی زیتون اور شہد واقعی شہد نکلتا ہے‘ شرجیل میمن کا کیس بہت دلچسپ تھا‘ یہ بواسیر کے مرض میں مبتلا ہیں‘ ڈاکٹروں نے انہیں سختی سے ”زیتون اور شہد“ سے پرہیز کا حکم دے رکھا تھا چنانچہ چیف جسٹس کے حکم پر جب ان کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان کا خون واقعی کلیئر نکلا‘ کیوں؟کیونکہ انہوں نے دس دن سے ”شہد“ استعمال کیا تھا اور نہ ہی زیتون‘



ہسپتال سے برآمد ہونے والی دونوں بوتلیں بھی ان کی نہیں تھیں‘ یہ دونوں نعمتیں چھاپے سے پچھلی رات سندھ کے ایک وزیر اور ایک سیاستدان لے کر آئے تھے‘ اس رات ہسپتال کے کمرے میں کچھ اور بھی ہوا تھااور وہ اور کیا تھا‘ آپ پچھلی رات آنے والے مہمانوں کے بارے میں تحقیقات کرا لیں آپ کے سارے طبق روشن ہو جائیں گے لیکن ریاست یہ حقائق جاننے کے باوجود خاموش ہے‘ ہمارے ملک میں این آئی سی ایل کاپانچ ارب روپے کا سکینڈل آیا‘ اوگرا کا 82ارب روپے کا سکینڈل آیا‘وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کا25 کروڑ روپے کا حج سکینڈل اور 7 سے 21ارب روپے کا ایفی ڈرین سکینڈل آیا‘ 1996ءسے اصغر خان کیس بھی چل رہا ہے‘

شیخ رشیدپر بھی زمین چھپانے کا الزام لگا‘ جہانگیر ترین پر ”ان سائیڈر ٹریڈنگ“سکیم میں73 ملین روپے جرمانہ ہوا‘ 124ملزموں پر ماڈل ٹاﺅن میں 14 لوگوں کے قتل کا مقدمہ بنا اور پانامہ سکینڈل میں ساڑھے پانچ سو لوگوں کے نام آئے لیکن ریاست نے ان میں سے کسی کو ہتھکڑی لگائی اور نہ ہی انہیں اس طرح عدالتوں میں رسوا کیا‘ اگر رسوا کیا گیا‘ اگر ہتھکڑی لگائی گئی تو29 اکتوبر 2015ءکو بہاﺅالدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو لگائی گئی یا پھر 11 اکتوبر کو دو سابق وائس چانسلرز اور پانچ بزرگ پروفیسروں کو لگائی گئی۔

یہ واقعات کیا ثابت کرتے ہیں‘ یہ ہماری علم اور معلم دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں‘ یہ ثابت کرتے ہیں ہماری ویلیوز میں پروفیسروں‘ اساتذہ اور عالموں کی کوئی گنجائش نہیں‘ ہم انہیں کمیوں کے برابر بھی نہیںسمجھتے ‘ آپ مشتاق رئیسانی سے لے کر جہانگیر ترین تک تمام لوگوں کی کوالی فکیشن نکال کر دیکھ لیجئے‘ ایان علی صرف میٹرک اور راﺅ انوارسمپل گریجویٹ ہیں‘ شرجیل میمن نے بھی پوری زندگی سکینڈ کلاس سے زیادہ نمبر نہیں لئے اور یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں نے بھی ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر تعلیم مکمل کی لیکن یہ تمام لوگ اربوں روپے کے ٹیکے لگانے کے باوجود معزز ہیں‘

یہ نوٹوں کے بریف کیس اور بوریاں بھر کر لے جاتے رہے لیکن کسی نے انہیں انگلی تک نہ لگائی مگر پروفیسر مجاہد کامران کو یونیورسٹی میں لیکچررز اور ٹیکنیکل سٹاف کو کنٹریکٹ پر نوکریاں دینے کے جرم میں ہتھکڑیاں لگا دی گئیں‘ کیا یہ لوگ ملک سے فرار ہو رہے تھے یا یہ اپنی عظیم کرپشن کے ثبوت مٹا رہے تھے‘ یہ آخر کیا کر رہے تھے جس کی وجہ سے نیب نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا‘ عوام کی طرف سے جب دباﺅ آیا تو ڈی جی نیب لاہور نے اپنی آنکھیں گیلی کر کے جان چھڑا لی اور قصہ ختم ہو گیا‘ کیا یہ ملک اس طرح چل سکے گا‘ کیا ہم پروفیسروں‘ اساتذہ اور وائس چانسلروں کو ذلیل کر کے ایک باوقار قوم بن سکیں گے؟

شاید ہم بن جائیں‘ شاید ہم تاریخ کا دھارا بدل دیں اور شاید ہم تاریخ میں ثابت کر دیں دنیا میں ایک ایسی قوم بھی تھی جو علم اورعالم کی توہین کے باوجود ترقی کرتی رہی‘ جس نے ثابت کر دیا تھا ریاستوں کےلئے مجاہد کامران جیسے پروفیسر ضروری نہیں ہوتے‘ ایان علی جیسی سائنس دان اہم ہوتی ہیں‘ ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں‘ ہم اگر کامیاب ہو گئے تو ہم تاریخ کےلئے عظیم مثال بن جائیں گے اور اگر ناکام ہو گئے تو پھر میری چیف جسٹس‘ حکومت اور پارلیمنٹ تینوں سے درخواست ہے پاکستان میں یہ قانون بنا دیا جائے ملک میں آج کے بعد کسی استاد کو ڈنڈا لگے گا اور نہ ہی ہتھکڑی۔

javed chaudhry best columns today, javed chaudhry columns express, javed chaudhry columns in urdu 2018, javed chaudhry best columns, javed chaudhry columns pdf download, javed chaudhry wikipedia, javed chaudhry column on maulana tariq jameel. 

جون ایلیا (14 دسمبر، 1931ء – 8 نومبر، 2002ء) برصغیر ‏میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار ‏اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے ‏تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے ‏بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو ‏عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلی مہارت ‏حاصل تھی۔

جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک ‏نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن ‏اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پر کی۔ انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طراز ہیں:‏

‏”میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا:‏

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

جون اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے۔ ان دنوں ان کی کل ‏توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی۔

ان ‏کے غصے کا نشانہ متحدہ ہندوستان کے انگریز قابض تھے۔

وہ ‏ابتدائی مسلم دور کی تاریخ ڈرامائی صورت میں دکھاتے تھے جس ‏وجہ سے ان کے اسلامی تاريخ کے علم کے بہت سے مداح ‏تھے۔

جون کے مطابق ان کی ابتدائی شاعری سٹیج ڈرامے کی ‏مکالماتی فطرت کا تاثر تھی۔

ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے۔ یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے۔چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اس لئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں کچھ مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔”‏

اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ‏ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک ‏سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی ‏عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انہیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

جون ایلیا تراجم، تدوین اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے۔ لیکن ان کے تراجم اور نثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں۔ ‏

فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا اپنے انداز کی ایک ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور اب بھی دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ پژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کر ‏دی۔ جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر ‏گئے۔

شعری مجموعے

شاید، 1991 

یعنی، 2003

گمان، 2004

لیکن، 2006

گویا، 2008

فرنود، 2012

باسط بالکل رضا مند نہیں تھا، لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی۔ اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی، اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ وہ بہت دیر تک ٹالتا رہا۔ جتنے بہانے بنا سکتا تھا۔ اس نے بنائے، لیکن آخر ایک روز اُس کو ماں کی اٹل خواہش کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔ دراصل انکار کرتے کرتے وہ بھی تنگ آگیا تھا۔ چنانچہ اس نے دل میں سوچا۔
’’یہ بک بک ختم ہی ہو جائے تو اچھا ہے ہونے دو شادی۔ کوئی قیامت تو نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ میں نبھالوں گا۔ ‘‘
اس کی ماں بہت خوش ہوئی۔ لڑکی والے اس کے عزیز تھے اور وہ عرصہ ہوا اُن کو زبان دے چکی تھی۔ جب باسط نے ہاں کی تو وہ تاریخ۔ پکی کرنے کے لیے لڑکی والوں کے ہاں گئی۔ انھوں نے ٹال مٹول کی تو باسط کی ماں کو بہت غصہ آیا۔ سعیدہ کی ماں، میں نے اتنی مشکلوں سے باسط کو رضا مند کیا ہے، اب تم تاریخ پکی  نہیں کررہی ہو۔ شادی ہو گی تو اسی مہینے کی بیس کو ہو گی۔ نہیں تو نہیں ہو گی۔ اور یہ بات سولہ آنے پکی ہے۔ سمجھ لیا۔ ‘‘
دھمکی نے کام کیا۔ لڑکی کی ماں بالآخر راضی ہو گئی۔ سب تیاریاں مکمل ہوئیں۔ بیس کو دلہن گھر میں تھی۔ باسط کو گو وہ پسند نہیں تھی، لیکن وہ اس کے ساتھ نبھانے کا فیصلہ کر چکا تھا، چنانچہ وہ اس سے بڑی محبت سے پیش آیا۔ اس پر بالکل ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یہ کہ وہ زبردستی اس کے سر منڈھ دی گئی ہے۔ نئی دلہنیں عام طور پر بہت شرمیلی ہوتی ہیں لیکن باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ ضرورت سے زیادہ شرمیلی ہے۔ اس کے اس شرمیلے پن میں کچھ خوف بھی تھا جیسے وہ باسط سے ڈرتی ہے۔ شروع شروع میں باسط نے سوچا کہ یہ چیز دور ہو جائیگی مگر وہ بڑھتی ہی گئی۔ باسط نے اس کو چند روز کے لیے میکے بھیج دیا۔ واپس آئی تو اس کا خوف آلود شرمیلا پن ایک حد تک دور ہو چکا تھا۔ باسط نے سوچا ایک دو مرتبہ اور میکے جائے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔ مگر اس کا یہ قیاس غلط نکلا۔ سعیدہ پھر خوف زدہ رہنے لگی۔ باسط نے ایک روز اس سے پوچھا۔
’’سعیدہ تم ڈری ڈری کیوں رہتی؟‘‘
سعیدہ یہ سن کر چونکی۔
’’نہیں تو۔ نہیں تو‘‘
باسط نے اس سے بڑے پیار بھرے لہجے میں کہا۔
’’آخر بات کیا ہے۔ خدا کی قسم مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے۔ کس بات کا ڈر ہے تمہیں۔ میری ماں اتنی اچھی ہے۔ وہ تم سے ساسوں کا سا سلوک نہیں کرتی۔ میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں۔ پھر تم ایسی صورت کیوں بنائے رکھتی ہو کہ معلوم ہوتا ہے تمہیں یہ خوف ہے کہ کوئی تمہیں پیٹے گا۔

’’یہ کہہ کراس نے سعیدہ کا منہ چوما۔ ‘‘

سعیدہ خاموش رہی۔ اس کی آنکھیں البتہ اور زیادہ خوف زدہ ہو گئیں۔ باسط نے اس کو اور پیار کیا اور کہا۔

’’تمہیں ہر وقت ہنستی رہنا چاہیے۔ لو، اب ذرا ہنسو۔ ہنسو میری جان۔ ‘‘

سعیدہ نے ہنسنے کی کوشش کی۔ باسط نے پیار سے اس کو تھپکی دی۔

’’شاباش!۔ اسی طرح مسکراتا چہرہ ہونا چاہیے ہر وقت! باسط کی یہ محبت ظاہر ہے کہ بالکل مصنوعی تھی، کیونکہ سعیدہ کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی، لیکن وہ صرف اپنی ماں کی خاطر چاہتا تھا کہ سعیدہ سے اس کا رشتہ ناکام ثابت نہ ہو۔ اس کی ماں اپنی شکست کبھی برداشت نہ کرسکتی۔ اس نے اپنی  زندگی میں شکست کا منہ دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس لیے باسط کی انتہائی کوشش یہی تھی کہ سعیدہ سے اس کی نبھ جائے، چنانچہ اپنے دل میں سعیدہ کے لیے اس نے بڑے خلوص کے ساتھ مصنوعی محبت پیدا کرلی تھی۔ اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا تھا۔ اپنی ماں سے سعیدہ کی چھوٹی سی بات کی بھی تعریف کرتا تھا۔ جب وہ یہ  محسوس کرتا کہ اس کی ماں بہت مطمئن ہے، اس بات سے مطمئن ہے کہ اس نے باسط کا رشتہ ٹھیک جگہ ہے تو اس کو دلی خوشی ہوتی۔ شادی کو ایک مہینہ ہو گیا۔ اس دوران میں سعیدہ کئی مرتبہ میکے گئے۔ باسط کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یوں اس کا خوف آلود شرمیلا پن دور ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ یہ دن بہ دن بڑھتا چلا جارہا تھا۔ اب تو سعیدہ وحشت زدہ دکھائی دیتی تھی۔ باسط حیران تھا کہ بات کیا ہے۔ اس کے بارے میں اس نے ماں سے کوئی بات نہ کی اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس کو ڈانٹ پلاتیں۔
’’بکواس نہ کرو۔ مجھے معلوم تھا تم ضرور ایک روز اس میں کیڑے ڈالو گے۔ ‘‘

باسط نے سعیدہ ہی سے کہا۔

’’میری جان، تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو۔ ‘‘
سعیدہ چونک اٹھی۔
’’جی؟‘‘
اس کے چونکنے پر باسط نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے سعیدہ کی کسی دکھتی رگ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ لہجے میں اورزیادہ پیار بھر کے اس نے کہا۔
’’میں نے پوچھا تھا کہ اب تم اور زیادہ خوف زدہ رہنے لگی ہو۔ آخر بات کیا ہے۔ ‘‘

سعیدہ نے تھوڑے توقف کے بعد جواب دیا۔

’’بات تو کچھ بھی نہیں۔ میں ذرا بیمار ہوں۔ ‘‘

’’کیا بیماری ہے۔ تم نے مجھ سے کبھی ذکرہی نہیں کیا۔ ‘‘

سعیدہ نے دوپٹے کے کنارے کو انگلی پر لپیٹتے ہوئے جواب دیا۔

’’امی جان علاج کرا رہی ہے میرا۔ جلدی ٹھیک ہو جاؤں گی۔ ‘‘

باسط نے سعیدہ سے اور زیادہ دلچسپی لینا شروع کی تو اس نے دیکھا کہ وہ ہر روز چھپ کر کوئی دوا کھاتی ہے۔ ایک دن جب کہ وہ اپنے قفل لگے ٹرنک سے دوا نکال کر کھانے والی تھی۔ وہ اس کے پاس پہنچ گیا۔ وہ زور سے چونکی۔ سفوف کی کھلی ہوئی پڑیا اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ باسط نے اس سے پوچھا۔

’’یہ دوا کھاتی ہو۔ ‘‘

سعیدہ نے تھوک نگل کر جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ امی جان نے حکیم صاحب سے منگوائی تھی۔ ‘‘

’’کچھ افاقہ ہے اس سے۔ ‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’تو کھاؤ۔ اگر آرام نہ آئے تو مجھ سے کہنا۔ میں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا۔ ‘‘

سعیدہ نے پڑیا فرش پر سے اٹھائی اور سرہلاکر کہا۔

’’جی اچھا۔ ‘‘

باسط چلا گیا، اس نے سوچا۔

’’اچھا ہے، کوئی علاج تو ہورہا ہے۔ خدا کرے اچھی ہو جائے۔ میرا خیال ہے یہ ڈر ور کچھ نہیں۔ بیماری ہے۔ دور ہو جائیگی انشاء اللہ!‘‘

اس نے سعیدہ کی اس بیماری کا اپنی ماں سے پہلی بار ذکر کیا تو کہنے لگی۔

’’بکواس ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے اچھی بھلی ہے۔ کیا بیماری ہے اسے؟‘‘

باسط نے کہا۔

’’مجھے کیا معلوم امی جان؟۔ یہ تو سعیدہ ہی بتا سکتی ہے آپ کو۔ ‘‘

باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا۔

’’میں پوچھوں گی اس سے‘‘

۔ جب سعیدہ سے دریافت کیا تو اس نے جواب دیا۔

’’کچھ نہیں خالہ جان، سر میں درد رہتا تھا۔ امی جان نے حکیم صاحب سے دوا منگا دی تھی۔ اصل میں باسط صاحب بڑے وہمی ہیں۔ ہر وقت کہتے رہتے ہیں تم ڈری ڈری سی دکھائی دیتی ہو۔ مجھے ڈر کس بات کاہو گا بھلا۔ ‘‘

باسط کی ماں نے کہا۔

’’بکواس کرتا ہے۔ تم اس کی فضول باتوں کا خیال نہ کرو۔ ‘‘

چند روز کے بعد باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ بہت ہی زیادہ گھبرائی ہوئی ہے۔ اس کا اضطراب اس کے روئیں روئیں سے ظاہر ہوتا تھا۔ شام کے قریب اس نے باسط سے کہا۔

’’امی جان سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ مجھے وہاں چھوڑ آئیے۔ ‘‘

باسط نے جوا ب دیا۔

’’نہیں سعیدہ۔ آج تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ ‘‘

سعیدہ نے اصرار کیا۔

’’آپ مجھے وہاں چھوڑ آئیے۔ ٹھیک ہو جاؤں گی۔ ‘‘

باسط نے انکار کردیا۔

’’و ہاں طبیعت ٹھیک ہوسکتی ہے تو یہاں بھی ٹھیک ہوسکتی ہے۔ جاؤ آرام سے لیٹ جاؤ۔ ‘‘

باسط کی ماں آگئی۔ باسط نے اس سے کہا۔

’’امی جان، دیکھیے سعیدہ ضد کررہی ہے طبیعت اس کی ٹھیک نہیں، کہتی ہے مجھے امی جان کے پاس لے چلو۔ ‘‘

باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا۔

’’کل چلی جانا سعیدہ۔ ‘‘

سعیدہ نے اور کچھ نہ کہا۔ خاموش ہو کر باہر صحن میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد باسط باہر نکلا۔ سعیدہ صحن میں نہیں تھی۔ اس نے اِدھر اُدھرتلاش کیا۔ مگر وہ نہ ملی۔ باسط نے سوچا اوپر کوٹھے پر ہو گی۔ اوپر گیا تو غسل خانے کا دروازہ بند تھا۔ کھٹکھٹا کر اس نے آواز دی۔

’’سعیدہ!‘‘

کوئی جواب نہ ملا تو پھر پکارا۔

’’سعیدہ!‘‘

اندرسے بڑی نحیف آواز آئی۔

’’جی!‘‘

باسط نے پوچھا۔

’’کیا کررہی ہو۔ ‘‘

اور زیادہ نحیف آواز آئی۔

’’نہا رہی ہوں۔ ‘‘

باسط نیچے آگیا۔ سعیدہ کے بارے میں سوچتا سوچتا باہر گلی میں نکلا۔ موری کی طرف نظر پڑی تو اس میں خون ہی خون تھا اور یہ خون اس غسل خانے سے آرہا تھا۔ جس میں سعیدہ نہا رہی تھی۔ باسط کے ذہن میں تلے اوپر کئی خیالات اوندھے سیدھے گرے۔ پھر یہ گردان شروع ہو گئی۔

’’دوا۔ خون۔ خون۔ دوا۔ ڈر۔ دوا۔ خون۔ ڈر!‘‘

پھر اس نے آہستہ آہستہ سوچنا شروع کیا۔ سعیدہ کی ماں شادی کی تاریخ کی پکی نہیں کرتی تھی۔ اس نے کہا تھا ایک دو مہینے ٹھہر جاؤ۔ سعیدہ کا بار بار اپنی ماں سے ملنے جانا۔ اس کا ہر وقت خوفزدہ رہنا۔ دوا کھانا۔ اور خاص طور پر آج بہت ہی زیادہ وحشت زدہ رہنا۔ باسط سارا معاملہ سمجھ گیا۔ سعیدہ پیٹ سے تھی۔ جب وہ  دلہن بن کر اس کے پاس آئی تھی۔ اس کی ماں کی یہ کوشش تھی کہ حمل گر جائے۔ چنانچہ آج وہ چیز ہو گئی۔ باسط نے سوچا۔

’’کیا میں اوپر جاؤں۔ جا کر سعیدہ کو دیکھوں۔ اپنی ماں سے بات کرو۔ ‘‘

ماں کا سوچا تواس کو خیال آیا کہ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکے گی۔ وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ذلیل ہونا کبھی گوارا نہیں کرے گی۔ ضرور کچھ کھا کر مر جائے گی۔ وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ اپنے کمرے میں گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کئی بار اس کو سعیدہ کا خیال آیا کہ وہ خدا معلوم کس حالت میں ہو گی۔ اس کے
جسم پر، اس کے دل و دماغ پر کیا کچھ بیتا ہو گیا اور کیا بیت رہا ہو گا۔ کیسے اتنا بڑا راز چھپائے گی۔ کیا لوگ پہچان نہیں جائیں گے۔ جوں جوں وہ سعیدہ کے بارے میں سوچتا اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ بڑھتا جاتا۔ اس کو سعیدہ پر ترس آنے لگا۔

’’بے چاری، معلوم نہیں بے ہوش پڑی ہے یا ہوش میں ہے۔ ہوش میں بھی اس پر جانے کیا گزر رہی ہو گی۔ کیا وہ نیچے آسکے گی؟‘‘

تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھ کر صحن میں گیا تو سعیدہ نیچے آئی۔ اس کا رنگ بے حد زرد تھا، اتنا زرد کہ وہ بالکل مردہ معلوم ہوتی تھی۔ اس سے بمشکل چلا جاتا تھا۔ ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ کمر میں جیسے جان ہی نہیں تھی۔ باسط نے اس کو دیکھا تو اس پر بہت نرس آیا۔ اندر سے برقع اٹھایا اور اس سے کہا۔

’’چلو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔ ‘‘

سعیدہ نے بہت ہمت سے کام لیا۔ باسط کے ساتھ چل کر باہر سڑک تک گئی باسط نے ٹانگہ لیا اور اس کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ آیا۔ ماں نے اس سے پوچھا۔

’’سعیدہ کہاں ہے؟‘‘

باسط نے جواب دیا۔

’’ضد کرتی تھی۔ میں اسے چھوڑ آیا ہوں۔ ‘‘

باسط کی ماں نے اس کو ڈانٹا۔

’’بکواس کرتے ہو۔ ضد کرنے دی ہو تی۔ تم اسی طرح اس کی عادتیں خراب کرو گے اور پھر مجھ سے کہو کہ میں نے غلط جگہ تمہارا رشتہ کیا تھا۔ ‘‘

باسط نے کہا۔

’’نہیں امی جان۔ سعیدہ بڑی اچھی لڑکی ہے۔ ‘‘

اس کی ماں مسکرائی۔

’’میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ وہ بہت نیک لڑکی ہے تم اسے ضرور پسند کرو گے۔ ‘‘

پھر تھوڑی دیر چھالیا کاٹنے کے بعد ایک دم باسط سے مخاطب ہوئی۔

’’اور ہاں باسط یہ اوپر غسل خانے میں خون کیسا تھا۔ ‘‘

باسط سٹپٹا سا گیا۔

’’وہ۔ کچھ نہیں امی جان۔ میری نکسیر پھوٹی تھی۔ ‘‘

ماں نے بڑے غصے کے ساتھ کہا۔

’’کم بخت گرم چیزیں نہ کھایا کرو۔ جب دیکھو جیبیں مونگ پھلی سے بھری ہیں۔ ‘‘

باسط کچھ دیر اپنی ماں کے ساتھ باتیں کرتارہا۔ وہ اٹھ کر کہیں گئی تو باسط اوپر غسل خانے میں گیا۔ پانی ڈال کر اس کو اچھی طرح صاف کیا۔ اس کے دل کو اس بات کا بڑا اطمینان تھا کہ اس نے اپنی ماں سے سعیدہ کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور نہ اس نے سعیدہ پر یہ ظاہر ہونے دیا کہ وہ اس کا راز جانتا ہے۔ وہ دل میں  فیصلہ کر چکا تھا کہ سعیدہ کا راز ہمیشہ اس کے سینے میں دفن رہیگا۔ وہ کافی تکلیف اٹھا چکی تھی۔ باسط کے خیال کے مطابق اس کو اپنے کیے کی سزا مل چکی تھی۔ مزید سزا دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
’’خدا کرے وہ جلد تندرست ہوجائے۔ اب اس کے چہرے پر وہ الجھن پیدا کرنے والا خوف نہیں رہے گا۔ ‘‘
وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نیچے اس کی ماں کی چیخ کی آواز آئی۔ باسط لوٹا رکھ کر دوڑا نیچے گیا۔ سب کمرے دیکھے۔ ڈیوڑھی میں گیا تو اس کی ماں فرش پر اوندھی پڑ تھی، مردہ۔ اس کے سامنے کوڑے والے لکڑی کے بکس میں ایک چھوٹا بہت ہی چھوٹا سا نامکمل بچہ کپڑے میں لپٹا پڑا تھا۔ باسط کو بے حد صدمہ ہوا۔ اس نے  پہلے اس بچے کو اٹھایا۔ کپڑے میں اچھی طرح لپیٹا اور اندر جا کر بوٹ کے خالی ڈبے میں بند کردیا۔ پھر ماں کو اٹھا کر اندر چارپائی پر لٹایا اور اس کے سرہانے بیٹھ کر دیر تک روتا رہا۔ سعیدہ کو اطلاع پہنچی تو اس کو اپنی ماں کے ساتھ آنا پڑا۔ وہ اسی طرح زرد تھی۔ پہلے سے زیادہ نڈھال۔ باسط کو بہت ترس آیا۔ اس سے  کہا۔
’’سعیدہ جو اللہ کو منظور ہو گیا۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ رونا بند کرو اور جاؤ اندر لیٹ جاؤ۔ ‘‘
اندر جانے کے بجائے سعیدہ ڈیوڑھی میں گئی۔ جب واپس آئی تو اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ باسط خاموش رہا۔ سعیدہ نے اس کی طرف دیکھا، اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ آنسو صاف بتا رہے تھے کہ وہ باسط کا شکریہ ادا کررہی ہے۔ باسط نے اس سے بڑے پیار سے کہا۔

’’زیادہ رونا اچھا نہیں سعیدہ۔ جو خدا کو منظور تھا ہو گیا۔ ‘‘

دوسرے رز اس نے بچے کو نہر کے کنارے گڑھا کھود کردفنا دیا۔ 29جولائی1950ء


MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget