علامہ عنایت اللہ مشرقی
علامہ مشرقی نے صرف اٹھارہ سال کی عمر میں پنجاب یونیورسٹی میں ریاضی میں ماسٹرز کر کے اول پوزیشن حاصل کی. جو ایک ریکارڈ ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے1913میں متعدد ڈگریاں حاصل کیں جن میں مکینیکل انجیئنرنگ بھی شامل تھی، یہ ریکارڈ آج تک نہ ٹوٹ سکا۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی جنگ نے ان کے ذہن کو بے حد متاثر کیا. ۲۵ سال کی عمر میں کالج کے پرنسپل جبکہ ۲۹سال کی عمر میں انڈیا محکمہ تعلیم کے بیوروکریٹ بنا دیئے گئے.
۱۹۲۵ میں ان کی تفسیر تذکرہ کو نوبل پرائز کےلئے پیش کیا گیا. انھوں نے مغربی اقوام کی ترقی اور ان کے دنیا پر غلبے سے کافی اثر لیا، اس غلبے کی وجہ علامہ کے خیال میں ان قوموں کا فوجی نظم و نسق اور کامیاب عسکری تنظیم تھی۔ اسی طرح مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان کے نزدیک عسکری طور پر غیر منظم ہونا تھا۔ شاید یہی احساس تھا جس کے باعث علامہ مشرقی نے اسلام کی عسکری تعبیر پیش کی اور ۱۹۳۶ میں خاکسار تحریک کی بنیاد رکھی۔ بقول امین احمد اصلاحی علامہ نے اپنی قوم کے اندر عسکری تنظیم کا صور اس زور سے پھونکا کہ فی الواقع ان کی تحریک نے پورے ملک میں ایک ہلچل پیدا کر دی.
مصر میں ایک اہم مسلم کانفرنس میں خطاب کے بدولت ۱۹۲۶ میں جامعہ الازھر نے مولاناعنایت اللہ کو علامہ مشرقی کا خطاب دیا۔
اسلام کی مکمل عسکری تعبیر ظاہر ہے اسلام کی صحیح تعبیر نہیں تھی سو ان سے کافی بنیادی غلطیاں بھی ہوئیں۔ مثال کے طور پر کلمہ ایک ممبر شپ ہے جس کو پڑھ کر اسلام کی فوج کا حصہ بنا جاتا ہے. نماز اور روزہ فوج کی پریکٹس ہے. یہی مقصد باقی عبادات کا فرض کر لیا گیا۔ امین احمد اصلاحی مرحوم رقم طراز ہیں:
“ان کی تحریروں اور تقریروں میں ایک خاص قسم کا زور تھا جو عسکری جوش و جذبہ رکھنے والے بوڑھوں اور جوانوں پر جادو کا اثر کرتا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے علما کے سوا ہر طبقہ کو متاثر کیا۔ ان میں عسکری تنظیم کی حیرت انگیز قابلیت تھی۔ چنانچہ انھوں نے عملاً خاک ساروں کا ایک لشکر تیار کر دیا۔ اس حقیقت کا کوئی مشکل ہی سے انکار کر سکے گا کہ ان کے ماننے والے ان کے فدائی تھے اور وہ اطاعت مطلق کے حد تک ان کی اطاعت کرتے تھے۔”
ہمارے نزدیک ان کا سب سے قابل زکر کارنامہ ان کا اپنے متعدد دیہاتوں کی زمینوں کو وہیں کے کسانوں میں تقسیم کرنا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں