اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج تک اتنے شراب فروشی کے پرمٹ نہیں جاری ہوئے جتنے پاکستانی کچی یا زہریلی شراب پی کر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان میں اتنی کُل رجسٹرڈ ڈبل کیبن گاڑیاں بهی نہیں ہیں جتنی اب تک سوات اور وزیرستان میں طالبان کے قبضے سے پکڑی جا چکی ہیں۔ پاکستان میں اتنے کُل کلاشنکوف پرمٹ نہیں جاری ہوئے جتنی کلاشنکوفیں کراچی کی ایک معمولی غیر قانونی اسلحے کی خفیہ کهیپ سے پکڑی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اتنا بارود تمام کانکنی کرنے والوں کے پاس بهی نہیں جتنا بلوچستان کا ایک فراری کمانڈر ہتهیار ڈالتے وقت ریاست کو جمع کرواتا ہے۔
کیا تحریکِ طالبان پاکستان کے کسی فرد نے کبهی کلاشنکوف کے پرمٹ کے لیے درخواست دی؟ کیا کسی فراری گروه کے کمانڈر نے کبهی بارود کے این-او-سی کے لیے گزارش کی؟ کیا کسی دہشتگرد نے کبهی اپنی گاڑی پر کالے شیشے لگوانے کی اجازت مانگی؟ کیا کسی طالبان امیر نے کبهی بُلٹ پروف گاڑی رجسٹر کروانے کے لیے کاغذات جمع کروائے؟
جنابِ عالی *هیم ریڈیو/HAM Radio* یا *ایمیچور ریڈیو/Amateur Radio* لائیسنس کی درخواست داخلِ دفتر کروا کر ایک سال صرف اس پر کاروائی کا آغاز ہونے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کیا کوئی بَدنیت اور ملک دشمن انسان کبهی کسی تخریب کاری کا لائیسنس مانگنے میں اتنی تگ و دو کرے گا؟ اگر ایمیچور ریڈیو کسی ملک کی سلامتی کے لیے اتنی ہی خطرناک بات ہے تو جان لیں کہ پڑوسی ملک بهارت میں سال ٢٠١٦ میں ہی ایمیچور ریڈیو لائیسنس یافتہ افراد کی تعداد ١٨٦٧٩ ہو چکی تهی۔ جب کہ پاکستان میں یہ تعداد آج بهی بهارت میں جاری کُل علیحدگی پسند تحریکوں سے بهی کم یعنی صرف ١٥٢ ہے۔
*پاکستان ٹیلی کام اتهارٹی المعروف PTA* وه سرکاری اداره ہے جو پاکستان میں ایمیچور ریڈیو لائیسنس جاری کرنے کا مجازِ کُلی ہے۔ مگر پی-ٹی-اے تمام تر توجہ نقد آمدن پر رکهتے ہوئے صرف کاروباری مقاصد کے لیے هیم ریڈیو لائیسنس جاری کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بهاری فیسوں کے عوض کشتی مالکان، بڑی تعمیراتی کمپنیوں، سیکیورٹی کمپنیوں، ایمبیسیوں، ہسپتالوں، اور این-جی-اوز وغیره سب کو کمرشل وائرلیس ریڈیو لائیسنس PTA ہی جاری کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ جب ایک عام ایمیچور ریڈیو ٹیکنالوجی کا شوقین پاکستانی اپنے وطن کی بلامعاوضہ خدمت کی غرض سے ایمیچور ریڈیو لائیسنس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو PTA ایسے محبِ وطن لوگوں کے ساتھ اچهوت براہمن ہندو جیسا برتاؤ کرتا ہے۔
اگر حکومتِ پاکستان اپنے ہونہار ایمیچور ریڈیو ٹیکنالوجی کے دیوانوں کو ملکی خدمت کا موقع دیتی تو سیٹلائٹ بدر ١ اور بدر ٢ ہرگز ناکام نہ ہوتے۔ حکومتی اداروں کو تو سیٹلائٹ بدر ٢ کے ریڈیو سگنل ہی ایک شوقیہ ایمیچور ریڈیو لائیسنس یافتہ عام پاکستانی نے تلاش کر کے دیے تهے۔ ایسے اہم اداروں میں نااہل افراد بهرتی کر کے ملک و ملت کی جگ ہنسائی کہاں کی دانست ہے! اس سے اچها نہیں کہ ادارے ٹیکنالوجی کے شوقین افراد کو ایمیچور ریڈیو لائیسنس جاری کریں اور ان سے ملک و ملت کے لیے خدمات حاصل کریں!
اندهوں کے درمیان ایک آنکھ والے کی سرداری تو سب نے سُن رکهی ہے۔ مگر یہ کہاں کا انصاف کہ ایک آنکھ والوں کی سرداری قائم رکھنے کے لیے باقی سب کو اندها بنا کے رکها جائے!!
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے,
ذرا نَم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
#سب_دا_بهلا_____سب_دی_خیر۔۔!!
ایک تبصرہ شائع کریں