2018

کیا یہ ایک اتفاق ہی ھے کہ چھ ممالک , جرمنی ،کنیڈا ، امریکہ، فرانس ، انڈیا ، برطانیہ,  کے  جو سفیر عراق کی تباھی کے وقت بغداد میں تعینات تھے ، وھی لیبیا کی تباھی کے وقت طرابلس میں اور شام کی تباھی کے وقت دمشق میں تعینات تھے ، ان پانچ ممالک کے وھی سفیر آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالخلافے اسلام آباد میں تعینات ہیں ؟؟؟

امید ھے کہ پاکستانی کسی قسم کی ،شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی، لسانی یا صوبائی تعصب کی واردات کا شکار نہیں ھونگے، یہی وہ جال لے کر شکاری آ پہنچے ہیں جنہوں نے شام میں شیعہ سنی فساد کا کھیل رچایا ، عراق میں بھی شیعہ سنی کا دانہ ڈالا ، لیبیا میں قبائلی تعصب کو بھڑکایا گیاـ یہ چھ کے چھ مسلم دنیا کی کمزوریوں سے خوب آگاہ ہیں اور اپنے پتے کھیلنا خوب جانتے ہیں ـ ھم میں سے ہی کچھ میر صادق چنے جائیں گے اور گھناونا کھیل کھیلا جائے گا ، کسی بھی واقعے میں ملزمان کے مذھب کو لے کر کبھی بھی پوری کمیونٹی کے خلاف اٹھ کھڑے ھونے کے نعروں کو پہلے مرحلے پر ھی شٹ اپ کہنے کی ضرورت ھے !
آمید ھے، ھمارے کرتا دھرتوں اور حکومت بمع ایجنسیاں، نے ان شاتروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی ھوئ ھو گئی ۔ یہ سب ھمارے ملک کے تو دشمن ھیں ھی ۔۔۔۔ یہ اسلام کے بھی دشمن ھیں۔ انھیں ھم نے ناکام بنانا ھے۔ اس لیے ھمیں تیار اور ہوشیار رھنا ھو گا۔ اور لوگوں کو اس بارے میں بتانا ھو گا۔۔۔۔
 اس لیے اس میسج کو اپنے ہر دوست، فیملی  عزیزواقارب اور ہر اس کو کو بھیجے ، جن کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ھے، چاھیے کسی بھی مذھب سے ھوں۔۔ شکریہ 😡 ☄


تاریخِ حکمرانانِ ھندوستان


غوری سلطنت سے نریندر مودی تک


غوری سلطنت

1 = 1193 محمد غوری
2 = 1206 قطب الدین ایبک
3 = 1210 آرام شاہ
4 = 1211 التتمش
5 = 1236 ركن الدين فیروز شاہ
6 = 1236 رضیہ سلطان
7 = 1240 معیزالدین بہرام شاہ
8 = 1242 الہ دين مسعود شاہ
9 = 1246 ناصرالدين محمود
10 = 1266 غیاث الدین بلبن
11 = 1286 رنگ كھشرو
12 = 1287 مذدن كےكباد
13 = 1290 شمس الدین كےمرس
غوری سلطنت اختتام
(دور حکومت -97 سال تقریبا)

 خلجي سلطنت

1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی
2 = 1292 الہ دین خلجی
4 = 1316 شھاب الدین عمر شاہ
5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ
6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ
خلجی سلطنت اختتام
(دور حکومت -30 سال تقریبا)


 تغلق سلطنت

1 = 1320 غیاث الدین تغلق (اول)
2 = 1325 محمد بن تغلق (دوم)
3 = 1351 فیروز شاہ تغلق
4 = 1388 غیاث الدین تغلق (دوم)
5 = 1389 ابوبکر شاہ
6 = 1389 محمد تغلق (سوم)
7 = 1394 الیگزینڈر شاہ (اول)
8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)
9 = 1395 نصرت شاہ
10 = 1399 ناصرالدين محمدشاہ (دوم)
11 = 1413 دولت شاه
تغلق سلطنت اختتام
(دور حکومت -94 سال تقریبا)

 سعید سلطنت

1 = 1414 كھجر خان
2 = 1421 معیزالدین مبارک شاہ (دوم)
3 = 1434 محمد شاہ(چہارم)
4 = 1445 الہ دين عالم شاہ
سعید سلطنت اختتام
(دور حکومت -37 سال تقریبا)

لودھی سلطنت

1 = 1451 بهلول لودھی
2 = 1489 الیگزینڈر لودھی (دوم)
3 = 1517 ابراہیم لودھی
لودھی سلطنت اختتام
(دور حکومت -75 سال تقریبا) 
مغلیہ سلطنت

1 = 1526 ظہیرالدين بابر
2 = 1530 ہمایوں
مغلیہ سلطنت اختتام


سوري سلطنت

1 = 1539 شیر شاہ سوری
2 = 1545 اسلام شاہ سوری
3 = 1552 محمود شاہ سوری
4 = 1553 ابراہیم سوری
5 = 1554 پرویز شاہ سوری
6 = 1554 مبارک خان سوری
7 = 1555 الیگزینڈر سوری
سوری سلطنت اختتام
(دور حکومت -16 سال تقریبا)

مغلیہ سلطنت دوبارہ

1 = 1555 همايوں(دوبارہ گدی نشین)
2 = 1556 جلال الدين اکبر
3 = 1605 جہانگیر سلیم
4 = 1628 شاہ جہاں
5 = 1659 اورنگزیب
6 = 1707 شاہ عالم (اول) 
7 = 1712 بهادر شاہ
8 = 1713 پھاروكھشير
9 = 1719 ريپھد راجت
10 = 1719 ريپھد دولا
11 = 1719 نےكشييار
12 = 1719 محمود شاہ
13 = 1748 احمد شاہ
14 = 1754 عالمگیر
15 = 1759 شاہ عالم
16 = 1806 اکبر شاہ
17 = 1837 بہادر شاہ ظفر
مغلیہ سلطنت اختتام
(دور حکومت -315 سال تقریبا)

 برطانوی راج

1 = 1858 لارڈ كینگ
2 = 1862 لارڈ جیمز بروس یلگن
3 = 1864 لارڈ جهن لورےنش
4 = 1869 لارڈ رچارڈ میو
5 = 1872 لارڈ نورتھبك
6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لٹین
7 = 1880 لارڈ جيورج ریپن
8 = 1884 لارڈ ڈفرین
9 = 1888 لارڈ هنني لےسڈون
10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس یلگن
11 = 1899 لارڈ جيورج كرجھن
12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو
13 = 1910 لارڈ چارلس هارڈج
14 = 1916 لارڈ فریڈرک سےلمسپھورڈ
15 = 1921 لارڈ ركس ايجےك رڈيگ
16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون
17 = 1931 لارڈ پھرمےن وےلگدن
18 = 1936 لارڈ اےلےكجد لنلتھگو
19 = 1943 لارڈ اركبالڈ وےوےل
20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن

برطانوی سامراج کا اختتام

🇮🇳بھارت، وزرائے اعظم🇮🇳

1 = 1947 جواہر لال نہرو
2 = 1964 گلزاری لال نندا
3 = 1964 لال بهادر شاستری
4 = 1966 گلزاری لال نندا
5 = 1966 اندرا گاندھی
6 = 1977 مرارجی ڈیسائی
7 = 1979 چرن سنگھ
8 = 1980 اندرا گاندھی
9 = 1984 راجیو گاندھی
10 = 1989 وشوناتھ پرتاپسه
11 = 1990 چندرشیکھر
12 = 1991 پيوينرسه راؤ
13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی
14 = 1996 چڈيدے گوڑا
15 = 1997 ايل كےگجرال
16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی
17 = 2004 منموھن سنگھ 
18 = 2014 نریندر مودی


764 سالوں تک مسلم بادشاھت ہونے کے باوجود بھی ہندو، ھندوستان میں باقی ہیں. مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا۔ اوردوسری طرف ہندوؤں کو اب تک 100 سال بھی نہیں ہوئے اور یہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں

History of rulers of India fro 1 to 2018

والدین بیٹیوں اور بہنوں کو باخبر رہنے کے لئے اک چشم کشا تحریر

معذرت کے ساتھ ایک کڑواسچ
پلیز پڑھ کر لائک کیجئے گا بنا پڑھے نہیں...

نوجوان لڑکے اور لڑکی کا اپنے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر تنہائی میں ملناآج کی جدید اصطلاح میں Dating اور ''ڈیٹ مارنا''کہلاتا ہے۔ ڈیٹنگ کا یہ رُجحان سب سے زیادہ ہمارے تعلیمی اداروں(یونیورسٹی' کالج'حتیٰ کہ سکول)کے نوجوان اور نوعمر لڑکے لڑکیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ لڑکے اورلڑکیاں گھروں سے اپنے تعلیمی اداروں کے لیے نکلتے ہیں لیکن وہاں جانے کے بجائے اپنے نام نہاد عاشقوں اور محبوباؤں کے ساتھ ڈیٹ مارنے چلے جاتے ہیں اور گھر والوں کو کسی قسم کا کوئی شک تک نہیں ہوتا۔
ڈیٹنگ کے ابتدائی چند دن کسی پارک میں درختوں یاجھاڑیوں کی اوٹ میں گزرتے ہیں جہاں یہ نوجوان جوڑے سرعام بوس وکنارکرتے اور بہت ہی نازیبا حرکات کرتے ہیں۔لاہور میں ڈیٹنگ کے لیے تین پارک سرفہرست ہیں :(۱)باغِ جناح' (۲)ماڈل ٹاؤن سنٹرل پارک'اور (۳) ریس کورس پارک Sea view۔ جب میں ماڈل ٹاؤن پارک گیا تووہاں سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈیٹ مارنے آئے ہوئے تھے 'جبکہ اُن میں سے بعض تو کالج اور سکول کے یونیفارم میں موجودتھے جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ یہ لوگ گھروں سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں۔
پارک میں موجود سیکیورٹی گارڈز سے جب میں نے اس بارے میں پوچھا تو اُن میں سے ایک نے بتایا کہ اس پارک کے ٹکٹ کا ٹھیکہ ایک کروڑ سالانہ میں ہوا ہے اور ہمیں سختی سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو بری سے بری حرکات پر بھی نہ روکا جائے۔اس لیے کہ اگر ان جوڑوں کو روکا گیا تو پھر یہاں کون آئے گا۔ایک مالی نے بتایا کہ یہاں ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں سکول 'کالج اور یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ آتے ہیں اور ایسی ایسی گندی حرکتیں کرتے ہیں کہ ہمیں شرم آجاتی ہے مگر وہ بے شرم سر عام اپنے ''پیار'' میں مصروف رہتے ہیں۔اُس کا کہنا تھا کہ یہاں جھاڑیوں کی اوٹ میں ہم نے بہت سے جوڑوں کو زنا تک کرتے دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا لڑکیاں منع نہیں کرتیں۔ اُس نے کہا کہ بعض لڑکیاں تو خودلڑکوں کو گندی حرکات پر اُکساتی ہیں'جبکہ بعض نوعمر لڑکیاں پہلے پہل شرم دکھاتی ہیں اور لڑکوں کو ایسی حرکات سے منع کرتی ہیں 'مگر جولڑکا اُسے اتنی دور سے لے کر آیا اور اس نے اسے کھلایا پلایا ہوتا ہے تو وہ اپنی ہوس پوری کیے بغیر نہیں رہتا۔
ایسا ہی حال باغِ جناح اور ریس کورس پارک میں بھی دیکھنے کوملتاہے۔باغِ جناح میں تو چند ایک پہاڑیاں بھی موجود ہیں جو ڈیٹ پرآئے جوڑوں کے لیے کسی فائیوسٹار ہوٹل کے کمرے سے کم نہیں ہے اس لیے کہ یہاں انہیں مکمل تنہائی میسر آتی ہے اور انہیں کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔
ڈیٹنگ کا دوسرا مرحلہ دل دہلا دینے والاہے۔غریب جوڑے اپنے کسی دوست کے گھر کا انتخاب کرتے ہیں جس کے گھر والے کسی تقریب وغیرہ میں گئے ہوتے ہیں'جبکہ امیر زیادہ تر ہوٹلوں اورجابجا موجود پرائیویٹ گیسٹ ہاؤس کا انتخاب کرتے ہیں۔اس طرح ان جوڑوں کو مکمل تنہائی میسر آتی ہے اور پھر یہ جوڑے وہ تعلق قائم کرلیتے ہیں جو میاں بیوی شادی کے بعد قائم کرتے ہیں۔شادی سے پہلے ایسے تعلق قائم کرنے کو ''زنا''سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسلام میں اس کی سزاسو کوڑے ہیں۔ پاکستانی قانون میں بھی یہ ایک قابل سزا جرم ہے۔
ڈیٹنگ کے ظاہری نقصانات تو سب کے سامنے ہیں'جبکہ اس کا ایک بہت بھیانک نقصان ''بلیک میلنگ ''ہے۔یہ جوڑے جہاں ڈیٹ مارنے جاتے ہیں وہاں کی انتظامیہ خفیہ کیمروں سے اُن کی ویڈیو بنا لیتے ہیں۔اس سے وہ ان کو بلیک میل کرتے ہیں۔لڑکوں سے تو وہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ لڑکیوں سے رقم کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش کا اظہارکرتے ہیں۔اب یہ دونوں پولیس اور اپنے گھر والوں کے ڈر سے ان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ابھی چند سال پہلے اسلام آباد ' کراچی او رپاکستان کے چند ایک اور بڑے شہروں میں انٹر نیٹ کلب کے کیبنوں میں ڈیٹنگ پر آئے ایسے ہی ہزاروں جوڑوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کے منظر عام پر آنے نے ایک تہلکہ مچا دیاتھا۔کئی لڑکیوں نے اس پر خودکشیاں کیں اور بہت سو کے گھر اُجڑے۔ اسی طرح ابھی پچھلے سال ویلنٹائن ڈے کے موقع پر کراچی کے آئس کریم پارلر پر ڈیٹ پرگئے سینکڑوں کی تعداد میں جوڑوں کی ویڈیوانتظامیہ نے بنا کر انتہائی مہنگے داموں گندی سائٹس کو نہ صرف بیچیں بلکہ اُن جوڑوں کو بلیک میل بھی کیا۔
بلیک میلنگ کادوسرا رخ یہ ہے کہ لڑکے خود سے اپنی محبوبہ کی ویڈیوبنالیتے ہیں۔بعض لڑکے تو یہ ویڈیو گندی سائٹس کو اچھی خاصی رقم کے بدلے بیچ دیتے ہیں اور اس طرح یہ اس لڑکی کی عزت پلک جھپکتے ساری دنیا میں نیلام ہوجاتی ہے۔جبکہ بعض لڑکے ان ویڈیوز سے لڑکیوں کو بلیک میل کرکے رقم بھی بٹورتے ہیں اور اپنی ہوس بھی پوری کرتے رہتے ہیں۔ایسے سینکڑوں واقعات اب تک میڈیا میں رپورٹ ہوچکے ہیں اور رپورٹ نہ ہونے والے واقعات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
اس حوالے سے صرف ایک واقعہ ملاحظ ہو جس کو پڑھ کر شاید آپ کے بھی رونگٹھے کھڑے ہوجائیں گے۔ملتان کے ایک سکول کی نویں جماعت کی طالبہ کی موبائل پر ایک لڑکے سے دوستی ہوگئی۔انہوں نے ڈیٹ پرجانے کا پروگرام بنایا اور ایک پارک میں ملے۔جہاں لڑکے کے دوستوں نے اُن کی ویڈیو بنا لی۔چند دن بعد لڑکے نے ویڈیو دکھا کر اُسے اپنے دوست کے گھر بلاکر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیوبھی بنا لی۔ کچھ دن بعد لڑکے کا دل جب اُس لڑکی سے بھر گیا تو اُس نے وہ ویڈیو اپنے دوستوں کو دے دی۔پھر اس کے دوستوں نے باری باری اس معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔درندگی کی انتہا دیکھئے کہ پندرہ سالہ بچی مسلسل چھ ماہ تک بیس لوگوں کے ہوس کا نشانہ بنتی رہی'لیکن اپنی او راپنے والدین کی عزت کی خاطر چپ چاپ سب سہتی رہی۔ اس کے بعد اُن درندوں نے وہ ویڈیولڑکی کے باپ کو دکھا کر تین لاکھ کا مطالبہ کیا ۔باپ نے پولیس کو اطلاع دی تو اُن میں سے تین ملزمان گرفتارہوگئے۔آپ سوچئے کہ یہ سب صرف ایک بار ڈیٹ مارنے کا نتیجہ ہے اور اب اُس لڑکی اور اس کے گھر والوں کے پاس جینے کا کون سا بہانا باقی ہے۔
ڈیٹنگ کے بے شمار نقصانات ہیں کہ کوئی بھی عقل وفہم رکھنے والا اور دوسروں کی بہن بیٹیوں کو اپنی بہن بیٹی سمجھنے والا انسان سوچ کر بھی کانپ اُٹھتا ہے۔ میری والدین اور بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی بہن بیٹیوں پر نظر رکھیں' او رگاہے بگاہے ان کے موبائل کو چیک کرتے رہیں اس لیے کہ ڈیٹنگ کا یہ سارا کھیل موبائل کے سر پر ہی کھیلا جاتا ہے۔
لڑکیوں سے گزارش ہے کہ لڑکوں کی دوستی اور عشق کے چکروں میں آکر ڈیٹنگ پہ جانے کا خیال اپنے دل سے نکال دیں اور ملتان کی لڑکی کے واقعہ کو یاد رکھیں جو ایک ڈیٹ کی وجہ سے بیس لوگوں کے ہوس کا نشانہ بنی۔خدانخواستہ ایسا آپ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔پھر یہ ضرور یاد رکھیں کہ ڈیٹ مارنے میں سب سے زیادہ نقصان لڑکی کا ہی ہوتا ہے اس لیے کہ اگر بلیک میلنگ نہ بھی ہو تب بھی لڑکی کی عزت اس ڈیٹنگ میں چلی جاتی ہے۔
آخر میں'میری تمام نوجوانوں سے گزارش ہے کہ کسی لڑکی کو اپنے جھوٹے پیار میں پھنسانے'اُسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے' بلیک میل کرنے یا اُس کی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر اَپ لوڈ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ کل کوآپ کی بہن'بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔اس بارے میں ہر ایک کو ضرور سوچنا چاہئے !!!!!
اگرچہ ہمارے معاشرے میں جاہلیت کی وجہ سے عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔ مگر اسی معاشرے میں وہ مرد بھی موجود ہیں جو خود کو دھوپ میں رکھ کر اپنے گھر کی خواتین پر چھاوں کیے ہوئے
یہ سچائی اگر کسی کو بُری لگی ہو تو معزرت وسلام ۔۔۔
یہ کہانی محض کہانی نہیں آج کل ایسا ہو رہا ہے۔
۔میں نے تصویر دکھائی ہے۔۔
*******
اگر میری کسی بات یا عمل سے کسی بھائی بہن کو کچھ ناگوار گزرا ہو تو
ان سے نہایت ادب و احترام سے معذرت .
*****
🌻جزاك اللہ الخیر





In this post you can find all of your questions which you are finding on google or any other search engine here is your findings "powerful waldain ke liye dua, best waldain ke liye dua, waldain ke liye dua in urdu, waldain ke liye dua maghfirat, waldain ke liye dua in arabic, marhoom waldain ke liye dua, marhoom baap ke liye dua, maa baap ki maghfirat ki dua etc.


اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج تک اتنے شراب فروشی کے پرمٹ نہیں جاری ہوئے جتنے پاکستانی کچی یا زہریلی شراب پی کر‌ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان میں اتنی کُل رجسٹرڈ ڈبل کیبن گاڑیاں بهی نہیں ہیں‌ جتنی اب تک سوات اور وزیرستان میں طالبان کے قبضے سے پکڑی جا چکی ہیں۔ پاکستان میں اتنے کُل کلاشنکوف پرمٹ نہیں جاری ہوئے جتنی‌ کلاشنکوفیں کراچی کی ایک معمولی غیر قانونی اسلحے کی خفیہ کهیپ سے پکڑی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اتنا‌ بارود تمام کانکنی کرنے والوں کے پاس بهی نہیں جتنا بلوچستان کا ایک فراری کمانڈر ہتهیار ڈالتے وقت ریاست کو جمع کرواتا ہے۔

کیا تحریکِ طالبان پاکستان کے کسی فرد نے کبهی کلاشنکوف کے پرمٹ کے لیے درخواست دی؟ کیا کسی فراری گروه کے کمانڈر نے کبهی بارود کے این-او-سی کے لیے گزارش کی؟ کیا کسی دہشتگرد نے کبهی اپنی گاڑی پر‌ کالے شیشے لگوانے کی اجازت مانگی؟ کیا کسی طالبان امیر نے کبهی بُلٹ پروف گاڑی رجسٹر کروانے کے لیے کاغذات جمع کروائے؟

جنابِ عالی *هیم ریڈیو/HAM Radio* یا *ایمیچور ریڈیو/Amateur Radio* لائیسنس کی درخواست داخلِ دفتر کروا کر ایک سال صرف اس پر کاروائی کا آغاز ہونے کے لیے انتظار کرنا‌ پڑتا ہے۔ کیا کوئی بَدنیت اور ملک دشمن انسان کبهی کسی تخریب کاری کا لائیسنس مانگنے میں اتنی تگ و دو کرے گا؟ اگر ایمیچور ریڈیو کسی ملک کی سلامتی کے لیے اتنی ہی خطرناک بات ہے تو جان لیں کہ پڑوسی ملک بهارت میں سال ٢٠١٦ میں ہی ایمیچور ریڈیو لائیسنس یافتہ افراد کی تعداد ١٨٦٧٩ ہو چکی تهی۔ جب کہ پاکستان میں یہ تعداد آج بهی بهارت میں جاری کُل علیحدگی پسند تحریکوں سے بهی کم یعنی صرف ١٥٢ ہے۔

*پاکستان ٹیلی کام اتهارٹی المعروف PTA* وه سرکاری اداره ہے جو پاکستان میں‌ ایمیچور ریڈیو لائیسنس جاری کرنے کا مجازِ کُلی ہے۔ مگر پی-ٹی-اے تمام تر توجہ نقد آمدن پر‌ رکهتے ہوئے صرف کاروباری مقاصد کے لیے هیم ریڈیو لائیسنس جاری کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بهاری فیسوں کے عوض کشتی ‌مالکان، بڑی تعمیراتی کمپنیوں، سیکیورٹی کمپنیوں، ایمبیسیوں، ہسپتالوں، اور این-جی-اوز وغیره سب کو کمرشل وائرلیس‌ ریڈیو لائیسنس PTA ہی جاری کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ جب ایک عام ایمیچور ریڈیو ٹیکنالوجی کا شوقین پاکستانی اپنے وطن‌ کی بلامعاوضہ خدمت کی غرض سے ایمیچور ریڈیو لائیسنس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو PTA ایسے محبِ وطن لوگوں کے ساتھ اچهوت براہمن ہندو جیسا برتاؤ کرتا ہے۔

اگر حکومتِ پاکستان اپنے ہونہار ایمیچور ریڈیو ٹیکنالوجی کے دیوانوں کو ملکی خدمت کا موقع دیتی تو سیٹلائٹ بدر ١ اور بدر ٢ ہرگز ناکام نہ ہوتے۔ حکومتی اداروں کو تو سیٹلائٹ بدر ٢ کے ریڈیو سگنل ہی ایک شوقیہ ایمیچور ریڈیو لائیسنس یافتہ عام پاکستانی نے تلاش کر کے دیے تهے۔ ایسے اہم اداروں میں نااہل افراد بهرتی کر کے ملک و ملت کی جگ ہنسائی کہاں کی دانست ہے! اس سے اچها نہیں کہ ادارے ٹیکنالوجی کے شوقین افراد کو ایمیچور ریڈیو لائیسنس جاری کریں اور ان سے ملک و ملت کے لیے خدمات حاصل کریں!

اندهوں کے درمیان ایک آنکھ والے کی سرداری تو سب نے سُن رکهی ہے۔ مگر یہ کہاں کا انصاف کہ ایک آنکھ والوں کی سرداری قائم رکھنے کے لیے باقی سب کو اندها بنا کے رکها جائے!!


نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے, 
ذرا نَم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!

#سب_دا_بهلا_____سب_دی_خیر۔۔!!

پاکستانی ہار نہیں مانتے

مثال آپ کے سامنے ہے😂😂😂😂😛


امریکہ میں مائیکروسافٹ نے "آئی ٹی ایکسپرٹ مینیجر برائے یورپ" کی ایک آسامی پر درخواستیں ‌مانگیں۔ تقریباً پانچ ہزار امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں ۔ بل گیٹس اتنے امیدواروں کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اور انہیں ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں جمع کرکے ان سے مخاطب ہوا :

بل گیٹس: آپ سب کا بہت شکریہ۔ چونکہ یہ آسامی بہت ہی اہم اور ٹیکنیکل پوسٹ کے لیے ہے۔ لہذا آپ میں سے جو جاوا زبان کو جانتے ہیں، وہ موجود رہیں، باقی تمام حضرات سے معذرت، وہ جا سکتے ہیں

ایک پاکستانی بھی امیدواروں میں کھڑا تھا ۔ اس نے سوچا مجھے جاوا تو نہیں آتا لیکن پھر بھی میں‌ اگر رک جاؤں‌تو کیا حرج ہے۔ چنانچہ وہ وہیں کھڑا رہا۔ 
جبکہ جاوا نہ جاننے والے ایک ہزار افراد چلے جاتے ہیں

بل گیٹس: ہماری آج کی مینیجر کی پوسٹ کے لیے مینجمنٹ کوالٹی بہت ضروری ہے۔ آپ میں سے وہ افراد جن کی ماتحتی میں‌کم از کم سو افراد ہوں، موجود رہیں، باقی سب جا سکتے ہیں

پاکستانی نے پھر سوچا کہ میرے تو گھر والے میرے ماتحت نہیں۔ لیکن رک جاتا ہوں ۔ ممکن ہے کوئی چانس بن جائے۔ 

امیدواروں میں سے ‌مزید ایک ہزار افراد چلے جاتے ہیں

بل گیٹس: اس جاب کےلیے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کی ڈگری لازمی ہے۔ صرف اس ڈگری والے رکیں باقیوں سے معذرت ۔

پاکستانی نے پھر سوچا کہ ڈگری وگری تو کوئی نہیں ۔ مگر رک جانے میں کیا حرج ہے۔

ایک ہزار افراد مزید کم ہو گئے۔

بل گیٹس: ہمٰیں تجربہ کار مینجر کی ضرورت ہے۔ جس کے پاس کم از کم پانچ سالہ تجربہ ہے وہ رک جائے۔ باقی جا سکتے ہیں 

پاکستانی پھر سوچتا ہے کہ تجربہ تو کسی کام کا نہیں لیکن جانے سے بہتر ہے کہ رک جاؤں ۔ شاید چانس بن جائے۔ 

ایک ہزار مزید افراد گراؤنڈ سے چلے گئے۔ 

بل گیٹس: گڈ ! اب صرف ایک ہزار مناسب افراد بچ گئے۔ امیدوار کیلیے ضروری ہے کہ اسے یورپ کی کئی زبانیں آتی ہوں

یہ سن کر آخری ہزار میں سے پانچ سو افراد اٹھ کر چلے گئے۔ پاکستانی اردو پنجابی کے سوا کچھ نہ جانتا تھا۔ لیکن بہرحال رک گیا۔ 

بل گیٹس: گڈ۔ آپ تمام افراد بنیادی شرائط پر پورا اترے۔ اب وہی امیدوار رکے جو روسی زبان پر عبور رکھتا ہو‌ 

یہ سن کر چار سو اٹھانوے افراد اٹھ کر چلے گئے۔ جبکہ پاکستانی اور ایک اور آدمی رک جاتے ہیں۔ اب آخری 2 افراد اور بل گیٹس گراؤنڈ میں موجود رہ گئے۔ 

بل گیٹس : بہت خوب ! آپ دونوں ان 5 ہزار افراد میں سے سب سے زیادہ قابل نکلے۔ ویری گڈ ۔ اب آپ دونوں ایک دوسرے سے روسی زبان میں بات چیت کریں ۔ جو زیادہ صحیح روسی زبان گرامر کے مطابق بولے گا ۔ وہ منتخب کر لیا جائے گا۔ 

پاکستانی نے سوچا اب منزل قریب ہے۔ دوسرے آدمی سے مخاطب ہو کر اردو میں بولا : "ہاں بھئی استاد، کیا حال ہیں؟"

دوسرا آدمی چیخ اٹھا : "اوئے کمینے! تو بھی پاکستانی ہے؟"😂😂


نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ ہر سال بڑے  مذہبی جوش خروش سےتقریبا تمام مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان اور ہندوستان میں منائی جاتی ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ یہ تہوار عوام و خواص میں خاصی مقبولیت کا حامل بن چکا ہے لہذا اب سکولوں میں اس دن عام تعطیل کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور یا پھر سکول کے بچوں کو یھ تہوار منانے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ ہم بھی اپنے سکول کے دور میں اس موقع پر ہونے والے نعتیہ مقابلوں میں بڑے زور و شور سے حصہ لیتے، یہ نعتیں عموما ایسی شاعری پر مشتمل ہوتیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا اور اکثر انہیں مخاطب بھی کیا جاتا ۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے سوچ کا محور صرف جنت میں ملنے والی آسائشیں ہوتیں جو اس تہوارکو منانے والے کے لئے دنیا میں ہی گارنٹی کر دی جاتی تھیں کہ ہمارے بڑے بزرگ یا استاد سبھی یہ کہتے تھے۔ اسوقت یہ احساس یا دینی شعور نا تھا کہ اس تہوار کی ضرورت، اسکا پس منظر یا اسکی شرعی حیثیت جاننے کی کوشش کرتے لہذا کبھی یہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نا ہوئی کہ درحقیقت اس تہوار کے حوالے سے ہم ایک اسے عمل کا حصہ بن رہے ہیں جسے بڑی شد و مد سے اسلام میں منع کیا گیا ہے یعنی دین میں کوئی نئی بات یا عقیدہ وعمل ایجاد کرنا۔

وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں عوام و خواص دین کی سمجھ بوجھ اور ذاتی تحقیق سے دور ہوئے اس خودساختہ تہوار اور اسکی رنگ رلیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آج ۱۲ ربی الاول کے دن تمام شہروں اور قصبوں میں ایک جشن کا سماں ہوتا ہے، گلی محلوں اور دکانوں کو بڑے اہتمام سے سجاایا جاتا ہے، نئے نئے پکوان پکتے ہیں اور بچوں کو نئے کپڑے دلائے جاتے ہیں، لوگ حلوہ یا پلاؤ اپنےعزیزو اقارب  دوست احباب یا غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں اور محلے کے مولوی کی تو موج ہوتی ہی ہے۔ پھر میڈیا نے بھی اس نئی عید کی مقبولیت کو عام کرنے اور اسے ایک دینی تہوار کی شکل دینے میں بڑا کردار ادا کیا کہ انکا تو کام ہی ہر مقبول یا قابل فروخت چیز کوعام کرنا ہےغلط یا صحیح کی فکر میں پڑنا نہیں۔ اور اب ملک بھر میں حال یہ ہے کہ اس تیسری ایجاد کردہ عید نے اللہ کی دو اصلی عیدوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دین میں ثواب یا اور زیادہ ثواب کی نیت سے کوئی بھی نیا عقیدہ یا عبادت کا طریقہ و تہوار ایجاد کرنے کو اسلام میں بدعت کہا گیا ہے۔ اللہ تعالی سورة مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے پھر جو کوئی بھوک سے بیتاب ہو جائے لیکن گناہ پر مائل نہ ہو تو الله معاف کرنے والا مہربان ہے۔ سورة المائدہ ۳

پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنےآخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے پیغام یعنی دین اسلام کو بہترین انداز میں مکمل کردیا اور اسی لئے ایک بہترین انداز میں تکمیل شدہ دین میں ایجاد کی جانے والی ہر نئی باتوں کو بدعت کہا گیا۔ اس حوالے سے ہمیں بہت سی صحیح احادیث مل جاتی ہیں جن میں بدعات سے دور رہنے کا حکم دیا گیا اور بتایا گیا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔

جابربن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور بےشک بہترین کلام اللہ تعالى کی کتاب ہے اورسب سے عمدہ طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اورسب سے بدترین کام وہ ہیں جن کودین میں ایجاد کیا جائے اوردین میں ہرنوایجادچیزبدعت ہے ۔صحیح مسلم

حضرت انس بن مالک رضی اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ حوض کوثر پر اتریں گے یہاں تک کہ میں ان کو پہچان لوں گا وہ میرے سامنے سے کھینچ کر مجھ سے دور لے جائے جائیں گے تو میں کہونگا کہ اے اللہ یہ میری امت کے لوگ ہیں تب اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا ایجاد کر لیا۔ صحیح بخاری

 سو معلوم ہوا کہ نا صرف ہر بدعت گمراہی ہے بلکہ یہ بھی کہ بدعتی کو قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بھی محروم کر دیا جائے گا یعنی یہ ایک ناقابل معافی گناہ ہے چاہے اسے کرنے والا اپنے آپکو اسلام کا کتنا ہی بڑا پیروکار کیوں نا سمجھتا ہو۔

عید میلاد بھی ایسی ہی ایک بدعت ہے جسے ایک دینی تہوار اور باعث ثواب عمل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ میلاد منانے والوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ان میلاد محفلوں میں تشریف لاتی ہے، نعوذ باللہ۔ اسی طرح کی بہت سی خرافات اس تہوار اور اس جیسی دیگر بدعات سے وابستہ کردی جاتی ہیں جیسا کہ اس تہوار پر پکایا جانے والا کھانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے حالانکہ قران میں سورة البقرہ آیت ۱۷۳، سورة المائدہ آیت ۳، سورة الانعام آیت ۱۴۵ اور سورة النحل آیت ۱۱۵ میں اللہ فرماتا ہے کہ تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت حرام کیا ہے اوروہ چیز بھی جو الله کے سوا کسی اور کے نام سے منسوب کی گئی ہو ۔ اسی لئے میلاد کا پکوان کھانا بھی ایک مسلم کے لئے حرام ہوگا۔

اس حوالے سے مناسب ہوگا اگر میلاد منانے کے حق میں کچھ توجیہات بھی پیش کی جاتی ہیں انکا ذکر بھی یہاں کردیا جائے۔

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر پیر کے دن روزہ نہیں رکھتے تھے کے اس دن انکی پیدائش ہوئی؟

کیا قران کی تلاوت یا حمد و نعت پڑھنا اسلام میں منع ہیں؟

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا تذکرہ یا اس موضوع پر تقریریں کرنا اور سننا اسلام میں منع ہے؟

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پیش کرنا اسلام میں منع ہے؟

کیا غرباء میں مفت کھانا تقسیم کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں؟

یقیننآ اسلام ایسے تمام کاموں کی اجازت اسلام دیتا ہےلیکن اس تہوار جس پر یہ سب کیا جاتا ہے اسکی اجازت اسلام میں نہیں۔ یہ تہوار نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے اور اسی طرح اگر اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو علم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام جو صفحہ ہستی پر قران و حدیث کے بہترین ماننے والے تھے ان میں سے کسی نے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کو کسی خاص انداز یا کسی دینی تہوار یا عید کے طور پر نہیں منایا۔ بلکہ ہمیں پتہ یہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےقریبا ٤۰۰ سال بعد یعنی گیارہویں صدی ہجری میں مصر میں فاطمی دور کے شیعہ خلفاء نے جشن ولادت نامی اس بدعتی تہوار کو ایجاد کیا جسے بعد میں اسلام میں تیسری خود ساختہ عید کا درجہ مل گیا۔ 

اور ویسے بھی دینی نقطۂ نظرسے انبیاء اور خداؤں کی سالگرہ منانا تو ہمیشہ سے ہی ایک غیراسلامی عمل رہا ہے، تبھی تو عیسائی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے اور انکی زندگی کے دوران کرسمس مناتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے صحابہ کو کرسمس یا اسی حوالے سے اپنی پیدائش کا دن منانے کا حکم نہیں دیا۔ حالانکہ اسی دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ۱۰ محرم یعنی عاشورہ کےدن (جس دن اللہ نے موسیٰ علیہ سلام کی قوم یعنی بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی اور یہودی اس دن کو بطور تہوار منایا کرتےتھے) مسلمانوں کو بطور شکرانہ روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ لیکن ایسا کوئی حکم ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ہی نہیں ملتا بلکہ سب سے زیادہ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایک قابل اعتبار روایت یا شہادت موجود نہیں ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کی تصدیق ہو سکے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ سالگرہ کا دن منانے کا تصور اسلام میں سرے سے موجود ہی نہیں۔

اب  چونکہ ہم اپنے آپکو مسلمان کہتے ہیں ہمیں ایسی تمام بدعات سے اپنے آپکو الگ رکھنا چاہیئے تاکہ ہم اسلام پر ویسے ہی عمل کریں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور انکے صحابہ ہے عمل سے ثابت ہے۔ ہمیں ہر ایسے دینی تہوار یا تقریب کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے بلکہ دیگر لوگوں یعنی اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب میں بھی اس بات کا شعور پیدا کرنے کی کوشش کرنے چاہیئے۔ یاد رکھیں کہ بدعات اگر حد سے بڑھ جائیں تو شرکیہ عقائد و اعمال بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں لہذا ایک مسلم ان سے جتنا دور رہے اتنا ہی اچھا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی قران میں ارشاد فرماتا ہے

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرً
اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے دوزح میں ڈال دینگے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ سورة النسا ۱۱۵

لہذا ہمارے تمام تردینی دعوؤں کے باوجود یہ بات ہمیں مدنظر رکھنی چاہیئے کہ ایسے کسی بھی بدعتی عمل کا حصہ بننے کا مطلب درحقیقت اس بات کا اقرار کرلینا ہے کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اتنے اہم اسلامی تہوار کا ذکر کرنا بھول گئے یا شاید صحابہ کرام کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت میں کمی رہ گئی جو انہوں نے ایسا کوئی کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی یا انکی وفات کے بعد نہیں کیا اور اب امت کے وہ لوگ جو صدیوں بعد آئے وہ اس کارخیر کو انجام دے کر نا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اصلی حق ادا کر رہے ہیں بلکہ اسلام کی تکمیل بھی انہی کے ذریعے ہو رہی ہے۔ سو ایسے عمل کا حصہ بننا اللہ کے دین کا مزاق اڑانے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور وہ دین جسکے بارے میں اللہ نے خود فرما دیا کے میں نے اسکی تکمیل بہترین انداز میں کردی ہے۔ یعنی ایک ایسا دین جسے اللہ نے پرفیکٹ یا بے نقص بنا دیا کیا ہم اسے اور بہتر کرنے کا دعوی کر سکتے ہیں؟

In this post you can find all of your questions which you are finding on google or any other search engine here is your findings "jashne eid milad un nabi ki haqeeqat aur manana kaisa hai, eid milad un nabi ki fazilat, jashne eid milad un nabi taqreer, eid miladun nabi, kya sahaba ne milad manaya etc.

انٹرنیٹ پر قائم Pakistan Police Reforms Think Tank کے صدر محمد عرفان نواز کی جانب سے دس تجاویز :

  1. پولیس کے بجٹ میں معقول اضافہ کیا جائے۔ پولیس کابجٹ ضرورت سے تین گنا کم ہے۔ ایک معمولی نوعیت کے کیس کی تفتیش پر کم از کم دس ہزار روپےاور ایک سنگین یا پیچیدہ کیس کی تفتیش پر کم از کم پچاس ہزار روپے تک کے اخراجات آتے ہیں۔ مالی وسائل کے فقدان کے باعث پولیس شہریوں سے رقم طلب کرتی ہے اور عوام کے ذہن میں پولیس کا ایک منفی تائثر (negative impression)قائم ہوتا ہے۔ پولیس میں نیچے کی سطح کے ملازمین کی تنخواہ اور مراعات بھی مارکیٹ سے مطابقت رکھتی ہو۔ ہر ضلع کی پولیس کو پچاس فیصد بجٹ صوبہ کی حکومت کی جانب سے فراہم کیا جائے اور باقی پچاس فیصد ضلع کے ہر گھر سے ٹیکس کی صورت میں حاصل کیا جائے۔ جس شہری کا گھر جتنا بڑا ہو گا وہ اتنا زیادہ ٹیکس دے گا۔ غریب شہریوں سے ٹیکس وصول نہ کیا جائے۔ 
  2. پولیس کی Media Management کو بہتر بنایا جائے تاکہ اسے عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ ایک وفاقی ادارہ Police Service Public Relation قائم کیا جائے۔ یہ ادارہ National Police Bureau کے تحت کام کرے۔ اس ادارے میں ہر صوبہ کے پولیس افسران اور ملازمین شامل ہوں۔ ٹی وی چینلز، اخبارات اور سماجی میڈیا کے ذرئیے پولیس کے تعلقات عامہ کو بہتر بنایا جائے۔
  3. پولیس کے duty hours آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہ ہوں اور ہفتے میں پولیس ملازمین کو کم از کم ایک دن چھٹی دی جائے۔ بغیر آرام کیئے طویل shift کرنے سے پولیس ملازمین کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زیادہ duty hours کی وجہ نفری کی کمی بیان کی جاتی ہے۔ نفری کی کمی کو پورا کرنے کے لئیے نفری کا غلط استعمال روکا جائے۔ Police Line اور VIP Security پر ضرورت سے زیادہ نفری کا استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔
  4. پولیس میں عہدوں پر ترقی (hierarchy promotion) کا نظام انصاف پر مبنی ہونا چاہئیے۔ نیچے کی سطح کے ملازمین کو وقت اور قابلیت پر ترقی دی جائے۔ پولیس میں بھرتی صرف ASP, ASI اور Constable کی سطح پر ہو۔ افسران اور پولیس ملازمین کی ratio میں بہت بڑا فرق ہے۔ پولیس افسران کی تعداد میں چار گنا اضافہ کیا جائے۔ اگر پچاس فیصد افسران CSS کر کے بھرتی ہوں تو پچاس فیصد افسران نیچے سے ترقی کر کے افسر تعینات ہوں۔ اس سے نیچے کی سطح کے ملازمین کی احساس کمتری ختم ہو گی ۔
  5. ہر صوبہ میں Forensic Scienceکی ایک بڑی laboratory قائم کی جائے (صوبہ پنجاب میں ایک بڑی laboratory موجود ہے)۔ جب بھی کسی ضلع میں فوجداری نوعیت کا وقوعہ ہو تو اس ضلع میں Forensic Science Laboratory کی مقامی شاخ کا staff موقع واردات سے sample حاصل کرے۔ یہ sample وہ اپنی نگرانی میں laboratory تک لے کر جائے۔ پولیس ملازمین کا بہت وقت laboratory تک سفر میں ضائع ہو رہا ہے اور سائنس کی تعلیم نہ ہونے کے باعث بہت سے کیسز میں sample قانونی طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔
  6. پولیس کے لئیے نئے قوانین مرتب کئیے جائیں۔ شہریوں کا طرز زندگی ( رسم و رواج، ذریعہ معاش، رہائش) بہت تیزی سے بدل رہاہے۔ 1861 کا Police Act اور 1934 کے Police Rules پاکستان کے بہت سے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔
  7. پولیس کے investigation کے شعبے پر خاص توجہ دی جائے اور prosecution کو اس میں ضم کیا جائے۔ پولیس کا سب سے کمزور پہلو تفتیش ہے۔ پاکستان کی عدالتوں سے بہت سے جرائم پیشہ لوگ ناقص تفتیش کی وجہ سے بری ہو جاتے ہیں۔ تفتیشی افسران کی جدید خطوط پر تربیت کی جائے اور ان کو ہر کیس کے اخراجات فوری طور پر فراہم کیئے جائیں ۔ تفتیشی افسران پر کیسز کا انبار نہ ہو ورنہ جلد بازی میں کیسز کمزور ہو سکتے ہیں۔
  8. جھوٹ پر مبنی FIR درج کرانے پر مدعی کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ ملک کے طول و عرض میں کثیر تعداد میں ایسی FIR درج ہوتی ہیں جن میں مذموم مقاصد کے لئیے غلط بیانی کی جاتی ہے۔ ان کی تفتیش میں پولیس کا بہت وقت اور وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ کسی بھی اچھے کردار کے حامل شخص کو FIR میں نامزد کر کے اس کی پگڑی اچھالی جا سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس مسئلہ کا تدارک کیا جائے۔
  9. پولیس افسران اور ملازمین کو تین تین سال کے لئیے عہدوں پر تعینات کیا جائے۔ جبSHO کے تبادلے تین تین ماہ اور افسران کے تبادلے ایک ایک سال بعد ہوں گے تو پولیس کے پیشہ ورانہ امور میں تسلل قائم نہیں ہو گا اور پولیس ملازمین کے مابین team work کے لئیے ذہنی ہم آہنگی بھی پیدا نہیں ہو گی ۔ یہ تبادلے سیاسی وجوہات کی بنیاد پر نہ ہوں اور پولیس کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔
  10. پولیس کو ایک tech savvy محکمہ بنایا جائے۔ تھانہ کے سب رجسٹر computerised ہوں تا کہ افسران پولیس کی کارکردگی کی بہتر طور پر جانچ پڑتال کر سکیں ۔ افسران اور تھانہ کے ملازمین کی video conference کے ذریئعے ایک دوسرے تک رسائی کا نظام نصب کیا جائے۔ ہر اس پولیس ملازم کے یونیفارم میں کیمرہ , GPS اور خطرے کا بٹن نصب ہو جو field میں ڈیوٹی دے رہا ہو۔ اس سے وہ پولیس ملازم نہ صرف اپنے پیشہ ورانہ امور خوش اسلوبی سے انجام دے سکے گا بلکہ اس کا محکمہ اس کو ہنگامی حالت میں تحفظ بھی فراہم کر سکے گا۔


In this post you can find all of your questions which you are finding on google or any other search engine here is your findings " Police Reforms, Police corruption, Police scandal etc.



احباب ایک زمانہ تھا کہ مسلمان سے زیادہ خدا خوف کوئی انسان نہیں تھا

یہ لوگ اللہ کو بالکل اپنے پاس ، اپنے قریب ، شاہ رگ سے بھی قریب محسوس کرتے تھے لہذا اللہ سے حیاء بھی کرتے تھے ، وہ کبھی کوئی ایسی حرکت بھی نہیں کرتے تھے یہانتک کہ اپنی کسی ایسی سوچ سے بھی لرزاں و ترساں رہتے تھے کہ جس کی وجہ سے ان کی نظریں اپنے رب کے سامنے شرم سے جھک جائیں ،، انہیں معلوم تھا کہ ان کے رب نے اپنی تمام مخلوق میں کیا مقام عطا کیا ھے ، لہذا وہ اس مقام سے گرتے نہیں تھے ، ھر نقصان برداشت کر لیتے تھے مگر کبھی وہ کام نہیں کرتے تھے کہ جس کی وجہ سے وہ رب کی نظروں میں گر جائیں ،، وہ ھر اس کام کے لئے آگے بڑھ کر جان و مال لٹاتے اور اپنے رویئے سنوارتے تھے کہ جس کے نتیجے میں ان کا رب فرشتوں کے سامنے ان کے بارے میں فخر کا اظہار کرے ،، یہی وہ انسان تھے کہ جن کے بارے میں حالی نے کہا تھا کہ ؎
فرشتوں سے بہتر ھے انسان بننا ،،
مگر اس میں پڑتی ھے محنت زیادہ ،،
مگر جب اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر عراق و شام جیسے علاقوں میں پہنچا تو رومن فلسفیانہ بحثوں کا جواب دیتے دیتے مسلمان خدا کے تصور سے ھی ہاتھ دھو بیٹھے ، اس کے بعد پھر جو کارنامے انہوں نے کیئے ان سے انسانیت بھی شرمندہ ھے ، یہاں تک کہ مکے ،مدینے کی حرمت بھی اپنی گرفت کھو بیٹھی ،، انہوں نے فی الواقع خدا کے گھر کو بھیڑیوں کے بھٹ مین تبدیل کر کے رکھ دیا ،، قرآن عربوں میں نازل ھوا ، عربی میں نازل ھوا ، اور عربی مبین میں نازل ھوا کہنے والے کو معلوم تھا کہ وہ کیا کہہ رھا ھے ، اور کس سے کہہ رھا ھے ، سننے والوں کو بھی پتہ تھا کہ کون کہہ رھا ھے اور کس سے کہہ رھا ھے اور کیا کہہ رھا ھے ، خدا ان کو اپنے قبیلے کا لگتا تھا کیونکہ وہ ان کے قبیلے کی زبان بولتا تھا ، ان کی جدی پشتی استعمال ھونے والی ضرب الامثال استعمال کرتا تھا ، وہ ان کی بستی کی بات کرتا تھا اور اس بستی کے بسنے والوں کی عادات و صفات بیان کرتا تھا ، ان میں سے کچھ کی تعریف کرتا تھا تو کچھ پر تنقید کرتا تھا ،، وہ خوش بھی ھوتا تھا اور خوشی کے اظہار کے لئے وہ تمام استعارے اور اشارے استعمال کرتا تھا جو وہ کیا کرتے تھے ، اور ناراض ھوتا تھا تو ناراضی کے اظہار کے وہ تمام اسلوب اختیار کرتا تھا جو وہ اپنے بیوی بچوں اور دوست و احباب سے ناراض ھوتے تھے تو اختیار کرتے تھے ، وہ دیتا تھا تو دونوں ھاتھوں سے دیتا تھا ،، وہ جب کسی چیز کو قبول فرماتا تھا تو ھاتھوں پہ ھاتھ رکھ دیتا تھا ،، لہذا وہ اس کی رضا کے خواھاں رھا کرتے تھے اور اس کی ناراضی انہیں اپنی جاں پر بار گزرتی تھی اور وہ جان دے کر بھی اسے راضی کرتے تھے ، اپنی پولیس وہ خود ھی تھے ،وہ خود ھی خود کی نگرانی کیا کرتے تھے اور خود ھی خدا کی عدالت میں پیش ھو کر اپنی خطا کا اقرار کرتے تھے اور ” اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے پاک کیجئے ” کا مطالبہ کیا کرتے تھے ،
آپ مندرجہ ذیل تحریر میں سے وہ خدا برآمد کر کے دکھا دیجئے کہ وہ قرآن والا خدا کہاں ھے ؟

( کوٹ ))
ﺍﺏ ﺍٓﺝ ﮐﮯ ﻏﯿﺮﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ ؟

ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻣﻠﺤﻮﻅ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻓﺎﺳﺪ ﺧﯿﺎﻝ ﺍﻭﺭﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ۔۔۔ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﺘﻌﯿﻦ ﮨﮯ ﺗﺐ ﮨﯽ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻨﺎﻗﺸﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺎﻇﺮﺍﺕ ﻣﯿﮟﺟﻮ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﻦ ﻣﮑﺎﻧﺎﺕ ﯾﺎ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺳﺐ ﺳﮯ
ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﺍﺧﺬ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍٓﯾﺎﺕ ﻭ ﻧﺼﻮﺹ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﻣﺤﻞ ﻭﻗﻮﻉ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮐﯿﺸﻦ ﻣﺘﻌﯿﻦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻌﯿﺎﺫ ﺑﺎﻟﻠﮧ،، ﺟﺒﮑﮧ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﺎ ﺗﻌﯿﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﯽ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ،، ﺗﺐ ﮨﻢ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮﻧﺎﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ، ﺗﻮ ﺟﻨﺎﺏ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭﺗﻌﺎﻟﯽ ﻻﻣﮑﺎﻥ ﮨﮯ ۔۔۔ﯾﻌﻨﯽ ﻭﮦ ﺟﮕﮧ ﻭ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﮕﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﻮﻧﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺟﺴﻢ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺟﺴﻢ
ﮐﯽ ﺣﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﻻ ﺣﺼﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﻼﻗﮧ ﺍﺱ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﮑﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﮑﯿﻦ ﭘﺮ ﻣﺤﯿﻂ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺣﺪ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻻﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﻭﮦ ﻧﮧ ﺟﺴﻢ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻧﮧﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺘﺼﻒ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻏﯿﺮﻣﻘﻠﺪ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺘﺼﻒ ﮨﮯ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﮑﺎﻥ
ﮐﻮ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺘﺼﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﺟﺴﺎﻡ ﮐﯽ ﺻﻔﺖ ﮨﮯ ۔۔۔ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﺮﺍﻍ ﯾﺸﻐﻠﮧ ﺍﻟﺠﺴﻢ ۔۔۔ ﮐﮧ ﻣﮑﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻼ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﮔﮭﯿﺮﮮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ،، ((ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻻﻣﮑﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻻ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻻﻣﮑﺎﻥ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺍﻟﻌﯿﺎﺫ ﺑﺎﻟﻠﮧ،،))
ﺍﺏ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺟﻤﻠﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺮﺟﮕﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﻭﺳﺖ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺟﻤﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺮﺍﺩ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ (( ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﻋﻠﻢ ﮨﺮﺟﮕﮧ ﮨﮯ ﺭﮨﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﮨﺮﺟﮕﮧ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﮧ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﻧﻔﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ
ﺑﺎﺕ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ)) ھﻢ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻭ ﻧﻔﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺑﺎﻟﺬﺍﺕ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﺳﮯ ﺫﮨﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺣﻠﻮﻝ ﮐﺮﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ
ﺟﮩﻤﯿﮧ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﺣﻠﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﺣﻠﻮﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﯾﺎ ﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﺟﺴﺎﻡ ﮐﯽ ﺧﺎﺻﯿﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺟﺴﻤﯿﺖ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ۔۔۔۔

ﺍﻭﺭ ﮨﺮﺟﮕﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ کو ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻏﯿﺮﻣﻘﻠﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺣﺪ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﻤﯿﭧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﻋﺮﺵ ﭘﺮ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺱ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﺪﮨﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮧ ﮨﺎﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﺟﮩﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﻭﭘﺮ
ﮐﯽ ﺟﮩﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ ۔۔۔ ﻟﮩﺬﺍ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻻﻣﮑﺎﻥ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻧﮧ ﺩﺍﺧﻞ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺧﺎﺭﺝ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﮯ ﻭﺭﻧﮧ ﺣﻠﻮﻝ ﻻﺯﻡ ﺍٓﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﺎﺭﺝ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺧﺎﺭﺝ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺟﺴﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﭼﯿﺰ کی ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺣﺪ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ،،
( ان کوٹ )

خلاصہ یہ ھے کہ اللہ کا کوئی وجود نہیں ،، وہ نہ مکاں میں ھے نہ لا مکاں میں ھے ، نہ مکان کے اندر ھے نہ مکان کے باھر ھے ،، اس کا نہ جسم ھے ، نہ چہرہ ھے ، اور نہ وہ کسی جگہ موجود ھے،،، اس کا کوئی وجود نہیں + وہ کہیں موجود نہیں
اس کے جواب میں ساغر صدیقی نے کہا تھا کہ ؎

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے ؟
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا ،،

جس قسم کا خدا تم انسانوں کے پلے باندھ رھے ھو، وہ تو ان کی سمجھ اور تصور سے ھی بالا ھے ،، وہ نظروں سے اوجھل تو تھا ھی تم نے تو انسان کے خیال کو بھی خدا سے خالی کر دیا ،، لہذا جب خیال بے خدا ھو گیا تو عمل بھی بے خدا ھو گیا ، میں اسی بےخدائی کی کیفیت میں گناہ کا مرتکب ھو گیا ،،
اب سوال یہ پیدا ھوا کہ صفت تو وجود کی ھوتی ھے ،جب کوئی چیز وجود ھی نہیں رکھتی تو اس کی صفت کیونکروجود رکھتی ھے ؟ لہذا خدا صفات سے بھی گیا ،، نہ وہ خوش ھوتا ھے نہ ناراض ھوتا ھے ،نہ اسے غصہ آتا ھے نہ پیار آتا ھے ، کوئی ساری عمر اس کے سامنے سجدے میں پڑا رھے تو بھی وہ خدا بے حس رھتا ھے اور کوئی ساری زندگی فسق و فجور اور معصوموں کا قتلِ عام کرتا رھے تو بھی وہ بے حس رھتا ھے اس کی کیفیت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ھوتا ،،
اس قسم کا عقیدہ رکھنے والے ھی داعشی اور طالبانی مظالم کر سکتے ھیں جنہیں یہ یقین ھے کہ ھمارے مظالم پر کوئی خدا نارض نہیں ،، وہ سسکا سسکا کر اور تڑپا تڑپا کر ، ڈبو ڈبو کر اور جلا جلا کر مارتے ھیں ،، اور کسی مرد ،عورت ،بچے ، بوڑھے کی تخصیص نہیں کرتے ،،

نظر تو خدا پہلے ھی نہیں آتا تھا ، جب اسے احساسات سے عاری ایک ایسا تصور قرار دیا گیا جو نہ تو وجود رکھتا ھے ،نہ کہیں موجود ھے ،، جو اس کا وجود مانے وہ بھی کافر ،جو اس کو کہیں موجود مانے وہ بھی کافر ، جو اس کی سمت بتائے وہ بھی کافر ، وہ نہ مشرق میں ھے نہ مغرب میں ،، نہ شمال میں ھے نہ جنوب میں نہ نیچے ھے نہ اوپر ، نہ زمین میں ھے نہ آسماں میں ، نہ خلا میں ھے نہ فضا میں ، نہ مکاں میں ھے نہ لامکاں میں ،، اور پھر یہ کہا جائے کہ اس کو مانو مگر اس ایمان کے ساتھ کہ وہ کہیں نہیں ھے ،، جب خدا کا تصور بھی محال ھو جائے تو الحاد بس ایک بالشت دور ھوتا ھے ،، یہ وہ رونا ھے جہاں شاعر بے بس ھو کر گلہ کرتا ھے کہ ؎
ھو بھی نہیں اور ھر جا ھو ،،
تم ایک گورکھ دھندہ ھو ،،
گورکھ دھندا کا مطلب پزل ھے ،

ان حالات میں جب شاہ ولی اللہ دہلوی نے قرآن کا ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا تو تہلکہ مچ گیا ،،کلام اللہ کی ترجمانی انسانی کلام کیسے کر سکتا ھے ؟ جب انہوں نے یداللہ کا ترجمہ اللہ کا ہاتھ کیا اور کل شئ ھالک الا وجہہ کا ترجمہ ھر چیز ختم ھو جائے گی سوائے اس کے چہرہ اقدس کے ،، لکھا تو کہا گیا کہ انہوں نے خدا کو جسم دے دیا یوں زندیق ھو گئے ھیں ،، اللہ کی توھین کے فتوے اور پھر لوگوں کو ان کے قتل کی دعوت ،، مگر یہ اسی ترجمے کی کرم فرمائی ھے کہ آج مسلمانوں میں اللہ کے نام لیوا موجود ھیں اور جیسے تیسے بھی لوگ توحید کے ساتھ جڑے ھوئے ھیں ،،

قرآن کا خدا –

1- هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [الحديد: 3]
وھی پہلا ھے اس سے پہلے کوئی نہ تھا ، وھی آخر ھے اس کے بعد کوئی نہ ھے ، وہ اتنا ظاھر ھے کہ اس سے زیادہ کھُلی اور باثبوت اور کوئی شے نہیں ،، اور وہ اتنا پوشیدہ ھے کہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ تر نہیں ،، اور وہ ھر چیز کا دائمی علم رکھتا ھے ،
ا
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ( الفتح -10)
بے شک جن لوگوں نے آپ کی بیعت کی ھے انہوں نے اللہ کی بیعت کی ھے ، ( صرف نبی ﷺ کا ھی نہیں ) اللہ کا ہاتھ بھی ان کے ہاتھوں کے اوپر ھے ، پس اب جس نے اس عہد کو توڑا تو اس کا وبال اپنی جان پر ھی جھیلے گا اور جس نے اللہ سے کئے گئے عہد کو پورا کیا تو اللہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا ،،
3- وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ [المائدة: 64]
اور یہود کہتے ھیں کہ اللہ کا ہاتھ بندھ گیا ھے ،، ہاتھ ان کے باندھ دیئے گئے ھیں اور لعنت کی گئ ھے ان پر ان کے اس قول کی وجہ سے، بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ھوئے ھیں ، خرچتا ھے جیسے چاھتا ھے ،،
4- مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ [ص: 75]
اے ابلیس تجھے کس بات نے اس کو سجدہ نہ کرنے دیا جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ھے ،،
5- یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ ﴿الرعد – ۳۹﴾.
اللہ مٹا دیتا ھے جو چاھتا ھے اور باقی رکھتا ھے جسے چاھتا ھے اور سب آسمانی کتابوں کی ماں اسی کے پاس ھے ،، یا سب نوشتوں کی ماں جہاں سب کی تقدیریں لکھی ھیں اسی کے پاس ھے ،جب چاھتا ھے جس کی چاھتا ھے تقدیر بدل دیتا ھے ،،
66- أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِنْ ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ( مجادلہ – 7 )
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ جانتا ھے جو کچھ کہ آسمانوں میں ھے اور جو زمین میں ھے ، نہیں ھوتے تین سرگوشی کرنے والا کہ چوتھا وہ ھوتا ھے ، اور نہ پانچ سرگوشی والے ھوتے ھیں کہ چھٹا وہ ھوتا ھے ، اور نہ اس سے کم یا زیادہ ھوتے ھیں کہ وہ ھوتا ھے ساتھ ان کے جہاں کہیں وہ ھوتے ھیں ،، پھر جتلائے گا ان کو جو انہوں نے کیا قیامت کے دن ، بے شک اللہ ھر چیز کا دائمی علم رکھتا ھے
7- وجوہ یومئذ ناضرہ الی ربھا ناظرہ ( القیامہ)
اس دن بہت سارے چہرے تر و تازہ ھونگے ،اپنے رب کی طرف دیکھ رھے ھونگے ،،
8- ولقد خلقنا الإنسان ونعلم ما توسوس به نفسه ونحن أقرب إليه من حبل الوريد( ق )
حق بات یہ ھے کہ ھم نے انسان کو بنایا ھے اور ھم اس کے نفس کے ڈالے گئے وسوسوں سے بھی آگاہ ھیں،، اور ھم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ھیں ،،
اس کے علاوہ احادیث میں بھی اللہ پاک کی مختلف صفات اور آخرت میں اپنے بندوں کے ساتھ کریمانہ مکالمے بیان کئے گئے ھیں کہ جن سے آنکھیں بہہ نکلتی ھیں اور دل رواں ھو جاتے ھیں ،،

9- لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک – اللہ راضی ھو گیا ایمان والوں سے اس وقت جب وہ آپ سے بیعت کر رھے تھے –

10- غضب اللہ علیھم و لعنھم ،، اللہ ان پر غصے ھوا اور ان پر لعنت کی –

اللہ پاک سمجھتا ھے کہ جب وہ انسان کے ساتھ چہرے یا ھاتھ کا ذکر کرے گا تو انسانی ذھن کی اسکرین پر اسی قسم کا ہاتھ ڈسپلے ھو گا جو اس کی میموری میں موجود ھے ، پھر بھی وہ ان اعضاء کا نام لے کر بات کرتا ھے تو گویا وہ نظر نہ آنے کی تلافی کرتے ھوئے انسان کو اپنے قریب تر رکھنے کے لئے ان کو استعمال فرماتا ھے ، تا کہ وہ انسان کے خیال وتخیل کی گرفت میں رھے ، اگرچہ اس کا ہاتھ ھمارے ہاتھ جیسا نہیں ، اگرچہ اس کا چہرہ ھمارے چہرے جیسا نہیں ، وہ دیکھتا ھے مگر ھماری طرح آنکھ کا محتاج نہیں ، وہ سنتا ھے مگر کان کا محتاج نہیں ، وہ پکڑتا ھے مگر پکڑ کے لئے ہاتھ کا محتاج نہیں ،،

اللہ پاک مشرکوں کے بتوں کے بارے میں سوال کرتا ھے کہ (( . أﻟﮭﻢ أرﺟﻞ ﯾﻤﺸﻮن ﺑﮭﺎ أم ﻟﮭﻢ أﯾﺪ ﯾﺒﻄﺸﻮن ﺑﮭﺎ أم ﻟﮭﻢ. أﻋﯿﻦ ﯾﺒﺼﺮون ﺑﮭﺎ أم ﻟﮭﻢ آذان ﯾﺴﻤﻌﻮن. ﺑﮭﺎ ﻗﻞ ادﻋﻮا ﺷﺮﻛﺎءﻛﻢ ﺛﻢ ﻛﯿﺪون ﻓﻼ ﺗﻨﻈﺮون. )) . کیا تمہارے بتوں کے پاؤں ھیں جن سے وہ چل سکتے ھوں یا ہاتھ ھیں جن سے پکڑ سکتے ھوں یا آنکھیں ھیں جن سے دیکھ سکتے ھوں یا کان ھیں جن سے سن سکتے ھوں ؟؟؟؟ کہو بلاؤ اپنے شریکوں کو پھر کر لو جو میرا کرنا ھے اور مجھے مہلت مت دو-

اگر مشرک پلٹ کر پوچھ لیں کہ ھمارے بتوں کا وجود تو ھے ناں ، تمہارے خدا کا تو کچھ بھی نہیں ، تم پھر اس کو کیوں پوجتے ھو تو کیا جواب دو گے ؟ یہی ناں کہ بل یداہ مبسوطتان، ید اللہ فوق ایدیھم ،،
عرب اسی خدا سے واقف تھے ، اور آج بھی ھیں وہ جب کلام اللہ پڑھتے ھیں تو انہیں اللہ اپنی زبان میں جو کہتا ھے وہ اس کا مطلب وھی لیتے ھیں ،یعنی ید کا مطلب ھاتھ ھی لیتے ھیں ، وجہ کا مطلب چہرہ ھی لیتے ھیں –

اھل حجاز کا عقیدہ ،،

یجب الإيمان بأسماء الله وصفاته الواردة في القرآن الكريم والسنة النبوية الصحيحة ، من غير تشبيه ، ولا تعطيل ، ومن غير تكييف ولا تمثيل .
والتشبيه : أن يقول لله يد كأيدينا ، أو سمع كأسماعنا ، أو علم كعلمنا .
والتعطيل : أن ينفي الصفة ، أو يؤولها ، ويدعي أنها على سبيل المجاز وليست حقيقة ، كمن يقول: اليد بمعنى القدرة ، والاستواء على العرش : بمعنى الاستيلاء .
وقد اشتهر هذا التعطيل ، أو التأويل المجازي في باب الصفات ، عن بعض الفرق المبتدعة ، كالجهمية والمعتزلة ومن تبعهم .
والتكييف في باب الصفات : أن يقول : إن كيفية صفة الله كذا ، وكذا .
وهذا هو معنى ” الهيئة ” التي ذكرها السائل ، فنحن لا نقضي على شيء من صفات الله بأن كيفيتها كذا وكذا ، أو هيئتها كذا وكذا ، بل علم الكيفية والهيئة مرفوع ، لم يبين لنا ، ولم يدركه العباد بعقولهم ؛ كما قال الإمام مالك رحمه الله في صفة ” الاستواء ” :
” مَالك الإِمَام الاسْتوَاء مَعْلُوم يَعْنِي فِي اللُّغَة والكيف مَجْهُول وَالسُّؤَال عَنهُ بِدعَة ". انتهى من "العلو” للذهبي (167) .
ثانيا :
من صفات الله الثابتة : الرِّجل والقَدم .
ودليل ذلك : ما روى البخاري (6661)، ومسلم (28488) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لَا تَزَالُ جَهَنَّمُ تَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ ، حَتَّى يَضَعَ رَبُّ الْعِزَّةِ فِيهَا قَدَمَهُ ، فَتَقُولُ قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ ، وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ).
وروى البخاري (4850)، ومسلم (28477) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( تَحَاجَّتْ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ ، فَقَالَتْ النَّارُ : أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ ، وَقَالَتْ الْجَنَّةُ : مَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ ؟ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْجَنَّةِ : أَنْتِ رَحْمَتِي ، أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي ، وَقَالَ لِلنَّارِ : إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِي ، أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي ، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِلْؤُهَا ، فَأَمَّا النَّارُ فَلَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رِجْلَهُ ، فَتَقُولُ : قَطْ قَطْ ، فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ، وَلَا يَظْلِمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا وَأَمَّا الْجَنَّةُ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا ) .
فهذا يدل على إثبات صفة ” القدم” ، أو ” الرجل "، لله تعالى ، على الوجه اللائق بكماله وجماله وجلاله .
وقال ابن عباس رضي الله عنهما : ” الكرسي موضع القدمين ، والعرش لا يقدر أحد قدره ” رواه ابن خزيمة في "التوحيد” (1/ 248 رقم : 154) ، وابن أبي شيبة في "العرش” (61) ، والدارمي في "الرد على المريسي” ، وعبد الله ابن الإمام أحمد في "السنة” ، والحاكم في "المستدرك” (2/ 282) ، وصححه على شرط الشيخين ، ووافقه الذهبي ، وصححه الألباني في "مختصر العلو” ص 102 ، وأحمد شاكر في "عمدة التفسير” (2/ 163).
وقال أبو موسى الأشعري رضي الله عنه : ” الكرسي موضع القدمين، وله أطيطٌ كأطيطِ الرَّحْل ” رواه عبد الله ابن الإمام أحمد في "السنة” ، وابن أبي شيبة في "العرش” (60) ، وابن جرير ، والبيهقي، وغيرهم ، وصحح إسناده ابن حجر في الفتح (8/ 47) والألباني في "مختصر العلو” ص 123-124
ومن كلام علماء السلف ، وأئمة السنة في إثبات القدمين :
قال الإمام ابن خزيمة رحمه الله في "كتاب التوحيد” (2/ 2022) : ” باب ذكر إثبات الرِّجل لله عز وجل ، وإن رغمت أنوف المعطلة الجهمية ، الذين يكفرون بصفات خالقنا عز وجل التي أثبتها لنفسه في محكم تنزيله وعلى لسان نبيه صلى الله عليه وسلم ".
وقال الإمام أبو عبيد القاسم بن سلام رحمه الله : ” هذه الأحاديث التي يقول فيها : ضحك ربنا من قنوط عباده وقرب غِيَره ، وأن جهنم لا تمتلئ حتى يضع ربك قدمه فيها ، والكرسي موضع القدمين ، وهذه الأحاديث في الرواية هي عندنا حق ، حملها الثقات بعضهم عن بعض ، غير أنا إذا سئلنا عن تفسيرها : لا نفسرها ، وما أدركنا أحدا يفسرها ” رواه البيهقي في "الأسماء والصفات” ( 2/ 198)، وابن عبد البر في "التمهيد” (7/ 149)
.
المختصر یہ کہ ھم اللہ پاک کی طرف سے بیان کردہ اعضاء پر ایمان رکھتے ھیں بغیر اس کی کییفت کا سوال کئے کہ وہ کیسے ھیں ، یعنی اللہ کا ھاتھ کیسا ھو گا یا چہرہ کیسا ھو گا ، اللہ پاک خود فرماتا ھے کہ اس کی مثل کوئی نہیں لہذا اس کی مثال بھی کوئی نہیں ،، امام مالک فرماتے ھیں کہ وہ عرش پر مستوی ھے ، یہ خود اللہ کی دی گئ خبر ھے ،مگر کیسے مستوی ھے اس کے لئے لیس کمثلہ شئ پر ھم ایمان رکھتے ھیں ،کہ اس کے استواء کی مثال نہیں دی جا سکتی بس اس کی تصدیق کی جا سکتی ھے ، اس کی مثل بھی نہیں مگر وہ سنتا بھی ھے اور دیکھتا بھی ھے ، جبکہ اللہ خود جانتا ھے کہ جن کو وہ ید کی خبر دے رھا ھے وہ اس سے ھاتھ ھی مراد لیں گے اور وہ یہ بھی جانتا ھے کہ ید سے ھاتھ اور وجہہ سے چہرے کا خیال آئے بغیر رہ بھی نہیں سکتا ، اس کے باوجود وہ ان کو استعمال کرتا ھے تو کسی حکمت کے تحت ھی استعمال کرتا ھے تا کہ لوگ اس کے قریب آئیں ،،،

میرے گھر کے نزدیک ہی "البرکہ" کمپنی کا دفتر بنا ہوا ہے۔ اس دفتر سے غریب عورتوں کو قرضہ ملتا ہے۔ 

ملنے والا کل قرضہ مبلغ دس ہزار روپے ہوتا ہے۔ اور اسے لینے کیلئے لوگوں کی لائنیں، ضمانتی اور کاغذات کی تیاری کے مراحل دیدنی ہوتے ہیں۔

دس ہزار روپے لینے کیلیے لوگوں کو کئی کئی بار آنا پڑتا ہے۔ خواتین دفتر کے اندر اور ان کے خاوند اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو باہر دھوپ میں سنبھالے کھڑے ہوتے ہیں۔ 

دس ہزار کی رقم آجکل بہت سارے لوگوں کے نزدیک انتہائی چھوٹی سی رقم ہے۔ خاص طور پر جن کا ایک میل (Meal) ہزار بارہ سو روپے میں آتا ہو یا دو تین دوستوں کے ساتھ کسی اچھے ریسٹورنٹ میں شام کا کھانا پانچ چھ ہزار روپے کا بنتا ہو۔ 

یہ دس ہزار روپے اگر کسی کو مچھلی خرید کر دینے کیلیے ہوں تو بہت تھوڑے سے ہیں۔ اور اگر کسی کو مچھلی پکڑنے کا سامان خرید کر دینے کیلیے ہوں تو کافی سارے ہیں، نسلیں سدھر سکتی ہیں، نسلیں غربت سے باہر آ سکتی ہیں، اچھے رہن سہن کے قابل ہو سکتی ہیں۔ 

میرے ایک محترم دوست سہہ روزے پر تھے۔ مسجد کے ایک ہمسائے نے غربت کا سنایا اور امداد مانگی۔ آپ نے اسے وہیں پر ہی ایک ریڑھی خرید کر دی اور اسی سہہ روزے کے دوران ہی پھل خرید کر کاروبار شروع کرا دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک بار آپ ایک معروف چوک پر کسی کام سے رکے تو ایک پھل فروش پھلوں کے کئی لفافے بھر کر آپ کی کار میں رکھنے کیلیے لے آیا۔ آپ کو بتایا کہ کہ آپ کا ہی لگایا ہوا پودا ہوں اور اللہ کے فضل سے آسودہ حال ہو چکا ہوں۔ 

مائکرو فنانس سے کئی حکومتوں نے اپنی غریب عوام کو معاشرے میں برابری دے دی ہے۔ اگر آپ اس طبقے سے ہیں جن کی فرمائشیں کاروں پر ٹیکس چھوٹ سے شروع ہوتی ہیں تو بجا ہے، مگر بات نچلے طبقے کو کچھ ریلیف دینے کی ہو رہی ہو تو اس کا مذاق بھی نہ اڑائیے۔ 

شاید آپ کو اس بات کا پتہ ہی ہوگا کہ اب دنیا تیزی کے ساتھ آرگینک کھانوں کی طرف جا رہی ہے۔ مذاق چھوڑیئے، شہریوں (آپ بھی شہری ہی ہیں) کے فضلے سے پرورش پائی سبزیوں کی بجائے کچن گارڈننگ کیجئے، گھر کی چھت پر مرغیاں پالیے، گملوں میں مرچیں، ٹماٹر اور بھنڈیاں اگا لیجیے۔ اپنی اور اپنی نسل کو مہلک بیماریوں سے بچائیے۔




In this post you can find all of your questions which you are finding on google or any other search engine here is your findings " jan ka sadqa, sadqa ki niyat, sadqa ki dua, sadqa procedure, sadqa kis ko dena chahiye, sadqa dene ka sahi tareeqa, sadqa karne ki dua, bakra sadqa ki dua, sadqa dene ki dua, behtreen sadqa kya hai, sadqa ka gosht, sadqa ki hadees etc."






مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا تھا کہ میں اپنے والد سے عشق کرنے لگا ہوں ۔ اس عشق کی بنیاد میری والدہ نے رکھی تھی ۔ میں بہت چھوٹا تھا ، یہ وہی عمر تھی جب بچے والدہ کے قریب ہوتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ماں جی اکثر پوچھا کرتی تھیں کہ تمہیں سب سے زیادہ پیار کس سے ہے ۔ میں گھر والوں کے نام لینے لگتا اور وہ کہتیں اس سے زیادہ پیار کس سے ہے ؟ میں پھر کسی اور کا نام لے لیتا ۔ اور پھر آخر میں کہتا ۔ سب سے زیادہ پیار آپ سے ہے ۔ ماں جی کا چہرہ جیسے بجھ سا جاتا ۔ وہ پھر سوال کرتیں  ۔مجھ سے تو پیار ہے لیکن مجھ سے زیادہ پیار کس سے کرتے ہو ؟ میں کہتا نہیں سب سے زیادہ پیار آپ سے ہی ہے تو وہ کہتیں :مجھے پتا ہے  سب سے زیادہ پیار تو اپنے  پاپا سے ہی کرتے ہو ۔ پھر وہ بتاتیں کہ دیکھو پاپا سارا دن دفتر کام کرتے ہیں تاکہ آپ کے لئے فلاں فلاں کھلونے لائیں ۔ اتنی محنت آپ کے لئے ہی تو کرتے ہیں ۔ دیکھو باہر کتنی گرمی ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے بیٹے کے لئے دفتر کام کر رہے ہیں ۔ یہ وہ پہلا احساس تھا جس کے بعد مجھے اپنے والد سے عشق ہونے لگا ۔ ماں جی ہر مرحلے پر مجھے احساس دلاتی رہیں کہ میرے والد اگر اس وقت کس وجہ سے میرے پاس نہیں ہیں تو اس کی وجہ ان کا مجھ سے پیار ہے ۔ میرے والد سول سروس میں تھے لیکن میں نے ہمیشہ انہیں پارٹ ٹائم ملازمت کرتے دیکھا ۔

 دوسری جانب مجھے نہیں یاد کہ میں سکول لائف میں کسی دن پچھلے دن والا جومیٹری باکس لے کر گیا ہوں ۔ میں وہ شہزادہ تھا جو آج کی پنسل ، ربڑ اور شاپنر یا تو گما کر گھر آتا تھا یا کسی دوست کو دان کر دیتا تھا ۔ مجھے ہر روز نئی پنسل درکار ہوتی تھی ۔ ابا جی ہر ماہ تنخواہ ملنے پر پنسل ، ربڑ اور شاپنرز کے ڈبے خرید لاتے ۔ میرے لئے ہوم ورک کے لئے بھی گھر میں دو تین طرح کے کرسی ، میز اور بنچ ڈیسک موجود ہوتے تھے ۔ یہ سلسلہ میں نے ابا جی کی ریٹائرمنٹ تک دیکھا ۔  مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ ایف سی کالج کی بھاری فیس کے لئے ابا جی جون جولائی کی تپتی دوپہر میں لنچ بریک کے دوران  دفتر سے کئی کلومیٹر دور جا کر ایک ادارے میں  لیکچر دیا کرتے تھے ۔ انہوں نے دوپہر میں کھانا کھانا چھوڑ دیا تھا ۔ ان کے یہ لیکچر پارٹ ٹائم ملازمت کے علاوہ تھے ۔ پاکستان ٹائمز کے زمانے میں انہوں نے صبح 8 سے سے 4 کی ملازمت کے بعد سردیوں میں  شام 6 سے رات 1 بجے کی دوسری ملازمت بھی کی ۔ ان کی یہ ساری جدوجہد ماں جی کسی نہ کسی بہانے ہمارے کانوں میں انڈیلتی رہیں ۔ شاید اس احساس کے تحت بھی کہ کہیں ان کا کم وقت دینا ہمیں ان سے متنفر نہ کر دے ۔ دوسری جانب یہ سوچ کر بھی حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ ابا جی ہمیں کم وقت دیتے ہیں ۔ ملازمت کے بعد ان کی تمام تر توجہ کا مرکز ہم ہوا کرتے تھے ۔ صبح قرآن پاک پڑھانے سے لے کر دوران حفظ شدید بارش میں بھی کچھ دیر  انتظار کئے بنا بھیگتے ہوئے مجھے لینے آنا ان کی عادت تھی ۔اس میں دو رائے نہیں کہ مجھے اس دنیا نے جو عزت دی اس کی وجہ  میرا اپنے والد سے عشق ہی بنا ۔ جب آپ کو کسی سے عشق ہو جائے تو پھر اس کی کوئی بات رد نہیں ہوتی ۔ مجھ جیسے آوارہ مزاج  لڑکے کے لئے ابا جی کی نصیحتوں کو یاد رکھنے کی وجہ بھی یہی عشق تھا ۔

 انہوں نے ایک بار کہا کہ: بیٹا میں نے اپنی زندگی ایسے گزاری ہے کہ اگر میرے گھر کا دروازہ کھٹکٹھایا جائے تو میرا دل نہیں دھڑکتا اور میں خود دروازے پر جاتا ہوں ، کوشش کرنا تم بھی ایسی زندگی گزارو ۔ اس نصیحت کے بعد سے آج تک میں نے کسی سے یا تو ادھار نہیں لیا یا پھر اگر کبھی لیا ہو تو ایک دو دن سے زیادہ نہیں رکھا ۔ ہاتھ پھیلانے کی بجائے ضروریات کم کر کے عزت سے جی لینے کا سبق انہوں نے سکھایا تھا ۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ اگر تعلیم تمہیں اچھا انسان نہ بنا سکے تو پھر ان ڈگریوں کا کوئی فائدہ نہیں ، روزگار تو ان پڑھ بھی کما لیتا ہے اور تکبر جاہل کی نشانی ہوتی ہے۔ ان کی اس بات نے مجھ سے عہدوں کا تکبر ، غرور یا دولت کی کمی زیادتی کا فرق چھین لیا ۔ مجھے ڈھابوں اور چائے خانوں سے محبت ہونے لگی ۔ آج جب میں نوجوانوں کو اپنے والدین اور خصوصا باپ سے متنفر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ اس کی وجہ شاید کی ان والدہ بھی ہوتی ہیں ۔ ہمارے یہاں خواتین عموما بچوں کو والد سے ڈرا کر اپنی بات منواتی ہیں ۔ "آج تمہارے ابو آ جائیں تو انہیں بتائوں گی" جسے جملے بچوں کو باپ سے متنفر کر دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ بعد میں صرف باپ ہی نہیں ماں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ باپ بچوں کے لئے ملازمت کرتا رہتا ہے اور جب اسے احساس ہوتا ہے تب تک اس کی اپنی اولاد اس سے متنفر ہو چکی ہوتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ خواتین کا فرض ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو احساس دلائیں کہ ان کا باپ اگر کسی وجہ سے ان کو وقت نہیں دے پاتا تو اس کی وجہ وہ بچے ہی ہیں۔ سچ کہوں تو شاید مجھے اتنی عزت نہ مل پاتی اگر مجھے اپنے والد سے عشق نہ ہوا ہوتا ۔ یہ عشق برکتوں اور کامیابیوں کی ضمانت بنتا ہے ، کئی مشکل مرحلے اسی کی برکت سے  طے پاتے ہیں ۔ میرے اپنے والد سے عشق کی بنیاد میری والدہ نے رکھی تھی

(سید بدر سعید)


ایک عجیب وغریب قسم کی اِسکن الرجی نےپریشان کیا تھا الحمد للہ ثم الحمد اللہ اُس سے ۸۰ فیصد نجات مل گئی،نماز کے لیے رکوع میں جھکتا،یا کچھ پیدل چلتا تو کپڑے خون کے دھبوں کی وجہ سے ناپاک ہوجاتے تھے،جس کی وجہ سے بار بار بینڈنچ کرنی پڑتی تھی،مستقل حجامے لگاتا رہا ساتھ ساتھ ایک اسکن اسپیشلسٹ کی ادویات استعمال کرتا رہا اب الحمد للہ امن ہے.

دوسری بات یہ ہے کہ ہے ماں جی کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کچھ دوست بار بار فون کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تاخیر سے فون کرنے پر معذرت،نمازہ جنازہ میں شریک نہ ہوسکیں،بھائی میں سیدھا سادہ سا مولوی ہوں،اِن وضاحتوں کی قطعاً ضرورت نہیں، میرا حسنِ ظن ہے کہ ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے دوسرے مسلمان سے غم کے موقع پر اظہار تعزیت کرنا،الفاظ کاچناؤ کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے.

ماں جی نے چار سال انتہائی تکلیف میں گذارے،وہ نہ صرف میری ماں تھیں بلکہ سیکنڑوں مسلمانوں کی روحانی والدہ اور سینکڑوں مجاہدین کے استاد کی شریک حیات تھیں،سب نے حسب استطاعت دعاؤں میں یاد رکھا جن کا میں تہہ دل سے مشکور ہوں.

دس سالوں سے سوشل میڈیا پر ہوں یہاں مجھے وہ وہ محبت کرنےوالے ملے ہیں جو مجھے حقیقی دنیا میں بھی نہیں ملے،جس دن امی جان کی رحلت ہوئی اس دن تجہیزوتکفین سے قبل ایک بچپن کے دوست کی کراچی آمد ہوئی،پھر جو کام میں نے کرنے تھے وہ سب اس نے اپنے زمے لے لیے اور موبائل فون بھی اسی نے لے لیا،جن دوستوں نے کال کی اور میں اٹینڈ نہ کرسکا وہ اس عذر کی وجہ سے معذرت قبول فرمائیں.

#اللہ_آپ_سب_کا_حامی_وناصر_ہو

والد صاحب نور اللہ مرقدہ نہ صرف میرے والد تھے بلکہ وہ میرے لیے ایک بے تکلف دوست بھی تھے،اِن کی وفات بھی اچانک عصر کی نماز پڑھاکر جیسے ہی مسجد سے نکلے گھر آئے اسی دوران ہوئی میں جو باتیں ابوجی سے کہا کرتا تھا وہ باتیں وہ امور اب تک میں کسی اور سے ڈسکس نہیں کرسکتا.

ہمارا معاشرہ اخلاقی اعتبار سے بہت کمزوری کی طرف مائل ہے بس اللہ رب العزت سے ایک ہی دعا کرتا ہوں کہ اللہ کسی بیٹے اور بیٹی کو ماں باپ کی اف تک سننے کا موقع نہ دے،امی جان سے نے آخری چوبیس گھنٹے جس کرب والم میں تکلیف میں گذارے ہیں جب اس تکلیف کا سوچتا ہوں تو رو پڑتا ہوں.😢

رو رو کر نہ تو میں اپنے رب کی عطا کردہ جنت کو دوبارہ حاصل کرسکتا ہوں نہ میں یہ ماں کی ممتا کا حق ادا کررہا ہوں،بس رب کائنات سے اپنے بارے میں یہی دعاہے کہ جیسے ماں جی نے مجھے لاڈ پیار سے پالا وہی لاڈ خدائے رب کریم کو پسند آجائے اور میری آخرت سنور جائیں.

غذاؤں کی تاثیر

  • اچار گرم خشک مزاج رکھتا ہے۔
  • اخروٹ خشک مزاج رکھتا ہے
  • ٭انجیر گرم تر مزاج رکھتا ہے۔
  • آلو سرد خشک مزاج رکھتا ہے۔
  • انگور گرم تر مزاج رکھتا ہے۔
  • املی سر مزاج رکھتی ہے۔ 
  • اسپغول سرد مزاج رکھتا ہے۔
  • امرود معتدل مزاج رکھتا ہے۔ 
  • آڑو سر مزاج رکھتا ہے۔ 
  • بینگن گرم مزاج رکھتا ہے۔ 
  • بادام گرم مزاج رکھتا ہے۔ 
  • کھٹا انار سرد مزاج رکھتا ہے۔ 
  • آلوچہ سرد مزاج رکھتا ہے۔ 
  • پان کی تاثیر گرم خشک ہے۔ 
  • آملہ کی تاثیر سرد خشک ہے۔ 
  • چونہ کی تاثیر گرم ہے۔ 
  • پستے کی تاثیر گرم ہے۔ 
  • برف کی تاثیر سرد خشک ہے۔ 
  • گاجر معتدل مزاج ہے۔ 
  • پودینہ کی تاثیر گرم خشک ہے۔ 
  • بھنگ سرد مزاج ہے۔ 
  • تل گرم مزاج ہے۔ 
  • تمباکو گرم مزاج ہے 
  • چائے گرم مزاج ہے۔ 
  • چنا گرم مزاج ہے۔ 
  • خربوزہ گرم مزاج ہے۔ 
  • چقندر گرم مزاج ہے۔ 
  • بیر خشک مزاج ہے۔ 
  • جامن سرد مزاج ہے۔ 
  • جو اور پالک کی تاثیر سرد ہے۔ 
  • مونگ پھلی گرم مزاج کی ہے۔

بھنڈی توری

٭سرد مزاج اور خشک ہوتی ہے۔
٭پیشاب کی جلن کو دور کرتی ہے۔
٭کبھی کبھی قبض بھی کر دیتی ہے۔ دیر ہضم ہے۔
٭خشکی دور کرتی ہے۔ 

بینگن

٭خشک مزاج سبزی ہے۔ 
٭بواسیر کے مریضوں کے لئے لاجواب ہے۔
٭دل کو مضبوط کرتی ہے۔ 
٭ہاضمہ مضبوط کرتی ہے اور جگر کو اقت دیتی ہے۔

ککڑی

٭پکا کر کھائیں یا دونوں حالتوں میں کھائیں مفید ہے۔ 
٭نمک کے ساتھ کھائیں تع جلد ہضم ہوتی ہے۔
٭امراض قلب میں بہترین ہے۔
٭پیاس کی شدت کو دور کرتی ہے۔

پینٹھا

٭سرد تر اور نہایت طاقتور ہے۔
٭رسائن ہے۔ خون اور گوشت کو بڑھاتا ہے۔
٭اعصاب اور گرمی کے جملہ امراض کے لئے مفید ہے۔
٭ قبض کو دور کرتا ہے اور حاملہ عورتوں کے لئے بہت مفید ہے۔ 

حلوہ کدو

٭سرد تر مزاج رکھتا ہے اور جلد ہضم ہے۔ 
٭دل دماغ اور جگر کو طاقت دیتا ہے۔ 
٭پیشاب کی جلن کو دور کرتا ہے۔ 
٭گرمی کا بخار دور کرنے کے لئے کدو کا ٹکڑا پاؤں اور ہاتھوں پر ملیں۔ 

ٹنڈا

٭سرد تر مزاج رکھتا ہے ۔ 
٭دل دماغ اور جگر کو طاقت دیتا ہے۔ 
٭گوشت کے ساتھ پکائیں تو دیر سے ہضم ہوتاہے۔ 
٭نزلہ زکام اور بلغم میں نقصان دہ ہے۔

ٹماٹر

٭خون پیدا کرتا ہے اور قبض کشا ہے۔ 
٭گردوں کی تکلیف میں ٹماٹر سے پرہیز کریں۔ 
٭چھلکا ہضم نہیں ہوتا اس لئے چھلکا اتار کر ہی کھائیں۔ 
٭موٹاپے اور شوگر کے مرض میں مفید ہے۔ 

ساگ

٭چولائی کا ساگ زود ہضم اور دافع زہرہے۔ 
٭سازاک کی پیپ اسے کوٹ کر پلانے سے ختم ہو جاتی ہے۔
٭قبض کشا ہے اور معدے کو طاقت دیتا ہے۔ 
٭پتھری اور ریت خارج کرتا ہے۔ 
٭نکسیر نزلہ اور پتھری کا شافع علاج ہے۔ 
٭قلفہ کا ساگ درد گردہ کو ختم کرتا ہے۔ 

کریلا

٭ گرم اور خشک مزاج کی سبزی ہے۔ 
٭خون کی خرابی کو دور کر کے خون صاف کرتی ہے۔ 
٭تلی جگر اور بخار کے لئے بہت مفید ہے۔ اور شوگر کے مریضوں کے لئے بھی بہت اکسیر ہے۔ 
٭بھوک لگاتا ہے اور معدے کو طاقت دیتا ہے۔ 

گھیا توری

٭سرد مزاج کی حامل سبزی ہے۔ 
٭خون کی گرمی اور جوش کو کم کرتی ہے۔ 
٭توری کا سالن جریاں خون میں بہت فائدہ دیتا ہے۔
٭مرچ ڈال کا توری کا سالن کھانے سے بخار ختم ہو جاتا ہے۔ 
٭قبض کشا ہے بھوک لگا تا ہے گرمیوں میں جلن اور پیاس دور کرتا ہےکھانسی اور گرمی کو دور کرنے میں مفید ہے۔ 

گھیا کدو

٭ سر تر سبزی ہے۔ 
٭ بد ہضمی بخار اور دیگر خون اور گرمی کی بیماریوں کو دور کرتی ہے۔ 
٭گھیا کاٹ کر پیروں کے تلؤں پر مالش کریں تو گرمی ختم ہو جاتی ہے۔ 
٭حافظہ تیز کرتی ہے اور معدے کی تیزابیت کو دور کرتی ہے۔

سوہانجنہ

٭ مزاج خشک ہے۔ پھلیاں اور پھول کڑوے ہوتے ہیں
٭بادی امراض اور بلغم کے لئے اکسیر ہے۔ 
٭فالج ، جوڑوں کے درد ریح کے امراض اور کمر کے لئے بے حد مفید ہے۔ 
٭گردہ مثانہ کی پتھریاور ریت ختم کرتا ہے۔ معدے کو صاف اور بھوک بڑھاتا ہے۔ 

آلو

٭ سرد خشک مزاج کی حامل ہے۔ 
٭ زیادہ استعمال سے اپھارا ہو جاتا ہے۔ 
٭چھلکے سمیت ابال کر چھلکا اتارا جائے اور کھایا جائے تو طاقت ور ہے۔ 
٭آلو تنور میں بھون کر نمک لگا کر کھانے سے گنٹھیا کا مرض ختم ہو جاتا ہے۔ 

مٹر

٭سرد خشک اور زود ہضم ہے۔ 
٭ حیاتین اور پروٹین سے بھرپور سبزی ہے۔
٭جسم کی معدنی طاقت کو پورا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ 
٭دیر ہضم ہے اس لئے امراض شکم کے مریض اس سے پر ہیز کریں۔

اجوائن

٭گرم خشک مزاج کی حامل ہے۔
٭جراثیم کش ہے اور تشنج ختم کرتی ہے۔ 
٭کسی بھی مقام پر درد ہو اس کا تیل استعمال کرنے سے درد ختم ہو جاتا ہے۔
٭ اجوائن کو میٹھے تیل میں ڈال کر کان میں ڈالنے سے کان کا درد ٹھیک ہو جاتا ہے۔
٭ اعضاء کا درد ہچکی نفخ، شکم میں بے حد مفید ہے۔ 
٭ گندے زخموں اور ناک کے کیڑوں کو ختم کر دیتی ہے۔

پیاز

٭ پیشاب آور اور حیض آور ہے۔ 
٭پیاز کا اچار قے دست ہیضہ اور امراض معدہ کو دور کرتا ہے
٭ پیاز کی گانٹھ ہاتھ میں ہو تو لو نہیں لگتی
٭بچھو بھڑ کاٹ لے تو پیاز کا رس درد ختم کر دیتا ہے۔
٭پیاز کاٹ کر نمک لگا کر ہچکی کے مریض کو کھلائیں تو ہچکی بند ہو جائے گی۔ 
٭وبائی امراض سسے بچنا ہو تو پیاز کو جیب میں رکھیں ۔ 

لہسن

٭معدے کی رطوبت ختم کرتا ہے۔ 
٭بچھو یا سانپ کاٹ لیں تو لہسن کھانے سے درد ختم ہو جاتا ہے۔ 
٭روزانہ صبح لہسن کے ایک دو جوئے کھانے سے زکام نہیں ہوتا۔ 

کچنار

٭ بواسیر کا خاتمہ کرتی ہے۔ 
٭مسلسل استعمال سے کسھ مالا پھوڑے پھسیوں اور برص سے نجات مل جاتی ہے۔ 
٭سرد خشک تاثیر کی حامل ہے اور معدے کا طاقت دیتی ہے۔ 

چقندر

٭ گرم تر تاثیر کی حامل ہے۔ عورتوں کے دودھ میں اضافہ کرتی ہے۔ 
٭جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ 
٭جگر کو طاقت دیتی ہے۔ 

لسوڑا

٭ سرد تر خاصیت کا حامل ہے۔
٭پیشاب کی جلن اور پیشاب کا بار بار آنا ختم کرتا ہے۔ 
٭پیاس کی شدت اور گرمی کے بخار کو رفع کرتا ہے۔ 
٭قبض کشا ہے اور گلے اور سینے کا طراوت دیتا ہے۔ 

سردا

٭ سرد مزاج کا حامل ہے۔ 
٭کمزور مریضوں کے لئے پکا ہوا پھل مفید ہے کچا نقصان دہ ہے۔ 
٭خون کو صاف کرتا ہے اور صالھ خون بناتا ہے۔ 
٭قوت باہ پیدا کرتا ہے۔ 

انار

٭میٹھا انار سرد تر اور کھٹا انار سرد خشک تاثیر کا حامل ہے گرمی دور کرتا ہے۔ 
٭کمزوری معدہ جگر دست اور قے میں ے حد مفید ہے۔ 
٭پیشاب آور ہے اور بھوک پیدا کرتا ہے۔ 
٭قابض ہے۔ خون صاف کرتا ہے، دیر ہاضم ہے۔ یرقان کے مریضوں کے لئے مفید ہے اور زیابیطس ختم کرتا ہے ، ضعف معدہ ختم کرتا ہے 

انگور

٭ گرم تر مزاج کا حامل ہے۔ قبض کشا ہے اور طاقت کا حامل ہے۔ 
٭دل ہ دماغ اور پھیپھڑوں کو طاقت دیتا ہے۔ 
٭خشک انگور وزن بڑھاتا ہے 
٭اگر بچوں کو بے ہوشی کے دورے پڑتے ہوں تو انگور کا رس دن میں چار بار پلائیں شفا ہو گی۔ 

امرود

٭مقوی مفرح اور دیر ہاضم ہے۔ دل و دماغ کو طاقت پہنچاتا ہے اور خوراک ہضم کرتا ہے۔ 
٭دل کی دھڑکن تیز ہو تو اس کو کھانے سے اعتدال میں آ جاتی ہے۔ 
٭خونی بواسیر کے مریضوں کے لئے آب حیات ہے۔ تبخیر معدہ ختم کرتا ہے اور پیٹ کے کیڑے مارتا ہے

انناس

٭سرد تر مزاج کاحامل ہے طراوت بخش اور گھبراہٹ ختم کرتا ہے۔ 
٭دل و دماغ کو طاقت دیتا ہے اور پیاس کی شدت کو کم کرتا ہے۔ 
٭ضعف قلب اور ضعب باہ کی شکایت کو دور کرتا ہے۔ بلڈ پریشر میں مفید ہے اور بخار کو تسکین دیتا ہے۔

sabziyon ke fawaid in urdu pdf, phalon ke fawaid in urdu pdf, fruit k faiday in urdu, vegetables benefits in urdu, phalon aur sabziyon se ilaj pdf, phalon ke naam in urdu, phalon ke fayde, phalon se ilaj urdu book pdf free download, phalon aur sabziyon ke fawaid aur unse ilaj


کسی مروجہ اصول، دلیل یا روایت کو رد کرنا ہو تو محض یہ کہنا کافی نہیں ہوتا کہ آپ فلاں آفاقی یا سائنسی اصول یا فلاں معاشرتی رسم کو جھٹلاتے ہیں۔ اس کیلئے آپ سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ جس اصول یا تھیوری کو آپ رد کررہے ہیں، اس کے جواب میں پیرالل تھیوری یا متوازی اصول بھی بیان کریں تاکہ آپ کی دلیل پر غور ہوسکے۔

اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کو نہیں مانتا، اور وجہ پوچھنے پر یہ کہوں کہ میری مرضی، میں نہیں مانتا، یا پھر میں ایک متشکک شخص ہوں اس لئے اس اصول کو نہیں مان سکتا، تو پھر اس کےدو طرح کے ردعمل آسکتے ہیں۔ یا تو لوگ مجھے اگنور کردیں گے، یا پھر پاگل سمجھ کر مذاق اڑانا شروع کردیں گے۔ ایک بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جو میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ کہہ دے کہ واقعی یار، نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت پر تو مجھے بھی ہمیشہ شک رہا ہے، چنانچہ میں بھی اسے رد کرتا ہوں۔

جب دنیاوی اصول اور انسانی قواعد کو جھٹلانے کیلئے آپ کو متبادل تھیوری پیش کرنا لازم ہوتی ہے تو پھر آفاقی اصول کو آپ بغیر کسی متبادل نظریہ کے کیسے رد کرسکتے ہیں؟ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کا کوئی وجود نہیں (معاذ اللہ)، یا آپ کو اللہ کی وحدانیت پر شک ہے، تو پھر اس کا کوئی متبادل نظریہ تو پیش کریں۔

انسان کا بنایا ہوا سب سے سوفسٹیکٹڈ نظام اٹھا کر دیکھ لیں، بغیر مینٹیننس کے چند سال بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ ہر چیز کی زندگی فانی ہے، ہر نئی ایجاد کچھ عرصے بعد اپنے نقائص ظاہر کرنا شروع کردیتی ہے، چاہے وہ گاڑی ہو، جہاز ہو، یا سپرکمپیوٹر۔ غلطیوں سے پاک نظام انسان سے نہ تو آج تک تخلیق ہوسکا اور نہ ہی کبھی ہوپائے گا۔
تو پھر وہ کون ہے جو لاکھوں برس سے سورج کو ہر روز صبح طلوع کرتا ہے اور وقت مقررہ پر غروب کردیتا ہے؟ آج تک اس نظام میں کبھی کوئی تعطل کیوں نہ آسکا؟ اس نظام کو مینٹین کون کرتا ہے؟ آج تک کبھی یہ نظام کسی وجہ سے شٹ ڈاؤن کیوں نہ ہوسکا؟
انسان کی سب سے بڑی مادی ضرورت پانی ہے۔نیا گھر بنائیں تو اوپر چھت پر پانی کا ٹینک لگانا پڑتا ہے، پھر اس ٹینک کی اگر صفائی نہ کی جاسکے تو پانی گندہ ہوجاتا ہے، پائپیں خراب ہوجائیں تو پانی کی ترسیل میں فرق آجاتا ہے ۔ ۔ ۔ کیونکہ یہ انسانی سسٹم ہے۔

لیکن اربوں انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بادلوں کی شکل میں جو اوور ہیڈ واٹر ٹینک موجود ہیں، جن میں کروڑوں، اربوں ٹن پانی سما جاتا ہے، وہ بادل ایک جگہ سے دوسری جگہ ہواؤں کے دوش پر چلتے ہیں اور پھر بارش برسا کر پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ یہ نظام کس نے بنایا ہے؟ کون اسے چلا رہا ہے؟ کون اسے مینٹین رکھتا ہے؟
آج سے ڈیڑھ لاکھ سال قبل اگر انسانی زندگی کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت زمین پر چند لوگ ہی تھے لیکن آج یہ تعداد سات ارب سے تجاوز کرچکی۔ دنیا کا کوئی انسانی نظام دکھا دیں جو اتنی بڑی گروتھ کو بآسانی مینیج کرسکا ہو؟ آکسیجن، نباتات، خوراک، پانی، سب کچھ تو چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور یونہی چلتا رہے گا، جب تک کہ اللہ کی مرضی رہے گی۔

آپ اللہ کے وجود کے انکاری بننا چاہتے ہیں تو شوق سے بنیں، لیکن کوئی متبادل تھیوری تو پیش کریں تاکہ آپ کی بات پر کوئی غور ہوسکے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آفاقی نظام خود بخود چل رہے ہیں تو پھر خودبخود چلنے کا یہ اصول دنیاوی زندگی میں کیوں نہیں رائج ہوجاتا؟ 
حقیقت یہ ہے کہ اگر صرف سورج کے طلوع و غروب کا نظام چند دن کیلئے بند ہوجائے تو ساری سائنسی ایجادات اور انسانی ترقی دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گی۔

غالباً ۹۰ کی دہائی میں نیویارک میں ایک مرتبہ بجلی میں تعطل آیا، امریکیوں کی ساری تہذیب، سارا اخلاق تیل لینے چلا گیا اور ہر کوئی لوٹ مار کرنا شروع ہوگیا۔ چند برس قبل لندن میں نسلی ہنگامے پھوٹ پڑے تو لوگوں نے وہ لوٹ مار مچائی کہ لندن مئیر کو کہنا پڑگیا کہ جدید تہذہب کے تمام دعوے لندن نے غلط ثابت کردیئے۔

انسانی نظام تو اتنا کمزور اور فریجائل ہے کہ اگر اس کے پیرامیٹرز میں معمولی سا بھی تعطل آجائے تو وہ زمین بوس ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر دنیاوی پیرامیٹرز سارے کے سارے تبدیل بھی کردیئے جائیں تو پھر بھی آفاقی نظام کو معمولی سا بھی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ اس نظام کے پیچھے اللہ ہے۔

اللہ کے عظیم وجود کی سب سے بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ ان لوگوں کو بھی آکسیجن، خوراک اور تمام مادی وسائل دیتا ہے جو اللہ کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔جبکہ یہ سہولت دنیا کے کسی بھی نظام میں دستیاب نہیں۔ آپ اپنے باس کے وجود پر سوال اٹھائیں، اگلے لمحے میں آپ نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ آپ اپنے ملک کے آئین پر سوال کریں، آپ ملک کی شہریت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

یہ سہولت صرف اللہ ہی دیتا ہے کہ آپ چاہے اس کی وحدانیت کا انکار کریں یا اس کے وجود کے یکسر منکر ہوجائیں، وہ اتنا بلند و برتر ہے کہ اس کی شان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ اپنی شان بے نیازی سے آپ کو شاید پہلے سے بھی زیادہ دینا شروع کردے کہ سب کچھ اسی دنیا میں لے لو، تاکہ آخرت میں تمہارا کوئی حصہ نہ رہے۔

اللہ تعالی ہمیں اپنی توحید پر قائم رکھے!!! بقلم خود باباکوڈا

بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو خود سے کروٹ بھی نہیں لے سکتا، اس کی ہر ایک ضرورت اس کی ماں یا باپ پوری کرتے ہیں۔ اس بچے کے ساتھ اس کے والدین کی موجودگی اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ اسے مطلوبہ شعور نہیں آجاتا، جوں جوں اس کی شعور کی سطح بلند ہونا شروع ہوجاتی ہے، والدین کی انوالومنٹ کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ خودمختار ہو کر والدین سے علیحدہ ہوجاتا ہے۔اب اگر اسے کبھی والدین کی ضرورت پڑتی بھی ہے تو وہ مشورے کی حد تک، یا پھر اخلاقی طور پر اسے احساس رہتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے رابطے میں رہے۔

انبیا کا معاملہ بھی اللہ نے ایسا ہی رکھا ہے۔

جب نوع انسانی کا آغاز ہوا تو شعور کی سطح اتنی بلند نہیں تھی، چنانچہ ہر دور میں، ہر قوم میں نبی بھیجے جاتے رہے۔ اس وقت ان کیلئے معمولی سی بات بھی شاید عجوبہ لگتی، چنانچہ ان کے سامنے بڑے بڑے معجزات بھی رکھ دیئے جاتے تاکہ انہیں سمجھنے میں آسانی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ نوح علیہ السلام اور ان کے بعد کی امتوں میں بھی ایک خاص وقت تک جب کوئی اللہ کی راہ میں قربانی کرتا تو آسمان سے بجلی کا کوندا لپکتا اور اس قربانی کے جانور کو بھسم کردیتا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ اس کی قربانی قبول ہوگئی۔ اس وقت انسانی شعور شاید اس درجے پر نہیں پہنچا تھا کہ قربانی کے گوشت کو خود سے تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ خود کیلئے، دوسرا اپنے رشتے داروں کیلئے اور تیسرا حصہ غربا میں تقسیم کردیا جاتا۔ یہ باتیں شاید ان کے پلے نہ پڑسکتی، چنانچہ ان کیلئے آسمانی بجلی کا معجزہ رکھ دیا گیا تاکہ انہیں سمجھنے میں آسانی رہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے دین کی تکمیل نبی پاک ﷺ کے دور میں مکمل ہوگئی۔ یہ ہدایت کاملہ قرآن اور سیرت کی شکل میں ہم تک پہنچ چکی، جس کے بعد ہم شعور کی اس سطح پر آگئے کہ اب ہم خودمختاری سے اپنی زندگی گزار سکتے تھے، اب انبیا کو بھیجنے کی ضرورت ختم ہوچکی تھی ، اسی لئے مزید نبی کوئی نہ آیا اور نہ ہی آئے گا۔

اس کا ایک چھوٹا سا ثبوت یہ ہے کہ جس قسم کی ترقی پچھلے چودہ سو سال میں نظر آئی، یہ ترقی بعثت نبوی ﷺ سے قبل کے ہزاروں سال میں نہ ہوسکی، اور وجہ اس کی یہی تھی کہ انسانی شعور اب مطلوبہ درجے پر پہنچ چکا تھا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ نوح علیہ السلام سے لے کر نبی اخرالزمان ﷺ تک، ہر دور میں لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکار کیا۔اللہ کے وجود کے منکر رہے، آخرت کے منکر رہے، موت کے بعد کی زندگی کے منکر رہے اور جزا و سزا کے اصول کے منکر رہے۔

نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تبلیغ کی اور اس دوران صرف پچاس کے قریب لوگ ہی ایمان لا سکے۔ 
ہمارے نبی ﷺ نے تقریباً بارہ برس مکے میں تبلیغ کی اور بمشکل ڈیڑھ سو لوگ ایمان لائے۔

لوگوں کا کیا ہے، انہیں تو انبیا بھی مطمئن نہ کرسکے، تو پھر ایک عام شخص کس کھیت کی مولی ہے؟ جن کے دل ہدایت سے خالی ہوچکے ہوں، ان پر نہ تو کوئی دلیل اثر کرتی ہے اور نہ ہی معجزہ۔

ان کے سوالات چاہے جتنے مرضی فلسفیانہ ہوں، جواب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے عقیدہ آخرت اور ایمان بالغیب۔

یہی کچھ انبیا نے بھی کہا، یہی دلیل ہمارے پاس بھی ہے۔ اس کے علاوہ نہ تو کوئی سائنٹیفک تھیوری ہے اور نہ ہی کوئی فلسلفیانہ حجت۔ آپ کا اگر دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کی ہدایت قرآن کی شکل میں ہمارے پاس آچکی تو پھر جان لیں کہ آپ کا دل ایمان کی روشنی سے منور ہے۔
لیکن اگر آپ کا دل اللہ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر مجھے کہنے دیں کہ مرنا آپ نے بھی ہے اور مرنا ہم نے بھی۔ مرنے کے بعد دیکھ لیں گے کہ کون کہاں کھڑا تھا!

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget