انٹرنیٹ پر قائم Pakistan Police Reforms Think Tank کے صدر محمد عرفان نواز کی جانب سے دس تجاویز :
- پولیس کے بجٹ میں معقول اضافہ کیا جائے۔ پولیس کابجٹ ضرورت سے تین گنا کم ہے۔ ایک معمولی نوعیت کے کیس کی تفتیش پر کم از کم دس ہزار روپےاور ایک سنگین یا پیچیدہ کیس کی تفتیش پر کم از کم پچاس ہزار روپے تک کے اخراجات آتے ہیں۔ مالی وسائل کے فقدان کے باعث پولیس شہریوں سے رقم طلب کرتی ہے اور عوام کے ذہن میں پولیس کا ایک منفی تائثر (negative impression)قائم ہوتا ہے۔ پولیس میں نیچے کی سطح کے ملازمین کی تنخواہ اور مراعات بھی مارکیٹ سے مطابقت رکھتی ہو۔ ہر ضلع کی پولیس کو پچاس فیصد بجٹ صوبہ کی حکومت کی جانب سے فراہم کیا جائے اور باقی پچاس فیصد ضلع کے ہر گھر سے ٹیکس کی صورت میں حاصل کیا جائے۔ جس شہری کا گھر جتنا بڑا ہو گا وہ اتنا زیادہ ٹیکس دے گا۔ غریب شہریوں سے ٹیکس وصول نہ کیا جائے۔
- پولیس کی Media Management کو بہتر بنایا جائے تاکہ اسے عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ ایک وفاقی ادارہ Police Service Public Relation قائم کیا جائے۔ یہ ادارہ National Police Bureau کے تحت کام کرے۔ اس ادارے میں ہر صوبہ کے پولیس افسران اور ملازمین شامل ہوں۔ ٹی وی چینلز، اخبارات اور سماجی میڈیا کے ذرئیے پولیس کے تعلقات عامہ کو بہتر بنایا جائے۔
- پولیس کے duty hours آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہ ہوں اور ہفتے میں پولیس ملازمین کو کم از کم ایک دن چھٹی دی جائے۔ بغیر آرام کیئے طویل shift کرنے سے پولیس ملازمین کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زیادہ duty hours کی وجہ نفری کی کمی بیان کی جاتی ہے۔ نفری کی کمی کو پورا کرنے کے لئیے نفری کا غلط استعمال روکا جائے۔ Police Line اور VIP Security پر ضرورت سے زیادہ نفری کا استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔
- پولیس میں عہدوں پر ترقی (hierarchy promotion) کا نظام انصاف پر مبنی ہونا چاہئیے۔ نیچے کی سطح کے ملازمین کو وقت اور قابلیت پر ترقی دی جائے۔ پولیس میں بھرتی صرف ASP, ASI اور Constable کی سطح پر ہو۔ افسران اور پولیس ملازمین کی ratio میں بہت بڑا فرق ہے۔ پولیس افسران کی تعداد میں چار گنا اضافہ کیا جائے۔ اگر پچاس فیصد افسران CSS کر کے بھرتی ہوں تو پچاس فیصد افسران نیچے سے ترقی کر کے افسر تعینات ہوں۔ اس سے نیچے کی سطح کے ملازمین کی احساس کمتری ختم ہو گی ۔
- ہر صوبہ میں Forensic Scienceکی ایک بڑی laboratory قائم کی جائے (صوبہ پنجاب میں ایک بڑی laboratory موجود ہے)۔ جب بھی کسی ضلع میں فوجداری نوعیت کا وقوعہ ہو تو اس ضلع میں Forensic Science Laboratory کی مقامی شاخ کا staff موقع واردات سے sample حاصل کرے۔ یہ sample وہ اپنی نگرانی میں laboratory تک لے کر جائے۔ پولیس ملازمین کا بہت وقت laboratory تک سفر میں ضائع ہو رہا ہے اور سائنس کی تعلیم نہ ہونے کے باعث بہت سے کیسز میں sample قانونی طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔
- پولیس کے لئیے نئے قوانین مرتب کئیے جائیں۔ شہریوں کا طرز زندگی ( رسم و رواج، ذریعہ معاش، رہائش) بہت تیزی سے بدل رہاہے۔ 1861 کا Police Act اور 1934 کے Police Rules پاکستان کے بہت سے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔
- پولیس کے investigation کے شعبے پر خاص توجہ دی جائے اور prosecution کو اس میں ضم کیا جائے۔ پولیس کا سب سے کمزور پہلو تفتیش ہے۔ پاکستان کی عدالتوں سے بہت سے جرائم پیشہ لوگ ناقص تفتیش کی وجہ سے بری ہو جاتے ہیں۔ تفتیشی افسران کی جدید خطوط پر تربیت کی جائے اور ان کو ہر کیس کے اخراجات فوری طور پر فراہم کیئے جائیں ۔ تفتیشی افسران پر کیسز کا انبار نہ ہو ورنہ جلد بازی میں کیسز کمزور ہو سکتے ہیں۔
- جھوٹ پر مبنی FIR درج کرانے پر مدعی کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ ملک کے طول و عرض میں کثیر تعداد میں ایسی FIR درج ہوتی ہیں جن میں مذموم مقاصد کے لئیے غلط بیانی کی جاتی ہے۔ ان کی تفتیش میں پولیس کا بہت وقت اور وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ کسی بھی اچھے کردار کے حامل شخص کو FIR میں نامزد کر کے اس کی پگڑی اچھالی جا سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس مسئلہ کا تدارک کیا جائے۔
- پولیس افسران اور ملازمین کو تین تین سال کے لئیے عہدوں پر تعینات کیا جائے۔ جبSHO کے تبادلے تین تین ماہ اور افسران کے تبادلے ایک ایک سال بعد ہوں گے تو پولیس کے پیشہ ورانہ امور میں تسلل قائم نہیں ہو گا اور پولیس ملازمین کے مابین team work کے لئیے ذہنی ہم آہنگی بھی پیدا نہیں ہو گی ۔ یہ تبادلے سیاسی وجوہات کی بنیاد پر نہ ہوں اور پولیس کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔
- پولیس کو ایک tech savvy محکمہ بنایا جائے۔ تھانہ کے سب رجسٹر computerised ہوں تا کہ افسران پولیس کی کارکردگی کی بہتر طور پر جانچ پڑتال کر سکیں ۔ افسران اور تھانہ کے ملازمین کی video conference کے ذریئعے ایک دوسرے تک رسائی کا نظام نصب کیا جائے۔ ہر اس پولیس ملازم کے یونیفارم میں کیمرہ , GPS اور خطرے کا بٹن نصب ہو جو field میں ڈیوٹی دے رہا ہو۔ اس سے وہ پولیس ملازم نہ صرف اپنے پیشہ ورانہ امور خوش اسلوبی سے انجام دے سکے گا بلکہ اس کا محکمہ اس کو ہنگامی حالت میں تحفظ بھی فراہم کر سکے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں