انسان کی پیدائش اور انسانیت

بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو خود سے کروٹ بھی نہیں لے سکتا، اس کی ہر ایک ضرورت اس کی ماں یا باپ پوری کرتے ہیں۔ اس بچے کے ساتھ اس کے والدین کی موجودگی اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ اسے مطلوبہ شعور نہیں آجاتا، جوں جوں اس کی شعور کی سطح بلند ہونا شروع ہوجاتی ہے، والدین کی انوالومنٹ کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ خودمختار ہو کر والدین سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔اب اگر اسے کبھی والدین کی ضرورت پڑتی بھی ہے تو وہ مشورے کی حد تک، یا پھر اخلاقی طور پر اسے احساس رہتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے رابطے میں رہے۔

انبیا کا معاملہ بھی اللہ نے ایسا ہی رکھا ہے۔

جب نوع انسانی کا آغاز ہوا تو شعور کی سطح اتنی بلند نہیں تھی، چنانچہ ہر دور میں، ہر قوم میں نبی بھیجے جاتے رہے۔ اس وقت ان کیلئے معمولی سی بات بھی شاید عجوبہ لگتی، چنانچہ ان کے سامنے بڑے بڑے معجزات بھی رکھ دیئے جاتے تاکہ انہیں سمجھنے میں آسانی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ نوح علیہ السلام اور ان کے بعد کی امتوں میں بھی ایک خاص وقت تک جب کوئی اللہ کی راہ میں قربانی کرتا تو آسمان سے بجلی کا کوندا لپکتا اور اس قربانی کے جانور کو بھسم کردیتا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ اس کی قربانی قبول ہوگئی۔ اس وقت انسانی شعور شاید اس درجے پر نہیں پہنچا تھا کہ قربانی کے گوشت کو خود سے تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ خود کیلئے، دوسرا اپنے رشتے داروں کیلئے اور تیسرا حصہ غربا میں تقسیم کردیا جاتا۔ یہ باتیں شاید ان کے پلے نہ پڑسکتی، چنانچہ ان کیلئے آسمانی بجلی کا معجزہ رکھ دیا گیا تاکہ انہیں سمجھنے میں آسانی رہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے دین کی تکمیل نبی پاک ﷺ کے دور میں مکمل ہوگئی۔ یہ ہدایت کاملہ قرآن اور سیرت کی شکل میں ہم تک پہنچ چکی، جس کے بعد ہم شعور کی اس سطح پر آگئے کہ اب ہم خودمختاری سے اپنی زندگی گزار سکتے تھے، اب انبیا کو بھیجنے کی ضرورت ختم ہوچکی تھی ، اسی لئے مزید نبی کوئی نہ آیا اور نہ ہی آئے گا۔

اس کا ایک چھوٹا سا ثبوت یہ ہے کہ جس قسم کی ترقی پچھلے چودہ سو سال میں نظر آئی، یہ ترقی بعثت نبوی ﷺ سے قبل کے ہزاروں سال میں نہ ہوسکی، اور وجہ اس کی یہی تھی کہ انسانی شعور اب مطلوبہ درجے پر پہنچ چکا تھا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ نوح علیہ السلام سے لے کر نبی اخرالزمان ﷺ تک، ہر دور میں لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکار کیا۔اللہ کے وجود کے منکر رہے، آخرت کے منکر رہے، موت کے بعد کی زندگی کے منکر رہے اور جزا و سزا کے اصول کے منکر رہے۔

نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تبلیغ کی اور اس دوران صرف پچاس کے قریب لوگ ہی ایمان لا سکے۔ 
ہمارے نبی ﷺ نے تقریباً بارہ برس مکے میں تبلیغ کی اور بمشکل ڈیڑھ سو لوگ ایمان لائے۔

لوگوں کا کیا ہے، انہیں تو انبیا بھی مطمئن نہ کرسکے، تو پھر ایک عام شخص کس کھیت کی مولی ہے؟ جن کے دل ہدایت سے خالی ہوچکے ہوں، ان پر نہ تو کوئی دلیل اثر کرتی ہے اور نہ ہی معجزہ۔

ان کے سوالات چاہے جتنے مرضی فلسفیانہ ہوں، جواب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے عقیدہ آخرت اور ایمان بالغیب۔

یہی کچھ انبیا نے بھی کہا، یہی دلیل ہمارے پاس بھی ہے۔ اس کے علاوہ نہ تو کوئی سائنٹیفک تھیوری ہے اور نہ ہی کوئی فلسلفیانہ حجت۔ آپ کا اگر دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کی ہدایت قرآن کی شکل میں ہمارے پاس آچکی تو پھر جان لیں کہ آپ کا دل ایمان کی روشنی سے منور ہے۔
لیکن اگر آپ کا دل اللہ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر مجھے کہنے دیں کہ مرنا آپ نے بھی ہے اور مرنا ہم نے بھی۔ مرنے کے بعد دیکھ لیں گے کہ کون کہاں کھڑا تھا!
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget